گھر کا چولھا جلانے کے لیے فیس بک کا سہارا




پشاور، صائمہ
Image captionگھریلو خاتون صائمہ گھرکا بنا صاف ستھرا کھانا کمرشل بنیادوں پر فراہم کرتی ہیں

پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کے دارالحکومت پشاور میں کچھ خواتین نے گھر کی مالی مشکلات پر قابو پانے کے لیے اپنے کچن میں ہی اپنا کاروبار شروع کردیا ہے اور اس کے لیے سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔
صائمہ ایک گھریلو خاتون ہیں۔ میری ان سے ملاقات ہوئی تو وہ گھر میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی ایک ڈاکٹر کےلیے کباب تیار کررہی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے کچن میں ہر طرح کے گھریلو کھانے تیار کرکے کمرشل بنیادوں پر فراہم کرتی ہیں۔
'میں نے 600 روپے کی ڈشز خریدی تو میں کافی پریشان تھی کہ یہ نکلیں گی کہ نہیں نکلیں گی، آڈرز جائیں گے کہ نہیں جائیں گے۔ اور اب ماشااللہ سے ہر مینے نہیں تو ہر دو مہینے میں تقریباً 10 سے 15 ہزار کی میں ڈشز لارہی ہوں۔ تو اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ آڈرز نکل رہے ہیں تو میں ڈشز لارہی ہوں۔'

یہ کاروبار سوشل میڈیا پر نوجوانوں میں زیادہ مقبول ہے ۔کچن میں کام کرنے والی خواتین کو زیادہ تر آرڈرز فیس بک کے ذریعے ملتے ہیں ۔
صوبہ میں تیزی سے مقبول ہونے والے اس نئے کاروبار میں 70 فیصد تک گھریلو خواتین اور 30 فیصد طالبات بھی شامل ہیں۔گھروں سے چلنے والے ان کمرشل کچنز کی تعداد 50 تک بتائی جاتی ہے لیکن ان میں 20 سے 30 کچنز فعال ہیں ۔


صائمہ، پشاور
Image captionپشاور کی صائمہ خوش ہیں کہ انھیں کام کے سلسلے میں گھر سے باہر نہیں جانا پڑتا

گھریلو کچن کی بنی ہوئی اشیاء کچھ عرصے تک یہاں بڑے سٹورز پہ بھی دستیاب تھیں لیکن ان پر پابندی لگا دی گئی اور وجہ بتائی گئی کہ فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی شرائط۔ لیکن اب بھی یہ اشیا آپ کے گھروں میں آپ کے آرڈر پر ضرور دستیاب ہوتی ہیں۔
پشاور کے دو نوجوانوں نے ایک ویب سائیٹ بھی تیار کی ہے جس میں ان کچنز کے فہرست اور ان کے کھانوں کی مکمل تفصیل ہے ۔


پشاور، اعجاز
Image captionویب ڈویلپر محمد اعجاز کہتے ہیں کہ ہوم کچنز کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ نقصان یا فائدے میں کیوں جارہے ہیں

ویب ڈویلپر بزنس آرگنائزر محمد اعجاز نے بی بی سی کو بتایا کہ 'فیس بک پرہمارا معاملہ صرف آرڈرز کی بکنک تک محدود نہیں۔ ہم مستقبل کو دیکھتے ہوئِے ریستوران کی میز کی بکنگ کی طرف جا رہے ہیں۔ یہاں پہ ان کی سیلز رپورٹ ہوم کچنز کو ملےگی۔ ہوم کچنز کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ انھیں پتہ نہیں چلتا کہ اگر وہ نقصان اور فائدے میں جارہے ہیں تو کیوں جارہے ہیں۔'
پشاور کی صائمہ خوش ہیں کہ انھیں اس کام کے لیے گھر سے باہر نہیں جانا پڑتا۔ وہ اب نہ صرف اپنے بچوں کی تعلیم اورگھر پر نظر رکھ سکتی ہیں بلکہ گھر بیٹھے مل جانے والے اس کام سے زریعہ آمدن بھی ہوجاتی ہے۔