تفتیشی ٹائپ ابا کی ایک نامعلوم کتے کی تلاش


سدرہ  ڈار

ماری ایک واقف کار خاتون جو بیوہ بھی تھیں اور بے اولاد بھی اکثر ان کے بہت سے کام کرنے کی ذمہ داری میرے والدین کے سر تھی کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ایک اکیلی اور بزرگ عورت کی دیکھ بھال سے اللہ راضی ہوگا۔ گھر میں کوئی خاص ڈش پکتی تو مجھے کہا جاتا جاؤ آنٹی کو دے آو۔
میں سہیلیوں کا ٹولہ لےکر ان کے گھر جاتی، تھوڑی دیر صحن میں کھیلتی اور برتن لے کر واپس آجاتی۔
ایک روز چھوٹی کو بھی ساتھ لے گئی جسے ٹھیک سے بولنا بھی نہیں آتا تھا۔ ہم صحن میں کھیلنے لگے وہ آنٹی کے پاس اندر تھی کہ اچانک میرا کسی وجہ سے اندر جانا ہوا تو دیکھا کہ لاونج میں وہ عورت میری چھوٹی بہن کے بال پکڑے اسے زدو کوب کر رہی ہے۔ مجھے کچھ نہ سوجھا تو میں نے صحن میں پڑی ایک لکڑی اٹھائی اور پوری طاقت سے اسے دے ماری وہ ابھی لگنے والی چوٹ پر چیخ رہی تھیں کہ میں نے چھوٹی کو فوراً ان کی گرفت سے آزاد کروایا اور گھر سے بھاگ نکلی۔ راستے میں چھوٹی کو سمجھایا، آنسو صاف کیے، پر کرب اس کے چہرے پر واضح تھا۔
گھر آئی تو امی نے اس کی بندھی ہچکی اور ہاتھ پر لگی چوٹ کا پوچھا تو میں نے جھٹ کہا کہ گھر آتے ہوئے ایک کتا پیچھے لگ گیا اس نے اس کے ہاتھ پر کاٹ لیا ہے۔
امی کو کچھ سجھائی نہ دیا ڈاکٹر کے پاس لے کر بھاگیں تو اس نے کہا دوا لگا دی ہے زخم کتے کے کاٹنے کا نہیں ہے۔ شام نہ جانے دونوں میاں بیوی نے کیا میٹنگ کی خبر نہیں۔
تھوڑی دیر بعد ابو چھت پر پودوں کو پانی دینے گئے اور مجھے بلایا۔ میں چارپائی پر بیٹھ گئی تو پوچھا آج آنٹی کو دوپہر میں کھانا دینے کب گئی تھی؟ میں نے وقت بتایا۔
انھوں نے پودوں کو بغور دیکھتے ہوئے کہا یہاں آو چیل بانو۔ ( میرا یہ نام میرے ایک پھوپھا نے رکھا تھا کہ یہ بچی چیل کی طرح آتی ہے اور کچھ بھی اٹھا کر رفو چکر ہوجاتی ہے تو یہ نام بہت ہی کم ابو لیا کرتے تھے لیکن جس روز اس نام سے پکاریں تو سمجھ جاؤ یا تو آج بڑا لاڈ آیا ہوا ہے یا پھر کچھ پوچھ گچھ ہونے والی ہے)
گلاب دکھاتے ہوئے انھوں نے مجھے مخاطب کیا اور کہا اب گرمیاں شروع ہوچکیں ہیں تو گلاب بھی خوب آئیں گے پر جو اچھا لگے اسے توڑنا نہیں، دیکھو اس میں کانٹے بھی ہیں چبھ سکتے ہیں۔ میرا انتظار کرنا میں شام میں وہ گلاب توڑ کر دیدوں گا۔ ویسے پھول توڑنا اچھی بات نہیں انھیں تکلیف ہوتی ہے جیسے بچوں کو چوٹ لگے تو انھیں درد ہوتا ہے۔ میں چپ کر کے سنتی رہی۔
تمہیں پتہ ہے تمہاری دادی کے گھر بہت سے پھول تھے اور درخت بھی۔ ان میں پھل بھی لگتے تھے۔ تتلیاں بھی آتی تھیں اب وہ سب نہیں ہے۔
میں نے پوچھا کیوں؟ تو انھوں نے کہا جب میں نے اماں کے انتقال کے بعد گھر چھوڑا اور کراچی آگیا تو انھوں نے ایک اسی خاتون کی ہم نام جس سے نمٹ کر میں گھر لوٹی تھی بتایا کہ ان کو پودے درخت پسند نہیں تھے تو سب درخت کٹوا دیے، اور پودے نکلوا دیے اس میں ان کا ساتھ اور لوگوں نے بھی دیا تب ہی آج وہاں کا صحن ویران اور پکے فرش میں تبدیل ہوچکا ہے۔ (شاید وہ نام جان بوجھ کر لیا گیا تھا کیونکہ اس نام کی ہمارے خاندان میں کوئی خاتون نہیں تھی)
نام سن کر میں نے جھٹ کہا وہ تو چڑیل ہیں۔ ان کے ناخن اور دانت بڑے بڑے ہیں وہ بچوں کو دیکھ کر چڑیل بن جاتی ہیں ان کو مارتی ہیں اور شاید کھا بھی جاتی ہوں گی۔
میرے والد نے مجھے سپاٹ چہرے سے دیکھا اور گہری سانس لے کر کہا۔ اچھا۔ اور پھر ہم نیچے آگئے، امی سے کہا کہ وہ کام سے جارہے ہیں ابھی آتے ہیں۔ رات میں معلوم ہوا کہ ان کو آنٹی نے بتایا ہے کہ وہ فرش پر گر گئی تو ان کو چوٹ آئی ہے۔
اس واقعے کو بہت برس بیت گئے پھر ہم گلی میں کھیلیں یا پارک میں، رمضان میں کسی کے گھر افطار دینے جائیں یا تہوار پر کسی دکان پہ، ابو ساتھ جاتے اور انتظار کرتے۔ یہا ں تک کہ اگر ان کا کوئی دوست گھر آتا اور وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوتا تو چائے دینے کے لئے یہ ہدایت تھی کہ ابو کو آواز لگائی جائے وہ آتے، ٹرے وصول کرتے اور چلے جاتے۔ کوئی مہمان گھر آتا اور اس بات پرہم بہن بھائی سے اصرار کرتا کہ بیٹا یہاں آو ادھر پاس صوفہ پر بیٹھو تو ابو امی کی جانب دیکھنے کی نوبت نہ آتی ہم ہنستے ہوئے انکار میں گردن ہلاتے اور لاونج میں چلے جاتے صرف نانی کے پاس بیٹھنے اور لاڈ اٹھوانے کی اجازت ہوتی تھی۔ اور تو اور اگر کسی مہمان کو واش روم جانا ہو تا اور ہم بچے اس کمرے میں موجود ہوتے تو ہمیں پہلے وہاں سے نکالا جاتا اور پھر اسے اس کمرے تک رسائی دی جاتی۔
ایک دن ایک نیا فرمان بھی جاری ہوا کہ اگر کسی کی دعوت ہے تو مہمانوں کو ڈائننگ ٹیبل پر بلاکر کھانا گرم گرم سرو کرنے کے بجائے پہلے میز پر پلیٹیں، کھانا رکھ دیا جائے اور پھر مہمانوں کو بلایا جائے تاکہ ان کی موجودگی میں سرونگ نہ کرنی پڑے اور جب دوبارہ کوئی سالن یا چاول میز پر ر کھنے پڑیں تو وہ ابو یا امی کے ہاتھ میں پکڑایا جائے وہ خود میز پر رکھ دیں گے۔ اس احتیاط پر ایک بار ہمارے محلے دار بھی ناراض ہوئے۔ میں کالج میں فرسٹ ائیر کی طالبہ تھی اور ابو کے ساتھ کالج جایا کرتی تھی مجھے ڈراپ کر کے وہ آفس چلے جاتے تھے۔ ایک صبح وہ بائیک پر بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے اور سامنے والی پڑوسن اپنے شوہر کو رخصت کرنے کے لئے اپنے دروازے پر تھیں کہ ایک منظر نے انھیں حیرت میں ڈال گیا۔
میں بائیک پر بیٹھی اور اچانک یاد آیا کہ پریکٹیکل جرنل میز پر رہ گیا ہے وہ لینے کے لئے بائیک سے اتری اور ابو سے کہا ایک منٹ رکیں انھیں شاید میری آواز نہیں آئی اور وہ چلے گئے۔ جب میں اندر سے جرنل لے کر باہر آئی تو امی اور پڑوسی انکل آنٹی کو حیران پایا۔ میں نے پوچھا ابو کہاں گئے تو امی نے کہا وہ تو چلے گئے شاید انھیں غصہ آگیا تھا۔ اور سامنے والی آنٹی نے فورا کہا کہ تم انکل کے ساتھ کالج چلی جاؤ حیرت ہے ایسا بھی کیا غصہ ذرا دیر کو بچی اندر ہی تو گئی تھی۔ میں ان لوگوں کے سامنے بڑی ہوئی تھی میرے لئے وہ اجنبی نہیں تھے انکل نے جب مجھے کہا چلو بیٹا میں آپ کو کالج چھوڑ آتا ہوں تو میں نے بناءلحاظ کیے صاف جواب دے ڈالا اور پیدل بس اسٹاپ پر گئی اور بس سے کالج روانہ ہوگئی۔ کالج پہنچی تو دوست نے بتایا کہ انکل نظر آئے تھے تھوڑے پریشان سے لگے۔ کچھ دیر کھڑے رہے اور پھر چلے گئے۔ عجیب معمہ تھا۔
دوپہر معلوم ہوا کہ ابو کالج سے فورا گھر آئے اور پوچھا کہ سدرہ کہاں ہے؟ امی غصے میں آگئیں کہ آپ نے اسے چھوڑ دیا اور حیرت ہے کہ سارا راستہ آپ کو یہ محسوس بھی نہیں ہوا کہ بیٹی ساتھ نہیں ہے۔ انھوں نے جواب دیا کیسے پتہ چلتا سارا راستہ ہم خاموشی سے جاتے ہیں۔ میں احتیاط سے بائیک چلاتا ہوں آج تک میری بیٹی نے مجھے بائیک پر بیٹھتے ہوئے میرا سہارا نہیں لیا پتہ ہی نہیں چلتا کہ بیٹھی بھی ہے کہ نہیں۔ تب ہی کالج پہنچا تو پریشان ہوا کہ بائیک سے اتر کر خدا حافظ کرتی ہے آج اسے کیا ہوا؟ دیکھا تو نظر ہی نہیں آئی۔ میں ڈر گیا کہ کہیں راستے میں گر تو نہیں گئی؟
شام میں ابو بھانپ گئے کہ میں ان سے خفا ہوں کچھ بولے نہیں بس چائے کے ساتھ میری من پسند کھانے پینے کی چیزیں لاکر میز پر رکھ د یں میری ناراضگی ختم ہوگئی۔ کسی کام سے باہر نکلے تو ان سے سامنے والے انکل نے شکوہ کیا ڈار صاحب آپ اپنے بچوں کو اتنا ڈرا کر رکھتے ہیں میں نے منت کی صبح آپ کی بچی سے کہ میرا راستہ بھی وہی ہے میں چھوڑ دیتا ہوں مجال ہے کہ وہ ٹس سے مس ہوئی ہو۔ آخر بس سے ہی گئی وہ بھی۔ ابو اندر مسکراتے ہوئے آئے۔ ذرا کم ہی مسکراتے تھے میں نے وجہ پوچھی تو کہتے ہیں کچھ نہیں ایسے ہی سامنے والوں سے گپ شپ چل رہی تھی۔
ہم جس دنیا میں بستے ہیں وہاں کون کب بدل جائے ہم نہیں جانتے۔ بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانا ہو، ہراساں کرنا ہو یا پھر ان کے ساتھ بد فعلی مختلف انداز میں شکار کرنے والوں کی اس معاشرے میں کوئی کمی نہیں۔ یہ کہنا کہ مرد ہی یہ سب کرتے ہیں درست نہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آج سے کئی برسوں قبل جب عصمت چغتائی نے اس موضوع کو چنا اور بتایا کہ عورتیں بھی ایسے ناپاک عزائم رکھتے ہوئے کم عمر بچیوں کی زندگیاں تباہ کرسکتی ہیں تو لوگوں نے ان کے خلاف آوازیں بلند کیں۔ آج بھی ہمارے اردگرد بسنے والے بہت سے لوگ اس بات سے خائف ہیں کہ اگر ہم اپنے بچوں کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے حوالے سے بتائیں گے تو ان کا ان مقدس رشتوں سے اعتبار اٹھ جائے گا جس میں بھائی، تایا، چاچا، ماموں، خالو، بہنوئی، پھپا وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
بچوں کو سمجھانے اور اچھا برا بتانے کے بہت سے انداز ہوتے ہیں جن سے ان تک بات بھی پہنچ جائے اور وہ خود کو خطرے میں محسوس کرتے ہوئے اس وقت بڑوں کی بات کو یاد رکھتے ہوئے خود کو بچانے میں کامیاب بھی ہو جائیں۔ اپنے بچوں کے دوست بنئے اور یہ احساس دلائیے کہ ان کا آپ کے علاؤ کوئی بہترین دوست اور رازدار نہیں ہوسکتا۔ اس یقین کی بناءپر وہ اس دنیا میں انسان کے بہروپ میں پھرنے والے بھیڑئیوں کو پہنچان پائیں گے اور خود کو محفوظ رکھ پائیں گے۔

بشکریہ ہم سب