انگلینڈ میں سنہ 2017 میں 348071
لڑکے اور 331035 لڑکیاں پیدا ہوئیں، یعنی تقریباً 17000 کا فرق رہا
انگلینڈ
اور ویلز میں ہر سال لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ لڑکے پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن آخر
کیوں؟
سنہ 1838 سے جب بچوں کی
پیدائش کے ریکارڈ رکھے جانے لگے تب سے لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کی پیدائش کا
تناسب زیادہ رہا ہے۔
ملکہ وکٹوریہ کے دورِ
اقتدار سے لے کر اب تک کوئی ایک بھی ایسا سال نہیں گزرا جب لڑکیاں زیادہ پیدا ہوئی
ہوں۔
مثال کے طور پر انگلینڈ
میں سنہ 2017 میں 348071 لڑکے اور 331035 لڑکیاں پیدا ہوئیں، یعنی تقریباً 17000
کا فرق رہا۔
اور لڑکوں کے زیادہ
ہونے کا یہی رجحان تقریباً گذشتہ 180 سالوں سے برقرار ہے۔
یہی رجحان دنیا بھر میں
رائج ہے۔ چین اور انڈیا جیسے ممالک میں لڑکوں اور لڑکیوں کے تناسب میں اور بھی
زیادہ فرق ہے کیونکہ وہاں معاشرتی طور پر لڑکوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
زیادہ حیران کن بات یہ
ہے کہ اس تناسب کے بارے میں لوگوں کو 17ویں صدی سے معلوم ہے مگر اس کی وجوہات کے
بارے میں ہمیں زیادہ معلوم نہیں ہے تاہم اس کے حوالے سے کئی اندازے ضرور ہیں۔
اس کا تعلق ارتقا سے ہے!
اس رجحان کی وجوہات
بیان کرنے کی پہلی تھیوری کا تعلق ارتقا سے ہے۔ اس تھیوری کے مطابق بڑی عمر میں
مردوں اور عورتوں کی برابر تعداد ہونے کے لیے پیدائش کے وقت لڑکے زیادہ ہونے
چاہییں۔
ایسا اس لیے ہے کہ مرد
ہونا ایک خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ مردوں کے بچپن اور بعد میں زندگی کے بیشتر مراحل
میں لڑکیوں کے مقابلے میں مرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، جس کی وجوہات حادثات،
خودکشی، خطرے مول لینا اور صحت کے مسائل ہیں۔
یعنی اگر پیدائش کے وقت
زیادہ لڑکے ہوں گے تو بڑے ہو کر یہ تعداد برابر ہوجائے گی۔
یہاں تک کہ اگر بڑی عمر
کے لوگوں کا تناسب دیکھا جائے تو برطانیہ میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔
سپرم اور ٹائمنگ
لڑکے کی پیدائش والے
سپرم اور لڑکی کی پیدائش والے سپرم میں سے کونسا کامیاب ہوگا، اس کے کئی عنصر ہوتے
ہیں۔ اس میں والدین کی عمر، خاتون کا اوویولیشن سائیکل، ذہنی پریشانی، کھانا، اور
سیکس کی پوزیشن شامل ہیں۔
ایک عام خیال یہ ہے کہ
خاتون کے اوویولیشن سائیکل سے کچھ روز قبل سیکس کر کے مزید سیکس نہ کیا جائے تو
زنانہ سپرم کو، جو زیادہ دیر زندہ رہتے ہیں مگر مرد سپرم کے مقابلے میں سستی سے
تیرتے ہیں، موقع مل جاتا ہے کہ وہ مرد سپرم کے بعد جا کر خاتون کو فرٹلائز کر دیں۔
کچھ تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ
والدین کی ذہنی پریشانی کی صورت میں لڑکیوں کی پیدائش کے امکان زیادہ ہوتے ہیں اور
جنگی حالات میں زندگی گزارنے کی صورت میں لڑکے زیادہ پیدا ہوتے ہیں
اور دوسری جانب اگر
اوویولیشن سائیکل کے بالکل قریب سیکس کیا جائے تو مردانہ سپرم کے پاس موقع زیادہ
ہوتا ہے۔
والدین تو ان طریقوں کی
قسمیں کھاتے ہیں مگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان کی حمایت کے لیے کوئی شواہد نہیں
ملے ہیں۔
کچھ تحقیقات میں سامنے
آیا ہے کہ والدین کی ذہنی پریشانی کی صورت میں لڑکیوں کی پیدائش کے امکان زیادہ
ہوتے ہیں اور جنگی حالات میں زندگی گزارنے کی صورت میں لڑکے زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔
بچہ دانی میں بقا
اگر سیکس کے شیڈیول سے
فرق نہیں پڑتا تو کیا دورانِ حمل آپ کچھ کر سکتے ہیں؟
اگر زنانہ اور مردانہ
سپرم کی تعداد برابر ہے اور کونسپشن کی تعداد بھی تقریباً برابر ہے تو اس کا مطلب
ہے کہ زیادہ زنانہ فیٹس ختم ہوتے ہیں تاکہ لڑکوں کی زیادہ پیدائش کا تناسب برقرار
رہے۔
کچھ تحقیق سے معلوم ہوا
ہے کہ زنانہ فیٹس کا بچہ دانی میں ضائع ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جبکہ مردانہ
فیٹس حمل کے آخری مراحل میں زیادہ نازک ہوتا ہے اور ان کی پیدائش کے وقت مرنے کا
امکان زیادہ ہوتا ہے۔
سائنسدان اب تک اس کی
وجوہات مکمل طور پر دریافت نہیں کر پائے ہیں۔ ہم بس یہ جانتے ہیں کہ زیادہ مردانہ
فیٹس حمل مکمل کرتے ہیں اور اسی لیے زیادہ لڑکے پیدا ہوتے ہیں۔