صرف صغیر کا جُرم ہمیں بتایا جائے۔

تحریر حمیدہ  بلوچ




ایک ان کہی داستان کی سی زندگی رہ گئی ہے، نہ کچھ سُنائی دیتا اور نہ ہی کچھ دکھائی دیتا ہے، گر کچھ سمجھ میں آتا ہے تو وہ ہے بس تیرا نام صغیر ۔ آج کچھ الفاظ تحریر کرنے کی ہمت ہوئی لیکن سمجھ سے باہر ہے کہ آغاز کہاں سے ہو اور انجام کہاں کو جائے، میں وہ یاد کس طرح تحریر کروں جو میرے وجود کو دبوچ کر میری سانسیں روک لیتی ہے یا وہ داستان کیسے بیان کروں جو میری یادداشت میں ایک زخم زدہ پھوڑے کی مانند سمائی ہے۔ راتیں تو جیسے کہو میرے لئے مرگ کا پیغام لاتی ہے، یہ سرد اور لمبی راتوں میں تیری یاد میرے وجود میں زہر کی مانند پھیلتی چلی جاتی ہے اور جب ازیت سے زباں سے دُعائے مرگ نکلتا ہے تو صبح کی کرن زندگی اور تیرے واپس لوٹنے کی ایک اُمید دیتی ہے۔ 
کراچی میٹرو پولیٹن سٹی سے خاصہ دور بلوچستان کے دور افتادہ علاقہ آواران کی خاموش سی لڑکی آج کراچی پریس کلب میں چیختی رہتی ہے، کوئی ہے جس نے میرے بھائی کو دیکھا، کوئی ہے جو میرے بھائی کا پتہ دے، کوئی ہو جو میرے بھائی کو لوٹا دے۔ لیکن کوئی جواب نہیں دیتا، شاید میں بے زبانوں کے شہر آگئی ہوں۔ میں ایک دئیاتی لڑکی میرے لیئے یہ پریس کلب ،یہ کورٹ کچری، یہ احتجاج، یہ انسانی حقوق تنظیمیں سب انوکھی چیزیں ہیں میری ویم وگما ن میں بھی نہیں تھا کہ مجھے ان کورٹ کچریوں اور پریس کلبوں کے سامنے در بہ در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں گی لیکن اس دو ماہ کے طویل نما مختصر عرصے میں اب ان چیزوں کی عادت سی رہے گئی ہے اور ناکردہ گناہوں کے پاداش میں آئے روز درد کی اپیل لیکر ریاستی و غیر ریاستی اداروں کے دروازوں کو کٹکٹا رہے ہیں شائد کہیں سے صغیر کی کوئی خبر آجائے لیکن آئے روز ان سے مایوسی نصیب ہورہی ہے مایوسی صرف یہ نہیں کہ میری بھائی کو بازیاب نہیں کیا جارہا ہے اس سے بھی بڑی مایوسی مجھے اس بے حس سماج سے ہے یہ لکھاریاں ، یہ اخبار والے ، یہ ٹی وی چینل والے کسی امیر گھرانے کی کتّا مرنے تک خبر کرتے ہیں لیکن میری نوجوان بھائی یونیورسٹی لیول کا طالب علم ہے اور ایک خاندان کا چراغ ہے اس دو ماہ کے عرصے میں کسی ایک لکھاری نے میری بھائی کیلئے اپنے صفحے کو ضائع کرنا گوارا نہیں سمجھا شائد اس لیے میرا بھائی بلوچ ہے۔
ہم نے صغیر کو آواران سے اتنی دور کچھ پڑھنے اور سیکھنے کے لئے کراچی جیسے بڑے شہر بھیجا، صغیر نے 2016ء میں پولیٹیکل سائینس ڈپارٹمنٹ میں ایڈمیشن لیا اور بنا کوئی تنظیم میں سرگرم رہے صغیر نے اپنی پڑھائی کو ترجیح دی۔ لیکن کہتے ہیں نہآسمان جب ٹوٹتا ہے تو زمین کو بتا کر نہیں ٹوٹتا ویسے ہی 20 نومبر 2017 ء کوشام5 بجے پیپر دینے کے بعد کچھ دوستوں کے ہمراہ کراچی یونیورسٹی کی وی ایس کینٹین میں بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ کچھ سادہ ملبوس میں لوگ آئے اور صغیر کو اپنے ساتھ لے گئے، تب سے اب تک صغیر غائب ہے۔آج صضیر کو لاپتہ ہوئے دوماہ سے زائد کا عرصہ گزرچکاہے اس دو ماہ کے عرصے میں میری بوڑھی ماں سمیت خاندان کے تمام افراد کس کرب سے گزررہے ہیں اس کو بیاں کرنا یقیناًمیری بس سے باہر ہے اس درد کو ہمارے سوا وہ صرف محسوس کرسکتے ہیں جنہوں نے اپنے پیارے کھوئے ہیں یا وہ ا بھی تک ہماری طرح اپنے پیاروں کی واپسی کی راہ تکتے رہتے ہیں ۔میری ماں ان سرد راتوں کو آنسو ں بہتے گزاررہی ہے اس بوڑھی والدہ کے لبوں میں صرف ایک ہی دعا نکلتی ہے یا پروردگار ایسی تکلیف کسی دشمن کو بھی نصیب نہ ہو۔ 
آج بلوچستان کے ہر گھر میں ایک ماتم کا سہ سماں رہتا ہے، کوئی دس سال تک غائب رہتا ہے یا کسی لاپتہ کی لاش مل جاتی ہے۔ اب میرے گھر میں بھی میری بوڑھی ماں صغیر کے انتظار میں دروازے کو تکتی رہتی ہے اور میں صغیر کی بہن حمیدہ کراچی جیسے عوامی سیلاب میں اپنے
بھائی کو ڈھونڈ رہی ہوں۔ لیکن20نومبر کی رات سے ایک سوال مجھے اندر سے جھنجوڑ رہی ہے صضیر جیسے معصوم نوجوان کو کس جرم کے پاداش اس طرح غائب کیا گیا ہے ۔ آیا صضیر کی گنا ہ یہ ہے کہ وہ بلوچستان کے ضلع آواران سے تعلق رکھتا ہے؟یا یہ ہے کہ وہ اس پسماندہ علاقے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے کراچی یونیورسٹی جیسے بڑی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کررہا تھا ؟اگر یہ گنا ہ ہے تو میں درد مندانہ اپیل کرتی ہوں کہ صضیر احمد کو رہا کردیں اس کے بعد ہم اپنے کسی بچے کو کراچی جیسے بڑے شہر میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے نہیں بھیجے گے اور میری صغیر کے اغواہ کاروں سے صرف ایک ہی سوال ہے صرف صغیر کا جُرم ہمیں بتایا جائے۔
شکریہ

سوشل میڈیا