زندگی کی چلتی ہوئی گاڑی کو اچانک بریک اس وقت لگا کہ جب چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اسے یہ سننے کو ملنے لگا کہ ہمیں لڑکی کی ذہانت کا کیا اچار ڈالنا ہے۔ ہمیں تو حسین خوبصورت اور نوعمر دوشیزہ چاہیے جو بحیثیت بہو ہمارے گھر کو مرکری بلب کی مانند روشن کردے اور بھئی سوکی سیدھی بات تو یہ ہے کہ جب بہو خوبصورت ہو تو بچے خودبخود خوبصورت ہوں گے، شادی کوئی ایک دن کی بات تو نہیں ہے نا۔
عزیزوں، رشتے داروں اور رشتے کرانے والی آنٹیوں کے طفیل اس طرح کے تبصرے روز اس کے کانوں میں پڑنے لگے تھے۔ وہ اپنے پیشے میں بے انتہا مہارت رکھتی تھی۔ آئی ٹی کی فیلڈ میں اس نے کئی کامیاب پروگرام متعارف کروائے تھے اور اس وقت بھی اسے بے شمار نیشنل اور انٹر نیشنل اداروں کی جانب سے پیش کش موجود تھی کہ وہ ان کے ساتھ پر کشش تنخواہ اور مراعات کے ساتھ کام کرے۔ اسے کبھی کبھی اپنے پرائمری اسکول کی ایک استاد کی بات یاد آیا کرتی تھی۔جب وہ ایک بہترین نجی(پرائیوٹ) اسکول میں تعلیم حاصل کررہی تھی تو اس کی ایک ہم جماعت بے انتہا نالائق تھی جسے اپنا نام تک درست لکھنا نہیں آتا تھا مگر حسن ایسا تھا کہ چند لمحے کو اس بچی پر نگاہ ٹکی کی ٹکی رہ جاتی تھی۔مس انیس اس بوڑم بچی سے بے حد خائف رہا کرتی تھیں۔ بے پناہ توجہ کے باوجود وہ پڑھنے پر آمادہ نہیں تھی۔ وہ اکثر تشبیہ سے کہا کرتی تھیں
بیٹا تم ذہین ترین لڑکی ہو، مگر افسوس ہمارا معاشرا ذہانت کے مقابلے میں ہمیشہ حسن کو ترجیح دیتا ہے۔ جب شادی کا وقت آئے گا تو اس وقت اِس نالائق بچی کا رشتہ آرام سے کسی اچھے گھرانے میں ہوجائے گا۔ مگر تمھاری کالی رنگت تمھارے رشتے کی راہ میں رکاوٹ ہوگی۔ اس وقت دل چھوٹا نہ کرنا۔ زندگی میں کسی نہ کسی حوالے سے انسان کو آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بحیثیت استاد میری اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ کوئی بھی چیز حتمی اور آخری نہیں ہوتی۔
جب ہر طرف سے اس کے رشتے کی صدائیں بلند ہونے لگیں اور آنے والی خواتین کثرت سے اس کے کالے رنگ کو عیب بنا کر انکار کرکے جانے لگیں تو اس نے ہمت کر کے علی احمد سے کہا کہ ” اگر وہ اسے پسند کرتا ہے تو اس سے شادی کرلے ” یہ گفتگو آفس کی میز پہ نہیں بلکہ اس کیفے میں ہورہی تھی جہاں بیٹھ کر وہ دونوں نت نئے پیشہ ورانہ خیالات (پروفیشنل آئیڈیاز) اور تصورات پر بحث کیا کرتے تھے۔ تشبیہ کے اس سوال پر چند لمحے کو علی احمد نے خاموشی اختیار کی۔ اس کی نیچی نگاہیں کسی خاص نقطے پر مرکوز تھیں۔ چند لمحے کے توقف کے بعد جو کچھ علی احمد کے لبوں سے ادا ہوا اس نے تشبیہ کے دل پر بجلیاں گرا کر رکھ دیں۔”تشبیہ، میں بہت معذرت خواہ ہوں کہ میں تم سے شادی تو نہیں کرسکتا البتہ دوستی برقرار رکھ سکتا ہوں کیونکہ جب مجھے پیشہ ورانہ تصورات کی بابت اظہارِ خیال کرنا ہوتا ہے تو میرے نزدیک تم سے بہتر سامع کوئی نہیں اور یقیناً تم ایک اچھی آئی ٹی ایکسپرٹ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ کل عالمی سطح پر بھی تمھارا ایک نام اور مقام ہو۔ مگر بحیثیت بیوی تمھیں اپنانے کے بعد میرے خاندان والے میرا سوشل بائیکاٹ کرکے رکھ دیں۔ تمھاری ذہانت دھری کی دھری رہ جائے گی۔ آئے دن میری بہنیں تمھیں کالی رات سے تشبیہ دیں گی اور میں اس حوالے سے تمھیں کوئی تحفظ نہ دے پاؤں گا۔ اگر کل میرے بچے تمھارے ہم شکل یا تمھاری رنگت لے کر پیدا ہوگئے تو یہ میرے لیے اور بدنامی کا باعث ہوجائے گا۔ اس لیے تم سے کسی بھی شرط پر یا کسی بھی صورت میں شادی نہیں کرسکتا۔”علی احمد کی بات گو کہ اتنی غیر متوقع بھی نہیں تھی۔ مگر اس کی بات نے تشبیہ کوآسمان سے زمین پر لا پٹخا۔ اسے لگا کہ شاید کہنے کے لیے اس کے پاس الفاظ کھو سے گئے ہیں اور ان کھوئے ہوئے الفاظ کو ڈھونڈنے کے لیے اب اسے سر توڑ کوشش کرنی تھی۔
مغربی ملکوں میں کالی رنگت بلیک بیوٹی میں شمار ہوتی تھی اور اپنے دیس پاکستان میں عقل، شعور، ذہانت اور علم کے باوجود اس کے ساتھ ناروا سلوک ہورہا تھا۔ یہ تمام صورتحال جب اس نے اماں کو بتائی توانھوں نے متانت سے جواب دیا کرے گااللہ بہتر کرے گا۔ یقیناً اللہ بہتر کرنے والا تھا۔ بیٹا مرد عورت سے اس کے حسن، حسب نسب، دولت اور کردار کی وجہ سے شادی کرتا۔ تم نہ تو حسین ہو اور نہ بہت اعلیٰ حسب نسب ہے تمھارا۔ رنگ تمھارا کالاہے۔ صرف ڈگری اور تنخواہ شادی کا معیار ہوتا توآج بڑے بڑے دفاتر میں کام کرنے والی خواتین سب کی سب شادی شدہ ہوتیں۔ شادی ایک سماجی معاہدہ ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہ معاہدہ گواہوں کی موجودگی میں کیا جانا افضل ہے اور اس معاہدہ کو اگر ختم کرنا ہو تب بھی اعلانیہ ختم کرنا بہتر ہے۔ چھپانے سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اماں کی گندمی رنگت مدبرانہ انداز اور آہستہ آہستہ اس کے سر میں سرسراتی ہوئی انگلیاں اسے کچھ پیغام دے رہی تھیں۔
وہ بانو قدسیہ کے افسانے کلو کا مرکزی کردار نہیں تھی۔ بلکہ اکیسویں صدی کی باشعور لڑکی تھی۔ اس کے بڑے بھائی دانیال نے بھی وقتاً فوقتاً اسے اس بات کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ شادی کے معاملے میں اگر اسے کچھ حوالوں سے سمجحوتہ بھی کرنا پڑے تو وہ کرلے بس لڑکا ذہنی طور پہ شکی نہ ہواور نہ ہی اس کے آگے کی زندگی میں مسائل کھڑے کرے، بلکہ قومی اور عالمی سطح پر اس کے کام کی پذیرائی کی صورت میں اس کا ہم قدم رہے۔ کمپیوٹر انجینئرنگ کرنیکے باوجود رشتے کے معاملے میں اس کا نصیب سور رہا تھا۔ جہاں جہاں اماں کو امید تھی۔ ان لوگوں نے اپنے بیٹوں کے رشتے حسین و جمیل اور دولت مند لڑکیوں سے طے کردیے تھے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ جب ماموں کے سب سے کم پڑھے لکھے اور کم آمدنی والے بیٹے کا رشتہ اس کے لیے آیا تو چند لمحے کو وہ سناٹے میں ہی رہ گئی۔مگر دانیال بھائی نے سفیان کو اس کے سامنے لا بٹھایا۔ سفیان کیا یہ رشتہ تمھارے کہنے پر دیا گیا ہے۔ دانیال بھائی نے سنجیدگی سے سوال کیا۔جی دانیال بھائی تشبیہ مجھے بچپن سے ہی بہت پسند ہے۔ اس کی ذہانت اور علم سے میں ہمیشہ متاثر رہا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شادی کے لیے تشبیہ سے زیادہ سمجھ دار لڑکی مجھے نہیں مل سکتا۔ اس کی سنجیدگی اس بات کی گواہ تھی کہ وہ دل و جان سے تشبیہ کاخواہاں تھااور ہر شرط اور صورت میں اسے اپنانے کے لیے تیار تھا۔
سفیان کیا تم شادی کے بعد میری پیشہ ورانہ مصروفیات سے خائف تو نہیں ہوگے؟کیا میں ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک تمھاری اجازت سے اکیلے سفر کرسکوں گی۔ تم شک تو نہیں کر وگے میرے کردار پہ؟ کیا تم میرا دوسرے مردوں سے آزادانہ بات چیت کرنا برداشت کرسکو گے؟ کیا تم میرے ساتھ مشترکہ خاندان کے بجائے علیحدہ رہنا پسند کرو گے؟ تشبیہ کے پے در پے کیے جانے والے سوالات پر چند لمحے سفیان نے خاموشی اختیار کی،پھر توقف کے بعد کہنا شروع کیا۔ تشبیہ حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے ورکنگ ویمن سے ہی شادی کرنی ہے تاکہ میں خاندانی اعتبار سے اپنے دیگر بہن بھائی اور رشتے داروں کا ساتھ دے سکوں۔ اگر کوئی گھریلو عورت میری زندگی میں آئی تو میں غربت اور تنگدستی کی چکی میں پس کر رہ جاؤں گا۔ میرے بچے اچھے اسکول میں تعلیم اور اچھی خوراک لباس اور رہائش کو ترسیں گے۔ اگر تم سے شادی کرکے میرا معیارِ زندگی بہتر ہوتا ہے تو تمھاری عزت کرنا اور کروانا میرا فرض ہے۔ جواباً میری عزت قائم رکھنا تمھارا فرض ہے۔ دوسری بات ہے کہ حقیقی زندگی فلموں ڈراموں اور خوابوں کی زندگی سے بے حد مختلف ہوتی ہے۔ تمھاری ذہانت، نوکری اور پیشہ اپنی جگہ ہے۔ مگر تمھارے ساتھ کے لوگ تمھارے ساتھ ٹائم تو ضرور پاس کریں گے، لیکن شادی کوئی نہیں کرے گا۔ جب کہ میں تمام حقائق کے ساتھ دل سے اس رشتے کا خواہش مند ہوں۔ سفیان کے لہجے کی صداقت نے دانیال بھائی کو بھی موم کردیا تھا اور وہ تشبیہ کے جواب کے منتظر تھے۔
دانیال بھائی مجھے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں۔ زندگی میں جب سمجھوتہ ہی کرنا ٹھہرا تو پھر شاید سفیان سے بہتر رشتہ میرے لیے دوسرا کوئی نہ ہو۔ تشبیہ مستحکم لہجے میں کہتی ہوئی اچھے مستقبل کی امید لیے، سفیان کے لیے چائے بنانے کچن میں چلی آئی۔جہاں اماں اور بھابھی پہلے ہی چائے ناشتے کا اہتمام کرچکی تھیں۔
عزیزوں، رشتے داروں اور رشتے کرانے والی آنٹیوں کے طفیل اس طرح کے تبصرے روز اس کے کانوں میں پڑنے لگے تھے۔ وہ اپنے پیشے میں بے انتہا مہارت رکھتی تھی۔ آئی ٹی کی فیلڈ میں اس نے کئی کامیاب پروگرام متعارف کروائے تھے اور اس وقت بھی اسے بے شمار نیشنل اور انٹر نیشنل اداروں کی جانب سے پیش کش موجود تھی کہ وہ ان کے ساتھ پر کشش تنخواہ اور مراعات کے ساتھ کام کرے۔ اسے کبھی کبھی اپنے پرائمری اسکول کی ایک استاد کی بات یاد آیا کرتی تھی۔جب وہ ایک بہترین نجی(پرائیوٹ) اسکول میں تعلیم حاصل کررہی تھی تو اس کی ایک ہم جماعت بے انتہا نالائق تھی جسے اپنا نام تک درست لکھنا نہیں آتا تھا مگر حسن ایسا تھا کہ چند لمحے کو اس بچی پر نگاہ ٹکی کی ٹکی رہ جاتی تھی۔مس انیس اس بوڑم بچی سے بے حد خائف رہا کرتی تھیں۔ بے پناہ توجہ کے باوجود وہ پڑھنے پر آمادہ نہیں تھی۔ وہ اکثر تشبیہ سے کہا کرتی تھیں
بیٹا تم ذہین ترین لڑکی ہو، مگر افسوس ہمارا معاشرا ذہانت کے مقابلے میں ہمیشہ حسن کو ترجیح دیتا ہے۔ جب شادی کا وقت آئے گا تو اس وقت اِس نالائق بچی کا رشتہ آرام سے کسی اچھے گھرانے میں ہوجائے گا۔ مگر تمھاری کالی رنگت تمھارے رشتے کی راہ میں رکاوٹ ہوگی۔ اس وقت دل چھوٹا نہ کرنا۔ زندگی میں کسی نہ کسی حوالے سے انسان کو آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بحیثیت استاد میری اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ کوئی بھی چیز حتمی اور آخری نہیں ہوتی۔
جب ہر طرف سے اس کے رشتے کی صدائیں بلند ہونے لگیں اور آنے والی خواتین کثرت سے اس کے کالے رنگ کو عیب بنا کر انکار کرکے جانے لگیں تو اس نے ہمت کر کے علی احمد سے کہا کہ ” اگر وہ اسے پسند کرتا ہے تو اس سے شادی کرلے ” یہ گفتگو آفس کی میز پہ نہیں بلکہ اس کیفے میں ہورہی تھی جہاں بیٹھ کر وہ دونوں نت نئے پیشہ ورانہ خیالات (پروفیشنل آئیڈیاز) اور تصورات پر بحث کیا کرتے تھے۔ تشبیہ کے اس سوال پر چند لمحے کو علی احمد نے خاموشی اختیار کی۔ اس کی نیچی نگاہیں کسی خاص نقطے پر مرکوز تھیں۔ چند لمحے کے توقف کے بعد جو کچھ علی احمد کے لبوں سے ادا ہوا اس نے تشبیہ کے دل پر بجلیاں گرا کر رکھ دیں۔”تشبیہ، میں بہت معذرت خواہ ہوں کہ میں تم سے شادی تو نہیں کرسکتا البتہ دوستی برقرار رکھ سکتا ہوں کیونکہ جب مجھے پیشہ ورانہ تصورات کی بابت اظہارِ خیال کرنا ہوتا ہے تو میرے نزدیک تم سے بہتر سامع کوئی نہیں اور یقیناً تم ایک اچھی آئی ٹی ایکسپرٹ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ کل عالمی سطح پر بھی تمھارا ایک نام اور مقام ہو۔ مگر بحیثیت بیوی تمھیں اپنانے کے بعد میرے خاندان والے میرا سوشل بائیکاٹ کرکے رکھ دیں۔ تمھاری ذہانت دھری کی دھری رہ جائے گی۔ آئے دن میری بہنیں تمھیں کالی رات سے تشبیہ دیں گی اور میں اس حوالے سے تمھیں کوئی تحفظ نہ دے پاؤں گا۔ اگر کل میرے بچے تمھارے ہم شکل یا تمھاری رنگت لے کر پیدا ہوگئے تو یہ میرے لیے اور بدنامی کا باعث ہوجائے گا۔ اس لیے تم سے کسی بھی شرط پر یا کسی بھی صورت میں شادی نہیں کرسکتا۔”علی احمد کی بات گو کہ اتنی غیر متوقع بھی نہیں تھی۔ مگر اس کی بات نے تشبیہ کوآسمان سے زمین پر لا پٹخا۔ اسے لگا کہ شاید کہنے کے لیے اس کے پاس الفاظ کھو سے گئے ہیں اور ان کھوئے ہوئے الفاظ کو ڈھونڈنے کے لیے اب اسے سر توڑ کوشش کرنی تھی۔
مغربی ملکوں میں کالی رنگت بلیک بیوٹی میں شمار ہوتی تھی اور اپنے دیس پاکستان میں عقل، شعور، ذہانت اور علم کے باوجود اس کے ساتھ ناروا سلوک ہورہا تھا۔ یہ تمام صورتحال جب اس نے اماں کو بتائی توانھوں نے متانت سے جواب دیا کرے گااللہ بہتر کرے گا۔ یقیناً اللہ بہتر کرنے والا تھا۔ بیٹا مرد عورت سے اس کے حسن، حسب نسب، دولت اور کردار کی وجہ سے شادی کرتا۔ تم نہ تو حسین ہو اور نہ بہت اعلیٰ حسب نسب ہے تمھارا۔ رنگ تمھارا کالاہے۔ صرف ڈگری اور تنخواہ شادی کا معیار ہوتا توآج بڑے بڑے دفاتر میں کام کرنے والی خواتین سب کی سب شادی شدہ ہوتیں۔ شادی ایک سماجی معاہدہ ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہ معاہدہ گواہوں کی موجودگی میں کیا جانا افضل ہے اور اس معاہدہ کو اگر ختم کرنا ہو تب بھی اعلانیہ ختم کرنا بہتر ہے۔ چھپانے سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اماں کی گندمی رنگت مدبرانہ انداز اور آہستہ آہستہ اس کے سر میں سرسراتی ہوئی انگلیاں اسے کچھ پیغام دے رہی تھیں۔
وہ بانو قدسیہ کے افسانے کلو کا مرکزی کردار نہیں تھی۔ بلکہ اکیسویں صدی کی باشعور لڑکی تھی۔ اس کے بڑے بھائی دانیال نے بھی وقتاً فوقتاً اسے اس بات کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ شادی کے معاملے میں اگر اسے کچھ حوالوں سے سمجحوتہ بھی کرنا پڑے تو وہ کرلے بس لڑکا ذہنی طور پہ شکی نہ ہواور نہ ہی اس کے آگے کی زندگی میں مسائل کھڑے کرے، بلکہ قومی اور عالمی سطح پر اس کے کام کی پذیرائی کی صورت میں اس کا ہم قدم رہے۔ کمپیوٹر انجینئرنگ کرنیکے باوجود رشتے کے معاملے میں اس کا نصیب سور رہا تھا۔ جہاں جہاں اماں کو امید تھی۔ ان لوگوں نے اپنے بیٹوں کے رشتے حسین و جمیل اور دولت مند لڑکیوں سے طے کردیے تھے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ جب ماموں کے سب سے کم پڑھے لکھے اور کم آمدنی والے بیٹے کا رشتہ اس کے لیے آیا تو چند لمحے کو وہ سناٹے میں ہی رہ گئی۔مگر دانیال بھائی نے سفیان کو اس کے سامنے لا بٹھایا۔ سفیان کیا یہ رشتہ تمھارے کہنے پر دیا گیا ہے۔ دانیال بھائی نے سنجیدگی سے سوال کیا۔جی دانیال بھائی تشبیہ مجھے بچپن سے ہی بہت پسند ہے۔ اس کی ذہانت اور علم سے میں ہمیشہ متاثر رہا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شادی کے لیے تشبیہ سے زیادہ سمجھ دار لڑکی مجھے نہیں مل سکتا۔ اس کی سنجیدگی اس بات کی گواہ تھی کہ وہ دل و جان سے تشبیہ کاخواہاں تھااور ہر شرط اور صورت میں اسے اپنانے کے لیے تیار تھا۔
سفیان کیا تم شادی کے بعد میری پیشہ ورانہ مصروفیات سے خائف تو نہیں ہوگے؟کیا میں ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک تمھاری اجازت سے اکیلے سفر کرسکوں گی۔ تم شک تو نہیں کر وگے میرے کردار پہ؟ کیا تم میرا دوسرے مردوں سے آزادانہ بات چیت کرنا برداشت کرسکو گے؟ کیا تم میرے ساتھ مشترکہ خاندان کے بجائے علیحدہ رہنا پسند کرو گے؟ تشبیہ کے پے در پے کیے جانے والے سوالات پر چند لمحے سفیان نے خاموشی اختیار کی،پھر توقف کے بعد کہنا شروع کیا۔ تشبیہ حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے ورکنگ ویمن سے ہی شادی کرنی ہے تاکہ میں خاندانی اعتبار سے اپنے دیگر بہن بھائی اور رشتے داروں کا ساتھ دے سکوں۔ اگر کوئی گھریلو عورت میری زندگی میں آئی تو میں غربت اور تنگدستی کی چکی میں پس کر رہ جاؤں گا۔ میرے بچے اچھے اسکول میں تعلیم اور اچھی خوراک لباس اور رہائش کو ترسیں گے۔ اگر تم سے شادی کرکے میرا معیارِ زندگی بہتر ہوتا ہے تو تمھاری عزت کرنا اور کروانا میرا فرض ہے۔ جواباً میری عزت قائم رکھنا تمھارا فرض ہے۔ دوسری بات ہے کہ حقیقی زندگی فلموں ڈراموں اور خوابوں کی زندگی سے بے حد مختلف ہوتی ہے۔ تمھاری ذہانت، نوکری اور پیشہ اپنی جگہ ہے۔ مگر تمھارے ساتھ کے لوگ تمھارے ساتھ ٹائم تو ضرور پاس کریں گے، لیکن شادی کوئی نہیں کرے گا۔ جب کہ میں تمام حقائق کے ساتھ دل سے اس رشتے کا خواہش مند ہوں۔ سفیان کے لہجے کی صداقت نے دانیال بھائی کو بھی موم کردیا تھا اور وہ تشبیہ کے جواب کے منتظر تھے۔
دانیال بھائی مجھے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں۔ زندگی میں جب سمجھوتہ ہی کرنا ٹھہرا تو پھر شاید سفیان سے بہتر رشتہ میرے لیے دوسرا کوئی نہ ہو۔ تشبیہ مستحکم لہجے میں کہتی ہوئی اچھے مستقبل کی امید لیے، سفیان کے لیے چائے بنانے کچن میں چلی آئی۔جہاں اماں اور بھابھی پہلے ہی چائے ناشتے کا اہتمام کرچکی تھیں۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔