انتون چیخوف کا شاہکار افسانہ : وارڈ نمبر 6


اسپتال کے احاطے میں اسی سے متعلق ایک چھوٹی سی عمارت بنی ہوئی ہے جس کے چاروں طرف گوکھرو، بچھوا اور جنگلی سن کے پودوں کا جنگل کا جنگل کھڑا ہے۔ اس کی چھت زنگ آلود ہے، چمنی ٹکڑے ٹکڑے ہو چلی ہے، برساتی کی گلی سڑی چوبی سیڑھیوں پر گھاس اُگی ہوئی ہے اور جہاں تک دیواروں کا تعلق ہے تو انہیں غور سے دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان پر کبھی پلستر بھی کیا گیا تھا۔ اس کے سامنے کے رخ پر اسپتال ہے اور عقب میں ایک کھیت جس سے اسے باہر نکلی ہوئی ڈھیروں کیلوں والے بدرنگ جنگلے نے الگ کر رکھا ہے۔ آسمان کی طرف اشارہ کرتی ہوئی کیلوں، جنگلے اور خود اس عمارت کی خستگی کہہ رہی ہے کہ ہمارا کوئی پرسان حال نہیں اور ہمارے ہاں صرف اسپتال اور قید خانے کی عمارتیں ہی اس حالت میں ہوتی ہیں۔

بچھوے کے کانٹوں سے آپ کے رونگٹے نہ کھڑے ہوتے ہوں تو آئیے، چھوٹی عمارت تک جاتی ہوئی اس پگڈنڈی پر میرے ساتھ چلئے ذرا اندر تو جھانکیں ہم دروازہ کھولتے اور خود کو ایک گزر گاہ میں پاتے ہیں۔ اسپتال کی ردی چیزوں کے پہاڑ دیواروں اور آتش دان سے لگے کھڑے ہیں۔ گدے، پرانے اسپتالی لبادے، پتلونوں کے نیچے پہننے کے تنگ مہری کے پاجامے، دھاری دار نیلگوں قمیضیں، پُرانے جوتے۔ اس انبار میں جو کچھ بھی ہے بالکل چیتھڑوں جیسا سڑا گلا ہے، بالکل بے مصرف اور اس کی بدبو دم گھونٹنے والی ہے۔

بوڑھا ریٹائرڈ سپاہی نیکیتیا جس کی وردی کی پٹیاں پھپھوندی جیسی لگتی ہیں اور جو یہاں چوکیدار ہے، دانتوں میں پائپ دبائے کوڑے کرکٹ کے اسی انبار کے اوپر لیٹا رہتا ہے۔ اس کا سخت، کثرت بادہ نوشی سے مسخ چہرہ جھبری جھبری بھوؤں کی بناءپر بھیڑوں کی رکھوالی کرنے والے روسی کتے کے چہرے جیسا معلوم ہوتا ہے۔ لال لال ناک، چھوٹا سا قد اور دبلا پتلا جسم پھر بھی کوئی ایسی بات ہے جو اس کی وضع قطع کو رعب دار بنا دیتی ہے اور دبلا پتلا جسم پھر بھی کوئی ایسی بات ہے جو اس کی وضع قطع کو رعب دار بنا دیتی ہے اور اس کے مکے تو خاص طور سے بہت بڑے بڑے ہیں۔ وہ انہی بے لاگ، قابلِ اعتبار، کارگزار اور کوڑھ مغز لوگوں میں سے ایک ہے جو دنیا کی ہر شے سے زیادہ نظم و ضبط کی قدر کرتے اور یقین رکھتے ہیں کہ مار کے آگے بھوت بھاگے۔ وہ چہروں، سینوں اور پیٹھوں پر اندھا دھند مکے برساتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک نظم و ضبط برقرار رکھنے کی واحد صورت یہی ہے۔

یہاں سے آگے بڑھ کے آپ ایک بڑے کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور اگر گزرگاہ والی جگہ کو نہ شمار کیجئے تو سمجھئے کہ یہ ساری چھوٹی سی عمارت بس اسی کمرے ہی پر مشتمل ہے۔ دیواریں مٹیالے نیلے رنگ سے لتھڑی ہوئی ہیں، چھت اگلے وقتوں کے کسی جھونپڑے کے شہتیروں کی طرح کالک سے اٹی ہوئی ہیں اور چمنی کی عدم موجودگی سے ظاہر ہو رہا ہے کہ سردیوں میں آتش دانوں کا دھواں فضا میں زہر پھیلاتا رہتا ہے۔ کھڑکیاں جن میں اندر سے آہنی سلاخیں لگی ہوئی ہیں، انتہائی بدنما اور فرش بدرنگ اور ٹوٹا پھوٹا ہے۔ سارے ماحول میں ترش کرم کلے، دھواں نکالتے ہوئے لیمپوں، کھٹملوں اور امونیا کی بُو بسی ہوئی ہے اور اندر قدم رکھتے ہی اس بدبو کی بناءپر آپ کو ایسا لگتا ہے جیسے کسی چڑیا گھر میں داخل ہو رہے ہوں۔

پلنگوں کے پائے فرش میں جڑے ہوئے ہیں اور ان پر اسپتالی لبادے اور رات کو سوتے وقت استعمال کرنے کی قدیم طرز کی ٹوپیاں پہنے ہوئے لوگ بیٹھے یا لیٹے ہیں۔ یہ سب دماغی مریض ہیں۔

ان کی تعداد پانچ ہے۔ صرف ایک کا تعلق اونچے طبقے سے ہے اور باقی معمولی لوگ ہیں۔ دروازے سے قریب ترین پلنگ پر چمکتی ہوئی سرخ مونچھوں والا ایک دُبلا پتلا طویل قامت آدمی جس کی آنکھیں روتے روتے سرخ ہوچکی ہیں۔ سر کو اپنی مٹھیوں پر ٹکائے ہوئے بیٹھا اپنے آگے کی طرف ٹکٹکی باندھے تکے جا رہا ہے۔ وہ دن رات سر ہلاتے، ٹھنڈی سانسیں بھرتے اور تلخی سے مسکراتے ہوئے اپنے غموں کو جھیلتا رہتا ہے۔ عام گفتگو میں تو وہ کبھی کبھار شریک بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن کوئی اس سے مخاطب ہوتا ہے تو جواب کبھی بھی نہیں دیتا۔ کھانے پینے کی چیزیں لائی جاتی ہیں تو میکانکی انداز میں انہیں لے لیتا ہے۔ اس کی تکلیف دہ، تقریباً مسلسل آنے والی کھانسی اور رخساروں پر مرض کی تمتماہٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ دق کی ابتدائی منزلیں طے کر رہا ہے۔

بعد والا پلنگ ایک پستہ قد، زندہ دل اور انتہائی پھرتیلے بوڑھے کا ہے جس کی داڑھی نکیلی اور سر کے بال اتنے سیاہ اور گھنگریالے ہیں جیسے کسی نیگرو کے ہوں۔ دن کے وقت وہ کمرے میں ایک کھڑکی سے دوسری کھڑکی تک اکڑتا پھرتا ہے یا پھر اپنے پلنگ پر پالتی مار کے بیٹھے بیٹھے باری باری سے گانے والی ننھی چڑیا بل فنچ کے جیسے انتھک انداز میں سیٹیاں بجاتا، دھیرے دھیرے گاتا یا محض منہ دبا دبا کے ہنستا رہتا ہے۔ رات کو بھی وہ اپنی بچگانہ تیزی و طراری اور زندہ دلی کے مظاہرے سے نہیں چوکتا اور اٹھ کر عبادت کرتا یعنی دہرے مکے سے سینے کو پیٹتا ہے اور ہاتھ پھیلا کے دروازے کو ڈھونڈتا ٹٹولتا رہتا ہے۔ وہ ہے موئے سیئکلا، یہودی ہیٹ ساز جو گزشتہ بیس برسوں سے، اسی دن سے پاگل ہے جب سے اس کی دُکان جلا دی گئی تھی۔

وارڈ نمبر 6 کا وہی ایک ایسا باسی ہے جیسے وارڈ سے باہر نکلنے ہی کی نہیں بلکہ اسپتال کے احاطے کو پار کر کے سڑک پر جانے کی بھی اجازت حاصل ہے۔ اسے یہ مخصوص رعایت برسوں سے ملی ہوئی ہے، شاید اس لئے کہ اتنی طویل مدت سے اسپتال میں مقیم ہے، ہلڑ ہنگامہ نہیں کرتا، کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا اور اہلِ شہر کی تفریح کا سامان فراہم کرنے والا ایسا احمق ہے جس کا چھوٹے چھوٹے لڑکوں اور کتوں کے ہجوم کے درمیان نمودار ہونا روزمرہ زندگی کا ایک جزو بن چکا ہے۔ وہ اسپتالی لبادے، سوتے وقت پہننے کی واہیات ٹوپی اور چپلوں میں یا پھر ننگے پیر اور لبادے کے نیچے بالکل برہنہ حالت میں سڑکوں پر مارا مارا پھرتا اور گھروں کے پھاٹکوں اور دوکانوں کے سامنے ٹھہرٹھہر کے ایک ایک کوپیک کی بھیک مانگتا ہے۔ کہیں اسے ”کواس“ پینے کو مل جاتا ہے تو کہیں روٹی کا ایک ٹکڑا اور ایک کوپیک اور وہ مال دار اور مطمئن ہو کر واپس آ جاتا ہے۔ پر وہ جو کچھ بھی لاتا ہے اسے نیکیتا چھین لیتا ہے۔ سپاہی یہ کام بڑے غصے اور زور زبردستی کے ساتھ انجام دیتا ہے، موئے سیئکلا کی جیبیں الٹ الٹ کے تلاشی لیتا اور خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہے کہ وہ اب اس یہودی کو کبھی بھولے سے بھی باہر نہ جانے دے گا نیز یہ کہ بدنظمی سے بُرا دنیا میں اور کچھ بھی نہیں۔ موئے سئیکا میں مروت کوٹ کوٹ کے بھری ہے۔ ساتھی پیاسے ہوتے ہیں تو جاکے پانی لے آتا ہے، وہ سو جاتے ہیں تو انہیں کمبل اوڑھا دیتا ہے اور وعدہ کرتا رہتا ہے کہ شہر سے ان کے لئے ایک ایک کوپیک لے آئے گا اور نئی ٹوپیاں سی دے گا۔ یہ موئے سئیکلا ہی ہے جو اپنے مفلوج، بائیں جانب والے پڑوسی کو چمچ سے کھلاتا ہے، یہ الگ بات کہ وہ یہ کام ترس اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے نہیں بلکہ محض تقلید کے طور پر، اپنے دائیں جانب والے پڑوسی گروموف کی شخصیت سے انجانے میں اثر قبول کرکے انجام دیتا ہے۔

ایوان دمیترچ گروموف جو یہی کوئی تینتیس سال کا ہوگا، اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور کسی زمانے میں عدالت کے حکم کی تعمیل کرنے والا اور صوبائی حکومت کے ایک دفتر کا سیکرٹری رہ چکا ہے۔ وہ اس خبط میں مبتلا ہے کہ اذیت پہنچانے کے لئے اس کا مسلسل تعاقب کیا جا رہا ہے۔ وہ یا تو اپنے پلنگ پر گٹھڑی بناتا رہتا ہے یا پیچھے اور آگے کی طرف یوں چلتا ہے جیسے چہل قدمی کر رہا ہو، گھبراہٹ اور بے چینی کا غلبہ رہتا ہے، کسی غیر واضح، انجانے سانحے کی توقع اسے ہمیشہ ہی ہیجان میں مبتلا رکھتی ہے۔ گزرگاہ میں کوئی خفیف سی سرسراہٹ ہو یا احاطے میں کوئی آواز ابھرے، وہ فوراً ہی چونک کے سر اٹھاتا اور ہمہ تن گوش بن جاتا ہے۔ کیا وہ لوگ اسے لے جانے کے لئے آن پہنچے؟ کیا انہیں اسی کی تلاش ہے؟ ایسے موقعوں پر اس کا چہرہ انتہائی اضطراب اور نفرت کا تاثر پیش کرتا ہے۔

میں اس کے رخساروں کی ابھری ہوئی ہڈیوں والے کشادہ، زرد اور اداس چہرے کو پسند کرتا ہوں جو مسلسل کشمکش اور خوف سے اذیت میں مبتلا اس کی روح کی کسی آئینے کی طرح عکاسی کرتا ہے۔ منہ تو وہ ضرور عجب مریضانہ انداز سے بناتا رہتا ہے لیکن گہری اور حقیقی تکلیف نے چہرے پر جو ہلکی شکنیں ڈال دی ہیں ان سے زود حسی اور ذہانت ٹپکتی ہے اور آنکھوں سے گرمجوشی اور سوجھ بوجھ کی چمک۔ میں اس مہذب، نیک اور نیکیتا کو چھوڑ کر باقی سب کا خیال رکھنے والے شخص کو پسند کرتا ہوں۔ کسی کا کوئی بٹن یا ہاتھ سے چمچ گر جاتا ہے تو فوراً ہی پلنگ سے اتر کے اسے اٹھا دیتا ہے۔ بیدار ہونے پر ہر ایک سے ”صبح بخیر“ اور سونے سے قبل ”شب بخیر“ کہنا تو وہ کبھی بھی نہیں بھولتا۔

اس کے جنون کا اظہار منہ بنانے اور مسلسل مضطرب رہنے کے علاوہ مندرجہ ذیل طریقوں سے ہوتا ہے :

کبھی کبھی شاموں کو وہ اپنے اسپتالی لبادے کو جسم پر کس لیتا ہے، سر سے پاؤں تک کانپنے لگتا ہے، دانت بجنے لگتے ہیں اور اسی حالت میں کمرے کے اس سرے سے اس سرے تک اور پلنگوں کی درمیانی جگہوں پر تیزی سے چلنے لگتا ہے۔ اس وقت وہ شدید بخار کے مریض سے مشابہ ہوتا ہے۔ پھر وہ جس طرح اچانک ٹھہر کے ساتھیوں پر نظریں دوڑاتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے ان لوگوں سے کوئی بڑی اہم بات کرنی ہے لیکن دوسرے ہی لمحے اپنے سر کو بے صبری سے جھٹک کر دوبارہ چلنے لگتا ہے جیسے اسے احساس ہوگیا ہو کہ کوئی متوجہ نہ ہوگا۔ اور متوجہ بھی ہوگیا تو بات پلے نہ پڑے گی۔ تھوڑی ہی دیر بعد بات کرنے کی خواہش تمام مصلحتوں پر غالب آ جاتی ہے اور اس کے منہ سے الفاظ کا دھارا پھوٹ نکلتا ہے۔ اس کی یہ دھواں دھار تقریر جو تیز بخار کے مریض کے ہذیان کی طرح بے ربط ہوتی ہے، ہمیشہ تو قابلِ فہم نہیں ہوتی لیکن لفظوں اور لہجے میں ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جو عجب انداز سے دل کو چھو لیتی ہے۔ جب وہ بولتا ہے توآپ اس کے اندر کی دونوں آوازوں کو سن سکتے ہیں، ایک ہوتی ہے فرزانے کی اور دوسری دیوانے کی۔ اس کی اس جنونی بڑ کو کاغذ پر قلم بند کرنا بہت مشکل ہوگا۔ وہ باتیں کرتا ہے انسانی کمینگی کی، اس ظلم کی جو سچائی کا گلا گھونٹ دیتاہے، اس خوبصورت زندگی کی جس کا ایک روز دنیا میں ظہور ہوگا اور کھڑکیوں میں لگی ہوئی ان آہنی سلاخوں کی جو اسے ظالموں اور جابروں کی حماقت اور سنگدلی کا مسلسل احساس دلاتی رہتی ہیں۔ نتیجے کے طور پر ان گیتوں کا بے ربط اور بے سلیقہ امتزاج وجود میں آتا ہے جو ویسے تو پُرانے ہیں مگر ابھی آخر تک گائے نہیں گئے۔

بارہ یا شاید پندرہ برس ہوئے ہوں گے کہ ایک سرکاری افسر گروموف اسی قصبے کی خاص سڑک پر واقع اپنے ذاتی مکان میں عیش و آرام کے ساتھ زندگی بسر کر رہا تھا۔ اس کے دو بیٹے تھے۔ سرگیئی اور ایوان۔ سرگیئی نے یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کے ابھی تین ہی سال پورےکیے تھے کہ تیزی سے بڑھنے والی دق میں مبتلا ہو کر چل بسا۔ اس کا مرنا تھا کہ مصیبتوں نے گروموف کا جیسے گھر ہی دیکھ لیا۔ سرگیئی کی تجہیز و تکفین کے ایک ہی ہفتے بعد بوڑھے گروموف پر جعل سازی اور غبن کے الزام میں مقدمہ دائر ہوا اور کچھ ہی دنوں بعد قید خانے کے اسپتال میں ٹائفائڈ نے اس کی جان لے لی۔ اس کے گھر اور املاک کو نیلام کر دیا گیا اور ایوان دمتیرچ اور اس کی ماں کی گزر بسر کا کوئی وسیلہ باقی نہ رہ گیا۔

باپ کی زندگی میں ایوان دمتیرچ پیڑس برگ میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا، گھر سے ہر مہینے ساٹھ ستر روبل آ جاتے تھے اور کسی تنگ دستی کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔ لیکن اب وہ اپنی زندگی کو دوسرے ہی سانچے میں ڈھالنے پر مجبور ہوگیا۔ اسے صبح سے رات گئے تک سر اٹھانے کی بھی فرصت نہیں ملتی تھی، تھوڑے سے پیسوں کے لئے بچوں کو پڑھاتا، دستاویزات کی نقلیں کرتا پھر بھی پیٹ کی آگ بجھائے نہ بجھتی کیونکہ تھوڑا بہت جو کچھ ملتا اسے ماں کو بھیج دیا کرتا تھا۔ ایوان دمتیرچ اس طرح کی زندگی کے لئے بنا ہی نہ تھا، حوصلے پست ہوگئے، بیمار پڑا اور یونیورسٹی کو خیرباد کہہ کر گھر لوٹ آیا۔ یہاں با اثر دوستوں کی مدد سے اسے ضلع اسکول میں پڑھانے کی نوکری مل گئی لیکن اس کے لئے نہ دوسرے اساتذہ سے نباہ کرنا ممکن ہو رہا تھا اور نہ ہی بچوں میں کوئی مقبولیت حاصل ہو رہی تھی اس لئے جلد ہی استعفیٰ دے دیا۔ پھر اس کی ماں کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس نے چھ مہینے بیکاری میں یوں کاٹے کہ روٹی اور پانی کے سوا کسی چیز کا ذائقہ چکھنا تک نصیب نہ ہوا۔ تب اسے عدالت کے حکم کی تعمیل کرنے والے کی حیثیت سے ملازمت ملی اور اس عہدے پر خرابی صحت کی بناءپر برطرفکیے جانے تک مامور رہا۔

وہ کبھی بھی، یہاں تک کہ طالب علمی کے زمانے میں بھی ہٹا کٹا نہیں رہا تھا۔ ہمیشہ وہی دبلا پتلا جسم، پیلا پیلا چہرہ، ذرا بھی سردی لگی اور زکام نے آدبوچا، کم کھانا اور گہری نیند نہ سو پانا۔ ہلکی شراب کا بس ایک ہی گلاس اسے بیخود اور آپے سے باہر کرنے کے لئے کافی ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ ہی دوسروں میں کشش محسوس کرتا تھا۔ لیکن اپنے جھکی اور شکی مزاج کی بناءپر کسی سے کبھی گہرے مراسم نہ قائم کرسکا اور ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جسے وہ اپنا دوست کہہ سکتا۔ قصبے کے لوگوں کا ذکر وہ ہمیشہ ہی حقارت کے ساتھ کرتا اور کہا کرتا تھا کہ یہاں کے لوگوں کی جہالت اور ان کے جانوروں جیسے کاہل وجود سے اسے متلی آتی ہے۔ اس کی آواز باریک اور تیز تھی، زور زور سے جوشیلے انداز میں باتیں کرتا تھا اور ہمیشہ ہی بڑے خلوص کے ساتھ آپ اس کے سامنے کوئی بھی مسئلہ کیوں نہ چھیڑتے وہ گفتگو کو کھینچ تان کے اپنے محبوب موضوع ہی کی طرف لے آتا تھا۔ ہمارے قصبے کے ماحول میں بڑی گھٹن ہے، زندگی بڑی بے کیف ہے، اعلیٰ و ارفع دلچسپیوں سے یکسر خالی معاشرہ اپنے بے جان بے معنی وجود کو جوں توں برقرار رکھے ہوئے ہے اور اس میں جان بھی پڑتی ہے تو صرف تشدد اعلیٰ واہیات قسم کی عیاشی اور مکاری سے۔ بے ایمان گلچھرے اڑاتے ہیں، ایمان دار روز کنواں کھودتے، روز پانی پیتے ہیں، یہاں ضرورت ہے اسکولوں کی، ایک ترقی پسند مقامی اخبار کی، ایک تھیٹر، پبلک لیکچروں اور تمام دانش وروں کے اتحاد و تعاون کی، معاشرے کو ان سب باتوں کا احساس دلایا جانا چاہیے، دکھایا جانا چاہیے کہ وہ کتنا نفرت انگیز ہے۔ اپنے ہم عصروں کے متعلق فیصلے صادر کرتے وقت وہ ان کی عکاسی رنگوں کی موٹی موٹی تہیں جما کر کیا کرتا تھالیکن اس کی رنگ ملانے کی تختی پر صرف سیاہ اور سفید رنگوں ہی کو جگہ ملتی تھی، زیادہ لطیف رنگوں کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا تھا۔ دراصل اس کا خیال تھا کہ انسان یا تو بے ایمان ہوتے ہیں یا ایمان دار اور ان دونوں کے بیچ انسانوں کی کسی اور قسم کا وجود نہیں۔ عورتوں اور محبت کے بارے میں وہ بڑے پُرشوق جوش و خروش سے اظہار خیال کیا کرتا تھا حالانکہ خود کبھی محبت میں مبتلا نہیں ہوا تھا۔

وہ اپنی ان تمام نکتہ چینیوں اور اضطراری جھلاہٹ کے باوجود قصبے میں پسند کیا جاتا تھا اور پیٹھ پیچھے لوگ اسے محبت سے وانیا کہا کرتے تھے۔ اس کی نفاست پسندی، لوگوں کے کام آنے کی عادت، اعلیٰ اصول اور اخلاقی دیانت داری، اس کا پرانا کوٹ، مریضوں جیسی صورت اور ان مصیبتوں کا تصور جو اس کے خاندان پر نازل ہوئی تھیں۔ ساری چیزیں ایک دوسرے سے مل جل کر اس کے سلسلے میں گرمجوشی اور دوستی کے جذبات بیدار کرتی تھیں۔ جن میں افسوس کی آمیزش ہوتی تھی۔ اس سب کے ساتھ ہی ساتھ اس نے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی تھی اور مطالعہ بہت وسیع تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں جو اس کے علم میں نہ ہو اور اسے ایک طرح کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تصور کیا جاتا تھا۔


کتابوں کا تو وہ کیڑا تھا۔ اکثر کلب میں دیر تک بیٹھا اپنی چگی داڑھی کو اضطرابی کیفیت سے کھینچ کھینچ کر رسالوں کی ورق گردانی کیا کرتا تھا اور چہرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ پڑھ نہیں رہا ہے بلکہ ذہن کو سوچنے کا ذرا بھی موقع دیے بغیر سارے مواد کو ہڑپکیے جا رہا ہے۔ دراصل مطالعہ اس کی مریضانہ لت بن کر رہ گیا تھا کیونکہ جو کچھ بھی اس کے ہاتھ لگ جاتا تھا اس پر یکساں ندیدے پن کے ساتھ ٹوٹ پڑتا تھا۔ کہا وہ گزشتہ سال کے اخبارات یا جنتری جیسا ہی غیر دلچسپ کیوں نہ ہو۔ گھر میں ہمیشہ لیٹ کر ہی مطالعہ کیا کرتا تھا۔

خزاں کی ایک صبح کو ایوان دمتیرچ اپنے کوٹ کا کالر کھڑا کیے ہوئے کیچڑ بھری گلیوں اور عقبی احاطوں سے گزرتا ہوا عدالت کے حکم کی تعمیل کے لئے کسی کے ہاں جا رہا تھا اس کا موڈ ہر صبح کے جیسا یعنی خراب تھا۔ ایک گلی میں اس کا سامنا چار مسلح سپاہیوں کی نگرانی میں جاتے ہوئے دو قیدیوں سے ہوا جن کے ہتھکڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ایوان دمتیرچ ایسے مناظر کا عادی ہوچکا تھا اور یہ ہر بار اس کے دل میں ترس اور گھبراہٹ کے جذبات بیدار کر دیا کرتے تھے لیکن اس وقت وہ بلاسبب ہی بُری طرح متاثر ہوگیا۔ جانے کیوں اچانک اس کے دل میں خیال آیا کہ خود اسے بھی ہتھکڑی پہنا کر انہی قیدیوں کی طرح کیچڑدار سڑکوں سے قید خانے لے جایا جاسکتا ہے۔ حکم نامہ دے کر وہ گھر لوٹ رہا تھا تو راستے میں ڈاک خانے کے پاس اس کی ملاقات اپنی جان پہچان والے ایک پولیس انسپکٹر سے ہوگئی جو صاحب سلامت کے بعد چند قدموں تک اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ انسپکٹر کی اس حرکت سے جانے کیوں ایوان دمتیرچ کا ماتھا ٹھنک گیا۔ گھر پہنچنے کے بعد قیدیوں اور رائفلیں لئے ہوئے سپاہیوں کا تصور تمام دن اس کو پریشان کرتا رہا اور کسی عجیب و غریب ذہنی بے چینی نے نہ کچھ پڑھنے دیا نہ کچھ اور سوچنے۔ شام کو اس نے لیمپ نہ جلایا اور رات بھر اس اندیشے سے نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور رہی کہ اسے بھی گرفتار کرکے، ہتھکڑی پہنا کے قید خانے میں بند کیا جاسکتا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ اس سے کبھی کوئی جرم سرزد نہیں ہوا اور وہ ضمانت دے سکتا تھا کہ آئندہ بھی کبھی قتل، آتش زنی یا چوری کا مرتکب نہ ہوگا لیکن اس نے سوچا کیا یہ ممکن نہیں کہ بلا ارادہ، محض اتفاقاً ہی وہ کوئی جرم کر بیٹھے؟ اور پھر کیا مجرمانہ دھوکے یا انصاف تک کی کوتاہی جیسی باتوں کی کوئی کمی ہے؟ کیا یہ کہاوت کہ ”دارالمساکین اور زنداں سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے“ صدیوں کے تجربات کا نچوڑ نہیں ہے؟ اور عدالتی کارروائیوں کی اس وقت جو حالت ہے اس میں انصاف کی کوتاہی سے زیادہ اور کاہے کا امکان ہے؟ ججوں، پولیس کٹر افسروں اور ڈاکٹروں جیسے لوگ جو انسانی درد و غم کو محض سرکاری نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ہی ساتھ اور عادتاً بھی اتنے بے حس اور بے رحم ہو جاتے ہیں کہ وہ اگر چاہیں بھی تو ان افراد کے سلسلے میں جن سے انہیں نپٹنا پڑتا ہے، رسمی کے سوا اور کوئی بھی رویہ نہیں اپنا سکتے۔ اس معاملے میں یہ لوگ اس کسان سے ذرا بھی مختلف نہیں ہوتے جو اپنے عقبی احاطے میں بھیڑوں اور بچھڑوں کو ذبح کرتا ہے اور خون کی طرف بھولے سے بھی متوجہ نہیں ہوتا۔ اور اس رسمی اور بے رحم رویے کے مستحکم ہو جانے کے بعد جج کو کسی بے گناہ کو اس کے تمام حقوق سے محروم کرنے اور قید بامشقت کی سزا دینے کے لئے بس ایک ہی چیز درکار ہوتی ہے۔ وقت! صرف اتنا وقت جس کے دوران وہ چند رسمی کارروائیاں پوری کی جاسکیں جن کے لئے جج کو تنخواہ ملتی ہے اور بس سارا قصہ ختم ہو جائے گا۔ انصاف اور تحفظ کی تلاش اور وہ بھی اس چھوٹے سے گندے قصبے میں جو قریب ترین ریلوے اسٹیشن سے دو سو ورسٹ کے فاصلے پر واقع ہے! اور کیا انصاف کے متعلق ان حالات میں سوچنا لغو بات نہیں ہے جبکہ ظلم و جبر کے ہر اقدام کو معاشرہ معقول اورمناسب تصور کرتا ہے اور کسی قیدی کی رہائی جیسے رحم دلی کے ہر اقدام پر غیرمطمئن اور انتقامانہ جذبات کا طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے؟

اگلی صبح کو ایوان دمیترچ بستر سے اٹھا تو خوف کے مارے جان نکلی جا رہی تھی، پیشانی پر ٹھنڈا پسینہ پھوٹ نکلا تھا اور اسے یقین تھا کہ کسی بھی لمحے گرفتار کر لیا جائے گا۔ گزشتہ دن کے اذیت دہ خیالات سے کسی طرح نجات ہی نہیں مل رہی تھی اس لئے اس نے سوچا کہ ان خیالات کی یقینا کوئی نہ کوئی حقیقی وجہ ہوگی۔ ظاہر تھا کہ یہ اندیشے اس کے دل میں کسی معقول وجہ کے بغیر تو نہیں پیدا ہوسکتے تھے۔ ایک پولیس والا اس کی کھڑکی کے سامنے دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا گزرا۔ اس کا مطلب کیا تھا؟ دو افراد اس کے گھر کے سامنے ٹھہر کر خاموشی سے کھڑے ہوگئے۔ آخر خاموش کیوں تھے؟

اور اس طرح ایوان دمتیرچ کے لئے روز و شب کے ذہنی کرب کا آغاز ہوا۔ جو بھی اس کی کھڑکیوں کے سامنے سے گزرتا یا احاطے میں داخل ہوتا اسے وہ مخبر یا سراغ رساں تصور کرتا۔ ضلع پولیس انسپکٹرکو ہر روز دوپہر کے وقت اپنی دو گھوڑوں والی بگھی میں سڑک سے گزرنے کی عادت تھی۔ وہ اپنی دیہی حویلی سے پولیس کے دفتر آیا کرتا تھا لیکن ایوان دمتیرچ کو لگتا کہ گھوڑوں کی رفتار بہت تیز ہے، پولیس افسر کے چہرے پر کوئی خاص کیفیت پائی جاتی ہے اور شاید وہ جلد از جلد دفتر پہنچ کر قصبے میں نہایت ہی خطرناک مجرم کے قیام کی اطلاع دینا چاہتا ہے۔ دروازے کی گھنٹی بجتی یا پھاٹک پر کوئی دستک دیتا تو ایوان دمیترچ چونک پڑتا، مکان مالکن سے کوئی ایسا شخص ملنے آتا جس سے وہ واقف نہیں ہوتا تھا تو وہ بوکھلا اٹھتا اور کسی پولیس والے کا سامنا ہو جاتا تو وہ پرسکون نظر آنے کے لئے مسکرانے اور سیٹیوں میں کوئی دھن بجانے لگتا تھا۔ اپنی گرفتاری کے خوف سے ساری رات جاگ کے کاٹ دیتا تھا لیکن زور زور سے خراٹے لیتا رہتا تاکہ مکان مالکن سوچے کہ وہ سو رہا ہے کیونکہ اس کے خیال میں بیداری سے یہ مطلب نکالا جاسکتا تھا کہ جرم کا احساس ستا رہا ہے اور یہ کھلا ہوا اشارہ ہوتا۔ حقائق اور عقل سلیم اسے یقین دلاتے تھے کہ اس کی یہ دہشت قاتلوں کے سوا گفتگو کا اور کوئی موضوع ہی نہ رہ گیا۔ ایوان دمتیرچ فکرمند ہوگیا کہ کہیں اسی کو قاتل نہ سمجھ لیا جائے اس لئے وہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ طاری کرکے سڑکوں پر گھومنے لگا اور جب بھی کوئی واقف کار مل جاتا تو اسے یقین دلانے لگتا کہ کمزور اور نہتے کی جان لینا بدترین جرم ہے۔ اس دوران اس کے چہرے پر ایک لمحے زردی چھا جاتی تو دوسرے لمحے سرخی۔ لیکن ایک بات کو دوسری کے پردے میں چھپانے کی اس مسلسل بھاگ دوڑنے جلد ہی اسے ہلکان کر دیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ جس حالت میں وہ ہے اس میں بہترین صورت یہ ہوگی کہ تہہ خانے میں چھپ جائے۔ چنانچہ اس نے ایک دن تہہ خانے میں گزارا، ایک رات اور اگلا دن بھی، مارے سردی کے سارا جسم اکڑ سا گیا اور وہ اندھیرا ہوتے ہی چوروں کی طرح دبے پاؤں اپنے کمرے میں واپس آگیا۔ ساری رات اس نے کمرے کے وسط میں چپ چاپ کھڑے کھڑے، آوازوں پر کان لگائے لگائے کاٹ دی۔ صبح ہی صبح آتش دان بنانے والے کچھ افراد مکان مالکن کے پاس آئے۔ ایوان دمتیرچ کو ٹھیک ٹھیک معلوم تھا کہ یہ لوگ باورچی خانے کے آتش دان کی مرمت کرنے آئے ہیں لیکن خوف نے سرگوشی کی کہ ہو نہ ہو یہ پولیس والے ہی ہیں جنہوں نے بھیس بدل رکھا ہے۔ یہ خیال آتے ہی اسے نہ کوٹ پہننے کا ہوش رہا نہ ٹوپی، دبے پاؤں گھر سے نکلا اور انتہائی سراسیمگی کے عالم میں سڑک پر بھاگ کھڑا ہوا۔ بھونکتے ہوئے کتے اس کے پیچھے دوڑ پڑے، کسی شخص نے چلا کے اسے پکارا، ہوائیں اس کے کانوں میں سیٹیاں بجانے لگیں اور ایوان دمتیرچ کو لگا کہ دنیا کا سارا تشدد یکجا ہو کر اس کا تعاقب کر رہا ہے۔

اسے روک کر گھر واپس لایا گیا اور مکان مالکن نے ڈاکٹر بلوایا۔ ڈاکٹر اندریئی یفیمچ نے جس کے متعلق آگے چل کر کچھ اور بتایا جائے گا، علاج کے طور پر ٹھنڈے پانی سے تر پٹیاں اور لارل کی پٹیوں کا عرق تجویز کیا، اداسی سے سر ہلایا اور مکان مالکن سے یہ کہہ کر چلا گیا کہ وہ دوبارہ نہ آئے گا اور یہ کہ لوگوں کو پاگل ہو جانے سے روکنے کی کوشش بے سود ہے۔ ایوان دمتیرچ کے پاس گزر بسر اور علاج کے مصارف برداشت کرنے کے لئے رقم نہ تھی اس لئے اسے اسپتال بھیج دیا گیا جہاں اسے جنسی بیماریوں کے مریضوں کے وارڈ میں جگہ مل گئی۔ وہ رات کو سوتا نہیں تھا، چڑچڑاپن دکھاتا اور دوسرے مریضوں کے آرام میں خلل ڈالتا تھا اس لئے جلد ہی اندریئی یفیمچ کے حکم سے اسے وارڈ نمبر 6 میں پہنچا دیا گیا۔

سال ہی بھر میں قصبے نے ایوان دمتیرچ کو فراموش کر دیا اور اس کی کتابیں جنہیں مکان مالکن نے سائبان تلے ایک برف گاڑی پر کوڑے کی طرح ڈھیر کر دیا تھا، پڑوسی لڑکے اٹھا لے گئے۔

ایوان دمتیرچ کا بایاں پڑوسی تو جیساکہ بتایا جاچکا ہے، وہی یہودی موئے سینکا ہے اور دائیں جانب ہے بالکل کورے، انتہائی مہمل چہرے والا ایک موٹا تازہ، چکنا چپڑا کسان، ایک کاہل، پیٹو اور گندہ جانور جو عرصہ ہوا بھول چکا ہے کہ سوچنا یا محسوس کرنا کس کو کہتے ہیں اور جس کے جسم سے دم گھونٹ دینے والی تیز بدبو پھوٹتی رہتی ہے۔

نیکیتا جس کے فرائض میں اس شخص کی دیکھ بھال کرنا بھی شامل ہے، اپنی ساری قوت کے ساتھ بڑے وحشیانہ انداز میں اس کی پٹائی کرتا اور اپنے مکوں میں چوٹ لگ جانے کی بھی پروا نہیں کرتا ہے۔ لیکن یہ بات کہ اس شخص کا یوں کچومر نکالا جاتا ہے، اتنی تکلیف دہ نہیں ہے۔ آدمی ایسی چیزوں کا عادی ہو جاتا ہے۔ جتنی یہ کہ اپنی پٹائی پر یہ مخبوط الحواس درندہ کسی آواز اور اشارے سے یا پلک جھپکا کر بھی کوئی ردعمل نہیں ظاہر کرتا ہے، بس کسی وزنی پیپے کی طرح اِدھر اُدھر جھولتا رہتا ہے۔

وارڈ نمبر 6 کا پانچواں اور آخری باسی ایک مقامی آدمی ہے جو کبھی ڈاک خانے میں ڈاک چھانٹنے کا کام کیا کرتا تھا۔ دُبلا پتلا جسم، بھورے بھورے چھدرے بال اور نیک لیکن ذرا شرارتی سا چہرہ۔ ذہین آنکھوں میں اطمینان اور خوشی کی جھلک کہہ رہی ہے کہ اسے اپنا خیال رکھنا آتا ہے اور سینے میں کوئی بڑا اہم اور پُرمسرت راز چھپائے رہتا ہے، کسی کو ہوا بھی نہیں لگنے دیتا لیکن اس اندیشے سے نہیں کہ کوئی اسے چھین یا چرا لے گا بلکہ محض اپنے شرمیلے پن کی وجہ سے۔ کبھی کبھی وہ کھڑکی کے پاس جاتا ہے اور دوسروں کی طرف پیٹھکیے کیے کسی چیز کو اپنے سینے پر لٹکا کے اسے دیکھنے لگتا ہے۔ ان لمحات میں کوئی دوسرا اس کے پاس پہنچ جاتا ہے تو وہ جلدی سے اس چیز کو سینے سے ہٹا لیتا اور بُری طرح بوکھلا جاتا ہے۔ لیکن اس کے راز کو تاڑ لینا زیادہ مشکل نہیں ہے۔

”آپ مجھے مبارکباد دیجئے نا“ کبھی کبھی وہ ایوان دمیترچ سے کہتاہے۔ ”مجھے دوسرے درجے کا ستارے والا استاساؤس تمغہ دیے جانے کی سفارش کی گئی ہے۔ دوسرے درجے کا ستارے والا یہ تمغہ ویسے تو بس غیر ملکیوں ہی کو دیا جاتا ہے لیکن وہ لوگ کسی وجہ سے میرے معاملے میں کوئی رعایت کرنا چاہتے ہیں۔ “ پھر وہ مسکرا کر شانے اچکاتے ہوئے اضافہ کرتا ہے :

”میں نے تو اس کا تصور تک نہیں کیا تھا! “

”میں ان معاملات میں بالکل ہی کورا ہوں“ ایوان دمتیرچ تلخی سے جواب دیتا ہے۔

”لیکن آپ کو معلوم بھی ہے کہ دیر سویر مجھے کیا ملنے والا ہے؟ “ سابق ڈاک چھانٹنے والا عیاری کے ساتھ آنکھوں کو ذرا بھینچ کے بات جاری رکھتاہے۔ ”یقینا مجھے سوئیڈن کا“ قطب تارا ”دیا جائے گا۔ ایسے تمغے کے لئے تو انسان تھوڑی سی زحمت بھی گوارا کرسکتا ہے۔ سفید صلیب اور سیاہ ربن، کتنا خوبصورت ہوتا ہے! “

زندگی میں اتنی زیادہ یک رنگی کا ہے کو اور کہیں شاید ہی ہوگی جتنی اسپتال سے ملحق اس چھوٹی سی عمارت میں ہے۔ ہر روز صبح کو فالج کے مریض اور مٹلے کسان کو چھوڑ کر اور سب مریض برآمدے میں جا کے ایک زبردست کٹہرے میں منہ ہاتھ دھوتے اور اسپتالی لبادوں کے دامنوں سے انہیں پونچھتے ہیں۔ اس کے بعد وہ خاص عمارت سے ٹین کے ڈونگوں میں نیکیتا کی لائی ہوئی چائے پیتے ہیں۔ دوپہر کو انہیں کھانے میں ترش کرم کلے کا شوربا اور جو کا دلیا ملتا ہے اور شام کو دن کا بچا ہوا وہی دلیا۔ دونوں وقت کے کھانے کے درمیانی وقفے میں یہ لوگ اپنے پلنگوں پر لیٹے رہتے ہیں، سوتے رہتے ہیں، کھڑکیوں سے باہر تکتے یا کمرے میں ٹہلتے رہتے ہیں اور یہ روز کا معمول ہے۔ سابق ڈاک چھانٹنے والا ہمیشہ بس اپنے انہی تمغوں ہی کی رٹ لگاتا رہتا ہے۔

وارڈ نمبر 6 میں کوئی نیا چہرہ شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر نئے دماغی مریضوں کی بھرتی کبھی کا بندکرچکا ہے اور پاگل خانے میں کسی کو دیکھنے کے لئے آنے کی فکر باہری دنیا کے ذرا کم ہی لوگوں کو ہوتی ہے۔ دو مہینوں میں ایک بار حجام سیمیون لازارچ البتہ وارڈ میں قدم رکھتا ہے۔ وہ مریضوں کے بال کس طرح کاٹتا ہے، اس کام میں اس کی مدد نیکیتا کس ڈھنگ سے کرتا اور نشے میں دھت مسکراتے ہوئے حجام کو دیکھ کر مریضوں پر اچانک کیسا ہول طاری ہو جاتا ہے۔ اس سب کی تفصیل میں ہمارا نہ جانا ہی بہتر ہے۔

حجام کے سوا یہاں اور کوئی بھی اپنی صورت نہیں دکھاتا ہے۔ مریضوں کو روز اسی مصیبت کو جھیلنا پڑتا ہے جس کا نام نیکیتا ہے۔ ویسے اِدھر کچھ دنوں سے البتہ اسپتال میں ایک عجیب و غریب افواہ اڑانے لگی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ وارڈ نمبر 6 میں ڈاکٹر پابندی سے جانے لگا ہے۔

واقعی کتنی عجیب و غریب ہے یہ افواہ بھی!

ڈاکٹر اندریئی یفمیچ راگین اپنے پیشے کے اعتبار سے خاصا ممتاز شخص ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی نوجوانی میں بہت مذہبی تھا، پادری بننے کے خواب دیکھا کرتا تھا اور اس سلسلے میں 1863 ءمیں ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد کلیسائی اکیڈمی میں داخلہ لینا چاہتا تھا۔ لیکن اس کے باپ نے جو ڈاکٹر آف سائنس اور سرجن تھا، آڑے ہاتھوں لیا، کہنے لگا:

”اِدھر تم پادری بنے اور اُدھر میں نے تم کو عاق کیا۔ “ مجھے نہیں معلوم کہ اس سب میں کتنی صداقت ہے لیکن اندریئی یفمیچ کو اکثر یہ کہتے ضرور سنا ہے کہ ڈاکٹر بننے یا سائنس کے کسی دوسرے میدان میں کام کرنے کی طرف اس کی طبیعت ذرا بھی مائل نہ تھی۔

حقیقت کچھ بھی رہی ہو بہرحال ڈاکٹری کی سند لینے کے بعد وہ پادری نہ بنا۔ اپنی دین داری کے لئے تو خیر وہ کبھی بھی مشہور نہ تھا اور اس میں کسی پادری کی صفات ڈاکٹری شروع کرنے کے زمانے میں بھی بس اتنی ہی تھیں جتنی کہ اب ہیں۔

اس کی وضع قطع بھدی اور اکھڑ کسانوں کی سی ہے چہرہ، داڑھی، سیدھے بال اور طاقتور بے ڈول جسم کسی سڑک کے کنارے والے ریستوران کے شکم سیر، ضدی اور سخت مزاج مالک کی یاد دلاتے ہیں۔ نیلی نیلی رگوں کے جال سے ڈھکا ہوا بدنما چہرہ، چھوٹی چھوٹی آنکھیں اور سرخ ناک، قد لمبا ہے، شانے چوڑے چکلے اور ہاتھ پاؤں بہت بڑے بڑے، لگتا ہے کہ کسی بیل پر زور دار مکا رسید کر دے تو بیچارا ڈھیر ہو جائے۔ لیکن اس کی چال سے البتہ عجب نرمی اور احتیاط جھلکتی ہے، چوروں کی طرح دبے دبے قدم اٹھاتا ہے۔ تنگ گزر گاہ میں کسی کا سامنا ہو جاتا ہے تو ٹھہر کے راستہ دینے میں پہل ہمیشہ وہی کرتا اور ”معاف کیجئے گا! “ کہتا ہے لیکن بھاری آواز میں نہیں جیساکہ آپ توقع کر رہے ہوں گے بلکہ دھیمی اور نرم آواز میں۔ گردن پر چھوٹی سی رسولی ہونے کی بنا پر بہت سخت کالر استعمال نہیں کرسکتا اس لئے ہمیشہ ہی سنکے کپڑے کی یا سوتی نرم قمیضیں ہی پہنتا ہے۔ عام ڈاکٹروں جیسی خوش لباسی سے اسے دور کی بھی نسبت نہیں۔ ایک ہی سوٹ میں دس سال کاٹ دیتا ہے اور نیا سوٹ بھی جسے وہ عموماً یہودی والی بنے بنائے کپڑوں کی دُکان سے خریدتا ہے، اس کے جسم پر پہنچ کر اسی سابق سوٹ کی طرح پرانا اور ملگجا معلوم ہونے لگتا ہے۔ اسی ایک سوٹ کو پہنے پہنے وہ مریضوں کو دیکھتا ہے، کھانا کھاتا ہے اور دوستوں کے ہاں جاتا ہے پر اس کے پیچھے اس کی کنجوسی یا کسی اور بات کا نہیں صرف اپنی وضع قطع کی طرف سے یکسر لاپروائی کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔


ٹالسٹائی ، گورکی اور چیخوف

اندریئی یفمیچ اپنا عہدہ سنبھالنے کے لئے قصبے میں آیا تو یہ ”خیراتی ادارہ“ عجب زبوں حالی کا شکار تھا۔ وارڈوں، ان کی درمیانی گزرگاہوں اور اسپتال کے احاطے میں بدبو کے مارے سانس لینا محال تھا۔ اسپتال کے خدمت گار، نرسیں اور ان کے افراد خاندان وارڈوں میں مریضوں کے ساتھ رات بسر کیا کرتے تھے۔ ہر شخص شاکی تھا کہ تل چٹوں، کھٹملوں اور چوہوں نے زندگی عذاب کر رکھی ہے۔ سرجیکل شعبہ حمرہ کے مریضوں سے کبھی بھی خالی نہیں رہتا تھا۔ سارے اسپتال میں آپریشن کرنے کے چاقو صرف دو تھے، تھرما میٹر ایک بھی نہیں تھا اور غسل کرنے کے ٹب آلو رکھنے کے لئے استعمالکیے جاتے تھے۔ سپرنٹنڈنٹ، میٹرن اور طبی معاون مریضوں کی غذا ہتھیا لیتے تھے اور جہاں تک اس بوڑھے ڈاکٹر کا تعلق ہے جو اندریئی یفمیچ سے پہلے اس عہدے پر مامور تھا تو کہا جاتا تھا کہ وہ اسپتال کو ملنے والی اسپرٹ چوری چھپے بیچ لیا کرتا تھا اور اس نے اپنے لئے منتخب نرسوں اور مریضوں کا اچھا خاصا حرم سا قائم کر رکھا تھا۔ قصبے کے لوگوں سے یہ ساری شرمناک صورتِ حال کچھ ڈھکی چھپی نہ تھی، وہ تو اسے بڑھا چڑھا کے بھی بیان کیا کرتے تھے لیکن کچھ کرنے کرانے کی فکر جیسے کسی کو بھی نہ تھی۔ کچھ لوگ تو یہ کہہ کے معاملے کو ٹال دیتے تھے کہ اسپتال میں کسانوں اور نچلے طبقوں کے مریضوں ہی کا تو علاج ہوتا ہے اور انہیں کوئی شکایت کیسے ہوسکتی ہے جبکہ ان کے گھروں کے حالات اسپتال سے کہیں بدتر ہیں۔ ایسے کنگالوں کو تیتر کھلائے جائیں کیا؟ دوسروں کی دلیل یہ تھی کہ قصبے سے یہ توقع ہی عبث ہے کہ زیمستوو کی امداد کے بغیر کوئی ٹھکانے کا اسپتال چلاتا رہے۔ لوگوں کو تو احسان مند ہونا چاہیے کہ اسپتال قائم ہے، خراب ہے تو کیا ہوا اور زیمستوو نے جس کے قیام کو خود ہی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا، قصبے یا قرب و جوار میں اپنا اسپتال نہ کھولا کیونکہ جیسا کہ ان لوگوں کا کہنا تھا، ایک اسپتال تو موجود ہی تھا۔

اندریئی یفمیچ نے پہلے ہی روز اسپتال کے معائنے کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ یہ تو بدمعاشی کا اڈا اور صحت عامہ کے لئے انتہائی مضر ادارہ ہے۔ اس نے سوچا، بہترین بات یہ ہوگی کہ مریضوں کو چھٹی دے کر اسپتال میں تالا ڈال دیا جائے۔ پھر اسے خیال آیا کہ اسپتال بند کر دینے کے لئے خالی اسی کی خواہش نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ درکار ہوگا ا ورجیسے اس سے کچھ حاصل بھی نہ ہوگا۔ ایک جگہ کی تمام اخلاقی اور مادی غلاظتوں کو جھاڑ بھار کر الگ کر دیا جاتا ہے تو وہ یقینا کسی دوسری جگہ ڈھیر ہو جاتی ہے، آدمی کو اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے جب یہ غلاظتیں خودبخود کافور ہو جائیں۔ یہ بات بھی سوچنے کی تھی کہ یہاں کے لوگوں نے اسپتال کھولا ہے، اسے برداشتکیے جا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اس کی ضرورت بھی ہے۔ جاہلانہ تعصب اور روزمرہ زندگی کی یہ ساری غلاظت اور گھناؤنے افعال ضروری ہیں کیونکہ وقت آنے پر انہیں کسی کام کی چیز میں تبدیل کیا جاسکے گا جیسے کہ گوبر زرخیز مٹی میں بدل جاتا ہے۔ دنیا میں ایسی کوئی لطافت نہیں جس نے کثافت کے پیٹ سے جنم نہ لیا ہو۔

اندریئی یفمیچ نے اپنے ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد اسپتال کی اس ساری بدنظمی کی طرف سے ایک لحاظ سے آنکھیں ہی بند کر لیں۔ اس نے خدمت گاروں اور نرسوں کو وارڈوں میں رات بسر کرنے سے روک دیا، آپریشن کے آلات رکھنے کے لئے دو الماریاں منگوا لیں اور بس۔ سپرنٹنڈنٹ، میٹرن اور حمرہ کے مریض سب اپنی اپنی جگہ پر پہلے ہی کی طرح ڈٹے رہے۔

اندریئی یفمیچ عقل مندی اور ایمان داری کی بے حد قدر کرتا ہے لیکن خود اپنے اردگرد کی زندگی کوعقل مندی اور ایمانداری کی بنیادوں پر منظم کرنے کے لئے نہ اس کے اندر کردار کی قوت ہے اور نہ ہی اپنے حقوق پر اعتماد۔ حکم دینے، کسی بات پر روک لگانے اور کسی فیصلے کو اصرار کرکے منوانے کے لئے دراصل وہ بنا ہی نہیں ہے۔ لگتا ہے جیسے اس نے قسم کھا رکھی ہے کہ کبھی بھی نہ اپنی آواز اونچی کرے گا نہ تحکمانہ لہجہ اپنائے گا۔ ”مجھے دیجئے“ یا ”میرے لئے لے آئیے“ کہتے ہوئے جیسے اس کی زبان لڑکھڑاتی ہو۔ بھوک لگتی ہے تو ہچکچاہٹ کے ساتھ کھانستا اور اپنی باورچن سے کہتا ہے : ”چائے کیسی رہے گی؟ “ یا ”کھانے کے متعلق کیا خیال ہے؟ “ اور جہاں تک سپرنٹنڈنٹ کو چوری سے منع یا اسے برطرف کر دینے یا اس غیر ضروری عہدے کو سرے سے ختم ہی کر دینے کا سوال ہے تو یہ باتیں بالکل اس کے بس ہی کی نہیں ہیں۔ لوگ اندریئی یفمیچ سے جھوٹ بولتے ہیں، چاپلوسی کرتے یا کسی صریحاً جعلی حساب کو اس کے پاس دستخط کرانے کے لئے لاتے ہیں تو اس کا چہرہ تمتما اٹھتا ہے اور وہ خود کو مجرم تصور کرتے ہوئے جلدی سے کاغذ پر دستخط کر دیتا ہے۔ مریض اس سے بھوکے ہونے یا عملے کے ظالمانہ رویے کی شکایت کرتے ہیں تو وہ بوکھلا جاتاہے اور بڑے معذرتی انداز میں منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہے :

”اچھی بات ہے، میں اس معاملے کو دیکھ لوں گا۔ ضرور کوئی غلط فہمی ہوگئی ہوگی۔ “

ابتدائی ایام میں اندریئی یفمیچ نے بڑے جوش و خروش سے کام کیا، دن کے کھانے کے وقت تک باہری مریضوں کو دیکھتا، آپریشن کرتا اور بچوں کی ولادت کے معاملات تک نپٹاتا رہتا تھا۔ عورتیں کہتی تھیں کہ وہ مریضوں پر بہت توجہ مبذول کرتا ہے اور بیماریوں خاص طور پر عورتوں اور بچوں کی بیماریوں کی تشخیص کے معاملے میں تو اس کا کوئی جواب ہی نہیں۔ پر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا وہ اکتا دینے والی یکسانیت اور کام کے صریحی طور پر غیر موثر ہونے کی وجہ سے بددل ہوتا گیا۔ ایک روز اسے تیس مریض دیکھنے پڑتے، دوسرے روز پینتیس اور تیسرے روز چالیس اور یہ سلسلہ روز بہ روز، سال بہ سال یونہی جاری رہا، قصبے کی شرح اموات گھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اور ہمیشہ ہی نئے مریضوں کا تانتا سا بندھا رہتا تھا۔ ہر صبح کو جوچالیس مریض اسپتال آتے تھے ان سب کی حالت پر غور سے توجہ دینے کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ لاکھ جتن کیوں نہ کرتا اس کا کام محض ڈھونگ ہی تھا۔ کسی سال کے دوران اگر وہ 12000 باہری مریضوں کو دیکھتا تھا تو اس کا مطلب دو اور دو چار کے حساب سے بھی صرف یہی ہوتا تھا کہ 12000 مردوں اور عورتوں کو فریب دیا گیا۔ یہی نہیں، جن مریضوں کی حالت زیادہ خراب ہوتی انہیں اسپتال میں بھرتی کرکے سائنسی اصولوں سے علاج کرنا بھی ناممکن تھا کیونکہ اصول تو بہت سے تھے مگر سائنس کا کہیں نام و نشان نہ تھا اور فلسفے سے قطع نظر صرف اصولوں ہی کی دوسرے ڈاکٹروں جیسے اصول پرستانہ انداز میں پابندی نے سب سے پہلے مطالبہ کیا ہوتا غلاظت کا نہیں بلکہ صفائی اور تازہ ہوا کے انتظام کا، ترش کرم کلے کے بدبودار شوربے کا نہیں بلکہ صحت بخش غذا کا، چوروں کا نہیں بلکہ ہمدرد خدمت گاروں کا۔

وہ یہ بھی سوچتا کہ جب زندگی کا عام اور جائز انجام موت ہی ہے تو آخر لوگوں کو مرنے سے روکا کیوں جائے؟ کسی دوکان دار یا کلرک کی زندگی میں پانچ دس برسوں کا اضافہ ہی ہو جائے تو اس سے حاصل کیا؟ اور اگر معاملے کا مقصد دوائیں دے کر تکلیف کو کم کرنا ہے تو ناگزیر طور پر سوال اٹھتا ہے۔ تکلیف کو آخر کم کیوں کیا جائے؟ اول تو تکلیف کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حصول کاملیت میں انسان کی مدد کرتی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر بنی نوع انسان نے گولیوں اور سفوف کے ذریعے تکلیف کو کم کرنا سیکھ لیا تو لوگ مذہب اور فلسفے کو بالائے طاق رکھ دیں گے جن میں انہیں اب تک صرف تمام برائیوں سے نجات ہی نہیں بلکہ خود مسرت بھی ملتی رہی ہے۔ پشکن نے بستر مرگ پر تڑپا دینے والی تکالیف برداشت کیں ہیں۔ انتقال سے قبل برسوں مفلوج پڑا رہا تو پھر کوئی اندریئی یفمیچ یا کوئی ماتریونا ساوشنا جس کی حقیر زندگی تکلیف سے محروم ہو کر سب سے چھوٹے کیڑے کی زندگی جیسی غیر اہم ہو جائے گی، آخر تکلیف سے نجات کیوں پائے؟

اس قسم کے خیالات سے مغلوب ہو کر اندریئی یفمیچ بددلی کا شکار ہوگیا اس نے اسپتال ہر روز جانا بند کر دیا۔

اس کا روز کا معمول کچھ یوں ہے۔ صبح کو تقریباً آٹھ بجے اٹھ کر کپڑے پہنتا اور چائے پیتا ہے۔ پھر وہ یا تو اپنے مطالعے کے کمرے میں بیٹھ کر کچھ پڑھنے لگتا ہے یا اسپتال چلا جاتا ہے۔ اسے وارڈوں کی درمیانی تنگ اور تاریک گزرگاہ میں باہری مریض بھرتیکیے جانے کا انتظار کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ ان کے قریب سے اسپتال کی خادمائیں اور خدمت گار اینٹوں کے فرش پر اپنے اپنے لانگ بوٹوں سے کھٹ کھٹ کرتے تیزی سے گزر رہے ہوتے ہیں، بھرتی مریض لاغر جسموں کو لبادوں میں لئے اِدھر اُدھر ٹہلتے رہتے ہیں، لاشیں اور رات کی آلائش کے برتن باہر نکالے جا رہے ہوتے ہیں، بچوں کے رونے کی آوازیں گونجتی ہوتی ہیں اور تیز ہوا کے جھونکے گزرگاہ کو جھنجھوڑتے سے معلوم ہوتے ہیں۔ اندریئی یفمیچ کو بخوبی احساس ہوتا ہے کہ اس قسم کے حالات، بخار، دق یا محض اعصابی بیماریوں کے مریضوں کے لئے سخت اذیت دہ ہوتے ہیں لیکن اس سلسلے میں کیا ہی کیا جاسکتا ہے؟ خیر مقدمی کمرے میں ایک گول مٹول پستہ قد، پھولے پھولے سے، اچھی طرح شیوکیے اور خوب دھلے ہوئے چہرے والا خوش اخلاق آدمی سر گیئچ جو اس کا نائب ہے لیکن اپنے نئے، ذرا ڈھیلے سے سوٹ اور وضع قطع کے ساتھ طبی معاون سے کہیں زیادہ کسی سٹیٹ کا ممبر معلوم ہوتا ہے اس کا خیر مقدم کرتا ہے۔ قصبے میں اس کی نجی پریکٹس زوروں کے ساتھ چل رہی ہے، سفید ٹائی باندھتا اور خود کو ڈاکٹر سے زیادہ قابلِ تصور کرتا ہے جس کی کوئی نجی پریکٹس نہیں ہے۔ اس کمرے کے ایک گوشے میں پردے کے ذریعے مقدس تصویر لگانے کی مخصوص جگہ بنائی گئی جہاں بڑی سی تصویر لگی ہوئی ہے۔ اس کے سامنے بھاری بھرکم آہنی لیمپ لٹک رہا ہے اور قریب ہی سفید کپڑے میں لپٹی ہوئی نذر کی موم بتیوں کے لئے ایک شمع دان رکھا ہوا ہے۔ بشپوں کی تصاویر سویا تو گورسک خانقاہ کی ایک تصویر اور خشک پھولوں کے ہار دیواروں کی زینت بڑھا رہے ہیں۔ سرگیئی سرگیئچ بڑا مذہبی آدمی اور کلیسائی آداب کا کٹر حامی ہے۔ اسپتال میں مقدس تصویراسی نے رکھوائی تھی ہر اتوار کو وہ کسی مریض سے دُعا پڑھواتا ہے جس کے بعد وہ خود مختلف وارڈوں میں جاتا اور خود ان کو آگے پیچھے ہلا ہلا کر عود کی خوشبو پھیلاتا ہے۔

مریض بہت ہوتے ہیں اور وقت کم اس لئے ڈاکٹر ہر مریض سے جلدی جلدی چند سوال پوچھ کے دوا کے طور پر عموماً لیپ کے ساتھ مالش یا کیسٹر آئل تجویز کر دیتا ہے اور بس۔ اندریئی یفمیچ اپنی مٹھی پر سر ٹکا کے خیالوں میں غرق ہو جاتا ہے اور میکانکی انداز میں مریضوں سے سوالات کرنے لگتا ہے۔ سرگیئی سرگیئچ بھی پاس ہی بیٹھا ہوا ہاتھ ملتا رہتا ہے اور کبھی کبھار بول پڑتا ہے۔ ”ہم بیماریوں اور افلاس کی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ “ وہ کہتا ہے ”کیونکہ خدائے رحیم و کریم کی عبادت نہیں کرتے۔ یہ ہے قصہ۔ “

اندریئی یفمیچ باہری مریضوں کو دیکھتے وقت کوئی آپریشن نہیں کرتا۔ آپریشن کرنے کی عادت جانے کبھی کی چھوٹ چکی ہے اور اب تو وہ خون کو دیکھ کے بھی بوکھلا جاتا ہے۔ اسے کسی بچے کا منہ کھول کر حلق دیکھنا پڑتا ہے اور بچہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اسے الگ دھکیلنے کی کوشش کرتا اور چیخنے چلانے لگتا ہے تو اندریئی یفمیچ کا سر چکر جانے لگتا ہے اور آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ وہ جلدی جلدی نسخہ لکھتے ہی اپنے ہاتھوں کو لہرا کر ماں کو اشارہ کرتا ہے کہ اسے لے جاؤ۔

وہ جلد ہی مریضوں کے بودے پن اور حماقت سے، مذہبی رسوم کے دلدادہ سرگیئی سرگئیچ کی موجودگی سے دیواروں پر آویزاں تصاویر اور خود اپنے سوالات سے عاجز آ جاتا ہے جن میں وہ گزشتہ بیس برسوں میں کوئی تنوع پیدا نہیں کرسکا۔ آخر پانچ چھ مریضوں کو دیکھنے کے بعد وہ گھر لوٹ جاتا ہے۔ باقیوں کو اس کا نائب دیکھتا ہے۔

گھر گھر پہنچتے ہی وہ اس خوشگوار احساس کے ساتھ کہ خدا کا شکر ہے نجی پریکٹس سے عرصہ ہوا دامن چھڑا چکا ہے اور کوئی اسے دق کرنے نہ آئے گا اپنی کتابوں کی دنیا میں کھو جاتا ہے۔ مطالعہ وہ بہت کرتا ہے اور ہمیشہ ہی بہت خوشی خوشی۔ اس کی نصف تنخواہ کتابوں ہی پر نکل جاتی ہے اور گھر کے چھ کمروں میں سے تین کتابوں اور پرانے رسالوں ہی سے ٹھساٹھس بھرے ہوئے ہیں۔ اس کے مطالعے کا محبوب میدان تاریخ اور فلسفے کا ہے صرف ایک ہی طبی رسالے ”ڈاکٹر“ کا وہ خریدار ہے جس کا مطالعہ ہمیشہ ہی آخری صفحے سے شروع کرتا ہے۔ وہ گھنٹوں مسلسل پڑھتا ہے اور ذرا بھی تھکن نہیں محسوس کرتا۔ لیکن اس کے مطالعے میں جلدی جلدی ورق الٹنے کا وہ انداز نہیں پایا جاتا جو کسی زمانے میں ایوان دمیترچ کا تھا۔ وہ دھیرے دھیرے سمجھ سمجھ کر پڑھتا ہے اور اکثر ان جگہوں پر ٹھہر جاتا ہے جو اسے مسرت عطا کرتی یا سمجھنے میں دشوار ثابت ہوتی ہیں۔ کتاب کے پاس ہی شیشے کی صراحی میں واڈکا رکھی رہتی ہے اور میز کی باناتی بالائی سطح پر اس کے ٹھیک سامنے نمک لگا کھیرا یا کوئی مسالے دار سیب۔ وہ ہر نصف گھنٹے کے بعد صفحے سے نظریں ہٹائے بغیر ہی شراب گلاس میں انڈیل کے پی لیتا ہے، ٹٹول کے کھیرے کو اٹھاتا اور اس کا ٹکڑا کاٹ کر کھانے لگتا ہے۔

تین بجے چپکے چپکے باورچی خانے کے دروازے پر پہنچ کے دھیرے سے کھانستا اور کہتا ہے :

”ارے واریا، ڈنر کے متعلق کیا خیال ہے؟ “

بدسلیقگی سے لگائے ہوئے بے ذائقہ کھانے سے نپٹ کر اندریئی یفمیچ دونوں بازوؤں کو سینے پر موڑے موڑے مختلف کمروں میں ٹہلنا اور سوچنا شروع کر دیتاہے۔ دیواری گھڑی چار بجاتی ہے پھر پانچ مگر اندریئی یفمیچ کے ٹہلنے اور سوچنے کا سلسلے جاری رہتا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد باورچی خانے کا دروازہ چرمراتا اور داریا کا لال لال بدنما چہرہ نمودار ہوتا ہے۔

”اندریئی یفمیچ، آپ کو بیئر تو نہ چاہیے؟ “ وہ ذرا تشویش بھرے لہجے میں پوچھتی۔

”نہیں، ابھی وقت نہیں ہوا“ وہ جواب دیتاہے۔ ”ذرا دیر بعد۔ “

شام ہونے لگتی ہے تو پوسٹ ماسٹر میخائل آویریانچ، قصبے کا واحد شخص جس کی رفاقت اندریئی یفمیچ کو گراں نہیں گزرتی، اس سے ملنے آتا ہے۔ یہ میخائل آویریانچ اپنے اچھے دنوں میں دولت مند زمیندار تھا، گھڑ سوار دستے میں بھی خدمات انجام دی تھیں لیکن بُرے دن دیکھے تو ایسے کہ دو وقت کی روٹی کے لئے بڑھاپے میں ڈاک خانے میں نوکری کرنا پڑی۔ دیکھنے میں تندرست اور توانا، بڑے بڑے سفید گل مچھے، مہذب اور شائستہ، آواز کافی اونچی لیکن خوشگوار۔ بڑا نیک اور زور حس آدمی ہے، پرمزاجاً کافی تند و تیز۔ ڈاک خانے جانے والے کسی شخص نے اِدھر کسی بات پر اختلاف ظاہر کیا یا یوں ہی کوئی بحث چھیڑ دی اور اِدھر میخائل آویریانچ کا چہرہ لال انگارہ ہوگیا، جسم کانپنے لگا اور دوسرے ہی لمحے اس کی گرجدار چیخ سارے ماحول میں گونج اٹھتی ہے :

”خاموش! “ یہی وجہ ہے کہ ڈاک خانے کو عرصے سے ناقابلِ تسخیر قلعہ تصور کیا جاتا ہے۔ میخائل آویریانچ اندریئی یفمیچ کی علمیت، شرافت اور وسیع الخیالی کی وجہ سے اسے پسند اور اس کی عزت کرتا ہے لیکن باقی سب کو کم تر سمجھتا اور حقارت بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔

”یہ لیجیے، میں آدھمکا! “ وہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے زور سے چلاتا ہے۔

”کہئے کیا حال ہے، میرے دوست؟ شاید آپ مجھ سے تنگ آ چکے ہوں گے، ہے نا؟ “

”بالکل نہیں، بالکل نہیں“ ڈاکٹر جواب دیتا ہے۔ ”آپ بخوبی جانتے ہیں کہ آپ کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی ہے۔ “

دونوں دوست مطالعے کے کمرے میں صوفے پر بیٹھ کر ذرا دیر تک خاموشی سے سگریٹ پیتے رہتے ہیں۔

وارڈ نمبر 6 پر 2009ء میں بننے والی فلم کا ایک منظر

”بھئی واریا، کچھ بیئر پی جائے تو کیسا رہے گا؟ “ ڈاکٹر پوچھتا ہے۔

پہلی بوتل اسی خاموشی کے عالم میں خالی کر دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر اداس اور کھویا کھویا سا نظر آتا ہے جبکہ میخائل آویریانچ انتہائی خوش و خرم، بالکل اس شخص کے جیسا جو ہنسنے ہنسانے والی بات کہنے جا رہا ہو۔ گفتگو کا آغاز عموماً ڈاکٹر ہی کرتا ہے۔

”ہے نا افسوس کی بات“ وہ سر کی ہلکی سی جنبش کے ساتھ اور اپنے دوست کے چہرے کی طرف دیکھے بغیر (کسی کے چہرے کی طرف وہ کبھی دیکھتا ہی نہیں ) نیچی آواز میں دھیرے دھیرے کہنا شروع کرتا ہے، ”میں کہتا ہوں، عزیز دوست میخائل آویریانچ ہے نا افسوس کی بات کہ ہمارے قصبے میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جسے دلچسپ اور دانش ورانہ گفتگو کی ذرا بھی فکر ہو یا جو اس کی اہلیت رکھتا ہو؟ یہ ہماری بہت بڑی محرومی ہے۔ حالت تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقات بھی حقیر چیزوں سے بلند نہیں ہو پاتے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کا ذہنی ارتقاءبھی کسی لحاظ سے نچلے طبقات سے بہتر نہیں۔ “

”سچ ہے۔ میں سو فیصدی متفق ہوں۔ “

”یقینا آپ جانتے ہی ہیں“ ڈاکٹر اسی انداز سے دھیرے دھیرے بات جاری رکھتا ہے۔ ”کہ ذہن انسانی کے اعلیٰ و ارفع روحانی اظہارات کے سوا دنیا کی ہر شے غیر اہم اور غیر دلچسپ ہے۔ یہ ذہن ہی تو ہے جو انسان اور حیوان کے درمیان حد بندی لکیر کھینچتا ہے، اول الذکر کی مقدس فطرت کی جھلک دکھاتا اور ایک لحاظ سے غیر موجود حیات ابدی کی جگہ بھی لے لیتا ہے۔ اس تمہید سے آگے بڑھئے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ ذہن ہی مسرت کا واحد وسیلہ ہے۔ ہم اپنے ماحول میں ذہن جیسی کسی شے کو نہ دیکھتے اور نہ ہی اس کے بارے میں کچھ سنتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم مسرتوں سے محروم ہیں۔ یہ تو سچ ہے کہ کتابیں ہماری رفیق ہیں لیکن کتابیں گفتگو اور نجی رابطے کی جگہ تو نہیں لے سکتیں۔ اگر مجھے آپ ایک استعارہ استعمال کرنے کی اجازت دیں اور مجھے ڈر ہے کہ یہ زیادہ خوشگوار نہیں۔ تو میں عرض کروں گا کہ کتابیں مطبوعہ موسیقی ہیں اور گفتگو۔ گانا۔ “

”بالکل سچ ہے۔ “

خاموشی چھا جاتی ہے۔ واریا چہرے پر بے زبان غم کے تاثر کے ساتھ باورچی خانے سے نکل کے دروازے میں آ کھڑی ہوتی ہے اور رخسار کو مٹھی پر ٹکا کر سننے لگتی ہے۔

”آہ“ میخائل آویریانچ ٹھنڈی سانس بھرتاہے۔ ”اور آپ کا خیال ہے کہ ان دنوں لوگوں کی کھوپڑی میں ذہن بھی ہوتے ہیں! “

اور وہ اگلے وقتوں کا ذکر چھیڑ دیتا ہے جب زندگی صحت مند، پرمسرت اور دلچسپ تھی، قدیم روس کے تعلیم یافتہ طبقات کی باتیں کرنے لگتا ہے جو آن بان اور دوستی پر جان دیتے تھے۔ لوگ کسی لکھا پڑھی کے بغیر ہی رقمیں ادھار دے دیا کرتے تھے اور کسی دوست کی پریشانی میں کام نہ آنے کو انتہائی شرمناک بات تصور کیا جاتا تھا۔ فوجی معرکے، مہمیں، جھڑپیں، دوستیاں، عورتیں! اور قفقاز۔ کیا شاندار سرزمین تھی! ایک بٹالین کمانڈر کی بیوی بھی کیسی سنکی تھی، افسروں کی یونیفارم پہن کر ہر شام کو تن تنہا گھوڑا دوڑاتی پہاڑوں میں نکل جاتی تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اس نے کسی کوہستانی گاؤں میں ایک کنیاز سے آشنائی کر رکھی ہے۔

”اوہ، مقدس ماں! ۔ “ واریا ٹھنڈی سانس بھرتی ہے۔

”اور کیسی کیسی مے نوشیاں ہوتی تھیں! کیسی کیسی ضیافتیں! اور کتنے جانباز آزاد خیال تھے ہم لوگ! “

اندریئی یفمیچ اس کی باتیں نہ سننے کی طرح سنتا رہتا ہے۔ وہ تو بیئر کی چُسکیاں لے لے کر کچھ اور ہی سوچا کرتا ہے۔

”میں اکثر ذہین لوگوں کے خوابوں میں کھویا رہتا ہوں، ان سے باتیں کرتا رہتا ہوں۔ “ اچانک وہ بیچ میں بول پڑتاہے۔

”میرے والد نے مجھے بڑی شاندار تعلیم دلائی تھی لیکن ساتویں دہائی کے خیالوں سے متاثر ہوکر انہوں نے مجھے ڈاکٹری پڑھنے پر مجبور کر دیا۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ ان دنوں میں نے والد کی مرضی کے سامنے سر نہ جھکا دیا ہوتا تو آج کسی دانش ورانہ تحریک میں پیش پیش ہوتا۔ شاید میں اس وقت کسی یونیورسٹی کے تدریسی عملے میں شامل ہوتا۔ ظاہر ہے کہ ذہن جاوداں نہیں، دوسری تمام چیزوں ہی کی طرح ذہن بھی فانی ہے لیکن میں آپ سے وضاحت کرچکا ہوں کہ اسے اتنی زیادہ اہمیت کیوں دیتا ہوں۔ زندگی ایک مصیبت انگیز کھٹکے دار پنجرے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ جیسے ہی کوئی دانش ور ذہنی بلوغ کی منزل پر پہنچ کر شعوری غور و فکر کے قابل ہو جاتا ہے ویسے ہی یہ محسوسکیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ ایک کھٹکے دار پنجرے کے اندر بند ہوگیا ہے جس سے باہر نکلنے کا کوئی دروازہ نہیں۔ اگر آپ غور کریں تو اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ اسے اس کی مرضی کے خلاف اور محض اتفاقی اسباب کی بناءپر عدم وجود سے وجود میں لایا گیا ہے۔ کاہے کے لئے؟ اگر وہ اپنے وجود کا مفہوم و مقصد معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یا تو اسے کوئی جواب نہیں ملتا یا پھر طرح طرح کی لغو باتیں بتاتی جاتی ہیں۔ وہ بار بار کھٹکھٹاتا ہے لیکن پنجرے کے دروازے کو کوئی بھی نہیں کھولتا اور اسے موت آجاتی ہے۔ وہ بھی اس کی مرضی کے خلاف ہی اور جس طرح مشترکہ بدبختی سے متحد قیدی ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا موقع پا کر ذرا خوش ہو جاتے ہیں اسی طرح تجزیہ و تفہیم کا رجحان رکھنے والے افراد ایک دوسرے کی طرف کھینچتے ہیں اور کھٹکے دار پنجرے میں اپنے بند ہونے کا احساسکیے بغیر بلند اور غیر مفید خیالات کا تبادلہ کرکے وقت کاٹتے رہتے ہیں۔ اس لحاظ سے ذہن لاثانی اطمینان کا وسیلہ ہے۔ “

”بالکل سچ ہے۔ “

اندریئی یفمیچ اپنے ہم کلام سے آنکھیں نہ چار کرتے ہوئے یوں ہی دھیمے، ہچکچاتے ہوئے لہجے میں ذہین لوگوں اور ان سے گفتگو کرکے حاصل ہونے والی مسرت کے متعلق باتیں کرتا رہتا ہے۔ میخائل آویریانچ غور سے سنتا اور کبھی کبھی اپنے ”بالکل سچ ہے“ کا اضافہ کرتا رہتا ہے۔

”لیکن آپ روح کے جاوداں ہونے میں یقین نہیں رکھتے کیا؟ “ پوسٹ ماسٹر اچانک پوچھ بیٹھتا ہے۔

”نہیں، میرے پیارے میخائل آویریانچ، نہ میں یقین رکھتا ہوں اور نہ ہی اس یقین کے لئے میرے پاس کوئی وجہ ہے۔ “

”سچ پوچھئے تو خود مجھے بھی اس کے بارے میں شک ہے۔ اس کے برعکس مجھے تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ میں کبھی مروں گا ہی نہیں۔ کبھی کبھی میں اپنے آپ سے کہتا ہوں۔ “

”بڑے میاں، اب تو مرنے کی گھڑی قریب آچلی! لیکن کوئی ذرا سی آواز سرگوشی کرتی ہے۔ “

”اس پر یقین نہ کرو، تم کبھی نہ مرو گے! ۔ “

نو بجے کے کچھ ہی دیر بعد میخائل آویریانچ اس سے رخصت ہوتا ہے۔ وہ بڑے کمرے میں کھڑے کھڑے اپنے بھاری بھرکم کوٹ کو پہنتے ہوئے ٹھنڈی سانس بھر کے کہتا ہے :

”ذرا سوچیے نا، قسمت نے ہمیں بھی یہ کس جہنم میں لا پھینکا! اس سے بھی بُری بات یہ کہ ہمیں مرنا بھی یہیں ہوگا! ہونہہ! ۔ “

دوست کو دروازے تک رخصت کرنے کے بعد اندریئی یفمیچ دوبارہ اپنی میز کے پاس بیٹھ کر پڑھنے لگتا ہے۔ اب شب کے سناٹے میں کوئی بھی آواز مخل نہیں ہو رہی ہے، لگتا ہے خود وقت بھی ٹھہر گیا ہے۔ ڈاکٹر اور اس کی کتاب کو دیکھ رہا ہے جیسے دنیا میں اس کتاب اور سبز شیڈ والے اس لیمپ کے سوا اور کسی شے کا وجود ہی نہ ہو۔ ڈاکٹر کا کھردرا، دہقانی چہرہ دھیرے دھیرے مسکراہٹ سے جو ذہن انسانی کے اظہارات سے اس کی محبت اور احترام کی آئینہ دار ہے، چمک اٹھتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ آخر انسان جاوداں کیوں نہیں ہے؟ آخر کیوں؟ آخر ذہن کے ان سب مراکز اور تہوں کا، بصارت، گویائی، خود آگاہی اور غیر معمولی دیانت کا وجود ہی کیوں اگر ان سب کو ایک نہ ایک روز خاک میں مل جانا اور آخر کار قشر ارض کے ساتھ سرد ہوکر کسی مقصد اور سبب کے بغیر ہی اربوں سال تک آفتاب کے گرد گردش کرتے رہنا ہے؟ یقینا یہ ضروری نہ تھا کہ یوں ہی محض سرد ہونے اور گردش کرتے رہنے کے لئے انسان کو اس کے شاندار تقریباً ملکوتی ذہن کے ساتھ وجود میں لایا جاتا اور پھر اسے جیسے کسی تلخ مسخرے پن کے ساتھ خاک میں تبدیل کر دیا جاتا!

تغیر کامل! کسی بزدل کے سوا اور کسی کو اس بات سے سکون و اطمینان حاصل ہوسکتا ہے کہ وہ جاوداں ہونے کے بجائے خاک میں تبدیل ہو جائے؟ قدرت میں غیر شعوری طور پر جو عمل جاری رہتے ہیں وہ تو انسانی حماقت کے عمل سے بھی پست سطح کے ہوتے ہیں کیونکہ حماقت میں بھی کسی حد تک شعور اور مرضی کا دخل ہوتا ہے جبکہ قدرت کے عمل اپنے پیچھے کچھ بھی نہیں رکھتے۔ صرف کوئی بزدل ہی جس کا موت کا خوف اس کی خود داری سے بڑا ہو، خود کو اس خیال سے تسکین دے سکتا ہے کہ اس کا جسم گھاس کے کسی تنکے میں، کسی پتھر میں، کسی مینڈک میں زندہ رہے گا۔ اس تغیر کامل کو حیات ابدی سمجھ بیٹھنا اتنا ہی مضحکہ خیز ہوگا جتنا کہ کسی وائیلن کے ٹوٹنے اور بیکار ہو جانے کے بعد اسے رکھنے کے خول کے شاندار مستقبل کی پیش گوئی کرنا ہے۔

دیواری گھڑی جب بھی وقت کا اعلان کرتی ہے، اندریئی یفمیچ آرام کرسی سے پیٹھ ٹکا کر اپنے خیالوں پر غور کرنے کے لئے پل بھر کو آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ ابھی ابھی جو کتاب اس کے زیر مطالعہ تھی اس کے بلند خیالات سے متاثر ہو کر وہ اپنی گزشتہ اور موجودہ زندگی کا تجزیہ کرنے لگتا ہے۔ ماضی سے اسے نفرت محسوس ہوتی ہے اور اس کے بارے میں کچھ نہ سوچنے ہی کو ترجیح دیتا ہے۔ رہا حال سو وہ بھی ماضی ہی جیسا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس وقت جبکہ اس کے خیالات سرد قشر ارض کے ساتھ آفتاب کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ وسیع عمارت میں اس کے کمروں سے چند ہی قدموں کے فاصلے پر لوگ بیماری اور غلاظت سے نڈھال ہوئے جا رہے ہیں۔ شاید ٹھیک اسی لمحے کوئی شخص جاگ رہا ہے خود کو کیڑوں مکوڑوں سے بچانے کو کوشاں ہے۔ کسی دوسرے کو ابھی ابھی حمرہ مرض لگ گیا ہے یا زخم پر بہت زیادہ کس کر باندھی جانے والی پٹی کی وجہ سے درد سے کراہ رہا ہے اور شاید کچھ مریض نرسوں کے ساتھ تاش کھیل رہے ہیں اور واڈکا پی رہے ہیں۔ گزشتہ سال 12000 مردوں اور عورتوں کو فریب دیا گیا۔ سارے اسپتال کی زندگی بیس سال قبل کی طرح آج بھی چوری دھینگا مشتی گپ بازی جانب داری اور شرمناک عطائی پن پر مبنی ہے، اسپتال آج بھی بدمعاشی کا اڈا اور قصبے کے لوگوں کی صحت کے لئے سخت مضر ہے۔ اندریئی یفمیچ کو معلوم ہے کہ وارڈ نمبر 6 میں آہنی سلاخوں کے پیچھے نیکیتا مریضوں کو زدوکوب کرتا ہے اور موئے سیئکا ہر روز گداگری کے لئے سڑکوں پر نکلتا ہے۔

ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ گزشتہ پچیس برسوں کے دوران علم طب کو حیرت انگیز طور پر فروغ حاصل ہوا ہے۔ یونیورسٹی میں طالب علمی کے دوران اسے لگتا تھا کہ علم طب کا بھی جلد ہی الکیمیا اور مافوق الطبیعیات جیسا ہی حشر ہوگا لیکن اب شبینہ مطالعات کے دوران وہی علم طب اسے بے حد متاثر کرتا ہے۔ اور اس کے اندر استعجاب پیدا کرتا ہے جو وجد کے مترادف ہے۔ واقعی کیسی غیر متوقع ذکاوت کیسا شاندار انقلاب ہے! مانع عفونت ادویات کی بدولت آج ایسے آپریشنکیے جار ہے ہیں جنہیں خود عظیم پیروگوف تک نے ناممکن تصور کیا تھا معمولی زیمستوو ڈاکٹروں تک کو گھٹنے کے جوڑ کا آپریشن کرنے میں ڈر نہیں محسوس ہوتا پیٹ کے آپریشنوں کے بعد سو مریضوں میں سے صرف ایک کی موت واقع ہوتی ہے اور پتھری کو تو ایسی معمولی چیز تصور کیا جاتاہے کہ کسی مطبوعہ مضمون میں ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ آتشک کو جڑ بنیاد سے اکھاڑ پھینکنا ممکن ہوگیا ہے اور پھر نظریہ توارث ہے، ہپناٹزم ہے پامتیر اور کاخ کی دریافتیں ہیں، ہائی جین، اعداد و شمار اور ہماری روسی زیمستوو طبی تنظیمیں ہیں! مرض کی جدید درجہ بندی کے ساتھ دماغی امراض کا علاج، تشخیص اور معالجے کے طریقے۔ یہ سب کچھ ماضی کے مقابلے میں ایلبروس پہاڑ جیسا بلند ہے۔ دماغی مریضوں کو اب نہ سرد پانی سے بھگویا جاتاہے اور نہ ہی انہیں اتنے زیادہ کسے ہوئے کوٹ پہنائے جاتے ہیں کہ ہاتھ جکڑ جائیں۔ ان کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے اور ہم اخباروں میں پڑھتے ہیں کہ ان کی تفریح کے لئے تھیٹر کے پروگرام اور رقص منظمکیے جاتے ہیں۔ اندریئی یفمیچ جانتا ہے کہ جدید خیالات اور ذوق کی بنا پر وارڈ نمبر 6 جیسی لعنت زدہ جگہوں کا وجود اب صرف کسی ایسے قصبے ہی میں ممکن رہ گیا ہے جہاں سے قریب ترین ریلوے اسٹیشن بھی دو سوٹ ورسٹ کے فاصلے پر ہے جہاں میونسپلٹی کا چیئرمین اور ممبران بس برائے نام ہی تعلیم یافتہ ہیں جو ڈاکٹر کو کوئی بڑا بشپ تصور کرتے ہیں جس کی ہر بات پر آمناً و صدقتاً کہنا چاہیے خواہ وہ مریض کے حلق میں پگھلا ہوا سیسا کیوں نہ انڈیل رہا ہو۔ کوئی دوسری جگہ ہوتی تو شہریوں اور اخباروں نے اس چھوٹے باستیل کو کبھی کا مسمار کر دیا ہوتا۔

”لیکن فائدہ کیا ہوا؟ “ اندریئی یفمیچ آنکھوں کو پوری طرح کھولتے ہوئے خود سے سوال کرتا ہے۔ آخر اس سب سے حاصل کیا ہوا؟ مانع عفونت ادویات، کاخ اور پامتیر کوئی بنیادی تبدیلی نہیں پیدا کرسکے۔ اموات اور امراض کا سلسلہ پہلے ہی کی طرح آج بھی جاری ہے۔ تھیٹر پروگراموں اور ناچوں کا دماغی مریضوں کے لئے انتظام ضرور کیا جاتا ہے مگر وہ جہاں بند ہوتے ہیں وہاں سے رہا نہیںکیے جاتے۔ اس لئے یہ سب کچھ مہمل اور ہیچ ہے اور ویانا کے بہترین کلینک اور میرے اسپتال میں کوئی بنیادی فرق نہیں پایا جاتا۔

پھر بھی غم اور ایک جذبہ جو رشک سے ملتا جلتا ہے، اسے اس معاملے میں غیرجانبدار رہنے سے روک دیتے ہیں۔ مگر شاید یہ جذبہ تھکن سے نڈھال ہو جانے کا نتیجہ ہے۔ وہ اپنے بوجھل سر کو کتاب کے صفحے پر رکھ دیتا ہے اور کچھ آرام کے خیال سے ہاتھوں کو رخسار کے نیچے رکھ کر دوبارہ سوچنے لگتا ہے :

”میں ایک بڑے مقصد کی خدمت کر رہا ہوں، جنہیں فریب دیتا ہوں انہی سے تنخواہ وصول کرتا ہوں، میں تو بے ایمان ہوں لیکن میری وقعت ہی کیا ہے، میں تو ایک ضروری معاشرتی بدی میں بس ایک حقیر ذرہ ہوں۔ ضلعے کے سارے کے سارے افسران نکمے ہیں اور اس لئے اپنی بے ایمانی کے لئے قصور وار میں نہیں بلکہ میرا یہ دور ہے۔ اگرمیں دو سو برس بعد پیدا ہو ا ہوتا تو بالکل مختلف فرد ہوتا۔ “

گھڑی تین بجاتی ہے تو وہ لیمپ گل کرکے اپنی خواب گاہ کو چلا جاتا ہے۔ رہی نیند تو وہ اب بھی اس کی آنکھوں سے کوسوں دور ہوتی ہے۔

دو سال قبل زیمستوو پر فیاضی کا دورہ پڑا، اس نے اسپتال کے طبی عملے میں اضافے کے سلسلے میں تین سو روبل سالانہ کی منظوری اس وقت تک کے لئے دے دی جب تک خود زیمستوو اپنا اسپتال نہ کھولے اور میونسپلٹی نے ضلع میڈیکل افسر یوگینی فیدورچ خوبوتوف کی خدمات حاصل کر لیں تاکہ وہ اندریئی یفمیچ کی مدد کرسکے۔ نیا ڈاکٹر نوجوان آدمی ہے۔ عمر تیس سے بھی کم ہی ہے۔ لمبا سا قد، سانولی رنگت، رخساروں کی ہڈیاں چوڑی اور آنکھیں چھوٹی چھوٹی۔ دیکھنے میں روسی نژاد نہیں معلوم ہوتا ہے۔ وہ قصبے میں بالکل خالی جیب، ایک چھوٹے سے صندوق اور ایک بدصورت سی نوجوان عورت کے ساتھ آیا جس کی گود میں بچہ تھا اور جسے اس نے اپنی باورچن بتایا۔ یوگینی فیدورچ چھجے دار ٹوپی، لانگ بوٹ اور سردیوں میں بھیڑ کی کھال کا پوستین پہنتا ہے۔ طبی معاون سرگیئی سرگیئچ اور خزانچی سے تو اس نے آنے کے کچھ ہی دنوں بعد دوستی کر لی تھی لیکن اسپتال کے باقی افسروں کو جانے کیوں وہ طبقہ امراءکے ارکان کہتا اور ان سے دور ہی دور رہتا ہے۔ اس کے گھر میں صرف ایک کتاب ہے۔ ”ویاناکے کلینک کے تازہ ترین نسخے برائے 1881“ جسے ساتھ لئے بغیر کبھی بھی کسی مریض کو دیکھنے نہیں جاتا ہے۔ شاموں کو وہ کلب میں بلیئرڈ کھیلتا ہے لیکن تاش کھیلنے سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ اسے ”یہ تو بڑا بے ڈھب معاملہ ہے! “ ”ارے آؤ بھی، انسان تو بنا ہی تھا خود ہونے کے لئے! “ اور ایسے ہی دوسرے جملے اور فقرے استعمال کرنے کا بڑا شوق ہے۔


وہ ہفتے میں دو بار اسپتال جاتا ہے جہاں جہاں مختلف وارڈوں میں گشت لگاتا اور باہری مریضوں کو دیکھتا ہے۔ اسے یہ دیکھ کر سخت غصہ آتا ہے کہ مانع عفونت ادویات بالکل ہیں ہی نہیں اور خون نکالنے کے لئے پیالیوں جیسے گلاسوں کی افراط ہے لیکن وہ کوئی نیا طریقہ اس ڈر سے رائج نہیں کرتا کہ اندریئی یفمیچ کہیں بُرا نہ مان جائے۔ اسے یقین ہے کہ اس کا ساتھی اندریئی یفمیچ بے ایمان ہے، شک کرتا ہے کہ اس نے کافی دولت جمع کر رکھی ہوگئی اور دل ہی دل میں اس پر بھی رشک کرتا ہے۔ وہ اندریئی یفمیچ کو ہٹا کے بڑی خوشی کے ساتھ اس کی جگہ لینے کو تیار ہے۔

بہار آچکی تھی، مارچ کے آخری ایام تھے اور شام کا وقت۔ برف زمین سے غائب ہوچکی تھی، اسپتال کے احاطے میں مینائیں چہچہا رہی تھیں اور ایسے میں ڈاکٹر اپنے پوسٹ ماسٹردوست کو رخصت کے لئے پھاٹک تک گیا۔ عین اسی وقت، یہودی موئے سیکاجو اپنی ایک عام گشت سے واپس آ رہا تھا، پھاٹک میں داخل ہوا۔ برہنہ، سر، ننگے پیروں میں جوتوں کے اوپر پہننے کے صرف ربڑ کے جوتے اور ہاتھ میں ایک چھوٹا سا تھیلا جس میں بھیک کے طور پر ملی ہوئی چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔

”ایک کوپیک دے دو نا! “ اس نے سردی سے کانپتے ہوئے لیکن مسکراہٹ کے ساتھ ڈاکٹر سے کہا۔

اندریئی یفمیچ نے جسے انکار کرنا آتا ہی نہ تھا، اسے دس کوپیک کا سکہ دے دیا۔

”کتنا تکلیف دہ ہے! “ اس نے یہودی کی ننگی ٹانگوں اور ہڑیلے، کھردرے ٹخنوں کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ ”ایسے نم اور سرد موسم میں۔ “

وہ رحم اور کراہت کے ملے جلے جذبے کے تحت یہودی کا اس کے گنجے سر سے ٹخنوں تک جائزہ لیتا ہوا اس کے پیچھے پیچھے وارڈ نمبر 6 کے پاس تک آگیا۔ ڈاکٹر کے اندر قدم رکھتے ہی نیکیتا کوڑے کباڑ کے ڈھیر سے اچھل کے اترا اور سیدھا کھڑا ہوگیا۔

”شام بخیر، نیکیتا“ اس نے اپنی مخصوص نرم لہجے میں کہا۔

”کیوں نہ اس یہودی کو لانگ بوٹ یا کچھ اور دے دیا جائے۔ اسے سردی لگ سکتی ہے۔ “

”بہت اچھا، جناب عالی! میں سپرنٹنڈنٹ صاحب سے عرض کروں گا۔ “

”ہاں ضرور! میرا نام لے لینا۔ کہنا کہ میں نے یہی کہا ہے۔ “

گزرگاہ سے وارڈ کے اندر جانے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ایوان دمیترچ اپنے پلنگ پر کہنی کی ٹیک لگائے لیٹا ہوا غیر مانوس آواز کو بڑی تشویش کے ساتھ سن رہا تھا۔ دفعتاً اس نے ڈاکٹر کو پہچان لیا، غصے کے مارے تھرتھر کانپتا ہوا اچھل کے نیچے اترا اور دوڑ کے وارڈ کے وسط میں پہنچ گیا۔ چہرہ لال بھبوکا ہو رہا تھا اور آنکھیں جیسے باہر نکلی آ رہی تھیں۔

”ارے ڈاکٹر آ گیا! “ وہ چلایا اور قہقہہ مار کے ہنس پڑا۔ ”آخر کار آ ہی گیا! میں آپ صاحبان کو مبارکباد دیتا ہوں۔ کتنی عنایت کی ڈاکٹر نے جو ہمیں دیکھنے آگیا! لعنت ہو بدمعاش پر! “ اس نے ایسی غضبناکی سے جو وارڈ میں پہلے کبھی بھی نہیں دیکھی گئی تھی، فرش پر پاؤں پٹختے ہوئے زور دار چیخ ماری۔ ”مار ڈالو، کمبخت کو! نہیں نہیں، مار ڈالنا تو بہت ہی کم ہوگا! اسے پاخانے میں ڈال دو! “

اندریئی یفمیچ نے دروازے کے پاس پہنچ کر اندر جھانکتے ہوئے دھیرے سے پوچھا:

”کاہے کے لئے؟ “

ایوان دمیترچ قہر آلود نگاہوں کے ساتھ اس کی طرف بڑھا اور اپنے کانپتے جسم پر لبادے کو سمیٹتے ہوئے چلایا : ”کاہے کے لئے؟ چور کہیں کا! “ اس نے نفرت بھرے لہجے میں کہا اور ہونٹوں کو یوں سکوڑا جیسے تھوکنا چاہتا ہو۔ ”عطائی! جلاد! “

”آپ مشتعل نہ ہوں“ اندریئی یفمیچ نے معذرتی انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔

”میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ زندگی میں چوری کبھی نہیں کی اور جہاں تک دوسروں کا تعلق ہے تو شاید آپ بہت زیادہ مبالغے سے کام لے رہے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ مجھ سے ناراض ہیں۔ ذرا پُرسکون ہونے کی کوشش کیجئے اور غصے گرمی کے بغیر بتائیے، آخر اتنی برہمی کا سبب کیا ہے؟ “

”اس لئے کہ آپ بیمار ہیں۔ “

”جی ہاں، میں بیمار ہوں۔ لیکن سینکڑوں ہی پاگل آزاد پھر رہے ہیں جس کا سبب صرف یہ ہے کہ آپ اپنی جہالت کی بناءپر ان میں اور صحت مند انسانوں میں کوئی تمیز نہیں کر پا رہے ہیں تو پھر آخر میں اور یہ بدبخت لوگ دوسروں کے گناہوں کی سزا بھگتنے کے لئے قربانی کے دوسرے بہت سے بکروں کی طرح یہاں کیوں قید رہیں؟ خود آپ، آپ کا نائب، آپ کا انسپکٹر۔ اسپتال کی کمینوں کی یہ ٹولی ہم میں سے کسی کے بھی مقابلے میں اخلاقی طور پر انتہائی پست ہے۔ تو پھر آخر یہاں ہم کیوں ہیں، آپ کیوں نہیں؟ بھلا یہ کہاں کی معقولیت ہے؟ “

”اخلاقی اقدار اور معقولیت کا اس معاملے سے ذرا بھی تعلق نہیں۔ ہر شے کا انحصار محض اتفاق پر ہے۔ جو لوگ یہاں لائے جاتے ہیں، یہاں رہتے ہیں اور جو نہیں لائے جاتے وہ اپنی آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ ہے سارا قصہ۔ اس حقیقت میں کہ آپ دماغی مریض ہیں اور میں ڈاکٹر، یہ اخلاقیات کا ہاتھ ہے نہ معقولیت کا، اتفاق کے سوا اور کسی شے کا بھی ہاتھ نہیں۔ “

”اس طرح کی بکواس میری سمجھ میں نہیں آتی۔ “ ایوان دمیترچ نے اپنے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے کھوکھلی آواز میں کہا۔

موئے سیئکا نے جس کی ڈاکٹر کی موجودگی میں تلاشی لینے کی نیکیتا کو ہمت نہیں پڑی تھی، اپنے روٹی کے ٹکڑے، کاغذ کے ٹکڑے اور ہڈیاں اپنے پلنگ پر پھیلا دیں اور اب بھی سردی سے کپکپاتے ہوئے یہودیوں کی زبان میں گانے جیسے انداز سے خود کلامی شروع کر دی۔ شاید وہ سوچ رہا تھا کہ کوئی دوکان کھول دی ہے۔

”مجھے یہاں سے چلے جانے دیجئے! “ ایوان دمیترچ نے بھرائی ہوئی آواز سے کہا۔

”یہ تو میں نہیں کرسکتا۔ “

”کیوں نہیں کرسکتے؟ آخر کیوں؟ “

”کیونکہ یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ اپنے آپ سے پوچھئے کہ میں آپ کو چھوڑ دوں تو فائدہ کیا ہوگا؟ فرض کیجئے کہ میں آپ کو جانے دیتا ہوں تب بھی تو قصبے کے لوگ اور پولیس والے پکڑ کے یہیں واپس لے آئیں گے۔ “

”ہاں ہاں، یہ سچ ہے۔ “ ایوان دمیترچ نے ماتھا سہلاتے ہوئے کہا۔ ”عجیب بھیانک چکر ہے! تو پھر کیا کروں؟ بتائیے نا، کیا کروں؟ “

اس کی آواز اور نوجوانوں جیسے چہرے نے جس سے اس کے منہ بنانے کے باوجود ذہانت ٹپکتی تھی، اندریئی یفمیچ کو متاثر کر دیا۔ وہ اس نوجوان سے تسلی کے دو لفظ کہنے اور اس کی پریشانی کم کرنے کے لئے بے چین ہو اٹھا۔ آخر اس نے ایوان دمیترچ کے پاس پلنگ پر بیٹھ کر چند لمحوں تک غور کرنے کے بعد کہا:

”آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے؟ بہترین صورت تو بس یہی ہوگی کہ آپ یہاں سے بھاگ کھڑے ہوں۔ لیکن افسوس کہ اس سے کچھ ہونے ہوانے کا نہیں۔ آپ کو پکڑ لیا جائے گا۔ جب معاشرہ مجرموں، دماغی مریضوں اور پریشان کرنے والے دوسرے افراد سے خود کو محفوظ رکھنے کا تہیہ کر لیتا ہے تو پھر اسے ایسا کرنے سے کوئی بھی طاقت روک نہیں سکتی۔ اب آپ کے لئے صرف ایک ہی راستہ کھلا رہ جاتا ہے۔ خود کو اس حقیقت سے ہم آہنگ کر لیجیے کہ یہاں آپ کی موجودگی ضروری ہے۔ “

”چونکہ قید خانوں اور پاگل خانوں جیسی جگہیں موجود ہیں اس لئے ایسے افراد بھی درکار ہیں جو انہیں بھر سکیں۔ آپ نہ ہوں گے تو میں ہوں گا، میں نہ ہوں گا تو کوئی اور ہوگا۔ انتظار کیجئے، مستقبل بعید میں جب نہ قید خانے ہوں گے نہ پاگل خانے تو آہنی سلاخ دار کھڑکیوں اور اسپتالی لبادوں کا وجود بھی ختم ہو جائے گا۔ وہ زمانہ دیر سویر آکر ہی رہے گا۔ “

ایوان دمیترچ کے ہونٹوں پر نفرت بھری مسکراہٹ بکھر گئی۔

”آپ تو مذاق پر اتر آئے“ اس نے اپنی آنکھوں کو ذرا بھینچتے ہوئے کہا۔ ”خود آپ اور آپ کے اس معاون نیکیتا جیسے صاحبان کے لئے مستقبل کیا معنی رکھتا ہے؟ لیکن یقین کیجئے، جناب والا کہ بہتر زمانہ آئے گا ضرور! میرے خیالات ہوسکتا ہے کہ دقیانوسی ہوں، ہوسکتا ہے کہ آپ کو ہنسی آ جائے لیکن نئی زندگی کی صبح اپنی تمام آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوگی، سچائی کا بول بالا ہوگا اورہم بھی اجالے کو دیکھیں گے! میں تو اسے نہ دیکھ سکوں گا، اس وقت تک دنیا سے کوچ کرچکا ہوں گا مگر دوسروں کے پڑ پوتے اسے دیکھیں گے۔ میں ان سب کا خلوص دل سے خیر مقدم کرتا ہوں اور خوش ہوں کہ ان کے دن پھر جائیں گے! آگے بڑھیئے! خدا آپ کا حامی و ناصر ہو، دوستو! “

ایوان دمتیرچ نے جس کی آنکھیں چمک اتھی تھیں، اٹھ کر کھڑکی کی طرف اپنے بازو پھیلا دیے اور ہیجانی لہجے میں اپنی بات جاری رکھی۔

”ان سلاخوں کے پیچھے سے میں آپ کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کر رہا ہوں! سچائی زندہ باد! میں خوشی منا ہوں! “

”مجھے تو خوشی منانے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا“ اندریئی یفمیچ نے کہا جسے ایوان دمتیرچ کی یہ بے پایاں مسرت قدرے تصنع آمیز معلوم ہوئی پھر بھی اس کے لئے اس نے مریض کو پسند ہی کیا۔

”قید خانے اور پاگل خانے تو یقینا نہ ہوں گے اور سچائی کا جیسا کہ آپ کو کہتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے، بول بالا ہوگا لیکن کوئی بنیادی تبدیلی نہ ہوگی، قوانینِ قدرت بالکل ایسے ہی رہیں گے۔ لوگ آج ہی کی طرح کل بھی بیمار پڑیں گے، بوڑھے ہوں گے اور دنیا سے اٹھ جائیں گے۔ طلوعِ سحر آپ کی زندگی کو کتنی ہی آب و تاب کے ساتھ منور کیوں نہ کرے، انجام یہی ہوگا کہ آپ تابوت میں بند کرکے زمین کے تنگ گڑھے میں ڈال دیے جائیں گے۔ “

”اور حیاتِ ابدی کے متعلق کیا خیال ہے؟ “

”محض بکواس! “

”آپ اس میں یقین نہیں رکھتے لیکن میں تو رکھتا ہوں۔ دوستوئیفسکی یا شاید والٹیر کے کسی کردار نے کہا تھا کہ خدا نہ ہوتا تو انسانوں نے اسے ایجاد کر لیا ہوتا اور مجھے کامل یقین ہے کہ اگر حیاتِ ابدی جیسی کسی شے کا وجود نہیں ہے تو عظیم انسانی ذہن دیر سویر اسے ایجاد کر لے گا۔ “

”کیا خوب کہا! “ اندریئی یفمیچ خوش ہوکے مسکراتے ہوئے پکار اٹھا۔ ”کتنی اچھی بات ہے کہ آپ اعتقاد رکھتے ہیں۔ آپ کے جیسے اعتقاد والا آدمی قید خانے میں بھی خوش رہ سکتا ہے۔ کیا آپ نے کہیں تعلیم حاصل کرنے کی بھی زحمت کی تھی؟ “

”جی ہاں، میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا لیکن تعلیم مکمل نہ کرسکا۔ “

”آپ غور و فکر کرنے والے انسان ہیں۔ آپ توکیسے بھی کٹھن حالات میں کیوں نہ ہوں، اپنے افکار و خیالات کی دنیا میں سکون اور اطمینان حاصل کرسکتے ہیں۔ زندگی کے مکمل ادراک کے لئے آزاد اور گہری فکر اور ساتھ ہی ساتھ دنیا کی احمقانہ دوڑ دھوپ سے شدید نفرت۔ یہ ایسی نعمتیں ہیں جن سے بہتر ابھی تک کبھی بھی انسان کو میسر نہیں ہوئیں۔ اور آپ دنیا کی تمام سلاخ دار کھڑکیوں کے باوجود ان نعمتوں کو حاصل کرسکتے ہیں۔ ڈیوگیس لکڑی کے پیپے میں رہتا تھا مگر بادشاہوں سے زیادہ خوش و خرم۔ “

”آپ کا ڈیوگیس گدھا تھا“ ایوان دمتیرچ نے بیزاری سے کہا۔ ”یہ آپ ڈیوگیس اور کسی نہ کسی شے کے ادراک کے بارے میں مجھ سے کیوں باتیں کر رہے ہیں؟ “ اس نے دفعتاً چراغ پا ہو کر تیزی سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ ”میں زندگی سے محبت کرتا ہوں، شدید محبت! میں مسلسل اذیت دیے جانے کے خبط کا شکار ہوں، پریشان کن خوف مجھے مسلسل تڑپاتے رہتے ہیں لیکن ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب زندگی کی تڑپ مجھے مغلوب کر دیتی ہے اور تب ڈر لگتا ہے کہ کہیں پاگل نہ ہو جاؤں۔ میں جینے کی آرزو رکھتا ہوں، کتنی شدید آرزو! “

اس نے اپنی ہیجانی حالت میں کمرے کو پار کیا اور آواز دھیمی کرتے ہوئے بولا:

”کبھی کبھی مجھے خوابوں میں بھوت نظر آتے ہیں۔ لوگ مجھ سے ملنے آتے ہیں، لوگوں کی آوازیں اور موسیقی میرے کانوں میں گونجنے لگتی ہیں اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی جنگل میں یا ساحل سمندر پر کھڑا ہوا ہوں اور میں زندگی کی چہل پہل کے لئے، فکروں کے لئے بے تاب ہو اٹھتا ہوں۔ مجھے بتائیے نا، وہاں کیا ہو رہا ہے؟ “ اچانک اس نے پوچھا۔

”باہری دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ “

”آپ ہمارے قصبے کے متعلق جاننا چاہتے ہیں یا عام دنیا کے متعلق؟ “

”پہلے قصبے کے متعلق بتائیے پھر دنیا کے عام حالات۔ “

”بہت خوب۔ قصبے کے شب و روز وبال جان ہیں۔ ایک بھی شخص تو ایسا نہیں جس سے باتیں کرنے یا جس کی باتیں سننے کو جی چاہے۔ نئی صورتیں تک نظر نہیں آتیں۔ ویسے ایک نوجوان ڈاکٹر خوبوتوف البتہ ابھی حال میں آئے ہیں۔ “

”ہاں، وہ میرے سامنے ہی آیا تھا۔ گنوار ہے نا؟ “

”ہاں، کوئی خاص مہذب آدمی نہیں ہیں۔ عجب مضحکہ خیز صورتِ حال ہے۔ جو کچھ سننے میں آتا ہے اس سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے مرکزی علاقے جمود کا شکار نہیں ہیں ہیں، دانش ورانہ سرگرمیاں جاری ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں کھرے افراد ضرور ہوں گے مگر وہ لوگ جنہیں ہمارے ہاں بھیجتے ہیں وہ بس کھوتے ہی سے ہوتے ہیں۔ بدبخت قصبہ! “

”واقعی بدبخت! “ ایوان دمتیرچ نے ٹھنڈی سانس بھری اور ہنس پڑا۔

”اور دنیا کا کیا حال ہے؟ اخباروں رسالوں میں کیا کیا چھپ رہا ہے؟ “

وارڈ میں اندھیرا پھیل چکا تھا۔ ڈاکٹر اٹھا اور اس نے کھڑے کھڑے روسی اور غیر ملکی اخباروں کی خبریں اور جدید فکر کے رجحانات سے متعلق کچھ باتیں بتائیں۔ ایوان دمتیرچ نے بیچ بیچ میں ایک آدھ سوال پوچھتے ہوئے یہ سب کچھ بڑے غور سے سنا اور پھر اچانک جیسے کوئی بھیانک بات یاد آگئی ہو، دونوں ہاتھوں سے سر کو تھاما اور ڈاکٹر کی طرف پیٹھ کرکے پلنگ پر لیٹ گیا۔

”کیا کچھ طبیعت خراب ہوگئی؟ “ اندریئی یفمیچ نے پوچھا۔

”اب آپ مجھ سے ایک لفظ بھی نہ اگلوا سکیں گے! “ ایوان دمیترچ نے درشتی سے کہا۔ ”مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے! “

”کیوں، کیا بات ہے؟ “

”میں کہہ رہا ہوں، مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے! کیوں میرے پیچھے پڑے ہیں؟ “

اندریئی یفمیچ نے شانے اچکاتے ہوئے ٹھنڈی سانس بھری اور وارڈ سے چلا آیا۔ باہر نکلنے سے قبل اس نے گزر گاہ میں کہا:

”ارے نیکیتا، بہتر ہوگا کہ یہاں کچھ صفائی کر دی جائے۔ کیسی بدبو پھیلی ہوئی ہے! “

”بہت اچھا، جناب عالی! “

”اچھا نوجوان ہے“

”اچھا نوجوان ہے“ اندریئی یفمیچ نے گھر جاتے وقت راستے میں سوچا۔ ”اتنے برسوں کے بعد یہ پہلا شخص ملا ہے جس سے میں باتیں کرسکتا ہوں۔ بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ باتیں کرتا ہے اور اسے صرف انہی چیزوں سے دلچسپی ہے جو قابلِ توجہ ہیں۔ “

اس روز رات کو مطالعے کے دوران اور بعد میں بستر پر بھی وہ ایوان دمیترچ ہی کے بارے میں سوچتا رہا اور اگلی صبح کو بیدار ہونے پر اسے یاد آیا کہ ایک ذہین اور دلچسپ شخص سے اس کی شناسائی ہوگئی ہے اور اس نے موقع پاتے ہی اس سے ملاقات کے لئے دوبارہ جانے کا فیصلہ کیا۔

چیخوف اور ٹالسٹائی 

ایوان دمیترچ اپنے پلنگ پر گزشتہ شام ہی کی جیسی حالت میں کنپٹیوں کو ہاتھوں سے جکڑے گھٹنے سکوڑے لیٹا ہوا تھا۔ منہ دیوار کی طرف تھا۔

”کہیے، کیا حال ہے، میرے دوست؟ “ اندریئی یفمیچ نے کہا۔

”آپ سو تو نہیں رہے ہیں؟ “

”اول تو میں آپ کا دوست نہیں ہوں“ ایوان دمیترچ تکیے سے منہ ہٹائے بغیر بڑبڑایا، ”اور دوسرے یہ کہ خود کو ہلکان نہ کیجئے، آپ میرے منہ سے ایک لفظ بھی نہ اگلوا سکیں گے۔ “

”عجب بات ہے۔ “ اندریئی یفمیچ نے کچھ خجل ہو کر کہا۔ ”کل ہم دونوں کتنی عمدہ باتیں کر رہے تھے مگر آپ نے اچانک بُرا مان کر گفتگو ختم کر دی۔ یا تو میں نے اپنے خیالات کا اظہار بھونڈے پن سے کیا ہوگا یا پھر میرے منہ سے کوئی ایسی بات نکل گئی ہوگی جو آپ کے یقین کامل کے منافی تھی۔ “

”آپ کے خیال میں اس بہانے کو میں سچ مان لوں گا؟ “ ایوان دمیترچ نے بیٹھ کر ڈاکٹر کو ایسی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا جو بیک وقت مذاق بھی اڑا رہی تھیں اور تشویش کی بھی آئینہ دار تھیں۔ اس کے پپوٹے سرخ ہو رہے تھے۔ ”بہتر ہوگا کہ اپنی یہ جاسوسی اور پوچھ گچھ کہیں اور جا کے کیجئے، مجھ سے کچھ ملنے ملانے کا نہیں۔ میں سمجھ چکا ہوں کہ کل آپ یہاں کیوں آئے تھے۔ “

”عجب بات ہے! “ ڈاکٹر دھیرے سے ہنس پڑا۔ ”تو آپ کا خیال ہے کہ میں کوئی مخبر ہوں؟ “

”جی ہاں، بالکل۔ یا تو مخبر ہیں یا ایسے ڈاکٹر جسے مجھ پر نگاہ رکھنے کے لئے مامور کیا گیا ہے۔ دونوں میں کوئی فرق تھوڑی ہے۔ “

”آپ، معاف کیجئے گا۔ آپ عجیب و غریب شخص ہیں! “

ڈاکٹر نے پلنگ کے قریب ایک اسٹول پر بیٹھ کر سرزنش کے انداز میں سر ہلایا۔

”اچھی بات ہے، فرضکیے لیتے ہیں کہ آپ کا خیال درست ہے“ اس نے کہنا شروع کیا۔ ”فرضکیے لیتے ہیں کہ میں جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں، آپ سے کچھ معلوم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ پولیس پر آپ کے راز منکشف کر دوں۔ آپ گرفتار کرلئے جائیں گے، مقدمہ چلے گا۔ لیکن کیا آپ سوچتے ہیں کہ عدالت یا قید خانہ آپ کے لئے بدتر ثابت ہوگا؟ اور اگر آپ جلاوطن کر دیے جائیں یا قید بامشقت کی سزا ملے تو کیا آپ کے خیال میں وہاں کا ماحول اس وارڈ کے ماحول سے بھی زیادہ خراب ہوگا؟ مجھے تو اس کا یقین نہیں۔ تو پھر آپ کو ڈر کاہے کا؟ “

ان الفاظ نے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ ایوان دمیترچ کو متاثر کیا اور وہ کچھ پرسکون نظر آنے لگا۔

ذرا دیر قبل ہی چار بجے تھے اور یہ وہ وقت تھا جب اندریئی یفیمچ عموماً اپنے کمروں میں ٹہلا کرتا تھا اور وار یا اس سے پوچھتی تھی کہ کیا وہ بیئر پینا پسند کرے گا۔ ہوائیں ٹھہری ہوئی تھیں اور شام کی فضا منور۔

”میں کھانے کے بعد ٹہل رہا تھا کہ اتنے میں خیال آیا کیوں نہ چل کے آپ سے ملاقات کر آؤں“ ڈاکٹر نے کہا۔ ”صحیحمعنوں میں موسم بہار کا دن ہے۔ “

”یہ کون سا مہینہ ہے؟ مارچ؟ “

”جی ہاں، مارچ کے آخری ایام۔ “

”باہر بہت کیچڑ ہے کیا؟ “

”بہت تو نہیں ہے۔ باغ کے راستے خشک ہوچکے ہیں۔ “

”ایسے دن میں تو کتنا اچھا لگے گا اگر بگھی پر سوار ہو کر قصبے کے باہر سیر کروں۔ “ ایوان دمیترچ نے اپنے سرخ حلقوں کی آنکھوں کو یوں ملتے ہوئے کہا جیسے ابھی ابھی گہری نیند سے بیدار ہوا ہو، ”اور گھر کے گرم اور آرام دہ مطالعے کے کمرے کو واپس لوٹوں۔ میں تو بھول ہی چکا ہوں کہ انسانوں کی طرح زندگی بسر کرنا کس کو کہتے ہیں۔ یہ بڑی غلیظ جگہ ہے! ناقابلِ برداشت حد تک غلیظ! “

وہ گزشتہ روز کے ہیجان سے کمزور اور نڈھال ہو رہا تھا اور الفاظ بڑی بے دلی کے ساتھ اس کے منہ سے نکلتے معلوم ہو رہے تھے۔ اس کی انگلیاں کانپ رہی تھیں اور چہرہ سر کے شدید درد کی گواہی دے رہا تھا۔

”مطالعے کے گرم اور آرام دہ کمرے اور اس وارڈ میں کوئی فرق تھوڑی ہے۔ “ اندریئی یفیمچ نے کہا۔

”انسانوں کو سکون اور اطمینان کی تلاش باہری دنیا میں نہیں بلکہ اپنی باطنی دنیا میں کرنی چاہیے۔ “

”کیا مطلب ہے؟ “

”معمولی آدمی نیکی یا بدی کو باہری چیزوں مثلاً بگھی یا مطالعے کے کمرے میں تلاش کرتا ہے جبکہ سوچ بچار کرنے والا آدمی خود اپنی ذات کے اندر۔ “

”اپنے اس فلسفے کی تبلیغ جا کے یونان میں کیجئے جہاں ہمیشہ گرمی پڑتی ہے اور فضا میں سنترے کے پھولوں کی مہک بسی رہتی ہے۔ اس قسم کی بات ہماری آب و ہوا میں موزوں نہیں ہے۔ ڈیوگیس کے متعلق میں نے کس سے باتیں کی تھیں؟ آپ سے؟ “

”جی ہاں، کل۔ “

ڈیوگیس کو مطالعے کے لئے کسی بھی گرم کمرے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہاں ویسے ہی گرمی پڑتی تھی۔ وہ اپنے پیپے میں پڑا جھولتا اور زیتون کے پھل اور سنترے کھاتا رہ سکتا تھا۔ اگر وہ روس میں ہوتا تو دسمبر تو جانے دیجئے مئی کے مہینے میں ہی کسی سے درخواست کرتا کہ بھائی اپنے گھر میں جگہ دے دو۔ سردی کے مارے بیچارے کا سارا جسم ٹھٹھرنے لگتا۔

”ہرگز نہیں۔ سردی کو بھی کسی دوسرے درد کی طرح نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ “ مارکوس آور یلئیس نے کہا تھا:

”درد دراصل درد کا زور دار تصور ہی ہوتا ہے۔ آپ اپنی قوت ارادی سے اس تصور کو بدل سکتے ہیں۔ اسے بھلا دیجئے، تکلیف کی شکایت کرنا بند کر دیجئے اور درد ختم ہو جائے گا۔ “ اور اس کا خیال درست تھا۔ کوئی عاقل یا صرف غورو خوض کا عادی شخص بھی پہچانا ہی اپنے اسی وصف سے جاتا ہے کہ وہ تکلیف کو خاک بھی خاطر نہیں لاتا۔ وہ تو ہمیشہ مطمئن رہتا ہے، کوئی شے اسے متحیر نہیں کرسکتی۔

”تب تو ضرور میں احمق ہوں کیونکہ میں تکالیف محسوس کرتا ہوں، غیر مطمئن رہتا ہوں اور انسانی کمینگی پر مسلسل محوِ حیرت۔ “

”یہ آپ کی بھول ہے۔ اگر آپ بار بار معاملات کی تہہ تک جانے کی کوشش کریں تو دیکھیں گے کہ ہمیں ہیجان میں مبتلا کرنے والی خارجی چیزیں دراصل کتنی حقیر ہوتی ہیں۔ آپ کو تو زندگی کے ادراک کی جدوجہد کرنی چاہیے جو واحد نعمت ہے۔ “

”ادراک۔ “ ایوان دمیترچ نے کانپتے ہوئے کہا۔ ”خارجی، داخلی۔ معاف کیجئے گا، اس قسم کی باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں۔ “ اس نے کھڑے ہو کر ڈاکٹرکو برہمی سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ”کہ خدا نے مجھے گرم لہو اور اعصاب کے ساتھ پیدا کیا تھا۔ جی ہاں، جناب! نامیاتی میسج میں اگر کوئی حیاتی صلاحیت ہے تو اسے ہیجانات پر ردِعمل ظاہر کرنا چاہیے اور مجھ پر یقینا ردعمل ہوتا ہے! میں درد پر نالہ و فریاد کے ذریعے، کمینگی پر شدید غصے کے ذریعے اور بدمعاشی پر نفرت کے ذریعے ردعمل ظاہر کرتا ہوں۔ اور میرے خیال میں اسی کا نام ہے زندگی! کوئی جاندار جتنی پست سطح کا ہوتا ہے اتنی ہی اس کی حس اور ہیجانات پر اس کے ردعمل کمزور ہوتے ہیں اور جتنی بلند سطح کا ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ حقیقت کے سلسلے میں اس کا ردعمل حساس اور تند و تیز ہوتا ہے۔ آخر آپ کو اتنی سی بات بھی کیوں نہیں معلوم؟ ڈاکٹر ہو کے ایسی ابتدائی باتوں سے بھی بے خبری! کسی شخص کے تکالیف کو حقیر سمجھنے، ہمیشہ مطمئن رہنے اور کبھی متحیر نہ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس حالت کو پہنچ چکا ہو“ اور ایوان دمیترچ نے یہ کہتے ہوئے موٹے کان کی طرف اشارہ کیا ”یا پھر یہ کہ تکالیف نے اسے پتھر بنا دیا ہو، بالکل بے حس کر دیا ہو، یعنی یہ کہ وہ جی ہی نہ رہا ہو۔ معاف کیجئے گا“ اس نے جھلاہٹ کے ساتھ اپنی بات جاری رکھی، ”نہ میں عاقل ہوں نہ فلسفی، ان معاملات میں بالکل کورا ہوں۔ میں دلائل پیش کرنے کی حالت میں نہیں ہوں۔ “

”لیکن آپ بڑے سلیقے سے دلائل پیش کرتے ہیں۔ “

”رواقیت پسند جن کی تعلیمات کو آپ مضحکہ بنا کر پیش کر رہے ہیں، بلاشک خاصے ممتاز افراد تھے لیکن ان کا فلسفہ ان دو ہزار برسوں میں بالکل جامد و ساکت رہا ہے۔ دو قدم بھی آگے نہیں بڑھا اور بڑھ بھی نہیں سکتا کیونکہ یہ ناقابلِ عمل اور غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ یہ تھوڑے سے افراد میں جو اپنی زندگیاں مطالعے اور مختلف تعلیمات سے محظوظ ہونے میں صرف کیا کرتے تھے، ضرور مقبول تھا لیکن اکثریت اسے کبھی بھی سمجھ نہ سکی۔ کوئی فلسفہ جو دولت و آسائش سے بے اعتنائی اور تکالیف اور موت کو حقیر سمجھنے کی تعلیم دیتا ہو، اکثریت کے لئے قطعاً ناقابلِ فہم ہوتا ہے۔ کیونکہ اکثریت کو نہ کبھی دولت میسر ہوتی ہے نہ آسائش۔ ان لوگوں کے لئے تو تکالیف کو حقیر سمجھنے کے مترادف ہوگا کیونکہ انسان کا سارا وجود ہی بھوک، سردی، ذلت، نقصان اور موت کے ایسے خوف پر جیساکہ ہیملٹ پر طاری تھا، مشتمل ہوتا ہے۔ زندگی وبال جان اور گھناؤنی ہوسکتی ہے لیکن کبھی کسی نے زندگی سے نفرت نہیں کی۔ اس لئے میں ایک بار پھر کہنا چاہتا ہوں کہ رواقیت پسندوں کی تعلیمات کا کوئی مستقبل نہیں اور عہد عتیق سے دورِ حاضر تک جن چیزوں میں ارتقائی کیفیت دیکھی گئی ہے وہ صرف یہ ہیں :

” جدوجہد کرنے کی قوت، درد و غم کا احساس اور ہیجانات پر ردعمل کی صلاحیت۔ “

ایوان دمیترچ دفعتاً اپنے استدلال کی کڑی کے کھو جانے سے خاموش ہو کر پریشانی سے ماتھا سہلانے لگا۔

”میں کوئی بڑی اہم بات کہنے جا رہا تھا پر ذہن سے نکل گئی“ اس نے کہا۔

”میں کاہے کے بارے میں بات کر رہا تھا؟ ارے ہاں! میں یہ کہنا چاہتا تھا: ایک رواقیت پسند نے اپنے دوست کو آزاد کرانے کے لئے خود کو فروخت کر دیا اور غلام بن گیا تو آپ نے دیکھا ناکہ اس رواقیت پسند نے ہیجان پید اکرنے والی ایک بات پر ردعمل ظاہر کیا کیونکہ کسی دوسرے کے لئے خود اپنی ہستی کو مٹا دینے یا فیاضانہ کارنامہ انجام دینے کے لئے انسان کے سینے میں درد مند دل کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ کبھی مجھے جو کچھ آتاتھا سب کا سب اس قید خانے میں گنوا بیٹھا ورنہ دوسری مثالیں بھی دے دیتا۔ جی چاہے تو حضرت عیسیٰ ہی کی مثال لے لیجیے۔ وہ حقائق پر اپنے ردعمل کا اظہار رو کر، مسکرا کر، سوگ منا کر، آپے سے باہر ہو کر اور غم زدہ ہو کر کیا کرتے تھے۔ وہ تکالیف پر مسکراتے نہیں تھے، موت سے نفرت نہیں کرتے تھے بلکہ گستمنی باغ میں بیٹھے بیٹھے دعائیں مانگتے تھے کہ مصائب دور ہو جائیں۔ “ یہ کہہ کر ایوان دمیترچ ہنس پڑا اور بیٹھ گیا۔

”اچھا فرضکیے لیتے ہیں کہ انسان کو سکون اور اطمینان اپنے وجود کے باہر نہیں بلکہ اندر تلاش کرنا چاہیے۔ “ اس نے کہا۔ ”فرضکیے لیتے ہیں کہ تکالیف سے نفرت کرنا اور کسی بھی بات پر متحیر نہ ہونا درست ہے۔ لیکن اس نظریے کی تبلیغ کا آپ کو کیا حق ہے؟ آپ عاقل ہیں کیا، فلسفی ہیں کیا؟ “

”نہیں، میں فلسفی تو نہیں ہوں لیکن اس نظریے کی تبلیغ ہر شخص کو کرنی چاہیے کیونکہ یہ معقول ہے۔ “

”اوہ، لیکن میں تو یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آخر آپ خودکو ادراک، تکالیف سے نفرت اور ایسی ہی دوسری باتوں کا استاد کیسے تصور کرتے ہیں؟ کبھی تکلیف جھیلی بھی ہے؟ وہم و گمان میں بھی ہے کہ تکلیف کس کو کہتے ہیں؟ اور یہ پوچھنے کے لئے معافی چاہتا ہوں کہ کبھی بچپن میں کوڑے بھی کھائے ہیں؟ “

”نہیں، میرے والدین جسمانی سزا کے مخالف تھے۔ “

”اور میرے والد بڑی بے رحمی سے مجھ پر کوڑے برسایا کرتے تھے۔ وہ ایک افسر تھے، غصے میں بالکل بھوت ہو جایا کرتے تھے، لمبی سی ناک تھی، پیلی پیلی گردن اور بواسیر کا مرض۔ خیر ان کا ذکر جانے دیجئے، بات تو آپ کی ہو رہی تھی۔ مارنا تو دور کی بات، زندگی بھر آپ کو کسی نے چھنگلیا تک نہیں لگائی، کسی نے ڈرایا دھمکایا نہیں، ظلم جبر نہیں کیا۔ طاقت کا یہ حال ہے کہ بالکل پہلوان ہو رہے ہیں۔ اپنے والد کے سائے میں پلے بڑھے، ان کے پیسوں سے تعلیم حاصل کی اور پھر برائے نام کام والی نوکری مل گئی۔ بیس سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے کہ آپ ایک گرم اورمنور گھر میں مفت ٹھاٹھ کر رہے ہیں، نوکرانی رکھ چھوڑی ہے اور پورا حق حاصل ہے کہ آپ کا جی جب چاہے تب کام کریں اور نہ چاہے تو بالکل نہ کریں۔ مزاجاً آپ کاہل اور مجہول ہیں اس لئے زندگی کو کچھ ایسے ڈھرے پر لگا لیا ہے کہ کسی قسم کی پریشانی یا غیر ضروری دوڑ دھوپ سے سابقہ ہی نہ پڑے۔ اپنی ساری ذمے داریاں اپنے نائب اور دوسرے بدمعاشوں کے سپرد کر دی ہیں اور خود گھرکے پُرسکون اور گرم ماحول سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، پیسے بچا رہے ہیں، مطالعہ کر رہے ہیں، بھانت بھانت کے اعلا و ارفع بکواس سے ذہن کی ضیافت کا سامان فراہم کر رہے ہیں اور (ایوان دمیترچ نے تیزی سے ڈاکٹرکی سرخ ناک پر نظر ڈالی) مے نوشی کر رہے ہیں۔ مختصریہ کہ آپ نے زندگی کو نہ دیکھا ہے نہ اس کے متعلق کچھ جانتے ہیں اور حقیقت کے بارے میں آپ کی ساری معلومات بس نظریاتی ہی ہیں۔ آپ تکالیف کو حقیر تصور کرتے ہیں، کسی بات پر متحیر نہیں ہوتے تو اس کا سبب بہت آسان سا ہے : آپ کا یہ سارا کھوکھلا پن، زندگی، تکالیف اور موت سے خارجی اور داخلی نفرت، ادراک، حقیقی نعمتیں۔ یہ سارا فلسفہ کسی دوسرے فلسفے کی بہ نسبت روسی کاہل کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی کسان اپنی بیوی کو زدو کوب کر رہا ہے۔ مداخلت کی کیا ضرورت؟ مارتا ہے تو مارنے دیجئے، دیر سویر ان دونوں ہی کو دنیا سے اٹھ جانا ہے اور پھر یہ کہ وہ اپنی اس حرکت سے خود اپنا ہی اخلاق بگاڑ رہا ہے، بیوی کا تھوڑی۔ شراب کی لت بے شک احمقانہ اور ناشائستہ ہے لیکن پینے والے اور نہ پینے والے مرتے تو دونوں ہی ہیں۔ کوئی عورت آپ کے پاس دانت کے درد کی شکایت لے کر آتی ہے۔ اچھا، درد ہو رہا ہے تو کیا ہوا؟ درد ہے کیا، محض درد کا تصور اور پھر ہم یہ توقع تو نہیں کرسکتے کہ زندگی میں کبھی بیمار ہی نہ پڑیں گے، مرنا تو ہم سبھی کو ہے اس لئے اے عورت، جا اپنی راہ لے اور مجھے سکون کے ساتھ سوچنے اور مے نوشی کرنے دے۔ کوئی نوجوان آپ کے پاس مشورے کے لئے آتا ہے، جاننا چاہتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے، زندگی کیسے گزارنی چاہیے۔ کوئی دوسرا شخص جواب دینے سے قبل ذرا دیر غور کرے گا لیکن آپ کا جواب تیار رہتا ہے۔ ادراک کی کوشش کرو یا جیساکہ آپ اس بات کو کہتے ہیں، حقیقی نعمت کے حصول کی۔ لیکن آخر یہ پراسرار“ حقیقی نعمت ”ہے کیا؟ ظاہر ہے کہ اس کا آپ کے پاس کوئی جواب نہیں۔ ہم ان آہنی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں، مارے پیٹے جاتے ہیں، پڑے پڑے گل سڑ رہے ہیں مگر یہ سب بہت ہی شاندار اور معقول ہے کیونکہ اس وارڈ اور مطالعے کے گرم کمرے میں کوئی فرق نہیں۔ واقعی بڑے کام کا ہے یہ پاک و صاف ہے اور آپ خود کو صحیح معنوں میں عاقل و فرزانہ تصور کرتے ہیں۔ نہیں، جناب عالی! یہ قطعاً کوئی فلسفہ نہیں، کوئی فکر نہیں، کوئی وسیع الخیالی نہیں۔ یہ تو بس کاہلی ہے، تقدیر پرستی ہے، ذہنی بے حسی ہے۔ جی ہاں، واقعی! “ ایوان دمیترچ ایک بار پھر بڑی تندی و تیزی سے چلایا۔ ”آپ تکالیف کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن اگر آپ کی چھنگلیاں دروازے میں دب جائے تو شاید آپ پوری قوت سے چیخ اٹھیں! “

”اور شاید نہ چیخوں“ اندریئی یفمیچ نے نرمی سے مسکراتے ہوئے کہا۔

”ہونہہ، نہ چیخیں گے! اگر اچانک آپ پر فالج گر پڑے یا کوئی بے وقوف یا کوئی لچا بدمعاش اپنے عہدے اور معاشرتی مرتبے سے ناجائز فائدہ اٹھا کر سب کے سامنے آپ کی پگڑی اچھالے اور آپ جانتے ہوں کہ وہ سزا سے بچ جائے گا تب آپ کی سمجھ میں آ جائے گا کہ لوگوں کو ادراک اور حقیقی نعمتوں کے لئے کوشاں ہونے کا مشورہ دینا کیا معنی رکھتا ہے۔ “

”بڑی جدت ہے آپ کے اس خیال میں“ اندریئی یفمیچ نے ہاتھوں کو ملتے اور خوشی سے ہنستے ہوئے کہا۔ ”میں آپ کی تعظیم کرنے سے متعلق رجحان پر عش عش کرتا ہوں اور ابھی ابھی آپ نے میرے کردار کا جس ذہانت کے ساتھ نقشہ کھینچا ہے اس کاکیا کہنا! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ سے باتیں کرنا سب سے بڑی مسرت ہے۔ خیر، میں آپ کی سن چکا، اب از راہ نوازش میری سنیئے۔ “

ان دونوں کی گفتگو کوئی گھنٹے بھر تک جاری رہی اور اس نے اندریئی یفمیچ کو یقینا بہت زیادہ متاثر کیا کیونکہ اب ہر روز وہ وارڈ نمبر 6 کے چکر لگانے لگا۔ کبھی وہ صبح کو جاتا، کبھی ڈنر کے بعد اور اکثر ایوان دمیترچ سے اس کی گفتگو اتنا طول کھینچتی کہ اندھیرا ہو جاتا۔ پہلے تو ایوان دمیترچ اپنے اور اس کے درمیان ایک طرح کی دیوار سی حائل رکھتا، شک کرتا کہ اس کے دل میں کچھ کھوٹ ہے اور کھلم کھلا کہتا رہتا تھا کہ وہ اسے ناپسند کرتا ہے مگر جلد ہی وہ اندریئی یفمیچ کی صحبت کا عادی ہوگیا اور اپنے سخت لہجے کو نرم طنزیہ لہجے میں بدل دیا۔

جلد ہی سارے اسپتال میں افواہ پھیل گئی کہ ڈاکٹر اندریئی یفمیچ پابندی کے ساتھ وارڈ نمبر 6 میں جانے لگا ہے۔ اس کے نائب نیکیتا اور نرسوں میں سے کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ آخر اس وارڈ میں کیوں جاتا ہے وہاں گھنٹوں کیا کرتا ہے، موضوع گفتگوکیا ہوتا ہے اور کبھی نسخہ کیوں نہیں لکھتا۔ اس کا طرز عمل کچھ عجیب سا لگتا تھا۔ میخائل آویریانچ جب اس سے ملنے آتا تھا تو اکثر وہ گھر سے باہر ہوتا تھا اور واریا کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کرے کیونکہ ڈاکٹر اب نہ صرف یہ کہ پابندی کے ساتھ بیئر نہیں پیتا تھا بلکہ بعض اوقات دن کے کھانے میں بھی تاخیر کر دیتا تھا۔


جون کے آخری دنوں میں ایک بار ڈاکٹر خوبوتوف کسی کام سے اندریئی یفمیچ کے ہاں گیا۔ وہ گھر میں نہ ملا تو خوبوتوف اسے تلاش کرنے کے لئے احاطے میں نکلا جہاں اسے بتایا گیا کہ معمر ڈاکٹر دماغی امراض کے وارڈ میں ہے۔ وہاں پہنچ کے وہ گزرگاہ میں ٹھہر گیا اور کھڑے کھڑے مندرجہ ذیل بات چیت سنی۔

”ہم کبھی بھی متفق نہ ہوں گے اور آپ کبھی بھی مجھے اپنا ہم خیال نہ بنا سکیں گے“ ایوان دمیترچ چڑے چڑے پن کے ساتھ کہہ رہا تھا۔ ”آپ کو معلوم ہی نہیں کہ حقیقت کیا ہوتی ہے، آپ نے کبھی بھی تکالیف نہیں برداشت کیں اور کسی جونک کی طرح دوسروں کا خون چوس چوس کر ہی پیٹ بھرا ہے جبکہ میں اپنی پیدائش کے دن سے آج تک صرف اذیتیں ہی جھیلتا رہا ہوں۔ اس لئے میں آپ سے صاف صاف کہہ دینا چاہتا ہوں، میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ سے برتر ہوں اور ہر لحاظ سے آپ سے زیادہ اہلیت رکھتا ہوں مجھے کچھ پڑھانا آپ کا کام نہیں۔ “

”آپ کو ہم خیال بنانے کی میں ذرا بھی خواہش نہیں رکھتا“ اندریئی یفمیچ نے دھیرے سے یوں اداسی کے ساتھ کہا جیسے اپنی بات کے غلط ڈھنگ سے سمجھے جانے سے دُکھی ہو اور اصل بات یہ ہے بھی نہیں میرے دوست اس حقیقت کا کہ میں نے تکالیف نہیں جھیلیں اور آپ نے جھیلی ہیں ہم انہیں نظرانداز کرسکتے ہیں، ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ اور میں سوچ سکتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے میں ایسے افراد کو دیکھ رہے ہیں جو غور و فکر اور بحث مباحثے کی اہلیت رکھتے ہیں اور یہ چیز کہ ہمارے خیالات کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں، ایک دوسرے کے لئے ہمدردی کو جنم دیتی ہے۔ کاش آپ کو معلوم ہوسکتا کہ میں ہبہ گیر مخبوط الحواسی، علمی سطحیت اور حماقت سے کتنا بیزار ہوں اور کتنی خوشی ہوتی ہے مجھے آپ سے باتیں کرکے میرے دوست! آپ ذہین ہیں اسی لئے آپ کی رفاقت سے میں لطف اندوز ہوتا ہوں۔ ”

خوبوتوف نے دروازے کو ذرا سا کھول کے اندر جھانکا۔ ایوان دمیترچ اپنی رات کی ٹوپی پہنے پلنگ پر بیٹھا ہوا تھا اور بغل ہی میں ڈاکٹر بھی بیٹھا تھا۔ پاگل بار بار منہ بنا رہا تھاچونک پڑتا تھا اور کپکپاہٹ کے ساتھ لبادے کو جسم پرلپیٹنے لگتا تھا جبکہ ڈاکٹر سر جھکائے، تمتمائے ہوئے چہرے کے ساتھ بے حس و حرکت بیٹھا ہوا تھا بے بس اور سوگوار سا۔ خوبوتوف نے شانے اچکائے مسکرایا اور نیکیتا سے آنکھیں چار کیں۔ اس نے بھی اپنے شانے اچکائے۔

اگلے روز خوبوتوف طبی معاون کو اپنے ساتھ بلا لایا اور دونوں نے گزرگاہ میں ساتھ ساتھ کھڑے ہو کے بات چیت سنی۔

”لگتا ہے ہمارے بڑے میاں کا کچھ دماغ چل گیا! “ دونوں باہر نکل رہے تھے تو خوبوتوف نے کہا۔

”خدا ہم بدبخت گنہگاروں کو معاف کرے“ دین دار سرگیئی سرگیئچ نے احاطے میں گڑھوں سے احتیاط سے کتراتے ہوئے تاکہ اس کے پالش سے چمچماتے ہوئے لانگ بوٹوں پر کیچڑ نہ لگے ٹھنڈی سانس بھری۔ ”آپ سے سچ کہہ رہا ہوں محترمی یوگینی فیدورچ کہ میں تو عرصے سے اس کی توقع کر رہا تھا! “

خوبوتوف کے وارڈ نمبر 6 کے دروازے تک آنے کے چند ہی دنوں بعد اندریئی یفمیچ نے محسوس کیا کہ اس کے گرد کا ماحول کچھ عجیب پراسرار سا ہوگیا ہے۔ اسپتال کے خدمت گار، نرسیں اور مریض اس کا سامنا ہوتے ہی نظروں ہی نظروں میں اس کاجائزہ لینے لگتے اور وہ ان کے پاس سے ہو کے آگے بڑھ جاتا تو فوراً ہی کھسر پھسر شروع کر دیتے۔ سپرنٹنڈنٹ کی بچی ماشا سے وہ اسپتال کے باغ میں مل کے خوش ہوا کرتا تھا لیکن اب اس کے بالوں کو سہلانے کے لئے مسکراتا ہوا اس کی طرف بڑھتا تو وہ بھاگ کھڑی ہوتی۔ پوسٹ ماسٹر میخائل آویریانچ اس کی پرجوش باتوں کے دوران اپنے معمول کے مطابق ”بالکل سچ ہے“ کہنے کے بجائے اب ناقابلِ توجیہہ گھبراہٹ سے ”یقینا یقینا“ کہتا اور اسے کھوئی کھوئی اداس نظروں سے دیکھنے لگتا تھا۔ جانے کیوں اس نے اب اپنے دوست کو مشورہ دینا شروع کیا کہ وہ بیئر اور واڈکا سے ناتا توڑ لے لیکن اس بات کو وہ اپنی شائستگی کی بنا پر ذرا گھما پھرا کر، اشاروں کنایوں میں کہتا تھا۔ وہ کبھی اپنے بٹالین کمانڈر کی بات چھیڑ دیتا اور کبھی رجمنٹ کے پادری کی اور اندریئی یفمیچ سے کہتا کہ دونوں ہی بڑے اچھے آدمی تھے جو شراب کی لت کے پیچھے اپنی صحت سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن اسے چھوڑتے ہی بالکل ٹھیک ہوگئے۔ دو ایک بار اس کا ساتھی خوبوتوف اس کے ہاں آیا تو اس نے بھی ترک مے کا مشورہ دیا اور باتوں ہی باتوں میں یہ بھی کہہ گیا کہ اندریئی یفمیچ کو پوٹاشیم برومائیڈ استعمال کرنا چاہیے جس کی بظاہر کوئی وجہ نہ تھی۔

اگست میں اندریئی یفمیچ کو میونسپل کونسل کے چیئرمین کا خط ملا جس میں اسے کسی بہت ضروری کام سے طلب کیا گیا تھا۔ وہ ٹاؤن ہال پہنچا تو وہاں اس نے علاقے کے فوجی سربراہ، ضلع اسکول انسپکٹر، میونسپلٹی کے ایک ممبر، ڈاکٹر خوبوتوف اور ایک اور لحیم شحیم، بھورے بالوں والے شخص کو جس کا اس سے ڈاکٹر کہہ کر تعارف کرایا گیا، اپنا منتظر پایا۔ دشوار پولستانی نام والا یہ ڈاکٹر تیس ورسٹ دور گھوڑوں کے ایک فارم پر رہتا تھا اور وہ قصبے سے صرف گزر ہی رہا تھا۔

”ہمیں ایک درخواست موصول ہوئی ہے جس کا آپ سے بھی کچھ تعلق ہے“ صاحب سلامت کا سلسلہ ختم ہو جانے کے بعد سب لوگ میز کے گرد بیٹھ گئے تو میونسپل ممبر نے اندریئی یفمیچ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ”درخواست میں یوگینی فیدورچ نے کہا ہے کہ دواخانے کے لئے خاص عمارت میں کافی جگہ نہیں ہے اس لئے اسے بازو والے حصے میں منتقل کر دیا جانا چاہیے۔ ہمارے لئے درد سر جگہ کی تبدیلی نہیں بلکہ یہ سوال ہے کہ نئی جگہ کی مرمت کرنی ہوگی۔ “

”جی ہاں، مرمت کی تو بے حد ضرورت ہے“ اندریئی یفمیچ نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔ ”مثال کے طور پر دواخانے کو اگر بالکل کونے والے حصے میں منتقل کیا جائے گا تو میرے خیال میں اس جگہ کی مرمت پر کچھ نہیں تو پانچ سو روبل تو خرچ ہوہی جائیں گے۔ بالکل بے ثمر اخراجات۔ “

ذرا دیر تک خاموشی چھائی رہی۔

”مجھے دس سال قبل بھی آپ سے یہ عرض کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ “ اندریئی یفمیچ نے دھیرے دھیرے اپنی بات جاری رکھی، ”کہ یہ اسپتال اپنی موجودہ حالت میں ایسے تعیش کی حیثیت رکھتا ہے جسے قصبے کے وسائل برداشت نہیں کرسکتے۔ اسے پانچویں دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا جبکہ حالات بالکل مختلف تھے۔ میونسپل کونسل غیر ضروری عمارتوں اور فالتو تقرریوں پر بہت زیادہ رقوم صرف کرتی ہے۔ انتظامات مختلف ڈھنگ سےکیے جائیں تو مجھے یقین ہے کہ اتنی ہی رقم سے دو بہت اچھے اسپتال چلائے جاسکتے ہیں۔ “

”تو پھر ہمیں مختلف ڈھنگ سے ہی انتظامات کرنے چاہئیں! “ میونسپل ممبرنے دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔

”مجھے اس مسئلے پر اس سے قبل بھی اپنی رائے ظاہر کرنے کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے۔ اسپتال چلانے کی ذمہ اری زیمستوو کے سپرد کر دی جانی چاہیے۔ “

”جی ہاں بے شک، بے شک، ہم اپنے سارے فنڈ زیمستوو کو دے دیں تاکہ وہ ان پر ہاتھ صاف کرسکے“ بھورے بالوں والے ڈاکٹر نے ہنستے ہوئے کہا۔

”جی ہاں، جی ہاں“ میونسپل ممبر نے بھی ہنستے ہوئے اس سے اتفاق رائے کیا۔

اندریئی یفمیچ نے دھندلی دھندلی نظروں سے بھورے بالوں والے ڈاکٹر کو دیکھا اور کہا: ”ہمیں ذرا انصاف سے کام لینا چاہیے۔ “

ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ اتنے میں چائے لگا دی گئی۔ فوجی سربراہ نے جو جانے کیوں بہت نادم سا نظر آ رہا تھا، اپنا ہاتھ پھیلا کے میز کی دوسری جانب بیٹھے ہوئے اندریئی یفمیچ کا ہاتھ چھو لیا اور کہا:

”ارے ڈاکٹر صاحب، آپ تو لگتا ہے کہ ہم لوگوں کو بھول ہی گئے۔ ویسے تو میں جانتا ہوں کہ آپ نے تو ایک طرح سے سنیاس ہی لے رکھا ہے، نہ تاش کھیلتے ہیں نہ عورتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ کو ہماری صحبت بے کیف لگتی ہوگی۔ “

پھر ہر شخص کہنے لگا کہ اہلِ ذوق کو یہ قصبہ واقعی بڑا بے کیف لگتا ہوگا۔ نہ کوئی تھیٹر ہے نہ موسیقی اور حالت یہ ہے کہ کلب میں گزشتہ رقص کے موقعے پر عورتیں تو بیس آگئی تھیں پر ان کا ساتھ دینے کے لئے مرد بس دو ہی تھے۔ نوجوانوں کو رقص سے دلچسپی نہیں یاتو بار میں اکٹھا رہتے ہیں یا تاش کھیلتے رہتے ہیں۔ یہ سب سن کے اندریئی یفمیچ نے کسی کی طرف دیکھے بغیر اپنی پُرسکون، دھیمی آواز سے کہنا شروع کیا کہ افسوس، صد افسوس، قصبے کے لوگ اپنی توانائی کو، روحوں اور ذہنوں کو تاش اور گپ بازی میں ضائع کرتے ہیں، دلچسپ گفتگو میں وقت گزارنے کے نہ اہل ہیں نہ خواہاں اور ذہنی انبساط سے محفوظ ہونے کو تو جیسے کوئی تیار ہی نہ ہو۔ صرف ذہن ہی دلچسپ اور شاندار ہے، باقی سب کچھ ہیچ۔ ”خوبوتوف نے اپنے ساتھی ڈاکٹر کی یہ باتیں بڑے غور سے سنیں اور پھر اچانک قطع کلام کرتے ہوئے پوچھا:

”آج تاریخ کیا ہے، اندریئی یفمیچ؟ “

جواب پانے کے بعد اس نے اور بھورے بالوں والے ڈاکٹر نے اندریئی یفمیچ سے اور بھی سوالاتکیے مثلاً یہ کہ آج دن کون سا ہے، سال میں کتنے دن ہوتے ہیں اور کیا یہ سچ ہے کہ وارڈ نمبر 6 میں کوئی شاندار پیغمبر رہتا ہے۔ دونوں کا لہجہ ان ممتحنوں کے جیسا تھا جنہیں خود اپنی نا اہلی کا احساس ہو۔

آخری سوال کا جواب دیتے وقت اندریئی یفمیچ کا چہرہ کچھ تمتما سا اٹھا اور اس نے کہا:

”جی ہاں، وہ بیمار آدمی ہے لیکن ہے بہت دلچسپ۔ “

اس کے بعد اور سولات نہ پوچھے گئے۔

وہ برآمدے میں اوور کوٹ پہن رہا تھا تو فوجی سربراہ نے اس کے پاس پہنچ کے شانے کو تھپتھپایا، ٹھنڈی سانس بھری اور کہا:

”وقت آ گیا ہے کہ ہم بوڑھے لوگ سبکدوش ہونے کے متعلق سوچنا شروع کر دیں! “

ٹاؤن ہال سے نکلتے وقت اندریئی یفمیچ کی سمجھ میں آیا کہ دراصل اسے کمیشن کے سامنے طلب کیا گیا تھا جو اس کی ذہنی حالت کی جانچ کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ اس سے جو سوالات پوچھے گئے تھے انہیں یاد کرکے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا اور زندگی میں پہلی بار علمِ طب کی زبوں حالی پر اسے افسوس سا ہوا۔

”اوہ خدا“ اس نے یہ یاد کرتے ہوئے کہ دونوں ڈاکٹروں نے اس کی جانچ کس ڈھنگ سے کی تھی، سوچا ”یہ لوگ تو ابھی حال ہی میں دماغی امراض کے علاج سے متعلق لیکچروں میں شریک ہوئے تھے اور امتحانات بھی دیے تھے تو پھر آخر یہ لاعلمی کیسی، اتنی جہالت کیوں؟ یہ تو اس میدان میں بالکل ہی کورے نکلے! “ اور اسے زندگی میں پہلی بار ذلیلکیے جانے کا احساس ہوا، وہ آگ کی طرح بھڑک اٹھا۔

اسی روز شام کو میخائل آویرایانچ اس سے ملنے آیا۔ اس نے رک کے صاحب سلامت تک نہ کی، سیدھا اندریئی یفمیچ کے سامنے پہنچا، اس کے دونوں ہاتھوں کو تھام لیا اور بڑی جذباتی آواز سے کہنے لگا۔

”عزیز ترین دوست، ثبوت دیجئے کہ آپ اپنے سلسلے میں میرے جذبات کے خلوص میں یقین رکھتے اور مجھے اپنا دوست تصور کرتے ہیں۔ عزیز ترین دوست! “ اور اس نے اندریئی یفمیچ کو زبان کھولنے کا موقع دیے بغیر ہیجانی انداز میں بات جاری رکھی:

”میں آپ کی علمیت اور شرافت نفس کی بنا پر آپ سے محبت کرتا ہوں۔ ذرا غور سے سنیئے، میرے دوست۔ ڈاکٹروں کے پیشہ ورانہ آداب انہیں آپ سے حقیقت کو راز میں رکھنے پر مجبور کر رہے ہیں لیکن میں ٹھہرا سپاہی، صاف گوئی سے کام لوں گا۔ آپ علیل ہیں! مجھے معاف کیجئے گا، عزیز دوست لیکن حقیقت یہی ہے اور یہ کافی دنوں سے آپ کے اردگرد کے لوگوں کی نگاہوں میں ہے۔ یوگینی فیدورچ مجھ سے ابھی ابھی کہہ رہے تھے کہ آپ کو اپنی صحت کا خیال کرکے کچھ آرام کرنا اور کام سے توجہ ہٹانا چاہیے۔ بالکل سچ! شاندار! چند دنوں بعد میں چھٹی لینے والا ہوں اور ہوا خوری کے لئے کہیں باہر جانے کا ارادہ ہے۔ مجھ سے اپنی دوستی کا ثبوت دیجئے، میرے ساتھ چلئے چلئے اور ہمیں اپنا کھویا ہوا شباب مل جائے گا! “

”لیکن میں تو بھلا چنگا ہوں“ اندریئی یفمیچ نے قدرے توقف سے کہا۔ ”اور میں آپ کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ مجھ سے اپنی دوستی کا ثبوت اور کسی طرح لے لیجیے نا۔ “

کتابوں اور واریا کو چھوڑ کر، گزشتہ بیس برسوں کے اس سارے معمول کو توڑ کے بلاسبب ہی کہیں جانے کا خیال پہلے تو اسے انتہائی احمقانہ اور عجیب و غریب سا لگا۔ لیکن جب اس نے یاد کیا کہ ٹاؤن ہال میں کیا کہا گیا تھا، وہاں سے گھر لوٹتے وقت وہ کتنا دل شکستہ تھا تو قصبے کو جہاں عقل کے اندھے اسے پاگل سمجھ بیٹھے تھے، کچھ دنوں کے لئے چھوڑ دینے کی تجویز اچانک دل میں بیٹھ گئی۔

”آپ جائیں گے کہاں؟ “ اس نے پوچھا۔

”ماسکو، پیٹرس برگ، وارسا۔ وارسا میں تو میں پانچ سال گزار چکا ہوں اور یہ میری زندگی کے بہترین سال تھے۔ لاجواب شہر ہے! میرے ساتھ چلئے ضرور، عزیز دوست! “

ہفتے بھر بعد اندریئی یفمیچ سے کہا گیا کہ وہ آرام کرسکتا ہے، دوسرے الفاظ میں اس سے استعفا طلب کیا گیا جسے اس نے انتہائی بے فکری کے ساتھ دے دیا اور مزید ایک ہفتے بعد وہ میخائل آویریانچ کے پہلو میں ڈاک بگھی پر بیٹھا ہوا قریب ترین ریلوے اسٹیشن کو جا رہا تھا۔ موسم سرد لیکن خوشگوار تھا، آسمان نیلگوں اور فضائیں صاف و شفاف۔ ان لوگوں نے اسٹیشن تک دو سو ورسٹ کا فاصلہ دو دنوں میں طے کیا اور رات گزارنے کے لئے دو بار ٹھہرے۔

راستے میں ٹھہرنے کی جگہوں پرا نہیں اگر گندے گلاسوں میں چائے پیش کی جاتی یا ان کے گھوڑوں کو بگھی میں جوتنے میں زیادہ عجلت نہ برتی جاتی تومیخائل آویریانچ کا چہرہ لال بھبوکا ہو جاتا، سر سے پاؤں تک کانپنے لگتا اور زور سے چلاتا:

”خاموش! بحث کی اجازت نہیں! “ بگھی کے اندر اس کی زبان قینچی کی طرح چل رہی تھی، قفقاز اور پولینڈ میں اس کے سفروں کے قصے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ کیسے کیسے سنسنی خیز واقعات پیش آئے تھے! کیسے کیسے لوگوں سے اس کی ملاقاتیں ہوئی تھیں! وہ جس طرح چیخ چیخ کے بول رہاتھا، اظہارِ حیرت کے لئے جس طرح آنکھیں مٹکا رہا تھا اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ یہ ساری ڈینگ سفید جھوٹ ہی ہے۔ اس سب پر طرہ یہ کہ وہ اپنی سانسیں اندریئی یفمیچ کے عین چہرے پر خارج کرتا اور اس کے کان میں ہنستا تھا جس سے ڈاکٹر بے چین ہو اٹھتا تھا اور اپنے خیالوں میں نہیں کھو پاتا تھا۔

ان لوگوں نے پیسے بچانے کے خیال سے تیسرے درجے میں سفر کیا اور غیر تمباکو نوشوں والے ڈبے میں بیٹھے۔ آدھی مسافر خودانہی کے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ میخائل آویرایانچ نے جلد ہی ان سبھوں سے دوستانہ روابط قائم کر لئے اورکبھی ایک بنچ پر اور کبھی دوسری پر بیٹھ کر بلند آواز سے انہیں قائل کرنے لگا کہ ایسے واہیات راستوں پر انہیں سفر کرنے سے انکار کر دینا چاہیے۔ چاروں طرف بے ایمانی کا دور دورہ ہے! یہ سفر گھڑ سواری سے کتنا مختلف ہے۔ آپ دن بھر میں سو ورسٹ طے کرتے ہیں پھر بھی اس کے بعد تازگی محسوس کرتے ہیں۔ ہماری فصلیں جو خراب ہوتی ہیں تو اس کا سبب صرف یہ ہے کہ پسک دلدلی حلقوں کو پانی نکال کر خشک کر دیا گیا ہے۔ جدھر دیکھئے ادھر بدنظمی پھیلی ہوئی ہے۔ وہ جوش و خروش میں چلا چلا کر بولتا جا رہا تھا اورکسی دوسرے کو ایک لفظ بھی منہ سے نکالنے کا موقع نہیں دیتا تھا۔ اس مسلسل بک بک سے جس کے دوران وہ اپنی باتوں پر زور دینے کے لئے ہاتھوں سے اشارے کر رہا تھا اور بار بار کان کے پردے پھاڑ دینے والے قہقہے بلند کرتا تھا، اندریئی یفمیچ کا دم ناک میں آگیا۔

”ہم دونوں میں پاگل کسے تصور کیا جانا چاہیے؟ “ اس نے جھلاہٹ کے ساتھ سوچا۔

”مجھ کو جو کوشاں ہے کہ اپنے ساتھی مسافروں پر بار نہ بنے یا اس خود پسند کو جس کا خیال ہے کہ پورے ڈبے میں ذہین اور دلچسپ شخص صرف وہی ہے اور کس کو پل بھر بھی چین نہیں لینے دے رہا ہے؟ “


ماسکو پہنچ کے میخائل آویریانچ نے فوجی کوٹ جس کے شانوں میں جھبے نہیں لگے تھے اور پتلون جس کے پائینچوں کی سیونوں پر اوپر سے نیچے سرخ فیتے سلے ہوئے تھے، پہن لیا۔ وہ فوجی ٹوپی اور اوورکوٹ پہن کر باہر نکلتا تھا اور سڑکوں پر سپاہی اسے سلامی دیتے تھے۔ اندریئی یفمیچ کو اب وہ ایک ایسا شخص نظر آیا جس نے دیہی شرفا کی تمام اچھائیاں اڑا دی ہوں اور اس کے پاس صرف برائیاں ہی باقی بچی ہوں۔ ضرورت نہ ہو تب بھی اسے دوسروں سے خدمت لینے کا بڑا شوق تھا۔ ماچس کی ڈبیا سامنے میز پر رکھی ہوتی، اسے دیکھتا پھر بھی چلا کے نوکر کو پکارتا اور کہتا کہ ماچس اٹھا دو، خادمہ کی موجودگی میں بھی صرف اندرونی کپڑے پہنے پہنے اِدھر اُدھر آنے جانے میں عار نہیں کرتا تھا، نوکروں کو خواہ وہ سن رسیدہ ہی کیوں نہ ہوں ”توں“ کہہ کر ہی مخاطب کرتا اور غصے میں ہوتا تو انہیں بے وقوف اور بدمعاش بھی کہہ دیا کرتا تھا۔ اندریئی یفمیچ جانتا تھا کہ دیہی شرفا کا وطیرہ ہی یہی ہے پر اسے ان حرکتوں پر سخت تنفر محسوس ہوتا۔

میخائل آویریانچ نے سرگرمیوں کا آغاز اپنے دوست کو ایویرسکایا خانقاہ میں عبادت کے لئے لے جا کر کیا۔ خود اس نے سر کو زمین تک جھکا کر، ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بڑے خضوع و خشوع سے عبادت کی جس کے بعد گہری ٹھنڈی سانس لی اور کہا:

”آدمی دین دار نہ ہو تب بھی عبادت سے سکون حاصل ہوتا ہے۔ شبیہ کا بوسہ لیجیے، میرے دوست۔ “

اندریئی یفمیچ نے بھونڈے پن سے جھک کر ہدایت پر عمل کیا لیکن اس اثناءمیں میخائل آویریانچ نے اپنے ہونٹ سکوڑے، چپکے چپکے پھر دُعا مانگی اور اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو تیرنے لگے۔ اس کے بعد وہ دونوں کریملن گئے، شاہی توپ اور گھنٹے کو دیکھا اور انہیں اپنی انگلیوں کی نوکوں سے چھوا بھی۔ دریا کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کے بعد وہ دونوں حضرت عیسیٰ کے گرجے میں گئے اور رومیانسیف میوزیم دیکھا۔

کھانا تیستوف ریستوران میں کھایا گیا۔ میخائل آویریانچ اپنے گل مچھوں کو تھپتھپا تھپتھپا کے فہرست طعام کو دیر تک پڑھتا رہا پھر کھانوں اور شرابوں کے کسی ماہر کے لہجے میں جو ریستوران آنے کا عادی ہو، ویٹر سے کہا:

”دیکھتے ہیں کہ آج آپ کاہے سے ہماری ضیافت کرتے ہیں! “

ڈاکٹر ہر جگہ جاتا، سب کچھ دیکھتا، کھاتا پیتا لیکن میخائل آویریانچ سے شدید الجھن کے سوا اور کوئی کیفیت اس کے ذہن پر نہ طاری ہوتی۔ وہ اپنے دوست کی مسلسل موجودگی سے تنگ آچکا تھا، اس سے جان چھڑانے اور کہیں چھپ جانے کو بے تاب ہو رہا تھا پر میخائل آویریانچ تو سائے کی طرح ساتھ لگے رہنے اور حتیٰ الامکان اس کا دل بہلانے کو اپنا فرض تصور کر رہا تھا۔ کوئی چیز دیکھنے کو نہیں ہوتی تھی تو وہ اپنی باتوں سے تفریح کا سامان فراہم کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اندریئی یفمیچ نے یہ سب دو دنوں تک تو جوں توں جھیلا لیکن تیسرے روز طبیعت کی ناسازی کا بہانہ کرکے کہا کہ وہ تمام دن باہر نہ نکلے گا۔ اس کے دوست نے کہا کہ اس صورت میں وہ بھی کہیں نہ جائے گا نیز یہ کہ واقعی آرام کی ضرورت ہے ورنہ پیدل چلتے چلتے ان لوگوں کے پاؤں جواب دے جائیں گے۔ اندریئی یفمیچ نے صوفے پر لیٹ کے منہ دیوار کی طرف موڑلیا اور بھنچے ہوئے دانتوں کے ساتھ اپنے دوست کی باتیں سننے لگا جو بڑے جوش و خروش کے ساتھ اسے یقین دلا رہا تھا کہ فرانس دیر سویر جرمنی کے پرخچے اڑا دے گا اور یہ کہ ماسکو ٹھگوں سے بھرا پڑا ہے اور جہاں تک گھوڑوں کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں ان کی صرف خوبیوں کی بنیاد پر قطعی رائے نہ قائم کی جانی چاہیے۔ ڈاکٹر کو اختلاج قلب اور اپنے کانوں میں مسلسل بھن بھناہٹ کا احساس تھا لیکن اپنی شائستگی کی بناءپر دوست سے یہ نہ کہہ سکا کہ اسے یا تو تنہا چھوڑ دے یا خاموش ہو جائے۔ خوش قسمتی سے کمرے میں بیٹھے بیٹھے میخائل آویریانچ کا جی اوب گیا اور دوپہر کے کھانے کے بعد وہ ٹہلنے نکل کھڑا ہوا۔

تنہائی نصیب ہوتے ہی اندریئی یفمیچ بے حد پُرسکون ہوگیا۔ کمرے میں تنہا ہونے کے احساس کے ساتھ صوفے پر بے حس و حرکت لیٹے رہنا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ اس نے سوچا کہ دراصل تنہائی کے بغیر حقیقی مسرت کا تصورتک نہیں کیا جاسکتا۔ معتوب فرشتے نے خدا کی حکم عدولی شاید اسی لئے کی تھی کہ وہ تنہائی کی شدید خواہش رکھتا تھا جو فرشتوں کو میسر نہیں ہوتی۔ اندریئی یفمیچ نے گزشتہ دنوں میں جو کچھ دیکھا سنا تھا اس کے متعلق سوچنا چاہتا تھا لیکن میخائل آویریانچ کا خیال اب بھی اس کے سر پر سوار تھا۔

”اور یہ صاحب خالص دوستی اور فیاضی کے جذبے سے رخصت لے کر میرے ساتھ گھومنے پھرنے نکلے ہیں! “ ڈاکٹر نے جھلاہٹ کے ساتھ سوچا۔ ”کتنی واہیات ہوتی ہے اس قسم کی دوستانہ سرپرستی بھی! نیک ہیں، فیاض ہیں، زندہ دل ہیں پر اس سب کے باوجود ہیں انتہائی عذاب جان۔ یہ بھی انہی لوگوں میں سے ہیں جو ہمیشہ اچھی سوجھ بوجھ کی باتیں کرتے ہیں پھر بھی احساس دلاتے ہیں کہ نرے احمق ہی ہیں۔ “

بعد کے دنوں میں اندریئی یفمیچ نے اسے اپنا معمول سا بنا لیا، طبیعت کی خرابی کا عذر کرتا اور کمرے سے باہر نہ نکلتا۔ اس کا دوست اسے باتوں میں لگانے کی کوشش کرتا تو وہ دیوار کی طرف منہ موڑے ہوئے لیٹے لیٹے کڑھتا رہتا اور اس کی عدم موجودگی میں آرام کرتا تھا۔ اسے اپنے اوپر بھی غصہ آتا تھا اور اپنے دوست کے اوپر بھی، اپنے دوست پر اس لئے کہ اس کے باتونی پن اور بے تکلفی میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا جس کے نتیجے میں اندریئی یفمیچ اپنے سنجیدہ اور بلند خیالات پر توجہ نہیں مبذول کر پاتا تھا۔

”مجھے شاید اسی حقیقت نے اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے جس کا تذکرہ ایوان دمیترچ نے کیا تھا“ اس نے خود کو اس خیال کی بناءپر کوستے ہوئے سوچا کہ وہ حقیر باتوں سے بلند ہونے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ ”لیکن یہ سب بکواس ہے۔ گھر واپس پہنچوں گا تو زندگی پھر اپنے پُرانے ڈھرے پر چلنے لگے گی۔ “

پیٹرس برگ میں بھی یہی حالت رہی۔ وہ کئی کئی دنوں تک ہوٹل کے کمرے سے باہر نہ نکلتا، ہر وقت صوفے پر لیٹا رہتا تھا اور اٹھتا تو صرف بیئر پینے کے لئے۔

میخائل آویریانچ روزکہتا رہتا تھا کہ وارسا چلنے میں جلدی کرنی چاہیے۔

”میرے عزیز دوست، آخرمیں وارسا جا کے کیا کروں گا؟ “ اندریئی یفمیچ نے منت سماجت کے لہجے میں کہا۔ ”آپ خود چلے جائیے اور مجھے گھر واپس لوٹ جانے دیجئے۔ بڑی عنایت ہوگی۔ “

”بھلا اس کاکیا سوال! “ میخائل آویریانچ نے احتجاج کیا۔ ”بڑا شاندار شہر ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے پانچ بہترین سال وہیں گزارے ہیں! “

اندریئی یفمیچ کو اپنی بات پر اڑ جانا آتا ہی نہ تھا اس لئے مجبوراً اپنے دوست کے ساتھ وارسا چلا گیا۔ یہاں اس نے خود کو اپنے کمرے ہی تک محدود رکھا اور خود اپنے آپ سے، اپنے دوست سے اور روسی سمجھنے سے قطعاً انکار کرنے والے ہوٹل کے ملازمین سے بُری طرح بھنایا ہوا صوفے پر لیٹا رہتا۔ اس کے برعکس میخائل آویریانچ ہمیشہ کی طرح صحت و توانائی کا پیکر بنا ہوا صبح سے رات تک شہر میں گھومتا اور اپنے پرانے دوستوں کو تلاش کیا کرتا تھا۔ بعض اوقات تو وہ ساری ساری رات بھی غائب رہتا تھا۔ ایک بار کسی نامعلوم جگہ پر رات گزارنے کے بعد صبح کو وہ لوٹا تو عجیب ہیجانی کیفیت طاری تھی، چہرہ تمتمایا ہوا تھا اور بال الجھے الجھے سے۔ وہ کمرے میں دیر تک ٹہلتا اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتا رہا پھر ٹھہر کر بولا:

”آن بان کے آگے سب کچھ ہیچ! “

کمرے میں اور ذرا دیر تک ٹہلنے کے بعد اس نے سر پکڑ کر بڑے اداس لہجے میں کہا:

”ہاں، آن بان کے آگے سب کچھ ہیچ! لعنت ہو اس لمحے پر جب اس بابل میں آنے کا خیال میرے دل میں آیا تھا! عزیز ترین دوست“ اس نے ڈاکٹر سے مخاطب ہو کر کہا، ”جی چاہے تو مجھ سے نفرت کیجئے، اپنی رقم جوئے میں گنوا بیٹھا! مجھے پانچ سو روبل دے دیجئے! “

اندریئی یفمیچ نے پانچ سو روبل گن کے خاموشی سے دوست کو تھما دیے۔ آخر الذکر نے جس کا چہرہ شرم اور غصے سے اب بھی سرخ ہو رہا تھا، بے ربطی سے قسم کھا کے غیر ضروری عہد کیا، ٹوپی پہنی اور باہر نکل گیا۔ دو گھنٹے کے بعد واپس لوٹ کے اس نے خود کو آرام کرسی پر گرا دیا، زور سے ٹھنڈی سانس لی اور کہا:

”میری آن بچ گئی! ہمیں یہاں سے چل دینا چاہیے، میرے دوست! اس کمبخت شہر میں اب پل بھر بھی نہیں ٹھہرنا چاہتا۔ ٹھگ کہیں کے! آسٹریائی جاسوس! “

وہ دونوں اپنی سیاحت سے واپس لوٹے تو نومبر کا مہینہ تھا اور سڑکوں پر برف کی موٹی موٹی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر خوبوتوف جو اندریئی یفمیچ کی جگہ پر مامور ہوچکا تھا، اب بھی اپنے پرانے کمروں میں ہی مقیم اور منتظر تھا کہ اندریئی یفمیچ واپس لوٹ کر اسپتال کے فلیٹ کو خالی کرے اور وہ بدصورت عورت جسے وہ اپنی باورچن بتایا کرتا تھا، اسپتال کی عمارت کے ایک کنارے والے حصے میں منتقل ہوچکی تھی۔

قصبے میں اسپتال کے متعلق نئی افواہیں پھیلی ہوئی تھیں۔ کہا جا رہا تھا کہ وہ بدصورت عورت انسپکٹر سے کسی بات پر جھگڑ بیٹھی تھی اور انسپکٹر معافی مانگنے کے لئے اس کے قدموں پر گر پڑا تھا۔

اندریئی یفمیچ کو اپنی واپسی کے دن ہی اپنے لئے نئی جائے رہائش کی تلاش میں نکلنا پڑا۔

”عزیز ترین دوست“ پوسٹ ماسٹر نے ہچکچاتے ہوئے کہا، ”آپ میری ناشائستگی کو معاف کیجئے گا لیکن مہربانی کرکے بتائیے کہ آپ کے پاس کتنی رقم موجود ہے؟ “

اندریئی یفمیچ نے گننے کے بعد کہا:

”چھیاسی روبل۔ “

”میرا یہ مطلب نہیں تھا“ میخائل آویریانچ نے ڈاکٹر کے جواب سے متحیر ہو کے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ”میں تو یہ جاننا چاہتا تھا کہ آپ کے پاس کل رقم کتنی ہے؟ “

”میں عرض تو کر رہا ہوں، چھیاسی روبل۔ کل کائنات یہی ہے۔ “

میخائل آویریانچ ڈاکٹر کو ایماندار اور عالی ظرف آدمی تصورکرتا تھا پھر بھی اسے یقین تھا کہ کچھ نہیں تو بیس ہزار روبل تو بچا کے کہیں رکھ ہی چھوڑے ہوں گے۔ اب جو اسے پتا چلا کہ اندریئی یفمیچ بالکل کنگال ہے گزر بسر کا کوئی ذریعہ نہیں رکھتا تو وہ اچانک رو پڑا اور اپنے دوست کو لپٹالیا۔

اندریئی یفمیچ نے نچلے متوسط طبقے کی ایک عورت بیلووا کے ہاں رہائش اختیار کر لی۔ اس چھوٹے سے گھر میں باورچی خانے کو چھوڑ کے کل تین ہی کمرے تھے۔ دو کمرے جن کا رخ سڑک کی طرف تھا، ڈاکٹر اور واریا کے پاس مکان مالکن اور اس کے تینوں بچے تیسرے کمرے اور باورچی خانے میں رہتے تھے۔ کبھی کبھی مالکن کا نشے باز، غصیلا آشنا رات بسر کرنے کے لئے آتا تھا اور واریا اور بچے بُری طرح خوف زدہ ہو جاتے تھے۔ وہ باورچی خانے میں کرسی پر بیٹھ کر واڈکا طلب کرنے لگتا تھا تو گھر اچانک بہت زیادہ تنگ نظر آنے لگتا اور ڈاکٹر روتے ہوئے بچوں پر ترس کھاکے اپنے کمرے میں بلا لے جاتا، فرش پر ان کے بستر بچھا دیتا اور اس طرح اسے بہت زیادہ اطمینان حاصل ہوتا۔ وہ اپنے معمول کے مطابق اب بھی سو کے آٹھ بجے ہی اٹھتا تھا اور چائے پینے کے بعد پرانی کتابیں اور رسالے پڑھنے لگتا۔ نئی کتابوں کی خریداری کا اب سوال ہی نہیں رہ گیا تھا۔ لیکن اب مطالعے میں یا تو کتابیں پرانی ہونے کی وجہ سے یا پھر شاید بدلے ہوئے ماحول کے باعث وہ پہلے کی طرح کھوکے نہیں رہ جاتا تھا اب تو مطالعہ اسے ہلکان کر دیتا تھا۔ اس لئے خود کو مصروف رکھنے کی خاطر اس نے اپنی کتابوں کی تفصیلی فہرست مرتب کی۔ ہرکتاب کے پیچھے لیبل چپکائے اور یہ میکانکی کام اس کے لئے مطالعے سے زیادہ جاذب توجہ ثابت ہوا۔ یہ غیر دلچسپ، محنت طلب کام، کسی عجیب و غریب انداز سے اس کے خیالات کو تھپکیاں دے کے سلاتا معلوم ہوتا تھا، وہ بالکل خالی الذہن ہو کے کام کرتا رہتا تھا اوروقت تیزی سے گزر جاتا تھا۔ اسے تو باورچی خانے میں آلو چھیلنے یا واریا کے ساتھ اناج کو چن کر صاف کرنے میں بھی لطف آتا تھا۔ سنیچر اتوار کو وہ گرجا جایا کرتا تھا جہاں دیوارکی ٹیک لگا کر آنکھیں بندکیے کیے مختلف مذاہب کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ گرجے میں اسے بڑا سکون ملتا، اس پر اداسی طاری ہو جاتی اور واپس لوٹتے وقت افسوس ہوتا کہ عبادت اتنی جلدی ختم ہوگئی۔

دو بار وہ ایوان دمیترچ سے ملنے اور باتیں کرنے کے لئے اسپتال گیا لیکن دونوں بار اسے سخت ہیجان اور غصے میں مبتلا پایا۔ ایوان دمیترچ نے التجا کی کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے کہنے لگا میں خالی خولی لفاظی سے تنگ آچکا ہوں جتنی اذیتیں جھیل چکا ہوں ان کا لعنت زدہ، کمینے لوگوں سے صرف ایک ہی ہرجانہ مانگ رہا ہوں۔ قید تنہائی۔ کیا مجھے اس سے بھی محروم رکھا جائے گا؟ دونوں بار اندریئی یفمیچ نے اس سے رخصت ہوتے وقت شب بخیر کہا تو ایوان دمیترچ غصے سے چلایا۔

”دفان ہو جاؤ! “

اندریئی یفمیچ فیصلہ نہ کرسکا کہ تیسری بار بھی جائے حالانکہ جی بہت چاہتا تھا۔

اگلے وقتوں میں وہ دن کے کھانے کے بعد اپنے گھر کے اندر ٹہل ٹہل کر سوچتا رہتا تھا لیکن اب وہ شام کی چائے کے وقت تک دیوار کی طرف منہکیے ہوئے صوفے پر لیٹے لیٹے چھوٹی چھوٹی فکروں میں الجھا رہتا اور ان سے نجات نہ حاصل پاتا۔ اس کے جذبات کو سخت ٹھیس لگی تھی کہ بیس برسوں سے زائد عرصے تک ملازمت کرنے کے بعد نہ کوئی پنشن ملی تھی نہ عطیہ۔ وہ یہ تو نہیں سمجھتا تھا کہ اس نے اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دیے تھے پر بار بار سوچتا کہ ملازمت کرنے والے ایماندار ہوں یا بے ایمان پنشن کے مستحق تو بہرحال ہوتے ہی ہیں۔ انصاف کا جدید تصور ہی اسی حقیقت پر مبنی ہے کہ مرتبے، تمغے اور پنشن اخلاقی صفات یا اہلیتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ خدمات کی وجہ سے خواہ وہ کیسی بھی کیوں نہ رہی ہوں، دیے جاتے ہیں۔ تو پھر آخر ایک اسی کو کیوں محروم رکھا گیا؟ وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو رہا تھا۔ دوکان کے سامنے سے گزرتے اور دوکاندار سے آنکھیں چار کرتے وقت اسے شرم آتی تھی۔ بیئر کی قیمت کے سلسلے میں اس پر بتیس روبل چڑھ چکے تھے۔ مکان مالکن میلووا کا حساب بھی چکایا نہیں جاسکا تھا۔ واریا نے اندریئی یفمیچ کے پرانے کپڑوں اور کتابوں کو چوری چھپے فروخت کر دیا تھا اور مالکن سے کہا تھا کہ ڈاکٹر کو جلد ہی ڈھیروں پیسے ملنے والے ہیں۔

وہ اپنے اوپر رہ رہ کے جھنجلاتا کہ سفر پر ایک ہزار روبل اڑا دیے۔ جوکچھ پس انداز کیا تھا سب کا سب! ان بُرے وقتوں میں وہ ہزار روبل کتنے کام آتے! سب سے زیادہ پریشانی اسے تنہائی نہ میسر ہونے سے تھی۔ خوبوتوف اپنے بیمار رفیق کو جلدی جلدی دیکھنے آنے کو اپنا فرض تصورکیے ہوئے تھا۔ اس کا چکنا چپڑا چہرہ ناشائستہ سر پرستانہ لب و لہجہ اس کے ”رفیق“ کہنے کا انداز اس کے لانگ بوٹ۔ ساری چیزوں سے اندریئی یفمیچ کو سخت گھن محسوس ہوتی تھی۔ سب سے گھناؤنی بات خوبوتوف کا یہ خیال تھا کہ وہ اندریئی یفمیچ کی دیکھ بھال اور علاج کر رہا ہے۔ وہ اپنے ساتھ پوٹاشیم برومائیڈ کی ایک شیشی اور کچھ خاکستری سفوف لانا کبھی بھی نہیں بولتا تھا۔

میخائل آویزیانچ بھی اپنے دوست سے ملاقات کے لئے آتے رہنے اور اس کا دل بہلانے کی کوشش کرنے کو اپنا فرض تصور کر رہا تھا۔ وہ بڑی بے تکلفی کے ساتھ، خود کو زبردستی بہت مسرور ظاہر کرتا ہوا کمرے میں داخل ہوتا اور فوراً ہی اندریئی یفمیچ کو یقین دلانے لگتا کہ وہ بھلا چنگا نظر آ رہا ہے، خدا کا شکر ہے کہ روبہ صحت ہے جس کا مطلب صرف یہ ہوتا تھاکہ دوست کی حالت کو لاعلاج تصور کرتا ہے۔ وارسا میں اس نے جو رقم ادھار لی تھی اسے اب تک ادا نہیں کیا تھا جس سے اس کو سخت ندامت محسوس ہوتی تھی۔ اس شرم پر پردہ ڈالنے کے لئے وہ کچھ اور بھی زور زور سے قہقہے لگانے اور کچھ اور بھی مضحکہ خیز قصے بیان کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ الٹے سیدھے قصے اور اس کی باتیں شیطان کی آنت کی طرح طول کھینچتی رہتیں اور ان سے اندریئی یفمیچ کو بھی کوفت محسوس ہوتی اور خود اس کو بھی۔


تیس سالہ چیخوف اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ

اس کی آمد کے موقع پر اندریئی یفمیچ عموماً صوفے پر اس کی طرف پیٹھ کرکے لیٹ جاتا اور دانت بھینچ بھینچ کر اس کے قصے سنتا رہتا۔ اسے لگتا کہ اس کی روح کے اوپر غلیظ جھاگ کی تہیں جمتی جا رہی ہیں جو اس کے دوست کی ہر آمد کے ساتھ ہی ساتھ زیادہ سے زیادہ اونچی ہوتی جاتی ہیں یہاں تک کہ اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔

ان حقیر جذبات کاگلاگھونٹ دینے کے لئے اس نے خود کو اس تصور کا سہارا لینے پر مجبور کیا کہ دیر سویر وہ خود، خوبوتوف اور میخائل آویریانچ اپنے پیچھے خفیف ترین نقش چھوڑے بغیر ہی فنا ہو جائیں گے۔ اگر کسی ایسی روح کاتصور کیا جاسکے جو اب سے دس لاکھ سال بعد کرہ ¿ عرض کے اوپر سے خلا میں پرواز کرتی ہوئی گزرے گی۔ تہذیب و تمدن، اخلاقی قوانین سب کچھ فنا ہو جائے گا اور کہیں گھاس کی ایک کونپل تک نہیں اگے گی تو پھر آخر اس کے جذبات کو لگنے والی ٹھیس، دوکاندار کے سامنے اس کے احساسِ ندامت ادنیٰ شخص خوبوتوف اور میخائل آویریانچ کے وبال جان دوستی کی حیثیت ہی کیا ہے؟ محض حقیر کوڑا کرکٹ اور بس۔ لیکن اس قسم کی دلیلوں سے بھی اب اسے تسکین نہیں حاصل ہوتی تھی۔ وہ دس لاکھ سال بعد کے کرہ ¿ ارض کو جیسے ہی اپنی نگاہوں کے سامنے لاتا ویسے ہی کسی برہنہ چٹان کے عقب سے کبھی خوبوتوف اپنے لانگ بوٹوں میں نمودار ہو جاتا تو کبھی زور زور سے قہقہے لگاتا ہوا میخائل آویریانچ اسے توجھیپی جھیپی سی سرگوشی تک سنائی دینے لگتی تھی۔ ”اور جہاں تک وارسا والے قرضے کا تعلق ہے میرے عزیز دوست تو اسے میں چند ہی دنوں میں ادا کر دوں گا۔ ایک روز سہ پہر کو اندریئی یفمیچ صوفے پر لیٹا ہوا تھا تو میخائل آویریانچ اس سے ملنے آیا۔ اتفاق کی بات کہ خوبوتوف بھی اپنے پوٹاشیم برومائیڈ کے ساتھ آدھمکا۔ اندریئی یفمیچ کوشش کرکے صوفے پر ہاتھ کی ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ “

”عزیز دوست“ میخائل آویریانچ نے کہنا شروع کیا، آج تو آپ کل سے بھی زیادہ ہشاش بشاش نظر آ رہے ہیں۔ آپ کی صحت کا کہنا ہی کیا، واقعی شاندار نظر آ رہے ہیں!

”ہاں میرے رفیق، وقت آگیا ہے کہ اب آپ تندرست ہو جائیں“ خوبوتوف بھی جمائی لے کر گفتگو میں شریک ہوگیا۔ ”اس تمام چکر سے آپ خود ہی عاجز آ چکے ہوں گے۔ “

”ہم ضرور تندرست ہو جائیں گے! “ میخائل آویریانچ نے مسرت بھرے لہجے میں کہا۔ ”ہم لوگ مزید سو برسوں تک زندہ رہیں گے۔ دیکھ لیجیے گا! “

”سو کے متعلق تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن یہ مزید بیس سال تو بہرحال جی ہی سکتے ہیں“ خوبوتوف نے اطمینان دلاتے ہوئے کہا۔ ”ارے کوئی بات نہیں، میرے رفیق۔ ذرا حوصلے بلند رکھیے! “

”ہاں۔ ہاں! “ میخائل آویزیانچ نے قہقہہ لگایا، ”آپ کو دکھا دیں گے ہم لوگ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں! دیکھ لیجیے گا! خدا نے چاہا تو اگلی گرمیوں میں ہم لوگ قفقاز جائیں گے، وہاں چاروں طرف گھوڑے دوڑاتے پھریں گے۔ ہاپ! ہاپ! ہاپ! اور جب قفقاز سے لوٹیں گے نا تو بہت ممکن ہے کہ ہمارے یہاں شادی کی کوئی تقریب ہو“ میخائل آویریانچ نے عیاری سے آنکھ ماری۔ ”ہاں میرے دوست، ہم آپ کی شادی کر دیں گے۔ شادی۔ “

اچانک اندریئی یفمیچ کو لگا کہ جھاگ کی تہیں ابھرکے اس کے حلق تک پہنچ گئی ہیں۔ اس کا دل بڑی تیزی سے دھڑکنے لگا۔ ”کیا بیہودگی ہے! “ اس نے دفعتاً کھڑے ہو کر کھڑکی کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ ”آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کیا کہ آپ کتنی بیہودگی پر اتر آئے ہیں؟ “

وہ نرم اور شائستہ لہجے میں بات کرنا چاہتا تھا لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے مکے بھینچ کر اپنے سر کے اوپر اٹھا لئے۔

”مجھے تنہا چھوڑ دیجئے! “ وہ اپنی پوری قوت سے چلایا۔ غصے کے مارے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا اور سارا جسم کانپ رہا تھا۔ ”باہر جائیے! دونوں! نکل جائیے! “

میخائل آویریانچ اور خوبوتوف کھڑے ہو کر اسے تکنے لگے، پہلے بوکھلاہٹ کے ساتھ اور پھر خوف سے۔

”آپ دونوں دفان ہو جائیے! احمق! مجھے دوستی نہیں چاہیے، مجھے آپ کی دوا بھی نہیں چاہیے! بیہودہ افراد! قابلِ نفرت! “

خوبوتوف اور میخائل آویریانچ نے ایک دوسرے کو بوکھلاہٹ کے ساتھ دیکھا اور کمرے کے دروازے سے نکل کے گزر گاہ میں آگئے۔ اندریئی یفمیچ نے پوٹاشیم برومائیڈ کی شیشی تیزی سے اٹھا کے ان دونوں کے پیچھے پھینکی جو دہلیز سے ٹکرا کے پاش پاش ہوگئی۔

”دفان ہو جاؤ! “ وہ دوڑتا ہوا گزرگاہ میں ان دونوں کے پیچھے پہنچ کر گلوگیر آواز میں چلایا۔ ”چولھے بھاڑ میں جاؤ! “

ان لوگوں کے چلے جانے کے بعد اندریئی یفمیچ جس کا سارا جسم یوں کانپ رہا تھا جیسے وہ تپ لرزہ میں مبتلا ہو، صوفے پر لیٹے لیٹے بڑبراتا رہا: ”احمق کہیں کے! گدھے! “ لیکن اس ہیجانی کیفیت کے ختم ہوتے ہی اس نے سوچا کہ اس وقت میخائل آویریانچ پر جانے کیا بیت رہی ہو، یہ سارا واقعہ کتنا باعث شرم، کتنا مہیب ہے۔ اس پر اس قسم کی کیفیت کبھی بھی طاری نہیں ہوئی تھی۔ آخر اس کی ذہانت اور عاقبت اندیشی، اس کی وسیع الخیالی اور فلسفیانہ بے اعتنائی کو کیا ہوگیا تھا؟

وہ اپنے طرز عمل سے اتنا زیادہ شرمندہ اور پریشان تھا کہ رات آنکھوں میں کاٹ دی اور صبح کو دس بجے کے قریب پوسٹ ماسٹر سے معافی مانگنے کے لئے ڈاک خانے گیا۔

”ہم گڑے مردے تھوڑی اکھاڑیں گے“ میخائل آویریانچ نے جو ڈاکٹر کی آمد سے بہت متاثر ہوا تھا، ٹھنڈی سانس بھرتے اور گرمجوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ ”جو کچھ ہوچکا اس کی فکر ہی کیا۔ لیوبا فکین! “ وہ اتنے زور سے چلایا کہ ڈاک خانے کے سارے کلرک اور وہاں مختلف کاموں سے آنے والے افراد چونک پڑے۔ ”کرسی لاؤ! اور تم انتظار کرو! “ اس نے ایک غریب عورت کو ڈانٹا جو سلاخوں کے اندر سے اسے کوئی خط رجسٹری کرنے کے لئے پکڑا رہی تھی۔ ”دیکھ نہیں رہی ہو کہ میں مصروف ہوں؟ ہاں تو جو کچھ ہوچکا اس کی فکر ہی کیا“ اس نے اندریئی یفمیچ سے مخاطب ہوتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں کہا۔ ”مہربانی کرکے بیٹھ جائیے، میرے عزیز دوست۔ “

وہ کچھ دیر تک خاموش بیٹھا اپنے گھٹنوں کو ملتا رہا پھر کہنے لگا:

”مجھے آپ کا طرز عمل ایک لمحے کے لئے بھی ناگوار نہیں معلوم ہوا۔ میں بخوبی واقف ہوں کہ بیماری میں کسی شخص کی حالت کیسی ہوتی ہے۔ آپ نے کل جس طرح دھاوا بول دیا اس سے ڈاکٹر کو اور خود مجھے سخت تشویش ہوئی اور ہم دونوں میں آپ کے متعلق طویل گفتگو ہوئی۔ میرے عزیز ترین دوست، آخر آپ اپنی علالت کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتے؟ آپ کو ایسی لاپروائی زیب نہیں دیتی۔ میں آپ کا دوست ہوں، میری صاف گوئی کو معاف کیجئے گا“ اور میخائل آویزیانچ نے اپنی آواز سرگوشی کی حد تک نیچی کرلی، قصہ یہ ہے کہ آپ انتہائی ناخوشگوار ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جگہ تنگ ہے، چاروں طرف غلاظت بکھری ہوئی ہے، کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں اور علاج کے لئے پیسے نہیں۔ عزیز دوست، ڈاکٹر کی اور خود میری آپ سے درخواست ہے کہ ہمارا کہا مان لیجیے، اسپتال میں بھرتی ہو جائیے! اسپتال میں بہت عمدہ غذا ملتی ہے، آپ کی معقول دیکھ بھال ہوگی اور بیماری کا علاج ہو جائے گا۔ خوبوتوف، بات ہم دونوں ہی تک رہے، آدمی تو کوڑی کے کام کا نہیں پر ڈاکٹر اچھا اور قابل اعتبار ہے۔ اس نے آپ کی دیکھ بھال کرنے کا وعدہ کر لیا ہے۔ ”

اندریئی یفمیچ مخلصانہ تشویش کے لہجے اور آنسوؤں سے جو اچانک پوسٹ ماسٹر کے رخساروں پر بہہ نکلے تھے، بہت متاثر ہوا۔

”میرے انتہائی قابلِ احترام دوست، ان لوگوں کے جھانسے میں نہ آئیے! “ اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر چپکے سے کہا۔

”آپ ان کی بات پر یقین نہ کیجئے! یہ سب جھوٹ ہے، سفید جھوٹ! میری واحد بیماری یہ ہے کہ ان بیس برسوں میں قصبے میں میری ملاقات صرف ایک ہی ذہین شخص سے ہوئی ہے اور وہ بھی پاگل ہے۔ میں قطعاً بیمار نہیں ہوں، میں تو صرف بدی کے ایک چکر میں پھنس گیا ہوں جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں۔ مجھے کسی بات کی پروا نہیں، جیسا آپ کا جی چاہے کیجئے۔ “

”آپ اسپتال چلے جائیے، میرے دوست! “

”مجھے خاک بھی پروا نہیں کہ کہاں رہوں۔ آپ کا جی چاہے تو مجھے زندہ دفن کر دیں۔ “

”وعدہ کیجئے، میرے دوست کہ آپ ہر معاملے میں خوبوتوف کی ہدایات پر عمل کریں گے۔ “

”اچھی بات ہے، وعدہ کر رہا ہوں۔ لیکن جناب عالی! ایک بار پھر آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں بدی کے چکر میں پھنس کر رہ گیا ہوں۔ اب ہر بات کا حتیٰ کہ میرے بہی خواہوں کی انتہائی مخلصانہ ہمدردی کا بھی صرف ایک ہی مقصد ہوگا۔ “

”میری تباہی۔ میں فنا ہو رہا ہوں اور اتنی جرا ¿ت رکھتا ہوں کہ اس حقیقت کو تسلیم کر لوں۔ “

”لیکن آپ کی طبیعت ٹھیک ہوجائے گی، میرے دوست! “

”اب اس قسم کی باتوں میں کیا رکھا ہے؟ “ اندریئی یفمیچ نے جھلا کر کہا۔ ”زندگی کے آخری ایام میں تقریباً ہر شخص کو ان حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ کبھی کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ کے گردے خراب ہوگئے ہیں یا یہ کہ دل پھیل گیا ہے، دوائیں استعمال کرنا شروع کر دیجئے اور کبھی آپ کو پاگل یا مجرم قرار دیاجاتا ہے۔ مختصر یہ کہ ایک بار آپ لوگوں کی نگاہوں پر چڑھ گئے تو یقین کر لیجیے کہ بدی کے ایک چکر میں داخل ہوگئے ہیں جس سے کبھی بھی باہر نہ نکل پائیں گے۔ باہر نکلنے کے لئے آپ ہاتھ پاؤں ماریں گے تو اس دلدل میں اور بھی زیادہ گہرائی تک دھنس جائیں گے۔ ایسے موقعے پر بہتر یہی ہوتا ہے کہ ہار مان لیجیے کیونکہ کوئی بھی کوشش جو انسان سے ممکن ہے، آپ کو بچا نہیں سکتی۔ کم از کم میری رائے تو یہی ہے۔ “

اس اثناءمیں کاؤنٹر کے سامنے لوگوں کی بھیڑ جمع ہوچکی تھی۔ اندریئی یفمیچ نہیں چاہتا تھا کہ ان بیچاروں کو اور زیادہ انتظار کرنا پڑے اس لئے کھڑا ہوگیا اور رخصت ہونے لگا۔ میخائل آویزیانچ نے اس سے ایک بار پھر وعدہ لے لیا اور اسے دروازے تک چھوڑ گیا۔

اسی روز شام کو خوبوتوف اپنے پوستین اور لانگ بوٹوں میں بالکل غیر متوقع طور پر آن دھمکا اور کچھ اس انداز سے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، کہا:

”میں آپ کے پاس ایک کام سے حاضر ہوا ہوں۔ ایک مریض کے متعلق صلاح مشورے میں آپ کو بھی شامل کرنا چاہتا ہوں۔ چلیں گے؟ “

اندریئی یفمیچ اس خیال سے کہ شاید وہ دل بہلانے کے سلسلے میں چہل قدمی کے لئے بلا رہا ہے یا پھر شاید اسے تھوڑے سے پیسے کما لینے کا موقع دینا چاہتا ہے، اوورکوٹ اور ٹوپی پہن کے اس کے ساتھ باہر نکل آیا۔ اسے خوشی ہو رہی تھی کہ اپنی گزشتہ دن کی غلطی کی تلافی کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ اس کے دل میں خوبوتوف کے سلسلے میں جس نے اس واقعے کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا اور جو اسے خجالت سے بچانے کا خواہاں معلوم ہوتا تھا، تشکر کے جذبات بھی بیدار ہوگئے۔ اسے خوبوتوف جیسے ناشائستہ شخص کی اس سوجھ بوجھ پر حیرت ضرور ہو رہی تھی۔

”آپ کا مریض ہے کہاں؟ “ اندریئی یفمیچ نے پوچھا۔

”اسپتال میں۔ میں عرصے سے سوچ رہا تھا کہ آپ سے اس کا معائنہ کرا دوں۔ عجب پیچیدہ سی علامت ہے۔ “

اسپتال کے احاطے میں داخل ہو کے دونوں خاص عمارت کے کنارے کنارے چلتے ہوئے اس چھوٹی سی عمارت کی طرف بڑھنے لگے جو دماغی مریضوں کے لئے وقف تھی۔ اسی دوران جانے کیوں دونوں میں سے کسی نے بھی کوئی بات نہ کی۔ ان کے اندر داخل ہوتے ہی نیکیتا اپنے معمول کے مطابق اچھل کے مودب کھڑا ہوگیا۔

”ان میں سے ایک کا پھیپھڑا کچھ گڑبڑ ہوگیا ہے“ خوبوتوف نے اندریئی یفمیچ کے ساتھ وارڈ نمبر 6 میں داخل ہو کر کہا۔

”آپ یہیں میرا انتظار کیجئے، بس ابھی آتا ہوں۔ ذرا میں اپنا اسٹیتھوسکوپ لے آؤں۔ “

اور وہ چلا گیا۔

اندھیرا ہوچلا تھا۔ ایوان دمیترچ نصف چہرہ تکیے میں چھپائے اپنے پلنگ پر لیٹا ہوا تھا۔ فالج کا مریض بے حس و حرکت بیٹھا چپکے چپکے رو رہا تھا اور اس کے ہونٹ تھرتھرا رہے تھے۔ فربہ اندام کسان اور سابق ڈاک چھانٹنے والا سو رہے تھے۔ وارڈ میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔

اندریئی یفمیچ ایوان دمیترچ کے پلنگ کے کنارے پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ لیکن کوئی نصف گھنٹے بعد خوبوتوف کے بجائے نیکیتا جو ایک اسپتالی لبادہ، نیچے پہننے کے کچھ کپڑے اور سلیپریں لئے ہوئے تھا، اندر آیا۔

”کپڑے تبدیل کر لیجیے، حضور“ اس نے دھیرے سے کہا۔ ”یہ رہا آپ کا پلنگ“ اس نے ایک خالی پلنگ کی طرف جو کچھ دیر پہلے ہی لایا گیا تھا، اشارہ کرتے ہوئے اضافہ کیا۔ ”خداکے فضل و کرم سے آپ اچھے ہو جائیں گے، فکر نہ کیجئے۔ “

اندریئی یفمیچ پر سب کچھ عیاں ہوگیا۔ وہ اٹھا اور کچھ کہے بغیر جاکے اس پلنگ پر بیٹھ گیا جس کی طرف نیکیتا نے اشارہ کیا تھا لیکن پھر اسے خیال آیا کہ نیکیتا قریب ہی کھڑا انتظار کر رہا ہے اور اس نے انتہائی شرم اور گھبراہٹ کے ساتھ ایک ایک کرکے کپڑے اتارے اور خود کو بالکل برہنہ کر دیا۔ پھر وہ اسپتال کے کپڑے پہننے لگا، زیر جامے بہت چھوٹے تھے، قمیض بہت لمبی اور لبادے میں دھوئیں سے سکھائی مچھلیوں کی بُو بَسی ہوئی تھی۔

”خدا کے فضل کرم سے آپ اچھے ہو جائیں گے“ نیکیتا نے ایک بار پھر کہا۔

اس نے اندریئی یفمیچ کے کپڑے اٹھائے اور باہر نکل کے دروازہ بند کرلیا۔

”کوئی فرق تھوڑی ہے۔ “ اس نے اپنے لبادے کے دامنوں کو جھینپتے جھینپتے جسم کے گرد سمیٹتے ہوئے سوچا ”کوئی فرق تھوڑی ہے“ فراک کوٹ ہو یونیفارم ہو یا یہ لبادہ۔

لیکن اس کی گھڑی اور نوٹ بک جو اس کی بغلی جیب میں رکھی رہتی تھی؟ اس کی سیگریٹیں؟ آخر اس کے کپڑوں کو نیکتیا کہاں اٹھا لے گیا؟ شاید وہ اپنی زندگی میں پتلون واسکٹ اور بوٹ کبھی بھی نہ پہن سکے گا۔ یہ سارا واقعہ پہلے اسے عجیب و غریب اور ناقابلِ فہم معلوم ہوا۔ اندریئی یفمیچ اب بھی اپنے اس کامل یقین پر قائم تھا کہ اس کی مکان مالکن بیلووا کے کمروں اور وارڈ نمبر 6 میں ذرا بھی فرق نہیں نیز یہ کہ دنیا کی ہر شے مہمل اور ہیچہے پھر بھی اس کے ہاتھ کانپنے لگے، پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے اور اس خیال سے دل ڈوبنے سا لگ کہ ایوان دمیترچ بیدار ہو کے اسے اسپتالی لبادے میں ملبوس دیکھے گا وہ کھڑا ہوگیا، وارڈ میں چند قدموں تک چلا اور پھر لوٹ کر بیٹھ گیا۔

نصف گھنٹہ گزر گیا پھر ایک گھنٹہ اور اسے وہاں بیٹھے بیٹھے عجب بیزاری اور تھکن سی محسوس ہوئی کیا یہاں دن بھر، ہفتے بھر حتیٰ کہ کئی برس تک ان مریضوں کی طرح جینا ممکن ہوسکے گا؟ وہ کچھ دیر تک بیٹھا رہا ہے پھر چلنے لگا ہے اور ایک بار پھر بیٹھ گیا ہے۔ وہ کھڑکی کے پاس پہنچ کر باہر جھانک سکتا ہے ایک بار پھر کمرے کے اندر ٹہل سکتا ہے اور اس کے بعد؟ ہر وقت بس یوں ہی بت کی طرح بیٹھے رہنا ہوگا؟ نہیں نہیں، یہ ناممکن ہے!

اندریئی یفمیچ لیٹ گیالیکن فوراًہی اٹھ بیٹھا اور آستین سے ماتھے کا ٹھنڈا پسینہ پونچھنے لگا جس کے دوران اسے لگا کہ اس کے چہرے سے سکھائی ہوئی مچھلیوں کی بُو نکل رہی ہے۔ ”کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے“ اس نے بدحواسی سے دونوں ہاتھوں کو جھٹکتے ہوئے کہا۔ ”مجھے ان لوگوں سے ضرور بات کرنی چاہیے، یہ غلط فہمی۔ “

اسی لمحے ایوان دمیترچ بیدار ہو کے اٹھا اور اپنی مٹھیوں پر گالوں کو ٹکا کر بیٹھ گیا۔ اس نے فرش پر تھوکنے کے بعد ڈاکٹر کو نڈھال نگاہوں سے دیکھا جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کچھ بھی نہیں سمجھ سکا ہے لیکن دوسرے ہی لمحے اس کے نیند سے مارے ہوئے چہرے پر فاتح اور بے رحم ہونے کا تاثر چھا گیا۔

”اخاہ، آپ کوبھی اس جہنم میں جھونک دیا گیا! “ اس نے نیند سے بھرائی ہوئی آواز میں ایک آنکھ پوری طرح کھولے بغیر ہی کہا۔ اس نے اپنے شانے اچکائے اور ایک بار پھر کہا۔ ضرور کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے۔

ایوان دمیترچ نے فرش پر دوبارہ تھوکا اور لیٹ گیا۔


”بدبخت زندگی! “ وہ شکایتی لہجے میں بڑبڑانے لگا۔ ”اور اس زندگی کو جو چیز اتنی تلخ اور اذیت ناک بنا دیتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا خاتمہ برداشت کی جانے والی تکلیف کے کسی ہرجانے کی شکل میں نہیں، دیوتا بنا دیے جانے کی شکل میں ہوگا۔ اسپتال کے دو خدمت گار آئیں گے، ایک ہاتھوں کو پکڑ لے گا اور دوسرا پیروں کو اور لاش کو تہہ خانے میں پہنچا دیں گے۔ ہونہہ! خیر کوئی بات نہیں۔ ہمارے دن دوسری دنیا میں پھریں گے۔ میرا بھوت یہاں آ کر ان سوروں پر ہول طاری کر دے گا۔ میں ان سب کا جینا عذاب کر دوں گا۔ “

اتنے ہی میں موئے سیئکا واپس لوٹا اور ڈاکٹر کو دیکھتے ہی اس کے آگے ہاتھ پھیلا دیا:

”ایک کو پک دو نا! “

اندریئی یفمیچ نے کھڑکی کے پاس جا کے باہر کھیت پر نظریں دوڑائیں۔ کافی اندھیرا ہوچکا تھا اور دائیں جانب سرد ارغوانی چاند ابھر رہا تھا۔ اسپتال کے جنگلے سے قریب ہی یہی کوئی سات سو فٹ کے فاصلے پر پتھروں کی چار دیواری کے اندر ایک بلند اور سفید عمارت کھڑی تھی۔ یہ تھا قید خانہ۔

”تو یہ ہے حقیقت! “ اس نے سوچا اور ڈر کے مارے کانپ اٹھا۔

ہر شے ڈراؤنی معلوم ہو رہی تھی: چاند بھی، قید خانہ بھی جنگلے کے بالکل اوپر الٹی لگی ہوئی کیلوں کی ابھری ابھری نوکیں بھی اور بہت دور اینٹوں سے ابھرتے ہوئے شعلے بھی۔ اتنے میں اس کے پیچھے کسی نے ٹھنڈی سانس لی۔ اندریئی یفمیچ مڑا تو اس نے ایک شخص کوکھڑے دیکھا جس کے سینے پر تمغے چمک رہے تھے اور جو مسکرا مسکرا کر شرارت سے آنکھ مار رہا تھا۔ یہ سماں بھی ڈراؤنا تھا۔

اندریئی یفمیچ نے خود کو سمجھانے کی کوشش کی کہ نہ چاند میں کوئی غیر معمولی بات ہے نہ قید خانے کی عمارت میں رہے تمغے تو جن کا دماغ ٹھیک ہوتا ہے وہ انہیں لگاتے ہی ہیں اور یہ کہ وقت آنے پر ہر شے کو گل سڑ کے خاک میں مل جانا ہے لیکن اچانک مایوسی نے اس پر غلبہ پا لیا اور اس نے دونوں ہاتھوں سے کھڑکی کی سلاخوں کو پکڑ کے انہیں ہلانے کی کوشش کی۔ سلاخوں کا جنگلا بہت مضبوط تھا اور اس میں خفیف سی جنبش بھی نہ پیدا ہوئی۔

تب وہ اپنے خوف سے نجات حاصل کرنے کی کوشش میں ایوان دمیترچ کے پلنگ کے پاس پہنچا اور اس کے کنارے پر بیٹھ گیا۔

”میری ہمت جواب دے گئی عزیز دوست“ اس نے تھر تھر کانپتے اور پیشانی کا ٹھنڈا پسینہ پونچھے ہوئے کہا۔ جواب دے گئی۔

”تو فلسفہ بگھارنے کی کوشش کیجئے نا“ ایوان دمیترچ نے مذاق اڑایا۔ ”اوہ میرے خدا! ۔ جی ہاں۔ ایک بار آپ نے کہا تھا کہ روس میں فلسفے کا تو وجود بھی نہیں لیکن ہر شخص حتیٰ کہ گنوار تک فلسفی بنے پھرتے ہیں۔ آخر گنواروں کے فلسفے سے کسی کو نقصان کیا پہنچتا ہے؟ “ اندریئی یفمیچ کی آواز سے لگتا تھا کہ یا تو ابھی ابھی رو پڑنے کوہے یا پھر ایوان دمیترچ کے دل میں رحم کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ”تو پھر آخر یہ خباثت بھری ہنسی کیوں، میرے دوست؟ عام لوگوں کو اطمینان میسر نہیں تو پھر وہ فلسفے کا سہارا نہ لیں توکریں بھی کیا؟ کسی ذہین، اعلیٰ تعلیم یافتہ، خود دار اور آزاد شخص کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہیں کہ وہ ایک واہیات گندے قصبے میں ڈاکٹر بن جائے اور اپنی باقی زندگی کو سینگی سے خون نکالنے، جونکوں اور رائی کے لیپ کے لئے وقف کر دے! عطائی پن، تنگ نظری، بیہودگی، اوہ، میرے خدا! “

”یہ سب بکواس ہے۔ ڈاکٹری کا پیشہ آپ کو پسند نہیں تو آپ وزیر ریاست کیوں نہیں بن گئے تھے؟ “

”نہیں نہیں، کچھ بھی کرنا ممکن نہیں! ہم لوگ کمزور ہیں میرے دوست۔ مجھے کسی بات کی پروا نہیں تھی، ہنسی خوشی دانائی کے ساتھ غور و خوض کیاکرتا تھا لیکن جیسے ہی مجھے زندگی کا سخت دھکا لگتا ہے ویسے ہی میری ہمت جواب دے جاتی ہے۔ ناتوانی۔ ہم لوگ کمزور اور بدبخت ہیں۔ اور آپ بھی میرے دوست! آپ ذہین اور عالی ظرف ہیں، نیک خواہشات آپ کی رگوں میں ماں کے دودھ کے ساتھ سرایت کر گئی تھیں لیکن آپ نے زندگی ابھی ٹھیک سے شروع بھی نہیں کی تھی کہ تھک گئے، بیمار پڑ گئے۔ کمزور ہیں کمزور! “

اندھیرا ہوگیا تو اندریئی یفمیچ کو ذلت کے احساس اور خوف کے علاوہ اور بھی کسی بات نے مسلسل پریشانی میں مبتلا کردیا۔ آخرکار اس کی سمجھ میں آیا کہ یہ بیئر اور سگریٹوں کی طلب تھی۔

”میں ذرا دیر کے لئے یہاں سے جا رہا ہوں، میرے دوست“ اس نے کہا۔

”کہوں گا کہ یہاں روشنی کا انتظام کر دیں۔ تاریکی میرے لئے ناقابلِ برداشت ہے۔ “ اندریئی یفمیچ نے دروازے کے پاس جاکے اسے کھولا لیکن فوراً ہی نیکیتا اچھل کے کھڑا ہوگیا اور اس کا راستہ روک لیا۔ ”کہاں جا رہے ہیں؟ “ اس کی اجازت نہیں! اس نے کہا۔ ”سونے کا وقت آگیا! “

میں صرف چند منٹ کے لئے باہر جا رہا ہوں، احاطے میں ذرا ٹہل آؤں۔ اندریئی یفمیچ نے جو بھونچکا ہوگیا تھا کہا۔

”نہیں نہیں، اس کی اجازت نہیں۔ آپ کو خود ہی معلوم ہے۔ “

اور نیکیتا نے باہر سے بھڑ سے دروازہ بند کیا اور اس سے اپنی پیٹھ ٹکا دی۔

”لیکن میرے باہر جانے سے کسی کو کیا تکلیف پہنچ سکتی ہے؟ “ اندریئی یفمیچ نے شانے اچکاتے ہوئے پوچھا۔

”میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے! نیکیتا، میرا باہر جانا ضروری ہے! “ اس نے بھرائی آواز سے کہا۔ بہت ضروری ہے!

”بیکار کا ہنگامہ نہ کھڑا کیجئے“ نیکیتا نے ڈانٹا۔

”کیسی شرمناک بات ہے! “ اچانک ایوان دمتیرچ تیزی سے اٹھتے ہوئے چلایا۔

”آخر اس شخص کو حق کیا ہے کہ لوگوں کو باہر جانے سے روکے؟ قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مقدمہ چلائے بغیر کسی کو اس کی آزادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا! یہ تو جبر ہے جبر! بالکل من مانی! “

”بے شک یہ من مانی ہے! “ اندریئی یفمیچ نے اس غیر متوقع حمایت سے سیر ہو کر کہا۔ ”میں باہر جانا چاہتا ہوں، بہت ضروری ہے! اسے مجھ کو روکنے کا کوئی اختیار نہیں! باہر نکلنے دو، تم سے کہہ رہا ہوں! “

”ارے درندے، سن رہا ہے کہ نہیں؟ “ ایوان دمتیرچ نے دروازے کومکے سے پیٹتے ہوئے کہا۔

”دروازہ کھول ورنہ میں اسے توڑ ڈالوں گا! جلاد کہیں کا! “

”دروازہ کھولو! “

اندریئی یفمیچ غصے سے کانپتے ہوئے چلایا۔ ”میں اصرار کر رہا ہوں! “

”کرتے رہو! “ نیکیتا نے دروازے کی دوسری طرف سے جواب دیا۔ ”کرتے رہو! “

”کم از کم جا کے یوگینی فیدورچ ہی کو بلا لاؤ! ان سے کہنا کہ میں۔ انہیں پل بھر کے لئے بلا رہا ہوں! “

”کل وہ بلائے بغیر ہی آ جائیں گے۔ “

”ارے یہ لوگ ہمیں کبھی بھی نکلنے نہ دیں گے! “ ایوان دمیترچ نے کہا۔

”اس وقت تک بند رکھیں گے جب تک ہم سڑ گل نہ جائیں! اوہ خدا، کیا یہ سچ ہوسکتا ہے کہ دوسری دنیا میں جہنم کا وجود نہیں اور ان بدمعاشوں کو معاف کر دیا جائے گا؟ آخر انصاف کہاں ہے؟ ارے بے ایمان، دروازہ کھول، میرا دم گھٹا جا رہا ہے! “ اس نے بھرائی ہوئی آواز سے چیختے ہوئے دروازے کو دھکیلنا شروع کر دیا۔ ”میں دروازے سے سر ٹکرا ٹکرا کر بھیجا باہر نکال دوں گا! قاتل کہیں کے! “

نیکیتا نے یکبارگی دروازہ کھول کے اندریئی یفمیچ کو اپنے ہاتھوں اور ایک گھٹنے سے سختی کے ساتھ الگ دھکیلا اور پھر اس کے منہ پر ایک زور دار مکا مار دیا۔ دوسرے ہی لمحے اندریئی یفمیچ کو ایسا لگا جیسے وہ کسی زبردست نمکین لہر میں سر سے پاؤں تک ڈوب گیا اور وہ اسے گھسیٹتی ہوئی اس کے پلنگ کی طرف لے چلی۔ اس کے منہ کا ذائقہ واقعی نمکین ہوگیا اور صاف ظاہر تھا کہ مسوڑھوں سے خون بہہ نکلا ہے۔ اس نے اپنے بازو یوں ہلائے جیسے اس لہر سے اوپر ابھرنے کی کوشش کر رہا ہو اور اس کے ہاتھ کسی پلنگ کے پچھلے حصے پر جا پڑے جس کے ساتھ ہی اسے محسوس ہوا کہ نیکیتا نے اس کی پیٹھ پر دو بار وار کیا کیا۔

ایوان دمیترچ کے منہ سے زور کی چیخ نکل گئی تو اس شخص کو بھی زدو کوب کیا جا رہا تھا اور پھر سناٹا چھا گیا۔

کھڑکی کی سلاخوں سے پیلی چاندنی اندر داخل ہو رہی تھی اور فرش پر ایک سایہ پڑا ہوا تھا جو جال جیسا لگ رہاتھا۔ ہر شے کتنی مہیب ہوگئی تھی! اندریئی یفمیچ ڈرا سہما لیٹا ہوا تھا، سانس نہ لینے کی کوشش اور نئی ضرب کا انتظار کر رہا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی شخص نے اس کے جسم میں ہنسیا چبھو کر اسے سینے اور پیٹ میں کئی بار گھما دیا ہو۔ درد کی شدت سے اس نے اپنے تکیے کو کاٹ کاٹ لیا پھر دانت بھینچ لئے۔ اتنے میں اچانک ایک خیال اس کے سارے ذہن پر چھا گیا۔ مہیب اور ناقابلِ برداشت خیال کہ اس وقت وہ جس درد میں مبتلا تھا اسے چاندنی میں سیاہ پرچھائیوں جیسے نظر آتے ہوئے یہ سب لوگ ایک دن کے بعد دوسرے دن، مسلسل کئی برسوں سے برداشت کرتے آ رہے ہوں گے۔ آخر یہ کیسے ممکن ہوسکا کہ بیس سال سے زائد کے اس طویل عرصے میں اسے اس کا پتا ہی نہ چلایا اس نے خود ہی چاہا کہ پتا نہ چلے؟ اسے علم نہیں ہوسکا، ہلکا سا تصور بھی نہیں تھا کہ درد کس کو کہتے ہیں اس لئے اسے قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا تھا لیکن اس کے ضمیر نے، نیکیتا جیسے سخت اور سنگ دل ضمیر نے اسے لرزہ براندام کر دیا۔ وہ اچھل پڑا کہ اپنی پوری قوت کے ساتھ چیخ اٹھے گا، نیکیتا، خوبوتوف، سپرنٹنڈنٹ اور طبی معاون کو ہلاک کرکے خود اپنی جان لے لے گا لیکن نہ تو اس کے منہ سے آواز نکل سکی اور نہ ہی اس کی ٹانگوں نے اس کا کہا مانا۔ اس نے ہانپ ہانپ کے سانس لیتے ہوئے اپنے اسپتالی لبادے اور قمیض کو تار تار کر دیا اور بے ہوش ہو کے پلنگ پر ڈھیر ہوگیا۔

اگلی صبح کو وہ بیدار ہوا تو درد سے سر پھٹا جا رہا تھا، کانوں میں بھن بھناہٹ سی ہو رہی تھی اور جسم کا جوڑ جوڑ دُکھ رہا تھا۔ اسے اپنی گزشتہ شام کی کوتاہیوں کو یاد کرکے کسی قسم کی خجالت نہ محسوس ہوئی۔ اس نے کسی بزدل جیسا طرز عمل اپنایا تھا، چاند تک سے خوف زدہ ہوگیا تھا اور ایسے خیالات اور جذبات کا پورے خلوص کے ساتھ اظہار کیا تھا جن سے اپنی وابستگی کا اسے کبھی شک بھی نہیں ہوا تھا مثلاً بے اطمینانی کی بناءپر معمولی لوگوں کے بھی فلسفی بن بیٹھنے کا خیال۔ لیکن اب اسے کسی بات کی ذرا بھی پروا نہیں تھی۔

اس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا بس یوں ہی بے حس و حرکت، بالکل خاموش اپنے پلنگ پر پڑا رہا۔

”مجھے کوئی پروا نہیں“ اس سے سوالات کیے گئے تو اس نے سوچا۔ ”میں ان لوگوں کو کوئی جواب نہ دوں گا۔ مجھے کوئی پروا نہیں۔ “

دوپہر کے کھانے کے بعد میخائیل آویریانچ چائے کا ایک پیکٹ اور تھوڑی سی جیلی لے کر اس سے ملنے آیا۔ واریا بھی آئی اور کوئی گھنٹے بھر تک اس کے پلنگ کے پاس مغموم و ملول کھڑی رہی اور ڈاکٹر خوبوتوف اسے دیکھنے آیا۔ وہ اپنے ساتھ پوٹاشیم برومائیڈ کی ایک شیشی بھی لیا تھا اور اس نے نیکیتا کو کسی چیز کا دھواں دے کر وارڈ کی فضا کو صاف کر دینے کی ہدایت کی۔

شام کو اندریئی یفمیچ کے دماغ کی رگیں پھٹ گئیں اور یہ مرض جان لیوا ثابت ہوا۔ پہلے اسے بخار چڑھنے کی جیسی سردی اور متلی محسوس ہوئی، ایسا لگا جیسے کوئی بڑی گھناؤنی چیز سارے جسم پر، انگلیوں کے ناخنوں تک پھیلتی جا رہی ہے، اس کے پیٹ سے اٹھ کر سر تک پہنچ رہی ہے، آنکھوں اور کانوں میں گھستی چلی جا رہی ہے۔ اندریئی یفمیچ کو سب کچھ ہرا ہرا نظر آنے لگا۔ وہ سمجھ گیا کہ آخری گھڑی آن پہنچی ہے اور اسے یاد آیا کہ ایوان دمیترچ، میخائل آویریانچ اور دوسرے لاکھوں افراد حیات ابدی میں یقین رکھتے ہیں۔ اگر ایسی کسی شے کا وجود ہو تو؟ لیکن اس کے دل میں حیات ابدی کی ذرا بھی خواہش نہ پیدا ہوئی اور اس کے متعلق یوں ہی سرسری طور پر ہی سوچا۔ ڈھیروں بہت ہی خوبصورت بارہ سنگے جن کے متعلق وہ گزشتہ روز پڑھ رہا تھا، تیزی سے دوڑتے ہوئے اس کے سامنے سے گزرے، پھر کسی عورت نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا جس میں وہ ایک رجسٹرڈ لفافہ لئے ہوئے تھی۔ میخائل آویریانچ نے کچھ کہا۔ پھر سب کچھ غائب ہوگیا اور اندریئی یفمیچ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بے ہوش ہو گیا۔

اسپتال کے دو خدمت گار وارڈ میں آئے، ایک نے اس کے ہاتھ پکڑ لئے، دوسرے نے پاؤں اور اٹھا کر گرجے میں رکھ آئے۔ وہاں وہ میز پر آنکھیں کھولے پڑا رہا اور رات کو چاند نے اس پر روشنی برسائی۔ اگلی صبح کو سرگیئی سرگیئچ نے وہاں پہنچ کر صلیب کے سامنے بڑے خضوع و خشوع سے عبادت کی اور اپنے سابق سربراہ کی آنکھیں بند کر دیں۔

دو دن بعد اندریئی یفمیچ کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ تدفین کے وقت صرف دو افراد موجود تھے، میخائیل آویریانچ اور واریا۔