آج
کل ملک بھر میں پورن اور ڈارک ویب پر بات ہو رہی ہے۔ اس میں بہت سارے پہلوؤں پر
روشنی ڈالی گئی ہے۔ مگر ایک پہلو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ان سائٹس پر جو
کچھ براہ راست شکار کے ساتھ ہوتا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ لیکن جو اس کا ان ڈائریکٹ
شکار ہوتا ہے اس کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ پورنوگرافی ایک ایسا مکروہ
دھندہ ہے جس سے صرف صارف ہی نہیں، اس کے ساتھ رہنے والے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
پورن فلمیں دیکھ کر
کوئی اپنی آنکھیں نہیں پھوڑ لیتا۔ بلکہ وہ اپنے ساتھی کے لئے عذاب بن جاتا ہے۔ یہ
فلمیں جنسی مریض دیکھتے ہیں اپنے اطمینان کے حصول کے لئے۔ یہ مریض گھر والوں کو
اور اپنے ساتھی کو بری طرح برباد کرتے ہیں۔ جو کچھ ہوتا ہے وہ اتنا ہی روح فرسا ہے
جتنا کہ کسی کے ساتھ زبردستی یا زیادتی کرنا ہوتا ہے۔ جو بھی افراد ان سائٹس کو
وزٹ کرتے ہیں وہ اس نظارے کو اپنی پارٹنر پر آزماتے بھی ہیں۔ یہ پہلو غور طلب ہے۔
میرا اس سب کے بارے میں
ذاتی تجربہ ہے۔ اس کو آپ کے ساتھ شیئر کرتی ہوں۔ میرے شوہر کی کچھ عادات ہیں جو وہ
نہیں بدل سکتے۔ مگر میں نے حالات سے ٹکرانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یہ نہیں معلوم
تھا کہ میرے حق میں میری ہر تدبیر الٹی پڑ جائے گی۔ 2007 میں میں نے ڈاکٹر کے ساتھ
اپنی مشکل کا اظہار کر کے اپنے ذہنی سکون اور آسودگی کے لئے اپنی بچہ دانی نکلوا
دی تا کہ جو جسمانی اور روحانی اذیت مجھے ان سات دنوں میں ملتی تھی، اس سے نجات پا
جاؤں۔ ان دنوں میں شوہر کے ساتھ ہم بستری مجھے اپنی نظر میں ایک کتیا سے بھی ہیچ
کر دیتی تھی۔ یہ سلسلہ 1987 میں میری شادی کے ایک ماہ بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔
پورن فلموں میں بے لباس
مرد دیکھنا بھی کسی اذیت سے کم نہ تھا۔ میں نے اپنے میکے اور سسرال کے چند لوگوں
کو اس صورت حال کا بتایا تو سب اپنا منہ ادھر ادھر کر گئے، کوئی بھی جواب، یقین
جانیں کوئی بھی جواب دیے بغیر۔ کوئی مشوره یا میرے شوہر کی اصلاح کیے بغیر محفل
برخاست کر دیتے۔ میں ایک ایف اے پاس بن باپ کے لڑکی تھی۔ میری 4 اور بہنیں بھی
تھیں۔ سو مجھے خاموش رہنا تھا۔ میں خاموش رہی۔ شوہر کی بربریت خاموشی سے قبول کرنے
کی صورت میں شاباش اور با سہولت زندگی کی فراہمی نے آہستہ آہستہ مجھے سٹاک ہوم
سنڈروم نامی ذہنی بیماری میں مبتلا کر دیا۔ اس بیماری میں ابیوذر (abuser) سے محبّت ہو جاتی ہے۔
کیونکہ بالآخر شکار کو وہی شخص باقی تمام دنیا سے زیادہ بہتر نظر آ رہا ہوتا ہے
اور کسی حد تک وہی نجات دہندہ بھی ہوتا ہے۔ بچوں کے حوالے سے خود شکار کے ساتھ
باقی معاملات زندگی میں تعاون برتنے کے حوالے سے وہی ابیوذر (abuser) نجات دہندہ لگتا ہے۔
اس بیماری نے اور پھر
میرے حالات نے مجھے ہمیشہ اس کے ساتھ باندھے رکھا۔ میں بیمار تھی اور لوگ مجھے خوش
سمجھتے تھے۔ مگر سکون ختم ہو گیا تھا۔ اس سرجری کے بعد تین ماہ تک سکون رہا۔ پھر
ایک درد دینے والے عذاب کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ وہ ایک تشدد پسند جنسی
مریض تھا۔ باقی دنوں میں اسے میری ذات کے ساتھ اتنی دلچسپی نہیں ہوتی تھی جتنی کہ
ان خاص دنوں میں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اسے معلوم تھا کہ میرا انکار ہی ہے۔ انکار کے
بعد تشدد … ذہنی مریضوں کے لئے آسودگی کا باعث ہوتا ہے۔ میں نے انکار کی وجہ ہی
ختم کر ڈالی۔ اب وہ کیا کرے۔ اس نے ایک نیا طریقہ اپنایا۔ غیر فطری۔ غیر اخلاقی۔
شدید جسمانی اذیت دینے والا۔ میری پکار کا مرکز صرف رب ہوتا تھا۔ ماں ماں کہنے کے
لئے میں بڑی ہو چکی تھی یا پھر اسی درندے کی منّت سماجت۔ پھر سب کچھ بیکار۔
ابھی اور امتحان بھی
باقی تھے۔ مجھے شدید ڈپریشن رہنے لگا۔ جس کے لئے میں خواب اور گولیاں کھانے لگی۔
اور دھیرے دھیرے ایک بےجان لاش بن کر بستر پر پڑنے لگی۔ پورن فلموں کا شوقین شوہر
رفتہ رفتہ اپنی مردانگی سے ہاتھ دھونے لگا۔ کئی سال سے مسلسل ویا گرا کھانے کی وجہ
سے اسے اب یہ دوا کوئی فائدہ نہ دے رہی تھی اور مزاحمت جو کہ تناؤ اور ہیجان کا
باعث بنتی ہے وہ بھی بند ہو چکی تھی۔ مگر دماغی ترغیب اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی
تھی۔ یہ احساس کہ میں نا مرد ہو رہا ہوں مرض میں اضافے کا باعث بنا۔ ہر کوئی یہ
فیز بخوشی قبول نہیں کرتا۔
اب آئ ڈارک ویب کی
باری، جنسی مریض عام جسمانی مریضوں سے زیادہ اپنی کمزوری کے بارے میں فکر مند ہوتا
ہے۔ اپنے جیسی ذہنیت رکھنے والے دوستوں میں سے ایک انٹرنیٹ کے ماہر دوست نے ایک
ویب سائٹ کے بارے میں بتایا۔ جس پر خفیہ کوڈ ڈال کر کچھ نیا جاندار دیکھنے کو ملتا
ہے۔ اور یوں زندگی کی بےرونق راتوں میں رنگ بھر جاتا ہے۔ دس ہزار کے عوض اس دوست
نے وہ خفیہ کوڈ، جو اس نے خود بھی ہیک کیا تھا میرے شوہر کو دے دیا۔ اس سائٹ میں
تین برسوں کی رجسٹریشن ہوتی ہے۔ کسی بھی کرنسی کی صورت میں۔ وہ ادائیگی کر دی گئی۔
پہلی فلم کے بعد ہی صبح کو میری یادداشت کم تھی۔ مجھے کچھ یاد نہیں تھا کہ میرے
کتنے بچے ہیں۔ میں رات کو کب ہسپتال گئی اور واپس آ گئی۔ جسم کہاں کہاں سے خون ٹپک
رہا ہے۔ زبان پر زخم ہیں جس کی وجہ سے میں چاۓ بھی نہیں پی پا رہی۔ سات سالہ بچی تو مر جاتی ہے۔ یہ سب سہ نہیں پاتی۔
مگر 2010 میں 45 سال کی ہو چکی عورت زندہ بچ جاتی ہے۔
یاد رہے کہ میں کئی
دماغی بیماریوں کا شکار ہو چکی تھی۔ پتہ نہیں کیوں۔ 2 سال کم و بیش یونہی ہوتا
رہا۔ ابھی دل بستگی کے لئے اور بھی سامان کرنا تھے۔ صاحب کو تو اسی ڈارک ویب پر
ایک خانہ کھولا کہ جوانی کیسے واپس حاصل کی جائے۔ تو اس میں مجرب نخسہ نکالا کہ
اپنی بیوی کو اپنے سامنے کسی دوسرے مرد کے ساتھ سلاؤ۔ اسی سائٹ پر کئی افراد اور
جوڑے اپنی ضرورت اور خدمت کے لئے بیٹھے تھے۔ اور لائیو سین بھی دیکھنے کو ملتے
تھے۔ 2012 کی جنوری سے میری ٹریننگ کا آغاز ہوا۔ دن رات مجھے لرزا دینے والی فلمیں
دکھائی جاتیں۔ ہمبستری کے دوران میرا منہ ناک بند کر کے اس حالت تک پہنچایا جاتا
کہ میں غیر مرد کے لئے بے جھجھک ہو جاؤں اور اسے اپنا نظارہ کرنے دوں اور اسے نام
لے کر پکاروں کہ میرے پاس آؤ اور مجھے یوں برتو۔ یہاں پر ایک بات واضح کر دوں کہ
مجھے پہلے ہی وارننگ دی جا چکی تھی کہ بات اگر باہر گئی تو وہ مجھے چوراہے میں لا
کھڑا کرے گا اور اس نے یہ کیا بھی۔ میں نے بھی اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ بات
کمرے میں ہی دفن رہے کیونکہ کمینے پن میں انسان پھر کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
اسکائپ پر یہ تماشا
چلتا رہتا اگر میرا مسلسل انکار نہ رہتا۔ یقین کریں یہ انکار میں نے اپنی عزت کے
تحفظ کے لئے نہیں کیا تھا۔ مجھے اپنے شوہر کی محبّت نے یہ انکار کرنے پر مجبور
کیا، خودی اور سلف ریسپیکٹ مجھ میں باقی ہی نہیں تھے۔ میں نے مذہبی، معاشرتی اور
اس کام کے بعد پیدا ہونے والی ذہنی الجھن کے بارے میں تفصیل سے بات کی اپنے شوہر
کے ساتھ مگر وہ مان کر نہیں دیا۔ جون 2012 میں ایک ایسا دن آیا کہ سکائپ پر نیم
عریاں ہونے والی میں کو اس کے سامنے دھوکے سے لا بٹھایا گیا۔ مجھے ابھی بھی لگ رہا
تھا کہ یہ امانت میں خیانت ہے اور میں یہ خیانت نہیں کر سکتی۔ اب وقت تھا کہ میں
سب کچھ چھوڑ کر بھاگ جاؤں۔ بھائی کو بتایا کہ یہ صورت حال ہے۔ اس نے مجھے اپنے گھر
بلا لیا۔ مگر میں نہیں گئی۔
ناجانے کیسے میں لو /
ہیٹ ریلیشن شپ سے باہر آ رہی تھی۔ مجھے کچھ ہوش آنے لگا تھا کہ میں ایک ماں بھی
ہوں اور میرا شوہر میری بچیوں کے لئے بھی ایک خطرہ بن سکتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ
ڈپریشن کے علاج کا نتیجہ ہو کہ میں مثبت سوچنے لگی تھی یا پھر میرے اندر کی ممتا
جاگ گئی تھی۔ 3 جوان بیٹیوں کو نیم پاگل تشدد پسند، جنسی بھوک کے مارے درندے کے
پاس کیسے چھوڑ دیتی۔ پھر میں نے ہمّت کی اور بیٹے کو بتایا۔ اس نے باپ کے پیر پکڑے
مگر وہ سفاک آدمی مکر گیا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ میرا ایسا کوئی تھری سم کرنے کا ارادہ
نہیں۔ پی سی میں کمرہ بک ہو چکا تھا۔ میں ایک شام خاموشی سے وہاں لائی گئی۔ فون
مجھ سے لے لیا گیا تھا۔ جسم پر انکار کی وجہ سے نیل تھے۔ سانس پھنس رہی تھی پسلیوں
پر مار کی وجہ سے۔ پر میں نے حواس کو بحال کرتے ہوئے کمرے میں اس دوسرے مرد کے آنے
سے پہلے شوہر کے فون سے چوری چوری بیٹے کو بچاؤ۔ میں پی سی میں ہوں۔ کا میسج کر
دیا۔ بیٹا آیا۔ ہاتھا پائی ہوئی اور میں گھر آ گئی۔
اس کے بعد ایک الگ
کہانی شروع ہوتی ہے کہ کیسے مجھے بد کردار ثابت کیا گیا اور میں کس کس خانگی عدالت
میں رسوا کی گئی۔ جہاں ڈارک ویب پر ننھی کلیوں کو مسل کر روشن کی جاتی ہے تو وہیں
ان کلیوں کی مائیں بہنیں اس آنکھوں کو اندھا کرنے والی آگ جیسی روشنی میں اندھیری
زندگی گزار رہی ہوتی ہیں۔ میں مجرم نہ ہوتے ہوے بھی ایک سوالیہ نشان ہوں کیونکہ
میں زندہ ہوں۔ ایک عجیب سی شکل آج کل ذہن میں ابھرتی ہے جب ایسی ہی کسی کلی یا کسی
پھول جیسے بچے کا ذکر ہو رہا ہو۔ مجھے ان بچوں میں اپنا آپ نظر آنے لگتا ہے۔ یقین
جانیں خود کشی حرام نہ ہوتی تو میں اس اذیت سے چھٹکارہ حاصل کر لیتی مر کر۔ مجھے
کوئی بچہ یا بچی چینختی سنائی نہ دیتی۔ مجھے اپنے آنسو جو اس وقت بھی بہ رہے ہیں۔
……… اپنی دو تصویریں میری نظر میں گھومتی ہیں۔ انھیں میں لفظ نہیں دے سکتی۔ شاید
اسی لئے بچے مر جاتے ہیں۔ وہ کیا بتائیں اپنا احساس جب میں نہیں بتا پا رہی مکمل
طور پر۔ میں سال بھر سے یہ مضمون لکھنا چاہ رہی تھی مگر ہمّت نہیں ہوتی تھی۔ ایک
ذہنی کرب کو واپس اپنے روبہ رو کھڑا کرنا آج بھی اتنا ہی مشکل ہے۔
رحم میرے مالک رحم۔ اے
طاقتورو رحم۔ اے بے شعور قوم کی فصل پیدا کرنے والو رحم۔ ننھی بچی نہیں بتا سکتی
آپ صرف اندازے لگا سکتے ہو اور دکھی ہو۔ مجھ پر بیتی ہے۔ میری سن لو۔ اور اب کچھ
کر لو۔ میری آواز میرے خاندان کے مردوں کی پگڑی اچھال دے گی اور عورتیں اپنا منہ
چھپائیں گی۔ اس لئے بند تھی آج تک۔ مگر میں بھی کیا کروں یہ چپ میری جان لے بھی
نہیں رہی اور جینے بھی نہیں دے رہی۔ سو میں بول پڑی۔
ان اندھیری سائٹس کا
تعلق معاشیات کے طلب اور رسد کے قانون سے جوڑا جا سکتا ہے۔ مگر اس میں متوازن لچک
نہیں ہے۔ یہاں طلب کا گراف رسد کے گراف کو سیٹ کرتا ہے۔ رسد اگر روک بھی دی جائے
تو طلب کسی اور طرح پوری کر لی جائے گی۔ مثلا جو کچھ فلموں میں ہوتا ہے۔ گھروں میں
ہو گا۔ چوک چوراہے چار دیواری کچھ بھی حفاظت نہیں کر پائیں گے۔ طلب کو بدلو۔ رویے
بدلو۔ رواج بدلو۔ سماج بدلو۔ یہ تب ہی ہوگا جب خود کو بدلوگے۔
بشکریہ ہم سب