اُس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور لنگڑاتا ہوا پولیس کے ہمراہ ایک کچے پکے مکان میں داخل ہوا اور کمرے کے اندر جاکے خون آلود پلنگ کے طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ”جی میں نے اُس کو اِس پلنگ پر ذبح کیا وہ سوئی تھی“ پھر میں اُس کے ساتھ لیٹ گیا اور اُس کو اپنے قریب کیا جب وہ سوگئی (مرگئی) تو میں بھی سائیڈ پر خون میں اُس کے ساتھ لیٹ گیا اور سو گیا۔
یہ الفاظ کسی سیریل قاتل کے نہیں بلکہ چارسدہ کے ایک گاؤں قاضی خیل کے عام سے غریب آدمی کے ہیں جس نے اپنی بیوی کو انتہائی درندگی کے ساتھ قتل کیا۔
میرا نام اسماعیل ہے اور میرے باپ کا نام چراغ دین ہے اور میں قاضی خیل کا رہنے والا ہوں، گھر والی کو قتل کیا ہے میں نے، میری بہن میرے گھر کے پیچھے پڑوس میں رہتی ہے وہ میری بیوی سے گھر میں حصہ مانگ رہی تھی، جب میرے بچے اس کے گھر جاتے تھے تو وہ ان کو گھر میں داخل نہیں ہونے دیتی تھی جب اُس کے بچے ہمارے گھر آتے تو ہمارے اعتراض کرنے پر میری بہن کہتی تھی کہ آپ کے گھر میں میرا حصہ ہے۔
ایک روز میں بہن کے گھر گیا تو میرے بھانجے نے مجھے طعنہ دیا کہ آپ کی بیوی بدکردار ہے میں نے خود بدکاری کرتے دیکھا ہے، یہ سننے کے بعد میری سمجھ بوجھ ختم ہوگئی، میں اُس روز کام بھی نہیں کر پا رہا تھا، میرا دماغ کام نہیں کر رہا تھا، میری بیوی اُس روز ماں کے گھر سے واپس آ ئی تھی وہ بہن کی شادی میں شرکت کرنے گئی تھی تو کافی تھکی ہوئی تھی اور جلدی سو گئی لائٹ بھی نہیں تھی میں نے ماؤف دماغ کے ساتھ اُس کو ذبح کیا، جب میں نے اُس کو ذبح کیا تو تھوڑے ٹائم بعد میرے دماغ نے کام شروع کیا تو میں اُس سے ہلا بھی نہیں، اُس کے ساتھ ہی خون میں لیٹ گیا، میرا دل اُس سے دور ہونے کو نہیں چاہ رہا تھا، جب صبح کی روشنی پھیلی تو میں نے پڑوسیوں کو اٹھایا اور بولا کہ رات کو چور آئے تھے اور میری بیوی کو ذبح کردیا، میرے پانچ بچے ہیں تین بیٹیاں اور دو بیٹے۔
جب اُس کا بیان ختم ہوا تو محلے کے ایک شریف اور مذہبی آدمی نے نہایت افسوس کا اظہار کیا، اُس نے کہا کہ میں اِس شخص کو تیس سال سے دیکھ رہا ہوں، اس کے شادی کو پندرہ سال ہو گئے، اِس کی بیوی بہت سادہ اور نیک سی عورت تھی، میرے سمیت محلے کے کسی مرد اور عورت نے ان کو غلط نہیں پایا حتیٰ کہ محلے میں اُس نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ تک نہیں پھیلایا، میں حیران ہوں کہ اِس نے اتنا ظلم کیوں کیا یہ آخیر ظلم ہے، اِس نے اُس کی زندگی درندگی کی انتہا پر جا کر ختم کی، اپنی دنیا بھی برباد کی بچے بھی اور آخرت بھی، وہ ظلم سہتے ویسے بھی اِس دنیا سے چلی گئی، لیکن آج اِس کے پاس کیا بچا؟ ، ہم سب مرد اور عورتیں اِس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ عورت پاک تھی عزت دار تھی، اُس نے غربت میں اپنے شوہر کے ساتھ وقت گزارا روکھی سوکھی کھائی لیکن آج تک کسی نے اس کے منہ سے کوئی بات یا شکوہ نہیں سنا، ہی اللّلہ کی عدالت میں جواب دیگا، اس کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
وہ پولیس والوں کی ہمراہی میں گھر سے نکلا اور گلی سے ہوتا ہوا پولیس کی گاڑی میں سوار ہوا، محلے میں جمع لوگ اس کو دیکھ رہے تھے۔
15 / 09 / 2018 کو عورت کے بھائی نے پولیس کو اطلاع دی کہ اس کی بہن گھر میں مری پڑی ہے پولیس اور گھر والے اس کو ہسپتال لے کے آئے اور نامعلوم افراد کے خلاف رپورٹ درج، سینئر پولیس افسر نے اس واقعہ کا سخت نوٹس لیا پولیس کی ایک ٹیم تشکیل دی اور واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا، پولیس نے کچھ ثبوتوں کے بنا پر مقتولہ کے شوہر کو گرفتار کر لیا، شوہر نے اعترافِ جرم کر لیا۔
پولیس کے مطابق قاتل نے گھر مقتولہ کے نام کیا ہوا تھا، اور قاتل کی بہن گھر میں حصہ مانگ رہی تھی، جو بیوی دینے کو تیار نہیں تھی تو بہن اور بھانجے نے قاتل کو مقتولہ کے غلط کردار کے بارے میں بتایا اور ان کو راستے سے ہٹایا۔
قاتل بڑی بیٹی جو دس گیارہ سال کی ہے کا کہنا ہے کہ رات کو شور سنا تو میں کمرے کی طرف آئی تو میرا باپ شاید ماں کو ذبح کر رہا تھا، جب مجھ پر نظر پڑی تو کہنے لگا کہ سو جاؤ کچھ بھی نہیں ہے، میں نیند کی حالت میں تھی میں سونے گئی لیکن دوبارہ اٹھ کر کمرے میں گئی تو وہ ماں کے گلے پر چاقو پھر رہا تھا، اور کانپتی آواز میں بولی میں نے ان کو کہا کہ یہ آپ نے اچھا نہیں کیا، تو میرے باپ نے کہا کہ چپ کر جاؤ چپ کر جاؤ اگر کل کوئی پوچھے تو بتانا کہ چور آئے تھے اور ماں کو ذبح کردیا۔
یہ ایک انتہائی ظالمانہ واقعہ ہے جو بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے اس سب میں متعلقہ افراد کو کیا ملا کیا یہ ہماری قانون کی کمزوری ہے یا تعلیم و تربیت کی کمی یا رسم و رواج کا قصور ہے؟
اسلام اس بارے میں ہمیں کیا کہتا ہے؟
اسلام کے مطابق اگر آپ کسی پر بدکاری کا الزام لگاتے ہے تو آپ کو اپنے الزام کے ثبوت میں چار عاقل و بالغ افراد پیش کرنے ہوں گے، اس کے بعد حاکم یا خلیفہِ وقت فیصلہ صادر کرے گا، کیا ہم لوگ ایسے حالات میں اسلام کے مطابق عمل کرتیں ہیں؟
قاتل کے بھانجے نے الزام لگایا کہ وہ بدکردار تھی اور اس نے خود اس کو بدکاری کرتے دیکھا ہے، کیا اس کا اتنا کہنا کافی تھا کیا اس کو بغیر ثبوت کے ماموں نے مان لیا؟ ، قانون اور شریعت بھانجے کو کوئی سزا دیتی ہے یا نہیں؟ یہاں شوہر کو کسی تحقیق کی ضرورت نہیں پڑی کیا وہ دس پندرہ سال جو اس نے اس عورت کے ساتھ گزارے تھے اس عورت کو سمجھنے اور اس کے کردار کے گواہی کے لئے کافی نہیں تھے کیا تعلیم کی کمی اس کی جہالت کا باعث بنی یا اس کی تربیت اس خطوط پر نہیں ہوئی کہ اس کو ایک سمجھدار انسان اور عقل کو استعمال کرنے والا بناتی؟
قاتل کی عقل نے قتل کے بعد کیوں کام کیا کہ اس نے غلط کیا، بہن کو کیا اب مکان مل جائے گا؟
سوال بہت زیادہ ہے لیکن قاتل کا کچھ نہیں رہا اس نے اپنی جہالت کے ہاتھوں سب کچھ تباہ کیا، اس کے بچوں کے ذہنوں پر کیا اثر پڑا، وہ لڑکی کیا ایک نارمل زندگی جی سکی گی جیس نے اپنی ماں کو ذبح ہوتے دیکھا ہو اور کیا وہ بچے باپ کے لئے دلوں میں کوئی گنجائش رکھ سکیں گے کیا ان کے لئے باپ لفظ ایگ گالی نہیں ہوگا؟
وہ تا عمر قاتل کے بچے کہلائیں گے اور یہ ان کے لئے ذہنی اذیت کا باعث ہوگا۔
ماں کے مرنے اور باپ کے جیل جانے کے بعد معاشرے میں ان بچوں کی حیثیت اور تربیت کیا ہوگی؟
یہ سوال صرف سوال بن کے رہ جاتے ہیں اور کوئی نہیں سیکھتا، اور آئے روز کوئی نہ کوئی واقعہ ہوتا رہتا ہے، بھگتنے والے بھگتے ہیں اور جب بوجھ ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے تو ایک روزہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔
کون قصور وار ہے کیا ہونا چاہیے کہ اس طرح واقعات کی روک تھام ہو؟ ، اس کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں، دو دن واقعہ یاد رہتا ہے تیسرے روز لوگ بھول جاتے ہیں۔