ہماری زوال پزیر اخلاقیات


گزشتہ دنوں سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر رابی پیرزادہ کی لیک شدہ اخلاق باختہ ویڈیوز کو لے کر جو طوفانِ بدتمیزی برپا کیاگیا اس کو دیکھ کے اس بات پر یقین پختہ ہوگیا کہ ہم اخلاقی لحاظ سے انتہائی پست معاشرہ بننے کی راہ پر بہت تیزی سے گامزن ہیں اور بھول چکے ہیں کہ وہ خوبصورت روایات اور اقدار کیا تھیں کہ جو مشرقی تہذیب کو پروقار اور اخلاقیات کی بلندی پر فائز تہذیب بناتی تھیں۔ اس ایک معاملے کو چھوڑ کر اگر مجموعی طور پر بھی بات کی جائے تو ہماری اخلاقی اقدار دن بدن معدوم ہوتی جارہی ہیں اور عورت کا جو تقدس ہماری پہچان ہوا کرتا تھا اب کہیں نظر نہیں آتا۔

متن کی بحث سے قطع نظر، کسی کی انتہائی ذاتی نوعیت کی ویڈیوز اور تصاویر کو اس طرح وائرل کرنا بلاشبہ ایک سنگین جرم ہے اور ہر وہ شخص اس جرم میں ملوث ہے جو کسی بھی طرح ان ویڈیوز کو وائرل کرنے میں ملوث ہے۔ رابی پیرزادہ کی شخصیت یا اس کے افعال کو موضوعِ بحث بنانا نہ تو میرا مقصد ہے اور نہ ہی ہمیں کوئی حق حاصل ہے کہ کسی کی نجی زندگی میں اس طرح دخل اندازی کریں۔ میں محض یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ ہم تو خود کو اس مذہب کے پیروکار کہلواتے ہیں جس دوسروں کے عیبوں کی پردہ پوشی کا حکم دیتا ہے اور جو کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص گناہ کر بیٹھتا ہے تو وہ اس گناہ کے بارے میں اگر کسی کو بھی نہ پتا چلنے دے اور وہ بات اس کے اور اللہ کے درمیان رہے تو قوی امکان ہے کہ اللہ اس کی معافی قبول کرتے ہوئے اس کو معاف کردے۔ مگر ہم کسی کی غلطی کو اس قدر اچھالتے ہیں کہ اس کے لیے زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔

رابی پیرزادہ اور دوسرے کئی لوگ جو اعلی حکام تک دسترس رکھتے ہیں، وہ تو سائبر کرائم اور اپنے اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنی ویڈیوز وغیرہ کو انٹرنیٹ سے ہٹوا سکتے ہیں مگر جو عام لوگ اس لعنت کا شکار بنتے ہیں ان کے پاس خودکشی کے سوا کوئی چارہ نہیں بچتا اور وہ ایک غلطی کو حرزِ جاں بناتے ہوئے اپنی زندگی ہی ختم کرلیتے ہیں۔ اب یہاں میں ان کے کسی فعل کا دفاع ہرگز نہیں کر رہی بلکہ محض اتنا کہنا چاہ رہی ہوں کہ کوئی اگر ایسا فعل کر بیٹھتا ہے تو اس کے واپسی کے راستے مسدود کرنے کی بجائے اسے موقع دینا چاہیے کہ وہ توبہ کے رستے واپس لوٹ سکے کیونکہ جب خالق اسے معاف کرسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟

سائبر کرائم کے محکمے میں ابھی بہت زیادہ اصلاحات کی گنجائش ہے۔ کسی کی نجی تصاویر اور ویڈیوز کو پھیلانے کے جرم کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اس کی سزاؤں میں مزید سختی لانے کی ضرورت ہے تاکہ اس رویے کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔ اسی طرح موبائل کمپنیوں کو اپنے سوفٹ وئیرز کو مزید مضبوط کرنا چاہیے تاکہ کوئی انہیں ہیک نہ کرسکے اور ڈیلیٹ کیے ہوئے ڈیٹا تک کسی غیر متعلقہ شخص کی رسائی نہ ہو سکے۔ اس سلسلے میں میڈیا کا کردار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ایسے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ جہاں میڈیا کا کردار کافی مثبت دکھائی دیتا ہے وہیں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو منفی بھی ہیں۔ اس طرح کے معاملے کو بار بار اچھالنے اور ریٹنگ حاصل کرنے کی روش انتہائی غیر ذمہ دار اور اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے جس کی بھرپور حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان معاملات کے متعلق عوام میں آگاہی پھیلائی جائے کہ اس طرح کسی کی نجی زندگی کو زیرِ بحث لانا انتہائی اوچھی حرکت ہے اور یہ کسی بھی مہذب معاشرے کو زیب نہیں دیتی۔ ہمیں چاہیے کہ دوسروں کت عیبوں کی پردہ پوشی کریں تاکہ اگر کل ہم سے کوئی ایسی غلطی خدانخواستہ سرزد ہو تو ہمارے عیبوں پر بھی پردہ پوشی ہو اور ہمارے لیے واپسی کا رستہ ممکن ہو سکے۔

ہمیں سائبر کرائم کو اس قدر عام اور قابلِ رسائی بنانا ہے کہ ہر شخص با آسانی اسے استعمال کرسکے اور کسی بھی عام شہری کے ساتھ اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اس کے خلاف نہ صرف آواز بلند کرسکے بلکہ اس پہ بھرپور کارروائی ہو اور ملوث لوگوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ ایک اسلامی مملکت ہونے کے ناتے ہمیں اپنے قوانین کو اس معاملے میں مزید سے مزید سخت بنانا ہے تاکہ کسی کی نجی زندگی کو زیرِ بحث لانے اور ذاتیات پر کیچڑ اچھالنے کی روش کی بھرپور حوصلہ شکنی ہو سکے۔ اس سلسلے میں میڈیا کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ نہ صرف قانون سازی کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالے بلکہ عوام میں اس سلسلے میں آگاہی پیدا کرنے کا فریضہ بھی انجام دے تاکہ اس جیسے واقعات کے تدارک میں درپیش مشکلات کا خاتمہ ہوسکے