اطلاعات ہیں کہ وفاقی حکومت سوشل میڈیا صارفین کے حوالے سے کڑی قانون سازی کرنے جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر مزید گفتگو سے پہلے ایک شاہکار انگریزی فلم کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ کیچ میں اِف یو کین (Catch Me If You can) ۔ سسپنس سے بھرپور یہ فلم فرینک ابگنیل کی زندگی پر بنی ہے۔ فرینک ایک مشہورِ زمانہ بینک فراڈیا تھا، جو جعلی چیکوں کے ذریعے کروڑوں ڈالر چوری کرتا ہے۔ اس حقیقی کردار کو اس فلم میں لیونارڈو ڈی کیپریو نے بڑی خوبصورتی سے نبھایا ہے۔
فرینک جب بالآخر گرفتار ہو جاتا ہے تو ایف بی آئی اسے بینک فراڈز کی تحقیقات میں مدد کے لئے نوکری دے دیتی ہے کہ بینکنگ کی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈیے سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ہو گا کہ جعلی چیک کیسے بنائے جا سکتے ہیں۔ تو کچھ ایسا ہی معاملہ پی ٹی آئی حکومت کا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ناقدین عمران خان کو فیس بک کا وزیراعظم کہا کرتے تھے۔ 2008 میں باراک اوبامہ کی انتخابی مہم میں سوشل میڈیا کی بھرپور کامیابی کے بعد جہاں مختلف ممالک میں اسے کاپی کیا گیا, وہیں کپتان نے اس سے بھرپور استفادہ کیا۔ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا مہم کے ناقد اس کے مخالفین ہی نہیں, بہی خواہ بھی رہے ہیں۔ تو صاحب اچھا یا برا، پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کو بڑی کامیابی سے اپنے حق میں استعمال کیا۔
آپ کو معلوم ہو گا کہ جس طرح کسی رئیلٹی شو میں جج صاحبان پرفارمرز کی کارکردگی جانچتے ہیں، اسی طرح ہمارے سیاسی کھیل میں بھی کارکردگی جانچنے والے ججز موجود ہوتے ہیں۔ بسا اوقات کسی ایڈونچر سے پہلے آپ کو مخصوص ہدف دیے جاتے ہیں۔ گئے وقتوں میں سٹریٹ پاورکا مظاہرہ کر کے اربابِ حقیقی اختیار کی توجہ حاصل کی جاتی تھی۔ آج کل یہ کام سوشل میڈیا سے لیا جاتا ہے۔ کسی لیڈر کے کتنے فالوؤرز ہیں، کتنا بڑا سوشل میڈیا سیل ہے، پروپیگنڈہ کرنے کی صلاحیت کتنی ہے وغیرہ وغیرہ۔
پی ٹی آئی کی دیکھا دیکھی دیگر جماعتوں نے بھی اپنے سوشل میڈیا سیل بنائے۔ خوش قسمتی یا بد قسمتی سے ناچیز کو ان میں سے بیشتر کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ حرفِ آخر تو نہیں، لیکن کافی حد تک علم ہو گیا کہ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل کس طرح کام کرتے ہیں۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور حتیٰ کہ جماعت اسلامی نے بھی اپنے سوشل میڈیا سیل بنائے لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی! اس پوری تمہید کالبِ لباب یہ کہ پی ٹی آئی سے زیادہ کسے اندازہ ہو گا کہ سوشل میڈیا کو کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے، اور کیا کیا فائدے لئے جا سکتے ہیں۔ اب جب کہ آپ حکومت میں آ چکے ہیں تو ایسی دکان کو تو بند ہو جانا چاہیے جہاں حکومت گرانے کا چُورن بکتا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ سوشل میڈیا ہے کس بلا کا نام۔ اگلے وقتوں میں جب کام کم اور وقت زیادہ ہوتا تھا، تو احباب گھر میں بھی اکٹھے ہوتے تھے، محلے میں کئی ایسے مقامات ہوتے تھے جہاں مرد حضرات اکٹھے بیٹھتے تھے، خواتین اپنا علیحدہ اکٹھ کرتی تھیں جہاں باتوں کے ساتھ ساتھ کوئی سبزی کاٹ رہی ہے، کوئی سویٹر بن رہی ہے یا صرف غیبت۔ بہرطور اظہارِ خیال کے لئے سب کے پاس کسی نہ کسی شکل میں ایک پلیٹ فارم تھا۔
مصروفیت بڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں میں جگہ بنانی شروع کر دی۔ سمارٹ فونز کے آنے سے سوشل میڈیا میں حقیقی انقلاب برپا ہوا۔ اب آپ کے پاس محلے کے تھڑے پر بیٹھنے کا وقت نہیں، کوئی بات نہیں۔ اپنی بات لکھ دیجئے، لطیفہ شئیر کر دیجئے، غیبت کر لیجئیے، یا کسی سے من کی بات کر لیجیے، جب جس کے پاس وقت ہو گا وہ اپنا تبصرہ کر دے گا، اور ضروری سمجھے گا تو آگے اپنے دوستوں تک بھی پہنچا دے گا۔ اسے آپ ایک طرح کی ڈیجیٹل چوپال سمجھ لیجیے۔
اب میرا ایک نقطہ نظر ہے، کوئی رائے ہے تو مجھے پورا حق ہے اپنی بات کہنے کا۔ اگلے وقتوں میں میں اپنے دوستوں، محلے داروں سے اپنی بات کہہ سکتا تھا تو اب آپ کی اس ڈیجیٹل چوپال نے مجھے یہ موقع دیا ہے کہ میرے دوست دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو کر میری باتوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ مجھے اور آپ کو یہ بتا دیا جائے کہ کیا بات کہی جا سکتی ہے، اور کیا نہیں۔ ایک قول جو عام طور پر فرانسیسی فلسفی والتئیر سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ آپ پر کون حکومت کرتا ہے تو یہ دیکھیں کہ آپ کو کس پر تنقید کی اجازت نہیں۔ ریکارڈ کی درستی کے لئے عرض ہے کہ یہ بات والتئیر نے کبھی نہیں کی۔ یہ قول حقیقتاً ایک امریکی صحافی کیون سٹرام کا ہے۔ خیر، جب آپ مجھے بتائیں گے کہ مجھے نظریہ پاکستان پر بات نہیں کرنی، افواج کے بارے میں بات نہیں کرنی، حکومت پر تنقید نہیں کرنی، تو بھائی یہ میرے بنیادی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے۔ میں اگر محلے کی بیٹھک یا چوپال میں بیٹھ کر ایک بات کہہ سکتا ہوں تو اس ڈیجیٹل چوپال میں کیوں نہیں؟
محلے میں اگر دس بیس لوگ میری بات سنتے ہیں، تو سوشل میڈیا پر سینکڑوں ہزاروں۔ اور ظاہر ہے کہ اگر میری بات میں وزن ہو گا، کوئی دلیل ہو گی تبھی کوئی میری بات سے متفق ہو سکے گا۔ آج کل سوشل میڈیا پر ہر دوسرا شخص تجزیہ نگار ہے، میں بے تُکی باتوں سے کب تک اپنا چُورن بیچوں گا؟ تو مجھے میری بات کرنے دیجئے۔ نظریہ پاکستان، افواج، عدلیہ، مُلا اور حکومت پر تنقید کرنے کا مطلب ریاست سے غداری نہیں۔ سوال اٹھانے سے دلیل جنم لیتی ہے۔
اور دلیل سچائی کی طرف لے جاتی ہے۔ اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ سچائی اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے۔ اس ملک میں بہتوں نے اپنا اپنا منجن بیچا، چند سال کے بعد کوئی ان کا نام لیوا بھی نہیں ہوتا۔ ہاں آپ کی بات میں اگر دم نہیں تو آپ دلیل کی کسوٹی پر پورا نہیں اتریں گے۔ اور یہی وہ خوف ہے جو ہر حکمران کو ایسی پابندیاں لگانے کے لئے مجبور کرتا ہے۔ جب آپ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو صحافیوں کے مظاہروں میں بھی جا کر بیٹھتے ہیں، حکومت میں آتے ہی آپ وہی کرنا شروع ہو جاتے ہیں جو آپ کے پیشرو کرتے تھے۔
اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی دیکھ لیجیے۔ ذرا اپنے کنویں سے باہر جھانکیے، اور دیکھیے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ چین، ایران، شمالی کوریا اور کیوبا وہ ممالک ہیں جہان سوشل میڈیا کو شدید قدغنوں کا سامنا ہے۔ جہاں ریاست سوشل میڈیا کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ممالک میں مختلف ادوار میں فیس بک اور یو ٹیوب پر پابندیاں لگتی رہی ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی دفعہ مذہبی حلقوں کے دباؤ میں یوٹیوب بند کر دی گئی، اور پھر بغیر کسی بہتری کے کھول بھی دی گئی۔
یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے ہونا چاہتے ہیں یا نہیں۔ سوشل میڈیا عوامی اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ آپ بند کر دیجئے۔ کوئی بات نہیں۔ مقدس گایوں پر تنقید نہ کرنے دیجئے، کوئی بات نہیں۔ بس ایک دفعہ یہ سوچ لیجیے گا کہ اس عمل کو تاریخ کس خانے میں رکھے گی۔ اور دیکھ لیجیے گا کہ ان قوانین کا غلط استعمال آپ روک نہیں پائیں گے۔ کل کو سب سے زیادہ اس قانون کا شکار بھی آپ خود ہوں گے۔ پھر بھی آپ اپنی مرضی کرنا چاہیں تو ایک ہی دفعہ سوشل میڈیا کا گلا گھونٹ دیجئے اور اپنا فیصلہ تاریخ پر چھوڑ دیجئے۔ رہے نام اللٰہ کا!