بچوں کی فلاح کے لیے ایک کروڑ دس لاکھ ڈالر عطیہ

AILON
کوئی نہیں جانتا تھا کہ ایلن نائمن کو اندازہ ہے کہ وہ کسی کو مستقبل کی خوشی فراہم کرنے کا باعث بنیں گے۔
ایلن جو کہ ایک کفایت شعار سوشل ورکر تھے اپنے کپڑے کوسٹکو سٹور سے خریدتے تھے اورچھٹیاں گزارنے کے لیے ’بائے روڈ‘ سفر کیا کرتے تھے۔
لیکن جب انھوں نے 11 ملین ڈالر مقامی سطح پر چلنے والے رفاہی کاموں کے لیے چھوڑے تو ان کے دوستوں کو ان کی فیاضی پر کوئی حیرت نہیں تھی۔
نائمن جنوی 2018 کو 63 برس کی عمر میں سیاٹل، واشنگٹن میں کینسر کے مرض کے باعث چل بسے تھے۔
ان کی دوست میری موناہن جو واشنگٹن میں بچوں کے ایک رفاہی ادارے سے منسلک ہیں کا کہنا ہے کہ ’ میرا خیال ہے ہر کوئی حیران تھا۔ میرا مطلب ہے شدید شاک میں کہ اس کے پاس بہت دولت تھی دینے کو۔
جب انھیں کینسر کی تشخیص ہوئی تو اس کے بعد جلد ہی انھوں نے میری سے کہا کہ وہ اپنا سب کچھ عطیہ کر دیں گے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس وقت نائمن نے کہا کہ سب حیران ہو جائیں گے۔
بی بی سی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا ہاں لوگ حیران تھے مجھے یقین ہے ان کے لیے یہ سرپرائز تھا۔
نائمن نے 30 برس قبل اپنی منافع بخش بینک کی نوکری چھوڑ کر بچوں کی فلاح کے کام کا آغاز کیا تھا۔
مِس موناہن کہتی ہیں کہ رفاہی کاموں میں انھیں بہت سے معذور بچوں کے لیے کام کرنے کا تجربہ ہوا جس نے انھیں یہ سکھایا کہ دوسروں کو اپنے سے پہلے رکھنا چاہیے۔
میرا خیال ہے وہ سوچ چکے تھے کہ انھیں کیا ضرورت ہے، اور بہت سے لوگوں کے پاس وہ نہیں جس کی انھیں ضرورت تھی۔
وہ کہتی ہیں جو بچہ وہاں مدد کے لیے آتا تھا وہ ایلن کے دل میں ہوتا تھا۔
انھیں کچھ دولت اپنے والدین سے ترکے میں ملی تھی لیکن انھوں نے بہت سی رقم ساری زندگی بچت کر کے بھی جوڑی تھی۔
موناہن کہتی ہیں کہ دو یا تین نوکریاں کرتے تھے اور قرض سے نفرت کرتے تھے۔
اس وقت چھ مقامی ادارے ان سے مدد لے رہے تھے جن میں چلڈرن ہیون، ٹری ہاؤس اور ویسٹ سائڈ بے بی شامل ہیں۔
ٹری ہاؤسں کی چیف ڈویلپمنٹ آفیسر جیسیکا روس کہتی ہیں کہ جب پہلی بار انھیں نائمن کے بارے میں ان کی موت کے چند ماہ پہلے ہی پتہ چلا تھا کہ انھوں نے بچوں کی پرورش کے لیے ادارے کو پچاس ہزار ڈالر عطیہ کیے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اوسط امداد سو ڈالر سے زیادہ ہوتی تھیں لیکن جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ نائمن نے ٹری ہاؤس کے لیے نوے ہزار ڈالر کی رقم اپنی وصیت میں لکھی ہے تو وہ اصل معنوں میں ان سب کے لیے بہت ہی حیران کن تھا۔
انھوں نے کہا کہ ادارہ اور اس سے منسلک رضاکار اس پر حیران تھے کہ ایلن نے کتنی کفایت شعاری سے زندگی گزاری تاکہ وہ اپنی دولت دوسروں کو دے سکیں۔