میں اور میری سہیلی لیسبین یا ہم
جنس رشتے میں نہیں ہیں۔ ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ لگاؤ روحانی ہے۔ اس لیے ہم دونوں
تقریباً چالیس برس سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
ہم لوگ ستر برس کے ہو چکے ہیں۔ جب ساتھ رہنے کا فیصلہ
کیا تھا تب ہماری عمر تقریباً تیس برس تھی۔
ہمارے ساتھ رہنے کے فیصلے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ
ہمیں جوانی کے ان دنوں میں جوش اور اشتعال سے زیادہ سکون کی تلاش تھی۔ مجھے بھی
اور اسے بھی۔
مختلف
پسند کے باوجود ساتھ
ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت مختلف
ہیں۔ مجھے اس عمر میں بھی شوخ رنگ پسند ہیں۔ مجھے لپسٹک لگانا اچھا لگتا ہے۔ لیکن
میری سہیلی کو پھیکے رنگ والی چیزیں پسند آتی ہیں۔ ستر
برس کی عمر ہو جانے کے باوجود میں ہیل والی سینڈل پہنتی ہوں اور وہ ہر وقت سلیپر
پہن کر گھومتی ہے۔
میں ٹی وی دیکھتی ہوں اور وہ ہر وقت اپنے موبائل کے
ساتھ مصروف رہتی ہے۔ وہ مجھ سے کہتی ہے کہ ‘یہ بڑھاپے میں تم نے کیا مرض لگا لیا
ہے۔’
یہ ہی ہماری زندگی ہے۔ تھوڑی سی نوک جھونک اور اپنے
طریقے سے جینے کی پوری آزادی۔ ہم دونوں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں لیکن ہم ایک دوسرے
کی زندگی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرتے ہیں۔
آج کل شادیوں میں شاید اتنا کھلاپن نہ ہو۔ رشتوں میں
امیدیں اکثر زیادہ ہوتی ہیں اور کچھ معاملوں میں رشتے امیدوں کے بوجھ تلے کمزور ہو
کر ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔
ایک
دوسرے کو پوری طرح نہیں جانتیں
میری شادی ٹوٹ گئی تھی۔ لیکن زندگی کا وہ باب اب ماضی
کی بات ہے۔ اس کے ورق پلٹنا مجھے پسند نہیں۔
بچے بڑے ہوتے گئے اور آہستہ آہستہ اپنی زندگی میں آگے
بڑھ گئے۔
میری سہیلی ہمیشہ اکیلے رہنے میں یقین کرتی تھی۔ آج بھی
کرتی ہے۔ ہم ساتھ ہیں بھی اور نہیں بھی۔
اتنے برس بعد آج بھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی
کوئی نئی عادت پتا چل جاتی ہے۔
یہ ہی ہمارے رشتے کی خوبصورتی ہے۔ ہم آج بھی ایک دوسرے
کو پوری طرح نہیں جانتے ہیں۔ شاید اسی لیے کشش برقرار ہے۔
لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ آپ دونوں صرف ایک دوسرے کو
دیکھتے دیکھتے بور نہیں ہو جاتیں؟ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت
کم بات کرتے ہیں۔
کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہماری ملاقات صرف کھانے کی
میز پر ہوتی ہے۔ اس کے بعد ہم لوگ دوبارہ اپنے اپنے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
’وہ ہم
دونوں کو روز ڈراتی تھی‘
ابتدائی دنوں میں جب ہمارے گھر کام والی آتی تھی تو ہم
لوگ بہت ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے۔
وہ ہم لوگوں سے روز پوچھتی تھی کہ کیا ہمارا کوئی رشتہ
دار نہیں ہے؟ کوئی اپنا جو ابھی جوان ہو اور ہمارے ساتھ رہ سکے۔
میں اس سے بحث نہیں کرنا چاہتی تھی۔اسے کیسے سمجھاتی کہ
رشتہ داروں کے معاملے میں ہم بہت خوش قسمت ہیں لیکن ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا
فیصلہ اور اس زندگی کا انتخاب ہم نے اپنی پسند سے کیا ہے۔
وہ خاتون ہمیں روز ڈراتی تھی کہ مرد کی غیر موجودگی میں
کسی دن کوئی گھر میں گھس آئے گا اور ہمیں مار کر چلا جائے گا۔ گھر میں چوری بھی ہو
سکتی ہے۔
میں اس کی باتیں سن کر ہنستی تھی۔ ایک دن میں نے اس کو
بیٹھ کر سمجھا دیا کہ ہمارے پاس ایسا کچھ نہیں ہے جس کی چوری کر کے کسی کو خوشی
ملے۔
اس کو میری بات کتنی سمجھ آئی یہ تو مجھے معلوم نہیں،
لیکن وقتاً فوقتاً وہ ہمای زندگی پر افسوس کا اظہار ضرور کر دیتی تھی۔
لوگ
کیا کہیں گے اس بات کی اہمیت نہیں
سچ یہ ہے کہ ہماری زندگی ویسی ہی ہے جیسی ہم نے سوچی
تھی۔ ہم آرام سے سو کر اٹھتے ہیں۔ زندگی میں کسی طرح کی ہٹبڑاہٹ نہیں ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دونوں نے رشتوں کی ذمہ
داریوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایسا فیصلہ لیا۔ کیا خود اپنی ذمہ داری کم ہوتی
ہے؟
اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ہمیں کسی اور سے توقع
نہیں رہتی ہے۔ ہم خود اپنی ذمہ داری باقائدگی سے ادا کرتے ہیں۔
پہلے لوگوں کو لگتا تھا کہ ہم دونوں ساتھ رہتے ہیں یعنی
کچھ گڑبڑ تو ضرور ہے۔ لیکن لوگوں کی سوچ پر غور کرنا اور اسے سدھارنا میری فطرت
نہیں ہے۔
اس میں
غلط کیا ہے؟
اس رشتے میں ہمیں ایک بات سمجھ آگئی ہے کہ آپ زندگی تو
کسی کے ساتھ بھی گزار سکتے ہیں، لیکن جی اسی کے ساتھ سکتے ہیں جو آپ کے ساتھ تو
رہے لیکن زندگی میں دخل اندازی نہ کرے۔ لوگوں کو ہماری متوازن زندگی بڑی عجیب لگتی
ہے۔
)یہ شمالی انڈیا میں رہنے والی ایک
خاتون کی زندگی کی داستان ہے۔ ان سے بی بی سی کی نامہ نگار بھومکا رائے نے بات کی۔
ان کی شناخت ان کے کہنے کے مطابق ظاہر نہیں کی گئی۔(
بشکریہ بی بی سی اردو