کیا آپ دعوتِ مباشرت دیتے شرماتی ہیں؟


میں نے اپنی ایک پاکستانی مریضہ شائستہ (فرضی نام) سے پوچھا
’ آپ کی شادی کو کتنے برس ہو گئے ہیں؟ ‘

کہنے لگیں ’انیس برس‘
میں نے پوچھا ’اس عرصے میں آپ کی اپنے شوہر سے مباشرت کے تواتر میں کیا فرق آیا ہے؟ ‘

تھوڑی دیر سوچ کر کہنے لگیں
’ شادی کے پہلے چند ماہ دن میں دو مرتبہ
پھر ہفتے میں دو مرتبہ
پھر سال میں دو مرتبہ
اب چند سالوں سے ہم بہن بھائی کی طرح رہ رہے ہیں
۔ ۔

ایک اور مسلمان مریضہ عالیہ (فرضی نام) سے پوچھا
’ کیا آپ نے کبھی اپنے شوہر کو دعوتِ مباشرت دی ہے؟ ‘
’نہیں‘

’ کیوں نہیں؟ ‘ میں نے پوچھا
’میں ان کی دعوت کا انتظار کرتی ہوں‘

’ کیا آپ مباشرت سے لطف اندوز ہوتی ہیں؟ ‘
’ نہیں فرض سمجھ کر کرتی ہوں۔ ‘

’ لطف اندوز کیوں نہیں ہوتیں؟ ‘
’ شاید بچپن کی تربیت کا اثر ہے۔ ہمیں یہ سمجھایا گیا تھا کہ جنس بچے پیدا کرنے کے لیے ہے لطف اندوز ہونے کے لیے نہیں۔ اب ہمارے تین بچے پیدا ہو گئے ہیں اب جنس کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ ‘

مجھے ان کی باتیں سن کر اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔

۔ ۔

پچھلی تین دہائیوں کے پیشہ ورانہ تجربات کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ نجانے کتنی عورتیں ایسی ہیں جو اپنے جسم اور جنس کے رازں سے ناواقف ہیں۔
پہلے حیض سے آخری حیض تک
پہلی مباشرت سے آخری مباشرت تک
ان کے اپنے جسم بھی ان کے لیے اجنبی رہتے ہیں۔

بہت سی لڑکیوں اور عورتوں کو کوئی جنسی تعلیم نہیں دی جاتی۔ انہیں کونڈومز اور مانع حمل ادویہ کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ وہ یہ بھی نہیں جانتیں کہ ہر ماہ صرف چند دن ایسے ہوتے ہیں جن میں وہ حاملہ ہو سکتی ہیں۔

نجانے کتنی عورتیں اپنے شوہر سے مباشرت فرض سمجھ کر کرتی ہیں۔
انہیں کسی نے اپنے جسم سے محظوظ ہونا نہیں سکھایا۔

یہ ایک بدقسمتی کی بات ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی نجانے کتنی عورتیں جنس کو محبت ’پیار‘ اپنائیت اور دوستی کی بجائے گناہ اور گندگی سے منسوب کرتی ہیں۔
وہ FOREPLAY اور آدابِ محبت و مباشرت سے ناواقف ہوتی ہیں۔

کئی عورتوں نے مجھے بتایا کہ وہ شرمیلی ہیں اور انہیں اپنے گھر میں کوئی تخلیہ نہیں ملتا۔ دل میں ان کی خواہش ہے کہ ان کا شوہر انہیں سسرال سے کہیں دور ہوٹلنگ کرائے لیکن شوہر سے کہتے ہوئے شرماتی ہیں۔

مشرقی عورتوں کے مقابلے میں مغربی عورتیں اپنے جسم اور جنس کے رازوں سے زیادہ واقف ہیں۔ وہ رومانس اور محبت سے زیادہ محظوظ ہوتی ہیں اور مباشرت میں زیادہ فعال کردار ادا کرتی ہیں۔

میں نے مغربی عورتوں سے محبت کا راز پوچھا توکہنے لگیں۔ میٹھے بول میں جادو ہے۔ نجانے کتنی بیویوں نے مجھے بتایا کہ جب ہمارا شوہر سارا دن خلوص، پیار اور محبت سے مخاطب ہوتا ہے تو شام کو اس کا جسم مخمل بن جاتاہے اور جی چاہتا ہے کہ اسے گلے لگائیں لیکن جس دن وہ ہمیں ذلیل و خوار کرتا ہے، بے عزتی اور بے توقیری کرتا ہے اس شام اس کے جسم کیکٹس کا پودا بن جاتا ہے جسے چھونے سے جسم اور دل دونوں زخمی ہو جاتے ہیں۔ مباشرت کرنا تو کیا اس کا چہرہ دیکھنے کو جی نہیں چاہتا۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ مغربی عورتوں کا محبت اور مباشرت سے محظوظ ہونا پچھلی چند دہائیں کی عورتوں کی آزادی کی تحریک اور جنسی انقلاب کا مرہونِ منت ہے۔ مغرب میں آج بھی بہت سی بزرگ خواتین ایسی ہیں جو مشرقی خواتین کی طرح یا تو جنس کو گناہ سمجھتی ہیں یا اپنے شوہر کو دعوتِ مباشرت دیتے شرماتی ہیں۔

ایک بزرگ خاتون نے بتایا کہ وہ مباشرت صرف تاریکی میں کرتی ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کا شوہر ان کا ننگا جسم دیکھے۔ انہوں نے بھی اپنے شوہر کو کبھی عریاں نہیں دیکھا۔

بعض نے بتایا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی نہیں جانتیں کہ اپنے شوہر کو دعوتِ مباشرت کیسے دیں۔ وہ بھی سراپا انتظار بنی رہتی ہیں۔ بعض دعوت دیتی ہیں لیکن ان کے شوہر کو ان کے اشارے سمجھ نہیں آتے۔

اس کی ایک مثال میری بزرگ مریضہ نینسی (فرضی نام) ہیں۔ وہ ایک زمانے میں ڈیپریشن کی مریضہ تھیں لیکن ادویہ اور تھیریپی سے صحتیاب ہو گئیں۔ وہ ہر ماہ اپنا چیک اپ کروانے آتی تھیں اور ان کے انٹرویو کے دوران ان کا شوہر ویٹنگ روم میں انتظار کرتا تھا۔

ایک دن ان کا شوہر مجھ سے تنہائی میں ملا اور کہنے لگا نینسی آپ کی بہت عزت کرتی ہیں کیا آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ میرے ساتھ ہم بستری کیوں نہیں کرتیں؟

اگلے ماہ میں نے نینسی سے پوچھا ’کیا آپ اپنے شوہر سے مباشرت نہیں کرنا چاہتیں؟ ‘
کہنے لگیں ’میں تو چاہتی ہوں۔ وہ ہی نہیں چاہتے۔ پھر مجھے بتانے لگیں کہ میں جب بھی ان سے پوچھتی ہوں۔ کیا آپ میرے ساتھ بستر بنائیں گے؟ تو کہتے ہیں ”نہیں“

میں نے جب ان کے شوہر سٹین (فرضی نام) کو اپنے کمرے میں بلا کر بتایا کہ جب نینسی کہتی ہیں۔
CAN WE MAKE BED TOGETHER؟
تو ان کا مطلب ہوتا ہے آئیں مباشرت کریں۔

سٹین مسکرائے پھر سر پیٹا اور کہنے لگے۔ ’اگر ایسا ہی ہے تو میں کسی بھی وقت بستر بنانے کے لیے تیار ہوں۔ ‘

اس ملاقات کے بعد نینسی اور سٹین کی خوشیوں میں اضافہ ہوا۔ ان کی زندگی کے GOLDEN YEARS اور سنہری ہو گئے۔ پچھلے مہینے سٹین نے میرا شکریہ ادا کیا کہ ان کی بیوی کے ساتھ میری ایک میٹنگ کے بعد سٹین کی رومانوی زندگی میں خوشگوار تبدیلی آئی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا برسوں کی شادی کے بعد آپ اپنے شوہر کو خوش دلی سے دعوتِ مباشرت دیتی ہیں یا شرماتی ہیں یا فرض سمجھ کر نبھاتی ہیں؟