عشق کے مد و جزر: کس کو خبر ہے میر سمندر کے پار کی

عنبرین یاسین خان
علامہ اقبال سے کسی ادیب نے پوچھا، یہ آپ نے کیا شعر کہا، کہ ’’تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں‘‘، عشق کی تو کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ انھوں نے بہت خوب جواب دیا، دوسرا مصرع بھی تو دیکھیں، کہ ’’میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں‘‘۔ اتنا بڑا فلسفی اگر اس بات کا اعتراف کرتا ہے، کہ عشق کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، تو ہم بھی اس بات کے قائل ہوئے۔ ایک بات ضرور ہے کہ دنیا کے شاید ہی کسی ایک رشتے میں اتنے مد و جذر ہوں، جتنے یہ عشق صاحب ہمیں دکھاتے ہیں۔
عشق ایک ایسا جذبہ ہے، جو سمندر کی طرح جوں جوں گہرا ہوتا ہے، اتنا ہی پے چیدہ ہوتا اور سلجھنے کی بجائے الجھتا ہے۔ جس دن عشق کی گتھی سلجھ جائے اس کی کشش کم ہو جائے گی۔ عشق کے درجات اور کشف کے مراحل میں کوئی خاص فرق نہیں اور دونوں میں مقصود تو محبوب کی رضا ہوتی ہے، مگر ہر اگلا مرحلہ پہلے سے مشکل ہوتا ہے۔ انسان اگر اپنے جیسے کسی انسان سے محبت کر بیٹھے، تو اس کے ساتھ خدائی صفت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، بے نیازی کا رویہ برتتا ہے۔ اگر خدا کو اپنا محبوب بنائے، تو وہ اسے ’’انا الحق‘‘ کا دعویٰ کرنے کی جرات و اجازت دے دیتا ہے۔
جناب عشق کے، چاہے وہ انسان سے ہو یا خدا سے بڑے عجیب مراحل ہیں۔ کبھی یہ آپ کو آسمان کی بلندیوں پر لے جاتا ہے اور کبھی پاتال کی سیر کروا دیتا ہے۔ کبھی محبوب اپنے نیاز و انداز سے آپ پر نچھاور ہوتا ہے تو کبھی بے اعتنائی کا دور چل پڑتا ہے۔
اگر انسان سے عشق ہو، تو شروع لاحاصل کی کشش سے ہوتا ہے اور جب حاصل ہوتا ہے تو ہرروز نئے امتحان کا سامنا۔ اب مزاج میں فرق، معاشرتی اقدار، معاشی مجبوریاں اور ثقافتی روایات آپ کے صبر کا امتحان لیتی ہیں۔ اس مد و جذر میں عشق گم نہیں ہوتا، مگر مدھم ہوتے ہوئے شعلے جیسا کبھی بجھنے لگتا ہے، تو کبھی پوری لو سے جل اٹھتا ہے۔
اصل اہمیت عشق کی حرارت کی موجودگی ہے، نا کہ اس کے کم یا زیادہ ہونے کی۔ پس آپ اپنے اور کسی بھی انسان سے عشق کے دوران مد و جذر سے پریشان نہ ہوں، کیوں کہ یہی عشق کی سچائی اور خوبی ہے۔ گذارش یہ ہے کہ مد ہو یا جذر، لو کو بجھنے نہ دیں، کیوں کہ یہی صورتِ احوال انسان اور خدا کے عشق کی ہے۔
جب اللہ آپ کو اپنے قریب کرنا چاہتا ہے تو وہ آپ پر مختلف قسم کی آزمایشیں نازل فرماتا ہے۔ وہ آپ کو معاشی تنگ دستی، انسانوں کی بے اعتنائی، وسائل کی کمی، دھوکا اور صحت کے مسائل میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگر آپ ایک آزمایش کے بعد اس کے قریب نہ ہوں، تو وہ بار بار آپ پر آزمایشیں نازل کرتا ہے۔ حتیٰ کہ آپ جانے ان جانے میں کشف کے مراحل طے کر رہے ہوتے ہیں اور اس کے یہاں قبولیت کے اپنے مراحل ہیں۔
رہیاں سوہنیاں کرن سنگھار رہیاں
عیباں والیاں دے ہتھ لا لڑیاں
وہ جب قریب کرنا چاہتا ہے تو پھر آپ کے عیب بھلانا اور چھپانا، اس کے لیے ذرا مشکل نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ سمجھ جائیں کہ وہ آپ کو بلا رہا ہے۔ بعض انسانی رشتوں میں اظہار ملاپ میں حائل ہوتا ہے اور اظہار کے بعد پتا چلتا ہے کہ سامنے والا بھی اتنا ہی بے قرار تھا۔ اسی طرح اللہ کی طرف جانے میں دیر نہ کریں، وہ بھی اپنے بندوں کا انتظار کرتا ہے اور توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
یاد رہے کہ مشکلات اور آزمایشیں حاصل پر ختم نہیں ہوتیں، شروع ہوتی ہیں؛ کیوں کہ جب ہم چن لیے جاتے ہیں، تو ہمارے رویوں سے ظاہر ہونا چاہیے، کہ اب ہم ’’چنے ہوئے خاص‘‘ لوگوں میں سے ہیں۔ ویسے بھی عشق عقل کا کام نہیں، دل کا کام ہے۔ جو دل والے ہی کر سکتے ہیں۔ اس میں مد و جذر اور نفع و نقصان کا حساب لگانے والے ہمیشہ نا کام ہوتے اور نا کام کرتے ہیں۔ عشق کے سمندر میں اترتے وقت ہی معلوم ہونا چاہیے، کہ یہ عامیوں کا کام نہیں۔ عشق آپ کا عقیدہ بن جائے، تو وہ آپ کے رویوں سے جھلکتا ہے۔ بس شرط اتنی ہے، کہ اس کے مد و جذر کے دوران آپ اپنی ناؤ پر قابو رکھیں۔