تعصب کے درجے اور اسباب


نصر  سلیمان

1954ءمیں معروف نفسیات دان البرٹ نے تعصب کے عملی اظہار کے پانچ درجے دریافت کئے۔ ان پانچوں درجات کو نازی جرمنی کی جانب سے یہودیوں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کے حوالے سے و اضح کیا گیا۔جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کا طرز عمل بھی اس کی وضاحت کرتا ہے۔ حالیہ دنوں میں سربوں کا مسلمانوں کے ساتھ رویہ تعصب کے انہی پانچ درجوں کی عکاسی کرتا ہے۔ ان پانچ درجوں کی تفہیم کے ذریعے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تعصب خصوصاً نسلی منافرت کسی بھی معاشرے میں کس قدر تباہ کن اثرات مرتب کرسکتا ہے۔
پہلا درجہ …. زبانی تحقیر اور سخت کلامی
دوسرا درجہ …. کسی قسم کا نقصان پہنچائے بغیر میل جول سے احتراز اور چھوت چھات کا رویہ
تیسرا درجہ …. شہری حقوق‘ روزگار‘ رہائش اور اس نوعیت کی سہولیات و آزادیوں سے محروم کر دینا
چوتھا درجہ…. افراد پرتشدد اور جائیداد کی توڑ پھوڑ
پانچواں درجہ …. پورے سماجی گروہ کے خلاف بلا امتیاز تشدد
وہ کونسی چیز ہے جو لوگوں کو متعصب بناتی ہے؟ صدیوں تک ہماری حیاتیاتی بقا کا ایک تقاضا یہ بھی رہا ہے کہ ہم اپنے خاندان‘ قبیلے اور نسلی گروہ کی حمایت کریں اور ”اجنبی“ سے خوفزدہ ہوں‘ اس کی مخالفت کریں۔ ہماری ثقافتی وراثت(والدین‘ بزرگ‘ برادری اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے منتقل ہونے والے خیالات) ہمیں سمجھاتی ہے کہ خود سے مختلف لوگوں میں فلاں فلاں منفی خصوصیات ہیں اور فلاں فلاں حوالوں سے وہ قابل نفرت یا گردن زدنی ہیں۔
ماہرین نفسیات اور سماجی سائنس دان کہتےہیں کہ تعصب نوجوان طبقہ میں بہت تیزی اور آسانی سے سرایت کرتا ہے۔ بچے اور نوجوان بہت جلد اپنے والدین اور معاشرے کے سکھائے ہوئے تعصب اختیار کر لیتے ہیں۔ جلد ہی ان کی اپنی ذات اس رویہ میں ڈھل جاتی ہے اور وہ خود براہ راست یا بالواسط طور پر تعصب کے فروغ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ہمارے حیاتیاتی نظام میں تعصب کی جڑیں موجود ہیں یا نہیں۔ تعصب صرف حیاتیاتی اعتبار سے مختلف شناختوں کے ساتھ نہیں برتا جاتا (رنگ‘ نسل‘ ذات پات) یہ جذبہ اپنے گروہ کے اندر بھی کارفرما ہو سکتاہے۔ یہ تنوع یا اختلاف رائے سے مہمیز پاتا ہے۔
میرے خیال میں تعصب کی وجوہات کو تین طرح سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک ثقافتی طریقہ ہے۔ اس کے مطابق متعصب شخص کو متعصب ثقافت کی پیداوار سمجھا جاتا ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ثقافت تعصب کا مظاہرہ کیسے کرتی ہے؟ اس کی ایک مثال وسائل کی تقسیم پر ہونے والے تنازعوں کی مدد سے سمجھائی جا سکتی ہے۔ یعنی محدود وسائل یا اختیارات پر لڑنے والے لوگ ایک دوسرے کے لئے شدید نفرت کا جذبہ محسوس کرتے ہیں۔ مایوس اورجھنجھلایا ہوا گروہ اصل مسئلہ کو چھوڑ کر گروہی تشدد کا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔ کمزورافراد اور گروہ آسانی سے نشانہ بن جاتے ہیں۔ یعنی معاشرہ اپنی معاشی اور سیاسی پیچیدگی تعصب کی شکل میں نئی نسلوں تک منتقل کرتا ہے اور ‘ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا‘ بچہ اپنے والدین‘ بزرگوں‘ برادری اور دیگر ذرائع سے مروجہ تعصبات حاصل کرتا ہے۔
دوسرا طریقہ دانستہ نفرت انگیزی کا ہوتا ہے۔ یعنی اسے ایک خاص مقصد‘ ہدف یا محرک کے تحت پروان چڑھایا جاتا ہے۔ اس کے لئے معلومات ترتیب دی جاتی ہیں‘ ان میں جھوٹ سچ شامل کیا جاتا ہے اور خاص طریقوں سے ان کی اثر پذیری میں اضافہ کیا جا تا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کے ایک بہیمانہ حد تک منفی پہلو پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ ہماری اجتماعی فطرت ہے کہ ہم‘ بحیثیت انسان‘ اپنے مقاصد کے لئے معلومات اکٹھی کرنے‘ انہیں درجوں میں تقسیم کرنے‘ انہیں جذبات کارنگ دینے‘ ان سے نئی معلومات ”تخلیق“ کرنے پر مائل رہتے ہیں۔ ہم اپنے جذبوں اور کدورتوں کو ہوا دینے والی معلومات پر آنکھ بند کر کے یقین کرلینے پر تیار رہتے ہیں اور اس سلسلے میں ہماری یادداشت کی کجیاں اور کمزوریاں بھی ہمارے کام آتی ہیں۔ لہذا تعصبات راسخ ہو جاتے ہیں اور امتیازی سلوک کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔
انسانوں کی درجہ بندی بھی یہی کام کرتی ہے۔ جب آپ لوگوں کو مختلف شناختوں او ررویوں کے حامل گروہوں میں بانٹ دیں گے اور ان کے متعلق اپنے خیالات راسخ کر لیں گے تو لازمی طور پر یہ گروہ مزید ضمنی گروہ پیدا کریں گے۔ تعصب کا دائرہ دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ قریب ترین شناخت کی بنیاد پر دوسرا اجنبی یا کم معتمد قرار پائے گا۔ مسلمان‘ ہندو‘ سکھ‘ عیسائی جیسے بڑے درجوں کے بعد شیعہ‘ سنی‘ کیتھولک‘ پروٹسٹنٹ جیسے ضمنی درجے بنتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں تعصب اور امتیازی رویہ یکساں صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایک ضمنی گروہ دوسرے ضمنی گروہ کو بحیثیت مجموعی خود سے مختلف سمجھتا ہے پھر سماجی نظام اپناکام شروع کرتا ہے۔ معلومات حاصل کی جاتی ہیں اور ان سے اپنی مرضی کے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔ متعصب شخص یا گروہ ہمیشہ انہی معلومات پر یقین کرتا ہے جواس کے تعصب کو تقویت دیتی ہوں۔ تعصب سے متصادم معلومات مکمل طور پر رد کر دی جاتی ہیں۔ اس طرح ہم وہ سازشیں‘ وہ رابطے اور وہ منصوبے دیکھتے ہیں جن کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب کوئی مخالف گروہ ایسے اقدامات کرے یا ایسا رویہ ظاہر کرے جو اس کے متعلق مفروضہ خیالات سے میل نہ کھاتا ہو تو اسے ایک عارضی یا عبوری تبدیلی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ یعنی مخالف یا مختلف گروہ اپنی فطرت میں قابل نفرت ہے اور موجودہ مثبت رویہ ایک عارضی اور عبوری تبدیلی ہے۔
اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ تعصب کے شکار افراد لاشعوری طور پر ان مفروضوں کو تسلیم کر لیتے ہیں جو ان کے متعلق پھیلائے گئے ہوتے ہیں۔ وہ ایسا طرز عمل اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں جن سے ان تعصبات کی تصدیق ہوتی ہو۔ بیشتر اوقات ظالم کے ساتھ ساتھ مظلوم کو بھی قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ لوگ اپنی تقدیر ہی نہیں بدلنا چاہتے۔ یہ اپنے مسائل اور حالات کے خود ذمہ دارہیں۔ یعنی مظلوم ہی کو ذمہ دار قراردیا جاتا ہے۔
تعصب کی تفہیم کے لئے اس نوعیت کے بہت سے پہلو زیر غور لائے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کی تفہیم صرف فکری ہی نہیں‘ عملی سطح پر بھی ممکن ہے‘ بلکہ بہت آسان ہے۔ اپنے گریبانوں میں جھانکئے۔ اپنے دلوں کو ٹٹولئے‘ ساری بات سمجھ میں آجائے گی۔ آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ بیک وقت ظالم بھی ہیں اور مظلوم بھی۔

بشکریہ ہم سب