سنو حسن اور تم؟ تم، حسینہ نہیں بھوتنی ہو۔ میری اک دوست ہے پشاور کی۔ اک دن حسن کی تعریف کر رہی تھی۔ بھوتنی تم سنو گی تو جل جاؤ گی اس لیے ضرور سن کہ تیرا دل جلانے کا ثواب لازمی ہے کہ تم نے کام ہی ایسا الٹا کیا ہے۔
بھوتنی نے پوچھا کہ اچھا بتا کیا تعریف کی تمھاری دوست نے حسن کی۔ میری دوست نے یہ کہا کہ دنیا کرتی رہے حسن کی تعریفیں کہ کیسا ہوتا کدھر ہوتا۔ ہم پشاور والے ہم کے پی والے حسن کی خود مثال ہوتے ہیں۔ بھوتنی نے کھلے دل سے حسن کی اس تعریف کو انٹرسٹنگ کہہ کر داد دی۔
تو تم پشاور رہتے ہو وسی۔ ہاں پشاور رہتا ہوں اور ایسے ہی حسینوں کو دیکھتا ان کے ساتھ پڑھتا، رہتا، پلا بڑھا ہوں، آپ کے بھائی نے یہ کہہ کر شو ماری۔
تمھیں کیسی لڑکی پسند ہے وسی؟ مجھے لمبی سی موٹی سی چٹی سی بدتمیز سی پسند ہے۔ یہ کیسی پسند ہے تمھاری اور بدتمیز ہونے میں پسند کرنے والی کیا بات ہے۔ یار مجھے قسمے نہیں پتہ کہ مجھے ایسی کیوں پسند ہے، شاید میں چاہتا کہ میری اچھی طرح طبعیت صاف کرتی رہا کرے۔ بس جو بھی ہے لیکن بس بدتمیز والی کوالٹی بھی شامل ہے پسند میں۔ ایسی ہی ڈھونڈ رہا ہوں۔
بھوتنی نے کہا اچھا سن دیوانے بس کر ڈھونڈنا مل گئی ہے تجھے لڑکی اب لے جا اسے اپنے پشور۔ میں بھی دیکھتی ہوں کیسے لے جاتا۔ یہ سن کر لگا وسی وہ تازہ خان ہے جس کے اپنے ہاتھ کی محنت سے بنائی پکی سگریٹ جب سرور دینے لگی ہے تو اس پر کسی نے ٹھنڈا پانی ڈال دیا ہے۔
بری ہوئی تھی۔ اب سنیں قصہ کیا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ وسی بابے نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ دل کی ماننی ہے۔ جو چاہیں گے وہ حاصل کریں گے۔
بری ہوئی تھی۔ اب سنیں قصہ کیا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ وسی بابے نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ دل کی ماننی ہے۔ جو چاہیں گے وہ حاصل کریں گے۔
المختصر کافی خجل خوار ہونے کے بعد کئی کہانیوں میں رہ کر بہہ کر باہر آئے تھے۔ پک کر گوگل خان سے مدد لی تھی۔ اک سائٹ پر ڈالر خرچ کر ممبر بنے۔ پاکستانی پروفائل چیک کر کے پانچ سات دوستیاں مزید کر لی تھیں۔ بات پھر بھی نہیں بنی تھی۔ اک پروفائل دیکھا جس پر تصویر نہیں تھی۔ اس کو بار بار دیکھتے پڑھتے رہے۔ ریکویسٹ بھیجی قبول ہو گئی۔
اس پروفائل کے اندر سے جو برآمد ہوا۔ اس کو دیکھ کر اس سے مل کر دل سے ٹوں ٹوں نکلی تھی اس سائٹ بارے۔ لڑکی کیا ایسی بھی ہوتی ہے ایسی لڑاکو ایسی پھڈے باز ایسی بولڈ۔ بس نہ پوچھیں کہ کیسی کیسی۔ سڑ کر اس کا نام بھوتنی رکھ دیا تھا جو اس نے شکریے کے ساتھ قبول کر لیا تھا۔
بھوتنی نے وضاحت کی دیکھ بھائی میں نے پنج ست پروفائل بنا رکھے ہیں۔ یہ چیک کر رہی ہوں کہ کس کو کتنے لوگ لائک کرتے ہیں۔ یہ سب یا تو میری کولیگ ہیں یا ہم جماعت۔ تم نے بالکل ٹھیک جگہ ریکویسٹ بھیجی ہے۔ پر تم جیسے لوفر لفنگے بیروزگار بھوکے اور نکمے انسان کا وہاں کوئی سین نہیں۔ بھاگ جا۔ میری اتنی تعریف کر کے اس نے بھوتنی نام رکھنے پر مجھ سے اپنا بدلا لیا تھا۔
دل کہتا تھا جو پروفائل پسند کیا ہے۔ یہی ہے وہ جسے ڈھونڈتے پھر رہے۔ یہ دل بھی ناں بغیر تصویر دیکھے ہی مست ہو رہا تھا۔ ایسی کوئی سچ میں موجود بھی ہے تو کہاں ہے؟ کون ہے؟ نہیں پتہ تھا۔ بھوتنی نے بتایا کہ وہ اس کی سکول میں کلاس فیلو رہی ہے۔ وہ ویسی ہے جیسی کے لیے تم نے خواب دیکھے ہیں۔ خدا نے اسے تمھارے لیے بنایا ہے۔ لیکن تمھاری اس کی بات نہیں بننی۔
ابے یار بھوتنی اگر خدا نے اسے میرے لیے بتایا ہے تو مجھے بس اس کا پتہ بتا۔ باقی کام پھر بھائی کا اپنا ہے نہیں تو خدا تو مدد کرے گا ہی اپنی بہت فرینڈ شپ ہے گاڈ کے ساتھ قسم سے۔
ہم دونوں کی اسی پروفائل کے بارے باتیں کرتے لڑتے جھگڑتے دوستی ہو گئی۔ یہ ڈیڑھ سال چلی۔ پر اس ظالم نے مجھے پروفائل والی کا پتہ نہ بتایا۔ ہم دو چار بار ملے بھی۔ وہ مجھ سے پوچھتی کہ تمھیں میں بھوت ہی لگتی ہوں۔ اسے کہتا ہاں بالکل یہی لگتی ہو۔ وہ پوچھتی کیا میں خوبصورت نہیں۔ اسے کہتا خدا نے کسی کو بدصورت نہیں بنایا۔ سب اپنے دور میں سوہنے ہوتے۔ ہر کسی کو پسند کرنے والے ہوتے۔ تم پیاری ہو بہت۔
اچھا وسی سن تیرے لیے آپشن ہے اگر تم مجھے بھوتنی کہنا چھوڑ دو تو میں تمھیں پتہ بتا دوں گی۔ بولو چھوڑ دو گے، آپ کو تو پتہ ہے دل بچہ تو ہے ہی ساتھ فل کمینہ بھی ہے اور جھوٹا بھی۔ جھٹ بولا کہ تمھیں پری سمجھوں گا بتا دے پتہ۔ اس نے پوچھا پکا دل سے؟ منہ کھولا تھا کہنا کچھ تھا کہا یہ کہ یار دل سے تو بھوتنی ہی کہوں گا ہمیشہ۔ اچھا جا فر کم کر اپنا۔
مایوسی سی ہو گئی تھی۔ پھر اک دن اسی بھوتنی کا فون آیا۔ اک چھوٹے سے مسئلے میں پھنس گئی تھی۔ دو باتوں سےمسئلہ حل ہو گیا۔ اس نے تھینکس بولا۔ فون بند کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد ٹیکسٹ میسج میں اک فون نمبر تھا۔ اک سکول کا پتہ تھا جہاں ڈارلنگ پڑھاتی تھی۔ سکول چھاؤنی کے اندر تھا۔
آگے پھر تاریخ ہے۔ وہ ویلنٹائن کا دن بھی نہیں تھا۔ دسمبر کا مہینہ تھا۔ کیسے ڈھونڈا کیسے دیکھا۔ کیسے بلکہ کتنا بزت ہونا پڑا نہیں بتاتا۔ دسمبر سے جون تک کتنے مہینے ہوتے گنتے رہیں۔ اس کہانی میں دو چار چھوٹے چھوٹے ٹویسٹ ہیں۔
پہلا تو اللہ بھلا کرے بھوتنی کا۔ وسی بابے کو پڑھاتی رہی کہ خدا نے اسے تمھارے لیے سپیشل آڈر پر بنایا ہے۔ ڈارلنگ کو وسی بابے کی تعریف یوں بیان کی دیکھو مر جانا خودکشی کر لینا وسی سے شادی نہ کرنا اس جیسا لفنگا کوئی نہیں ہے۔ یہ شادی نہیں ہو سکتی والے کیسے کیسے سین ہوئے۔ کیسے چار دن میں شادی ہوئی۔ کیسے مشر لڑھکتا ہوا اسلام آباد پہنچا۔ کیسے ہمارے تایا جی برات والے دن گم گئے۔ کیسے ہم ولیمہ ہی کرنا بھول گئے پھر کیسے ایک دن میں کیا۔
بچپن کا وہ دوست وہ کزن جسے فون کر کے کہا پیسے بھیج دے سارے۔ اس نے کہا لیکن میں نے ویاہ بھی تو دیکھنا تو اسے کہا او کنجرا توں کدی ویاہ نہیں دیکھیا خبردار اگر اپنا کرایہ بھی اپنے پاس رکھا تو۔
برات والے دن بھوتنی کا فون آیا وسی بھاگ جا مت پھنس یہ تمھیں بہت مارے گی۔
برات والے دن بھوتنی کا فون آیا وسی بھاگ جا مت پھنس یہ تمھیں بہت مارے گی۔
محبت کہنے نہیں نبھانے والا کام ہے۔ یہ ناکامیوں کو کامیابی میں بدلنے کا نام ہے۔ یہ دوسروں کی خوشی میں خوش رہنا سکھاتی ہے۔ یہ سب کو اپنا بنا بس کرتی ہے۔ یہ سب کا بھلا چاہتی ہے۔ یہ کسی ایک دن سے منسوب نہیں ہے۔ یہ ایک طرز زندگی ہے۔
آپ محبت میں ناکام ہیں تو آپ نے محبت پھر کی ہی نہیں۔
آپ محبت میں ناکام ہیں تو آپ نے محبت پھر کی ہی نہیں۔
بات سیریس ہو گئی۔ یارو اک مسئلہ ہے حل تو بتاؤ۔ کمبخت کسی حسب ذائقہ کو ٹی وی پر اب بھی غور سے دیکھ لیں تو پوچھنے والے پوچھ لیتے ہیں کہ سرکار سب خیر تو ہے ناں کیا ارادے ہیں؟ بھائی کی شو شا چیک کریں اگلے سوچتے ہیں کہ بس نیت باندھنے کی دیر ہے۔ مشن پورا کر کے ہی آئے گا بھلے راستے میں سمندر دریا پہاڑ آتے ہوں۔
ہم جنہیں روز محبت ہو جاتی ہے وہ کیا کریں۔ اب امی لوگ والا حل نہ بتا دینا کہ تمھیں ٹکور کی ضرورت ہے روز پسند بدل جاتی ہے تمھاری۔ پسند کدھر بدلتی ہے یار وہی ہے ازل سے جو تھی یعنی وہی لمبی سی بدتمیز سی
بشکریہ ہم سب