اس کی بیوی کو کس کی تلاش تھی؟

 
کہر میں لپٹی ہوئی رات اپنے جوبن پر تھی۔ سردیوں میں یوں بھی جلد ہی ہر طرف سناٹا چھا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ شادی والا گھر تھا مگر رات کے بارہ بجے تک تمام ہنگامے موقوف ہو چکے تھے۔ آفاق احمد ابھی تک اپنے دیرینہ دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ وہ کئی بار جانے کے لیے اٹھے تھے مگر آفاق انہیں ہر بار روک لیتا تھا۔ آخر جب اس کی ماں کا صبر جواب دے گیا تو اس نے اپنے شوہر سے بات کی۔ چناں چہ اس کے باپ کونہ چاہتے ہوئے بھی آ کراس کے دوستوں کو رخصت کا مشورہ دینا پڑا۔ ظاہر اس کے بعد رکنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ دوستوں کے جانے کے بعد آفاق کے پاس اس کے سوا کیا چارہ تھا کہ دلہن کے پاس جائے۔ وہ بوجھل قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھتا چلا گیا۔
دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو بیڈ پر ایک سرخ گٹھڑی کی صورت اس کی نوبیاہتا بیوی موجود تھی۔ اس کی آہٹ سنتے ہی وہ کسمسائی اور گھونگھٹ ٹھیک کیا۔ کمرہ بڑے خوبصورت انداز میں سجایا گیا تھا۔ بیڈ پر گلاب کی پتیاں تھیں۔ کمرے میں مسحور کن خوشبو پھیلی تھی۔ وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھ گیا۔ چند لمحے خاموشی میں گزر گئے پھر اس کے لب ہلے۔
”روبی! آپ کو شادی مبارک ہو۔ “
”آپ کو بھی، لیکن پہلے میرا گھونگھٹ تو اٹھائیے۔ “ دلہن نے کہا۔
”اوہ سوری“ اس نے جلدی سے کہا۔ پھر دھیرے دھیرے گھونگھٹ ہٹا دیا۔
”آپ نے مجھے بہت انتظار کروایا۔ “ روبی نے اپنی پلکیں اٹھاتے ہوئے پیار سے شکوہ کیا۔
”یہ دوست بھی عجیب ہوتے ہیں۔ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہے تھے۔ ابھی ان سے جان چھڑا کر آیا ہوں۔ “ آفاق نے وضاحت کی۔
” خیر جانے دیجیے، آپ نے بتایا نہیں میں کیسی لگ رہی ہوں؟ “ وہ میٹھی نظروں سے اسے تک رہی تھی۔
”بہت اچھی لگ رہی ہو۔ میرا مطلب ہے بہت پیاری لگ رہی ہوں۔ شاید میں تھوڑا نروس ہوں۔ پلیز تم برا مت ماننا۔ “ آفاق نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”آپ کچھ تھکے تھکے سے بھی لگ رہے ہیں۔ میری بھی کمر اکڑ گئی ہے۔ “ روبی بولی۔
”تم یہ بھاری بھرکم کپڑے اتارو اور لائٹ سے کپڑے پہن لو، میں بھی چینج کر لیتا ہوں۔ “
”ٹھیک ہے۔ “
آفاق واقعی تھکا ہوا تھا۔ بارات اس کی پھوپھی کے گھر گئی تھی اور وہ ایک قریبی شہر میں ہی رہتی تھیں۔ سفر زیادہ نہیں تھا پھر بھی آفاق کا دل چاہ رہا تھا لمبی تان کر سو جائے۔ روبی اس کی کزن تھی۔ برسوں پہلے اس کے باپ نے اپنی بہن سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے گھر انہی کی بہٹی بہو بن کر آئے گی۔ آج اس وعدے کی تکمیل ہوئی تھی۔ آفاق کی ساری کوششیں ناکام ہوئی تھیں۔ آفاق کا انکار اس کے باپ کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ چناں چہ باپ بیٹے کی اس حوالے سے مختلف مرحلوں میں گھنٹوں بات چیت ہوئی تھی۔ بالآخر اس کی ماں کے واسطے کامیاب رہے اور آفاق شادی کے لیے مان گیا تھا۔
روبی کپڑے بدل کر آئی تو ایک بار پھر تعریف طلب نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ آفاق نے اس بار اسے مایوس نہیں کیا اور دل کھول کر اس کی تعریف کی۔ روبی شرماتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گئی۔ آفاق نے بھی اپنے الفاظ کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے گرم جوشی دکھائی۔ روبی نے اپنی تیز سانسوں کو بمشکل نارمل کیا اور بولی۔
”آپ کو پتا ہے میں کتنے برسوں سے اس وقت کا انتظار رہی تھی۔ سب یہی کہتے تھے کہ میں آپ کی دلہن بنوں گی۔ آج میرا سپنا پورا ہوا ہے۔ “
”میں بھی ایسا ہی سوچتا تھا۔ خیر ماضی کی باتیں چھوڑو۔ کل کی سوچو۔ کل ولیمہ ہے اور میں تھکن سے چور ہوں۔ “ آفاق نے کہا۔
”سچ پوچھیے تو میرا بھی برا حال ہے۔ “ روبی نے تائید کی۔
وہ بیڈ پر دراز ہو گئے۔ دس پندرہ منٹ بعد آفاق سو چکا تھا اور روبی سوچ رہی تھی کہ اس کا ایک سپنا تو پورا ہو گیا مگر دوسرا ابھی ادھورا ہے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ زندگی پڑی ہے سپنے پورے کرنے کے لیے۔
دن گزرتے گئے۔ ان کی شادی شدہ زندگی دھیمی رفتار سے گزر رہی تھی۔ روبی جس والہانہ محبت کی متلاشی تھی وہ اسے ابھی تک نہیں ملی تھی۔ اگرچہ آفاق اس کا بہت خیال رکھتا تھا۔ اس کی ہر خواہش کو پورا کرتا تھا لیکن اسے کبھی اس میں گرم جوشی کا پہلو نظر نہ آیا تھا۔ وہ پڑھا لکھا تھا۔ ایم فل کیمسٹری تھا اورایک کالج میں لیکچرار تھا۔ وہ روزانہ صبح ساڑھے سات بجے گھر سے نکلتا تھا۔ چھٹی کے بعد ایک اکیڈمی میں ٹیوشن پڑھاتا تھا لہٰذا دوپہر کا کھانا باہر ہی کھاتا تھا۔ پھر آٹھ بجے کے قریب گھر واپس آتا تھا۔
کھانے کے بعد ٹی وی دیکھنا اور کتابیں پڑھنا بھی اس کے معمولات میں شامل تھا۔ روبی کے لیے اس کے پاس بہت کم وقت ہوتا تھا۔ نئی نئی شادی تھی تب بھی وہ اپنی خواہش کا اظہار شاذ و نادر ہی کرتا تھا۔ مگر روبی کیا کرتی اس کی آرزوئیں تو اکثر بے قابو ہونے لگتی تھیں۔ ایسے میں اسے خود ہی پیش قدمی کرنی پڑتی تھی۔ تاہم اتنا ضرور تھا کہ آفاق نے اس معاملے میں بھی روبی کو کبھی مایوس نہیں کیا تھا۔ پھر بھی روبی ایک شدید قسم کی کمی محسوس کرتی تھی۔ جذبات تو منہ زور بھی ہوا کرتے ہیں۔ جب کوئی بدن لمس کی چاہ میں تڑپتا ہے تو جسم کا رواں رواں آگ میں جلنے لگتا ہے۔ وہ تپش کہاں تھی؟ وہ بے تابی کہاں تھی؟ آفاق تو گویا ایک فرض ادا کرتا تھا۔ محض ایک فرض۔
جہاں تک روبی کی بات ہے جذبات اپنی جگہ ہیں لیکن وہ بہت سادہ سی لڑکی تھی۔ گھر کے کام کاج کرنا، کھانا بنانا ٹی وی دیکھنا بس یہی اس کی زندگی تھی۔ وہ کھانا بہت اچھا بناتی تھی۔ سادہ کپڑے پہنتی تھی۔ آفاق کے بر عکس اس نے کبھی کسی کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ کپڑوں کی طرح اس کے مزاج میں بھی شوخی نام کو نہیں تھی۔ ہنسی مذاق کرنا اسے ذرا بھی پسند نہیں تھا۔ چٹکلے چھوڑنا یا فقرے چست کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔
روبی نے زندگی میں پہلی بار سوچنا شروع کیا۔ اس نے سوچا کہ شاید وہ زیادہ پڑھے لکھے ہیں اور میں تو انڈر میٹرک ہوں۔ وہ مجھے اس قابل نہیں سمجھتے کہ مجھ سے زیادہ بات کریں یا ہنسی مذاق کریں۔ اس نے اپنے خیالات کا اظہار بھی کر دیا۔ آفاق نے بڑے تحمل سے اس کی ساری باتیں سنیں پھر بڑے پیار سے اسے تسلی دی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ اس سے محبت بھی کرتا ہے اور اس کی عزت بھی کرتا ہے۔ آفاق نے عملی طور پر اپنی محبت کا اظہار بھی کیا۔ اس کے باوجود روبی مطمئن نہیں تھی۔
ایک شام روبی اپنے کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے بال بنا رہی تھی کہ اسے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ ابھی آفاق کے آنے کا وقت نہیں ہوا تھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ آفاق ہی تھا۔ آفاق نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھا۔
”آج آپ جلدی آ گئے۔ “
”کیا واپس چلا جاؤں؟ “
”میں نے یہ تو نہیں کہا۔ “ وہ گڑ بڑا گئی۔
آفاق آگے بڑھا اور اسے بازؤں میں بھر کر چوم لیا۔
”کیا کر رہے ہیں آپ۔ دروازہ کھلا ہے۔ “
”تو اور کیا کروں تم اتنی پیاری لگ رہی ہو۔ “ آفاق بولا۔
روبی کا دل جھوم اٹھا۔ آج پہلی بار اسے نیا آفاق نظر آیا تھا۔ آفاق نے اس سے چند محبت بھری باتیں کیں۔ پھر سنجیدگی سے بولا۔
”روبی! تمہیں ایک بات بتانی تھی۔ میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر اپنا پرائیویٹ کالج بنا رہا ہوں۔ میری تنخواہ میں تو بس گزارا ہی ہوتا ہے۔ میں تمہیں موٹر سائیکل پر باہر لے کر جاتا ہوں لیکن اب اس سے بہتر زندگی گزارانا چاہتا ہوں۔ اگر ہمارا کالج کامیاب ہو گیا تو بہت جلد کار خرید لوں گا۔ پھر ہم گاڑی میں گھومنے جایا کریں گے۔ “ روبی بھی اس کا پلان سن کر بہت خوش ہوئی۔
کالج کے سلسلے میں آفاق بہت مصروف ہو گیا تھا۔ کئی بار اسے راتیں بھی باہرگزارنی پڑتی تھیں لیکن روبی بہت خوش تھی اور اس کی خوشی کا سبب آفاق میں آنے والی تبدیلی تھی۔ وہ اس کا والہانہ انداز پہلی بار محسوس کررہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے آفاق کے جذبات میں ایک ہلچل سی پیدا ہو گئی ہے جیسے سمندر کا جوار بھاٹا اپنے جوبن پر ہو۔ ایسی شدت تو اس نے شادی کے ابتدائی دنوں میں دیکھی ہی نہیں تھی۔ وہ اس کی محبت کی بارش میں بھیگتی ہوئی اپنی خوش قسمتی پر ناز کرتی تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آفاق کی محبت بڑھتی جاتی تھی۔ پھر اس نے ایک گاڑی بھی خرید لی۔ وہ روبی کو اکثر گاڑی پر گھمانے لے جاتا۔ وہ باہر کھانا کھاتے اور خوش و خرم واپس آتے۔ پھر ایک رات عجیب سی بات ہوئی۔ وہ آفاق کے بازوؤں میں تھی۔ آفاق نے جذبات کی شدت میں مخمور لہجے میں اسے پکارا۔ روبی کو ایک جھٹکا سا لگا۔ آفاق نے اسے ”زوبی“ کہہ کر پکارا تھا۔
”میرا نام روبی ہے۔ “ اس نے کہا۔
”تو میں نے کیا کہا؟ “
”آپ نے زوبی کہا۔ “
آفاق سناٹے میں آ گیا۔ اس کے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے۔
”کمال ہے میں نے ایسا کیوں کہا۔ واقعی تم روبی ہو۔ تم روبی ہو۔ “ اس نے چند لمحوں کے توقف کے بعد ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
اس وقت تو روبی مطمئن ہو گئی مگر آنے والے دنوں میں اس کا اطمینان قائم نہ رہ سکا۔ ایسا ایک بار نہیں کئی بار ہوا تھا۔ آفاق جب بھی جذبات سے مخمور ہوتا تھا تو اسے زوبی کہہ کر پکارتا تھا۔ روبی کے دل میں شک کی کونپل نے جڑ پکڑ لی تھی اور ہر روز یہ پودا تناور ہوتا جاتا تھا۔
”کون ہے یہ زوبی؟ “ اس نے ایک دن جی کڑا کر کے پوچھا۔
”بتاؤ کون ہے؟ “ آفاق نے کہا۔
”سوال کے جواب میں سوال نہیں ہوتا، میں آپ سے پوچھ رہی ہوں۔ “ روبی نے کہا۔
”میں تو نہیں جانتا، اسی لیے تو تم سے پوچھ رہا ہوں۔ “
” آپ مجھے زوبی کیوں کہتے ہیں؟ “
”شاید کبھی یوں ہی منہ سے نکل گیا ہو۔ “
”ایسا کیسے ہو سکتا ہے“
”چھوڑو نام میں کیا رکھا ہے۔ میں تمہیں کچھ بھی کہوں تم میری بیوی ہی رہو گی۔ “
آفاق نے بات ہنسی مذاق میں ٹالنے کی کوشش کی۔ روبی کا شک رفع نہیں ہو سکا تھا۔
آفاق اپنی جگہ پریشان تھا۔ اس شام وہ گاڑی میں بیٹھا اور باہر نکل گیا۔ اس نے روبی کو بتا دیا تھا کہ کالج کا کام کافی زیادہ ہے۔ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے وہ روبی کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔ گاڑی چلتی رہی اور ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے ایریا میں داخل ہو گئی۔ پھر ایک مکان کے سامنے اس نے گاڑی روک دی۔ اس نے ایک گہری سانس لے کر خود کو نارمل کیا اور پھر گاڑی سے اتر آیا۔
شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ اس نے ڈور بیل بجائی۔ دروازہ کھلا تو ایک دلکش چہرہ نظر آیا۔ تراشیدہ براؤن بال اس کے شانوں پر لہرا رہے تھے۔ نیلی جینز پر بلیک ٹاپ اس کے متناسب جسم پر بھلے لگ رہے تھے۔ اس کے بھرے بھرے سرخ ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
”تم خود دروازہ کھولنے آ گئیں، رضیہ کہاں ہے؟ “
”میں نے ٹیرس سے آپ کو آتے دیکھ لیا تھا۔ اس لیے خود آئی ہوں۔ وہ کچن میں کھانا بنا رہی ہے۔ “
”بہت خوب کیا بنوا رہی ہو؟ “
”ساری باتیں یہاں دروازے میں کھڑے ہو کر ہی کریں گے کیا؟ چلیں اندر چلیں۔ “ لڑکی نے اس کے بازو سے لگتے ہوئے کہا۔ آفاق سر ہلاتے ہوئے اس کے ساتھ چل پڑا۔
کمرے میں جاتے ہی لڑکی کی زبان پھر چل پڑی۔
”ابھی کچھ دیر پہلے آپ سے باتیں کرنے کو بڑا دل چاہ رہا تھا لیکن آپ نے مجھ پر اتنی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ فون بھی نہیں کرنا وغیرہ وغیرہ۔ بہت اچھا ہوا آپ آ گئے۔ بلکہ آپ آئے، بھاگ آئے۔ قسم سے دل خوش ہو گیا۔ “
”اچھا بس بس۔ میسج پر تو پابندی نہیں لگائی میں نے۔ میسج تو کر سکتی تھیں ناں۔ دو دن سے ملے نہیں بتاؤ تمہاری جاب کیسی چل رہی ہے؟ “
”نام جاب کا ہے اور پوچھنا کچھ اور چاہتے ہیں، صاف صاف پوچھیں ناں۔ اچھا میں بتاتی ہوں۔ کالج میں کسی کو ابھی تک پتا نہیں چل سکا کہ میں نے شادی کر لی ہے لیکن کوئی بتائے نہ بتائے میں خود کسی نہ کسی دن ضرور بتا دوں گی۔ میرا اتنا دل چاہتا ہے کہ میں سب کو بتاؤں۔ ہمارے کالج میں کسی کولیگ کی شادی ہو تو اسے بڑی اچھی سی پارٹی دی جاتی ہے۔ اور آپ ہیں کہ بتانے بھی نہیں دیتے۔ “
”زوبی میں نے بتایا تھا ناں، ابھی حالات سازگار نہیں ہیں۔ میرے والدین کسی قیمت پر میری تم سے شادی نہ ہونے دیتے اور ہم ایک دوسرے کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اس لیے یہ قدم اٹھانا پڑا لیکن تم فکر نہ کرومیں ایک نہ ایک دن انہیں منا لوں گا۔ “
”کب؟ اتنے مہینے ہو گئے ہیں، آپ نے کچھ بھی نہیں کیا۔ خیر کوئی بات نہیں آپ جتنا چاہیں اور وقت لے لیں۔ اب مجھے کوئی ٹینشن نہیں اب تو آپ میرے ہو چکے ہیں۔ “ زوبی نے سرشار لہجے میں کہا اور اپنا سر آفاق کے کندھے پر رکھ دیا۔ آفاق نے اس کی کمر کے گرد بازو لپیٹتے ہوئے اسے اپنے اور قریب کر لیا اور اس کی پیشانی پر ہونٹ رکھ دیے۔
”میں آپ کو بہت مس کرتی ہوں۔ “
”لیکن میں تمہیں ذرا بھی مس نہیں کرتا۔ “
”کیا مطلب؟ کیوں مس نہیں کرتے؟ “ زوبی نے مصنوعی ناراضی سے اس کے سینے پر دو تین مکے مارے جو برائے نام ہی اس کے سینے پر لگے تھے۔ آفاق نے ایک دم ایسی اداکاری کی جیسے بہت چوٹ لگی ہو۔
”اس لیے کہ تم یہاں رہتی ہو، میرے دل میں۔ تم تو ہر لمحہ میرے پاس ہی ہوتی ہو تو میں بھلا تمہیں کیوں مس کروں گا۔ “ آفاق نے کہا۔
”ہائے کیا بات کی ہے۔ باتیں بنانا تو کوئی آپ سے سیکھے۔ “ زوبی نے شوخ لہجے میں کہا۔
”اچھا باتیں چھوڑو کھانا کھلاؤ پھر میں تمہیں آئس کریم کھلانے باہر لے کر جاؤں گا۔ “
”آپ نے تو میرے منہ کی بات چھین لی، میں خود یہی کہنے والی تھی کہ کھانے کے بعد آئس کریم کھانے چلیں گے۔ میں ابھی رضیہ سے پوچھتی ہوں کھانے میں کیا دیر ہے۔ “ زوبی اٹھ کر کچن کی طرف چل دی۔ آفاق نے آسودگی کی گہری سانس لی۔
اسے زوبی سے بے حد محبت تھی۔ وہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ زوبی کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔ زوبی اس کی یونیورسٹی فیلو تھی۔ کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ میں پہلے روز ہی ملاقات کے بعد آفاق کے دل میں اس کے لیے پسندیدگی پیدا ہو گئی تھی جو دھیرے دھیرے محبت میں بدل گئی۔ پھر جب ایم فل کے امتحانات ہونے والے تھے تو آفاق نے ہمت کر کے دل کی بات بتا دی۔ تب یہ عقدہ کھلا کی زوبی بھی اس سے دل ہی دل میں محبت کرتی تھی۔ یہ راز کھلنے کے بعد تو ان کی زندگی ہی بدل گئی۔ وہ یونیورسٹی سے باہر بھی ملنے لگے۔ وہ اپنے مستقبل کا پلان بنایا کرتے تھے۔ دونوں کی خواہش تھی کہ انہیں اچھی جاب مل جائے۔ کم از کم ان کی یہ خواہش پوری ہو گئی تھی۔ ایم فل کے بعد وہ دونوں لیکچرر بن چکے تھے۔
آفاق کو بخوبی علم تھا کہ اس کے والد نے اس کی شادی اس کی پھوپھی کی بیٹی سے کرنے کا فیصلہ کر رکھا تھا اور اس فیصلے میں اس کی مرضی جاننے کی بھی کوشش نہیں کی تھی۔ اس کے باوجود اس نے ڈھکے چھپے انداز میں جب اس شادی سے انکار اور کسی اور سے شادی کی بات کی تو ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا۔ آفاق اپنے والدین کی بات بھی نہیں ٹال سکتا تھا اوروہ زوبی کے بغیر بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ کچھ عرصہ وہ عجیب دوراہے پر کھڑا رہا۔ والدین کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے روبی سے شادی بھی کر لی۔ پھر اس نے خود اس مسئلے کا حل نکالا اور زوبی سے بھی شادی کر لی۔ مگر اس نے زوبی کو نہیں بتایا تھا کہ وہ روبی سے شادی کر چکا ہے وہ زوبی کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا تھا۔
کھانے کے بعد وہ زوبی کو ایک عمدہ آئس کریم بار میں لے گیا۔ زوبی خوب ہنسی مذاق کرتی رہی۔ اس کی یہی چلبلی طبیعت آفاق کو بہت اچھی لگتی تھی۔ آفاق ایک لطیفہ سناتا تو زوبی اس سے بڑھ کر سناتی۔ دونوں گھر پہنچے تو بیڈ روم میں داخل ہوتے ہی زوبی نے آفاق کی شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کر دیے۔
”کیا کر رہی ہو زوبی، رکو ناں“ آفاق نے کہا۔
”اب نہیں رکوں گی، روک سکو تو روک لو۔ “ زوبی نے شوخی سے کہا۔ آفاق میں اسے روکنے کی ہمت کہاں تھی۔ دونوں طرف آگ برابر لگی ہوئی تھی۔ پھر آگ آگ سے ٹکرانے لگی۔ انہی مخمور لمحوں میں آفاق نے زوبی کے کان میں دھیرے سے کہا۔
”آئی لو یو روبی۔ “
زوبی ایک نشے کی سی کیفیت میں تھی مگر یہ جملہ سن کر نشہ کافور ہو گیا۔ اسے یقین نہ آیا کہ اس کے کانوں نے کیا سنا ہے۔ روبی۔ روبی۔ یہ کون ہے؟ اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ کیا کوئی ایسی بات ہے جو وہ نہیں جانتی۔ اس کا دل بری طرح گھبرانے لگا۔
”آفاق۔ یہ روبی کون ہے؟ “
”روبی؟ کون روبی؟ میں نہیں جانتا۔ “ آفاق نے فوراً سنبھلتے ہوئے کہا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس سے غلطی ہو چکی ہے۔
”آپ نے مجھے روبی کہا ہے، میں تو زوبی ہوں۔ “ زوبی نے احتجاج کیا۔
”شاید تم سے سننے میں غلطی ہوئی ہو۔ میں نے تو زوبی ہی کہا تھا۔ “
اس دن تو بات آئی گئی ہو گئی مگر اب معاملات بگڑنے لگے تھے۔ روبی کہتی تھی کہ اس نے اسے زوبی کہا ہے اور زوبی کا شکوہ تھا کہ وہ اسے روبی کیوں کہتا ہے۔ آفاق نے بہت سوچا مگر جب حل نہ ملا تو ڈاکٹر سہیل کے پاس چلا گیا۔
ڈاکٹر سہیل بڑے غور سے اس کی باتیں سنتے رہے۔ ”ڈاکٹر میں بہت مشکل میں ہوں۔ میں روبی کا خاوند ہوں اور زوبی کا بھی۔ روبی شبنم کی طرح ہے۔ دھیرے دھیرے پھول کی پتیوں پر اترنے والے اوس کے قطروں کی طرح۔ وہ مجھ سے محبت تو کرتی ہے مگر اس میں جذبات کی ہلچل نہیں ہے۔ وہ ایک ٹھہری ہوئی جھیل جیسی ہے۔ اس کی محبت میرے دل میں ٹھہری ہوئی ہے۔ دوسری طرف زوبی ہے، بالکل ایک شعلے کی طرح۔ وہ تو جذبات میں آگ لگا دیتی ہے۔
سمندر کی لہروں کے اضطراب کی طرح۔ پہاڑوں کے دریا کی طرح پوری تندی اور تیزی سے اس کی محبت کی لہریں میرے دل کی دیوروں سے ٹکراتی ہیں۔ میں زوبی کے بنا کچھ نہیں ہوں، کچھ بھی نہیں۔ جب میں زوبی کے پاس ہوتا ہوں تو محبت کے سوا دنیا میں کچھ نہیں ہوتا لیکن جب روبی کے پاس ہوتا ہوں تو ان لمحات میں بھی پیار ہی پیار ہوتا ہے۔
”ہوں تو اب کیا مشکل ہے؟ “ ڈاکٹر سہیل نے سر ہلایا۔
”مشکل یہ آن پڑی ہے کہ جب میں زوبی کے محبت کے نشے میں ہوتا ہوں تو تراشیدہ بال لمبے لمبے سیاہ بالوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں، اس کے بھرے بھرے سرخ ہونٹ باریک ہونٹوں سے بدل جاتے ہیں۔ وہ زوبی نہیں رہتی روبی بن جاتی ہے اور جب اس کا نام لیتا ہوں تو یک دم پھر سے زوبی بن جاتی ہے اسی طرح جب میں روبی کے پیار میں ڈوبا ہوا ہوتا ہوں تو اس کی شکل بدل جاتی ہے، اس کی آواز بھی بدل جاتی ہے۔ وہ بالکل زوبی بن جاتی ہے۔ پھر وہ اچانک مجھے ہوش میں لاتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ میں روبی کو زوبی سمجھ کر نہ جانے کیا کہتا رہا ہوں۔ میرا علاج کریں۔ مجھے کیا ہو گیا ہے۔ آفاق نے بے بسی سے کہا۔
”شاید تم گلٹی فیل کرتے ہو۔ یہ احساس تمہارے اند جڑ پکڑتا جا رہا ہے۔ تم خود کو قصوروار سمجھتے ہو۔ جب زوبی کے پاس ہوتے ہو تو تمہیں روبی کا خیال آتا ہے اور جب روبی کے پاس ہوتے ہو تو زوبی تمہارے حواس پر چھائی ہوتی ہے۔ “ ڈاکٹر سہیل نے ایک گہری سانس لے کر کہا۔
”ڈاکٹر میں کیا کروں۔ روبی کا شک اب یقین میں بدلتا جا رہا ہے اور زوبی بھی شاید جلد ہی حقیقت جان لے گی۔ “
ڈاکٹر سہیل نے اسے دوا لکھ دی۔ سکون آور دوا نے اسے کسی حد تک آرام دیا مگر زوبی پر حقیقت کھل گئی۔ کسی مخمور لمحے میں اس نے خود سب کچھ اسے بتا دیا۔ زوبی پر اس کا اثر بہت گہرا ہوا۔ آفاق کو اس رویے کی بالکل بھی توقع نہیں تھی۔ وہ اس کا ہاؤسنگ سوسائٹی والا گھر چھوڑ کر اپنی ماں کے پاس چلی گئی جو اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کے والد کا انتقال ہو چکا تھا مگر وہ بیسویں سکیل میں ریٹائر ہوئے تھے لہٰذا اس کی ماں کو اچھ خاصی پنشن مل جاتی تھی۔
آفاق نے بڑی کوشش کی کہ وہ واپس آ جائے لیکن وہ واپس آنے کو تیار نہیں تھی۔ اس نے طلاق کا مقدمہ دائر کر دیا تھا۔
روبی بھی بے خبر نہ رہ سکی۔ اسے دکھ تو ہوا لیکن جب اسے پتا چلا کہ زوبی اس کے خاوند کو چھوڑ کر چلی گئی ہے تو وہ مطمئن ہو گئی۔ آفاق کے والدین نے بھی اسے خوب برا بھلا کہا اور حکم دیا کہ زوبی کو فوراً طلاق دے دو۔ آفاق ان کے سامنے بالکل چپ رہا۔ مگر اس نے زوبی کو طلاق نامہ نہ بھجوایا۔ پیشیاں جاری تھیں۔ اب آفاق اپنے گھر میں وقت گزارتا تھا۔ اس کا پرائیویٹ کالج اس کا عملہ چلا رہا تھا۔ وہ کالج سے فارغ ہو کر دوپہر دو بجے گھر آ جاتا تھا اور پھر کہیں باہر بھی نہیں نکلتا تھا۔ ٹی وی دیکھتا اور کتابیں پڑھتا رہتا۔
روبی رنجشیں بھلا کر اس کا بہت خیال رکھتی تھی۔ وہ ہر وقت اس کے پاس ہوتا تھا اس کے لیے یہ خوشی بہت بڑی تھی۔ چند مہینے اسی طرح گزرے پھر روبی کہیں باہر جانے لگی۔ آفاق کی ماں نے اس سے دو تین بار پوچھا لیکن وہ ٹال گئی۔ اس کی بتائی ہوئی وجوہات اس کی ساس کو مطمئن نہ کر سکی تھیں۔ انہوں نے اپنے خاوند کو بتایا۔ روبی کے سسر نے بہو سے پوچھا۔ روبی نے روتے ہوئے انہیں بتایا وہ کسی کو ڈھونڈ رہی ہے۔ ابھی مت پوچھیں بعد میں وہ سب کچھ بتا دے گی لیکن وہ کوئی غلط کام نہیں کر رہی۔ ان دونوں کو اپنے خاندان کی لڑکی پر بھروسا تھا پھر بھی بے چین ضرور تھے۔ روبی کی تلاش جاری تھی پھر وہ ڈاکٹر سہیل کے پاس پہنچ گئی۔
”میں روبی ہوں، مجھے پتا چلا ہے کہ میرے خاوند آفاق بھی آپ سے ملتے رہتے ہیں۔ “
”جی فرمائیے میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔ “ ڈاکٹر سہیل نے اس سے پوچھا۔
”میں زوبی سے ملنا چاہتی ہوں۔ میں نے آفاق سے بات کی تھی لیکن مجھے انہوں نے سختی سے منع کر دیا۔ وہ مجھے کبھی اس سے ملنے نہیں دیں گے جبکہ میں ہر حال میں اس سے ملنا چاہتی ہوں۔ “ روبی نے کہا۔
”لیکن کیوں؟ اب تو وہ ایک طرح سے آپ کی زندگی سے نکل چکی ہے اوربقول آفاق آئندہ پیشی پر طلاق کا فیصلہ بھی ہونے والا ہے۔ تو پھر کیا پریشانی ہے۔ “
”پریشانی یہی ہے کہ کہیں طلاق نہ ہو جائے۔ میں اس کی منت کروں گی، ہاتھ جوڑ دوں گی، اس کے پاؤں پڑ جاؤں گی اور اسے مناؤں گی کہ وہ طلاق نہ لے۔ “ روبی نے کہا۔
”اوہ! تو آپ نے اسے تسلیم کر لیا ہے اور آپ اسے اپنے ساتھ گھر میں رکھنا چاہتی ہیں۔ “ ڈاکٹر سہیل نے سر ہلایا۔
”نہیں ڈاکٹر صاحب، میں اس سے شدید نفرت کرتی ہوں، لیکن اس کا وجود میرے لیے بے حد ضروری ہے۔ آپ کو نہیں پتا میں کس عذاب سے گزری ہوں۔ آفاق سے میری شادی ہوئی تو وہ میرے ہو کر بھی میرے نہیں تھے۔ پھر اچانک ان کا رویہ بدل گیا۔ وہ مجھ سے بے حد پیار کرنے لگے۔ میں محبت کے اس احساس کو بھول نہیں سکتی۔ جب سے وہ چلی گئی ہے ایک بار پھر آفاق پہلے والے آفاق بن گئے ہیں۔ گم سم، محبت سے خالی۔ اب تنہائی کے لمحات میں انہوں نے کبھی مجھے زوبی نہیں کہا لیکن محبت کا سحر بھی اب باقی نہیں رہا، زوبی اسے بھی ساتھ ہی لے گئی ہے۔
میں زوبی کو واپس لاؤں گی۔ زوبی اسی طرح ان کے دوسرے گھر میں رہے گی تو میری محبت مجھے مل جائے گی۔ میں آفاق کی محبت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اور ان کی محبت حاصل کرنے کی یہی ایک صورت ہے۔ پلیز آپ کسی طرح زوبی کا پتا حاصل کر کے مجھے بتا دیں۔ آفاق آپ کے پاس آتے جاتے ہیں، آپ یہ کام کر سکتے ہیں۔ خدارا مجھے زوبی تک پہنچا دیں۔
ڈاکٹر سہیل حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔ یہ ان کی زندگی کا انوکھا کیس تھا۔ زوبی نے روبی کی بات مانی یا نہیں یہ ایک الگ قصہ ہے مگر ڈاکٹر سہیل نے مجھے یہ کہانی سنائی تو محبت کا یہ رنگ میرے لیے تعجب خیز تھا۔ ہاں جاتے جاتے اتنا بتا دوں کہ آفاق کے ہاؤسنگ سوسائٹی والے گھر میں زوبی واپس آ گئی تھی۔