ہمارے بچے کب تک غیر محفوظ؟


پچھلے دنوں، حویلیاں اور پھر نو شہرہ میں دو کم سن بچیوں کے ریپ اور قتل کے واقعات نے ایک بار پھر سب کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ اسی سال جنوری کے مہینے میں قصور میں ایک بچی کے ریپ اور پھر قتل کے واقعے نے عوامی احتجاج کی شکل اختیار کی تو معلوم ہوا کہ اس شہر میں یہ سلسلہ مدت سے جاری ہے اور کئی بچیاں اس حادثے کا شکار ہو چکی ہیں۔
شدید عوامی احتجاج، انتخابات کی وجہ سے موجود سیاسی دباؤ اور دیگر کئی عناصر کی وجہ سے اس کیس کی تفتیش تیزی سے کی گئی اور مجرم کو جو محلے دار ہی تھا گرفتار کر لیا گیا۔ اس گرفتاری کے بعد، کئی سوالات اٹھے۔ اس قسم کے واقعات کے سدِ باب کے لیے ہزاروں تجاویز دی گئیں، ماؤں نے اپنی بچیوں کو مرد نامی جانور سے مزید ڈرایا۔کئی این جی اوز اور دیگر اداروں نے کم سن بچے بچیوں کو ایسے حادثات سے بچانے کے لیے انھیں اپنے جسم سے آگاہی دینے کی مہم کا آغاز کیا۔ گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ سکھانے کے لیے کتابچے چھاپے گئے اور مرد رشتے داروں اور ملنے جلنے والوں پہ سختی سے نظر رکھنے کا کہا گیا۔ کچھ لوگ اس بات کے خلاف تھے کہ بچوں کو یہ سب بتانے سے فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہو گا اور ان کا دماغ متأثر ہو گا۔
اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ٹی وی چینل نے ٹوکرا بھر کے ردی ڈرامے بنا ڈالے جن میں بظاہر تو وہ بچوں کے ساتھ ہونے والے اس حادثے کی روک تھام کرنے اور اس موضوع کے لئے حساسیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں۔لیکن درونِ پردہ، ان کا معاملہ اس کفن فروش جیسا ہے جو کفن کی فروخت میں تیزی آنے پہ کوڑیاں گنتا ہے اور دل ہی دل میں خوش ہوتا ہے۔
میں کسی کی نیت پہ شک نہیں کر رہی۔ یقیناًہر شخص یہ چاہتا تھا کہ ایسے واقعات دوبارہ ظہور پذیر نہ ہوں۔ جس روز قصور ریپ کیس کے مجرم کو پھانسی دی گئی، لاہور میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ مقررین میں میرا نام بھی شامل تھا۔ فاضل مقررین نے بہت اچھی باتیں کیں۔ میری باری آئی تو میرے کانوں میں شائیں شائیں ہو رہی تھی اور مجھے سامنے سوائے دھند کے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔
احتجاج
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
میں ایک ماں ہوں اور استاد بھی۔ میرے سامنے بیٹھی بچیاں، میرے نزدیک بچیاں تھیں اصل میں وہ یونیورسٹی کی طالبات تھیں جنھیں دنیا کے سب نشیب وفراز معلوم تھے میں انھیں کیا بتاتی کہ، مرد کی بری نیت کیسے بھانپتے ہیں۔ اپنی بچیوں اور بچوں کو جنسی مجرموں سے کیسے بچاتے ہیں۔ یہ سب تو ہماری جبلت میں ہے۔ ریپ کی روک تھام کے لیے عورت کرنا بھی چاہے تو کیا کر سکتی ہے؟
ایک تین سالہ بچی کو اس کی ماں کیا بتاتی؟ نو سال کی بچی اپنے بچاؤ کے لیے کیا نر بھیہا سے زیادہ لڑ سکتی تھی؟ مرغیوں، بکریوں، گائیوں بھینسوں کے ساتھ بد فعلی کرنے والے ذہنی مریضوں سے بچنے کا کوئی ٹوٹکا اس وقت میرے پاس نہ تھا۔ سوائے اڑنگ بڑنگ باتیں کرنے اور کہی ہوئی باتوں کو دوبارہ دہرانے کے میں کر بھی کیا سکتی تھی؟
آج بھی ان دو واقعات کے گزرنے پہ میرے پاس کوئی ایسا نسخہ نہیں، کوئی ایسی سلیمانی چادر نہیں جو کم سن بچیوں کو اوڑھا کے انھیں ان درندہ صفت مردوں سے بچایا جا سکے۔ سوائے اس کے کہ مائیں اپنی بچیوں کو مزید گلے سے چمٹا لیں۔سانس جو پہلے ہی گھٹ گھٹ کر لی جا رہی ہے اور گھونٹ لی جائے۔ قرآن پاک پڑھنے کے لیے گھر سے باہر جانے والی بچیوں کو بھی گھر میں بند کر لیا جائے۔ سکول کے راستے میں اگر مکئی یا گنے کی اونچی فصل اگی ہوئی ہے تو فصل کٹ جانے تک بچیوں کو گھر میں بٹھا لیا جائے۔ مائیں بچیوں کے سلسلے میں سگے باپ پہ بھی اعتبار نہ کریں۔
یہ سب تدابیر اختیار کر کے کیا یہ سلسلہ رک جائے گا؟ پچھلے ایک سال میں لکھے گئے کالم، ڈرامے، نظمیں، کتابچے، کتنے کارآمد ثابت ہوئے؟ مسئلہ کہاں ہے؟ برطانوی وزیرِ داخلہ نے کہا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی گینگ کے زیادہ تر ملزمان پاکستانی نژاد ہیں۔ قصور پورن ویڈیو کیس، جاوید اقبال کیس، یہ سب باتیں کس طرف اشارہ کرتی ہیں؟
اگر عورتوں کے محتاط ہونے سے یہ سلسلہ رک سکتا تو رک چکا ہوتا۔ اب مسئلہ مردوں کی تربیت اور ذہنی علاج کا ہے۔ ایک پوری نسل، ایک پوری قوم، جنسی رویوں میں بیمار پائی جا رہی ہے۔ کجی کہاں ہے، اس پہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔