پارک کے ٹریک پر ہانپتی لڑکی



دو تین گہری سانسیں بھر کر میں نے گویا خود کو ذہنی طور پر تیار کیا اور پھر ٹریک پر سست رفتار سے دوڑنا شروع کیا۔ دوڑنے کی عادت رہی نہیں تھی لہٰذا تھوڑی دیر بعد ہی تھکن کا احساس ہونے لگا۔ چناں چہ رفتار اور کم ہونے لگی۔ اب رفتار اتنی کم تھی کہ اگر کوئی کچھوا مجھ سے مقابلہ کر رہا ہوتا تو یقیناً جیت جاتا۔ ایسے میں جاگنگ کرتی ہوئی ایک لڑکی میرے برابر آ گئی۔
میری حالت پر وہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔ چند قدم ساتھ دوڑنے کے بعد وہ آگے نکل گئی۔ میں بھی ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھا۔ جیسے تیسے دوڑتا رہا۔ کیوں کہ میرے دوست ڈاکٹر شیخ نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ اگر صحت مند رہنا چاہتے ہو تو روزانہ جاگنگ کی عادت ڈال لو؛ بلڈ پریشر بھی نارمل رہے گا۔ میں ماڈل ٹاؤن میں مقیم تھا۔ ماڈل ٹاؤن پارک گھر سے انتہائی قریب تھا اس کے باوجود میں پارک میں نہ آتا تو حماقت ہوتی۔
جب میں بے ہنگم طریقے سے بھاگتے بھاگتے تھک گیا تو ایک درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔ اسی وقت وہ لڑکی دوبارہ نظر آئی غالباً وہ چکر مکمل کر کے آرہی تھی اس نے مجھے دور سے ہی دیکھ لیا تھا۔ قریب آ کر میری حالت دیکھی تو باقاعدہ ہنستے ہوئے بولی۔ ”لگتا ہے آپ پہلی بار جاگنگ کے لئے نکلے ہیں۔ “
” آپ کا کہنا بجا ہے محترمہ؛ اس میدان میں نووارد ہوں لیکن سانس تو آپ کی بھی پھولی ہوئی ہے“ وہ رک گئی۔ وہ عام دبلی پتلی لڑکیوں کی طرح نہیں تھی کچھ فربہ تھی لہٰذا ریڈ ٹی شرٹ میں نشیب و فراز کچھ زیادہ نمایاں تھے۔ اس کا فراخ گریبان توجہ طلب تھا۔ سرخ و سپید پیشانی پر پسینے کے چھوٹے چھوٹے قطرے چمک رہے تھے۔ اس پہ مستزاد یہ کہ وہ ہانپ رہی تھی۔
ایسے میں میری توجہ اس کی طرف مرکوز نہ ہوتی تو تعجب ہوتا۔ ”میں ذرا تیز بھی بھاگتی ہوں تا کہ وزن کم کر سکوں۔ “ وہ بولی اور میں نے اس کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کیں۔ ”آپ کبھی خود کو آئینے میں دیکھنے کی زحمت گوارا کر لیں تو شاید کبھی یہ مشقت نہ کریں۔ آپ کو دبلا ہونے کی ضرورت تو قطعاً نہیں ہے۔ “ میں نے اس کے سراپے پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
” کیا واقعی؟ “ اس نے ہانپتے ہوئے کہا اور میری نگاہیں پھر زیر و بم میں الجھ گئیں۔ میری کیفیت کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جو پارک کے ٹریک پر ہوں اور ان کے پاس فربہی مائل ہانپتی ہوئی لڑکی کھڑی ہو۔ میرے دل کی دھڑکن بھاگنے سے اتنی تیز نہ ہوئی تھی جو اب اس کی قربت سے تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی خوابیدہ خواہش انگڑائی لے کر بیدار ہو گئی ہو۔ ”آئیں بیٹھتے ہیں۔ “ لڑکی نے قریب موجود پتھر کی بنچ کی طرف اشارہ کیا۔ یہی تو میرے دل کی مراد تھی۔وہ بنچ پر ٹیک لگا کر بیٹھی اور اپنی بے ترتیب سانسوں کو ترتیب دینے لگی جبکہ میرے دل میں اس سے ربط بڑھانے کے خیالات موجزن تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ اچانک میرے دل میں اس کے عشق کی آگ بھڑکنے لگی تھی۔ میں اس وقت جو محسوس کر رہا تھا اس کے لئے سیکس اپیل ہی مناسب لفظ ہے۔ اب میں چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ کچھ اور وقت گزاروں اور اس کا فون نمبر وغیرہ لے لوں۔
چنانچہ میں نے گفتگو کو اپنا ہتھیار بنایا۔ اپنے بارے میں بتایا اس کے بارے میں پوچھا، اس کا نام جینا تھا لیکن اس نے اپنے بارے میں تفصیلات بتانے سے گریز کیا تو میں نے موضوع بدل دیا۔ میری باتیں سن کر اس کا التفات میری طرف بڑھنے لگا۔ میں گفتگو کے فن میں تو ماہر تھا۔ علم و ادب سے حالات حاضرہ تک دلچسپ پیرائے میں میری باتیں سن کر شاید وہ متاثر ہوگئی تھی کم از کم میں یہی سمجھتا تھا کیونکہ اس نے اپنا وٹس ایپ نمبر مجھے دے دیا تھا۔ میں پارک سے یوں نکلا جیسے ہفت اقلیم کی دولت حاصل ہو گئی ہو۔
شام تک کا وقت میں نے مشکل سے گذارا۔ بار بار ایک ہانپتی ہوئی لڑکی میری آنکھوں کے سامنے آ جاتی تھی۔ پھر میں نے ’گڈ ایوننگ‘ کا ایک میسج کیا۔ چند لمحوں بعد ہی جوابی گڈ ایوننگ موصول ہوا۔ دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ میسیجنگ شروع ہو گئی۔ اب روزانہ صبح اس کے میسج سے ہوتی اور رات فون پر بات کیے بغیر نہ گزرتی۔ چند دن میں ہی وہ میری خواہش کے مطابق میری محبت میں گرفتار ہو چکی تھی۔
میں خود کو سکندر اعظم سمجھنے لگا تھا جس نے قلعہ فتح کر لیا ہو۔ ایک لڑکی میری محبت کا دم بھرنے لگی تھی اور میں سمجھتا تھا کہ ایسا میں نے اپنی کاوش سے کیا ہے لہٰذا خود پر فخر کرنا جائز ہے۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ اسے باہر بلاؤں اور اس سے ملوں۔ چنانچہ فون پر بڑا پیار جتاتے ہوئے یہ فرمائش کی۔ اگلی ہی شام کو ہم ایک ریسٹورانٹ میں ملے۔ میں پہلے پہنچ کر اس کا انتظار کر رہا تھا۔
پھر وہ آئی۔ چست لباس، کندھوں پر لہراتے سیاہ بال اور مہکتی سانسوں کے ساتھ وہ قریب آئی تو اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ اس کا نرم و ملائم ہاتھ چھو کر جیسے ایک خمار سا طاری ہو گیا۔ میں نے اسے نگاہوں سے چومتے ہوئے اس کا حال پوچھا اور پھر کھانے کا آرڈر دیا۔ اس حسین شام کے بعد ہماری چند ملاقاتیں اور ہوئیں۔ میں نے اسے چند تحائف دیے۔ اب میں کچھ اور آگے بڑھنے کے بارے میں سوچنے لگا۔
میں اسے محسوس کرنا چاہتا تھا۔ اسے بازوؤں میں بھرنا چاہتا تھا۔ ممکنہ طور پر اس کھیل کو انجام تک پہنچانا چاہتا تھا۔ براہِ کرم یہ مت سمجھیے کہ مجھے اس سے محبت ہو گئی تھی۔ حقیقت یہی ہے کہ میرا مقصد وقتی حصول تھا۔ میں اسے چاہتا تھا مگر کچھ دیر کے لئے، عمر بھر کی رفاقت کے لئے نہیں سوچا تھا۔ شاید آپ کو میری بات بری لگی ہو لیکن اس مزاج کا میں اکیلا شخص تو نہیں ہوں۔ اس سماج میں میرے جیسے بہت سے نوجوان اسی طرح کے شکاری ہیں۔
میں سجھتا تھا کہ اب وہ لڑکی میرے جال میں پھنس چکی ہے۔ چنانچہ اسے ایک صحت افزا مقام پر سیر کی دعوت دی۔ دعوت قبول کر لی گئی۔ پھر ہم دونوں وہاں چلے گئے۔ گھومنے پھرنے کے بعد شام کو ہوٹل کے کمرے میں پہنچے۔ کچھ تھکن بھی تھی۔ میں تو اب کپڑے بدل کر ریلیکس کروں گا۔ میں نے صوفے پر دراز ہوتے ہوئے کہا۔
” میں تو ابھی بدل رہی ہوں“ جینا نے شرٹ اتارتے ہوئے کہا۔ میری آنکھیں پھیل گئیں۔ شاید اس ردِ عمل کی توقع نہیں تھی۔ کپڑے بدل کر وہ بستر پر دراز ہوگئی۔ ”آؤ ناں تم بھی آرام کر لو۔ “ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور میں کسی روبوٹ کی طرح اس کے اشارے پر اس کے پاس پہنچ گیا۔ ”کہو تو ہلکا سا مساج کر دوں۔ “ اس نے میری شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے کہا آنکھ دبا کر کہا۔
تب اچانک میرے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا۔ میں نے جیسے فلیش بیک میں سارا منظر دیکھا اور پھر مجھے احساس ہوا کہ میں جو اپنے آپ کو بڑا تیز و طرار سمجھتا تھا جینا کے ہاتھوں بے وقوف بن رہا تھا۔ میں وہ شکاری تھا جو خود شکار ہو رہا تھا۔ شکاری ہمیشہ مرد نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جینا جان بوجھ کر میری طرف بڑھی تھی۔ پارک میں توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے سے لے کر، میسیجنگ اور پھر باہر ملنا۔ واہ کس خوبصورت انداز میں وہ مجھے اپنی مرضی سے اس مقام تک لانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ یقیناً وہ مجھ سے بڑی شکاری تھی۔
اب اس کا مقصد پورا ہونے والا تھا۔ اس کے بعد میری حیثیت بھی ٹشو پیپر جیسی ہوتی جسے استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے۔ میں اسے کیا کہتا۔ میرا مقصد بھی تو یہی تھا۔ اس کے باوجود اہانت کا شدید احساس دل کو چیر رہا تھا۔ میں نے ایک جھٹکے سے خود کو اس کے بازوؤں کے حلقے سے آزاد کرایا اور شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھا۔
جینا بیڈ سے اتری اور دوڑ کر دروازے سے لگ کر کھڑی ہو گئی۔ ”نو بے بی نو، تمہیں ایسے نہیں جانے دوں گی۔ “ اس کی اشتہا انگیزنظریں مجھ پر گڑی تھیں۔ وہ جذبات کی شدت سے ہانپ رہی تھی۔ میں ایک ایسے ہرن کی طرح تھا جو آخری لمحات میں چیتے کو خود پر جھپٹتے ہوئے دیکھتا ہے۔ مجھے ایسا ہرن نہیں بننا تھا خود کو بچانا تھا تا کہ ایک دن آپ کو یہ کہانی سنا سکوں۔ تو بس اتنی سی ہی کہانی ہے۔