اویس احمد
آج کل سوشل میڈیا پر لڑکے والوں کی جانب سے اصرار کر کے جہیز وصول کرنے اور لڑکی والوں کی طرف سے لڑکوں کی معاشی حیثیت پرکھنے پر گرما گرم بحث چل رہی ہے۔ فریقین موافقت اور مخالفت میں تند و تیز دلائل دے رہے ہیں۔ جہاں لالچی لڑکے والوں کو لعن طعن کی جا رہی ہے وہیں لالچی لڑکی والوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے۔
پاکستانی معاشرہ رسوم و رواج اور لالچ و اسراف میں گردن تک دھنسا ہوا ہے۔ اس کو مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے چاہے سماجی نقطہ نظر سے، بہت سی ایسی رسوم معاشرے میں رائج ہیں جن کے بغیر بھی زندگی ٹھیک ٹھاک گذر سکتی ہے مگر بے جا رسومات کو اس قوم نے ازخود گلے کا طوق بنا رکھا ہے۔
اس کالم میں ایک ہی گھر کی دو ایسی شادیوں کا احوال بیان کرنا چاہوں گا جو ایک مثال بنائی جا سکتی ہیں اور ان سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔
سرفراز نے اپنے لیے لڑکی پسند کی تو اپنے گھر والوں کو اپنی پسند سے آگاہ کر دیا۔ گھر والے بھی اس رشتے پر راضی تھے چناچہ رشتہ آسانی سے طے ہو گیا۔ سرفراز اور اس کے گھر والے جہیز لینے کے سخت مخالف تھے چناچہ انہوں نے سختی سے لڑکی والوں کو جہیز بنانے سے منع کر دیا۔ لڑکی والوں نے مگر سرفراز اور اس کے گھر والوں کی اس بات کو سنجیدہ نا لیا اور فرنیچر وغیرہ کا آرڈر کر دیا۔
سرفراز کے گھر والوں کو یہ بات کسی طرح معلوم ہو گئی۔ انہوں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا اور پھر سرفراز کا بڑا بھائی ایک دن لڑکی کے والد سے ملنے گیا اور انہیں باتوں میں لگا کر اس فرنیچر شو روم تک لے آیا جہاں پر فرنیچر کا آرڈر دیا گیا تھا۔ لڑکی کے والد نے صورت حال کو بھانپ لیا اور راستہ بدلنے کی کوشش کی مگر سرفراز کے بھائی نے ان کی ایک نا چلنے دی اور انہیں لے کر فرنیچر شو روم میں داخل ہو گیا۔ لڑکی کے والد پریشان ہو گئے۔ سرفراز کے بھائی نے شو روم کے مالک سے لڑکی کے والد کا نام لے کر فرنیچر کی بابت پوچھا تو تفصیل سامنے آ گئی۔ سرفراز کے بھائی نے فرنیچر کا وہ آرڈر منسوخ کروا دیا۔
اچھی بات یہ رہی کہ اس کے باوجود دونوں خاندانوں میں کسی قسم کی رنجش یا تلخی نے جنم نہیں لیا اور مقررہ وقت پر سرفراز کی شادی بخیر و خوبی انجام پائی۔ شادی بھی سادگی کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ گھر سے نکل کر شادی ہال جانے اور رخصتی کے بعد دلہن کو لے کر گھر آنے میں صرف پونے دو گھنٹے کا وقت صرف ہوا۔ آج سرفراز کے تین بچے ہیں اور وہ یورپ میں ایک نہایت پرسکون اور اچھی زندگی گذار رہا ہے۔
سرفراز کا بڑا بھائی ایک نجی کمپنی میں نوکری کرتا تھا۔ تنخواہ مناسب تھی مگر اپنا ذاتی گھر کوئی نہیں تھا اور نا ہی اس کے پاس ذاتی گاڑی تھی۔ وہ کرائے کے گھر میں اپنی ماں اور بہن کے ساتھ رہ رہا تھا۔ سرفراز کا بھائی ایک آزاد منش آدمی تھا اور زندگی کو اپنی مرضی کی شرائط پر جینے کی تمنا رکھتا تھا اس لیے شادی کرنے سے کتراتا تھا۔ گھر والوں کے مسلسل اصرار پر نا چاہتے ہوئے بھی اس نے شادی کے لیے ہامی بھر لی۔ پھر اس کے لیے لڑکی کی تلاش شروع ہوئی۔
جس لڑکی پر گھر والوں کی نظر انتخاب پڑی وہ ایک پڑھی لکھی، سمجھدار اور خوش شکل لڑکی تھی۔ اچھا کھاتا پیتا گھرانہ تھا اور لڑکی دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ لڑکی والوں نے استخارہ کا ارادہ کیا۔ استخارہ اچھا آ گیا۔ اس کے بعد لڑکی والوں نے زیادہ چھان بین نہیں کی۔ سرفراز کے بھائی اور گھر والوں کی جانب سے بھی کسی قسم کی چھان بین بالکل بھی نہیں کی گئی اور یوں رشتہ طے ہو گیا۔ نہایت سادگی سے شادی بھی ہو گئی اور اب سرفراز کا بھائی بھی اپنے گھر میں ایک پرسکون اور مطمئن زندگی گذار رہا ہے۔
شادی کی کامیابی کے لیے یہ قطعاً ضروری نہیں کہ لڑکی اپنے ساتھ جہیز لے کر آئے جس سے وہ اپنا سر اونچا رکھ سکے اور نا ہی لڑکے کا معاشی استحکام شادی کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اوپر بیان کی گئی دونوں شادیوں میں نا تو لڑکی والوں کی طرف سے جہیز آیا اور نا ہی لڑکے والوں کی طرف سے سونے کے سیٹ چڑھائے گئے۔ اس کے باوجود سرفراز اور اس کا بھائی اپنے اپنے گھر میں خوش اور مطمئن ہیں۔
تو پھر ایسا کیا ہے جو شادی کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے؟ وہ رویہ ہے۔ انسان کو انسان سمجھنے کا رویہ۔ خلوص، اعتماد اور محبت کی بنیاد پر استوار ہوئے رشتے پائیدار ہوتے ہیں مگر جن رشتوں کی بنیاد ہی معاشی بنیادوں پر رکھی جائے ان رشتوں میں ساری عمر حساب کتاب اور مفاد مقدم رہتا ہے۔
میرے نزدیک جہیز خوری اور لڑکے کے معاشی استحکام پر مقابلہ ایک فضول بحث ہے۔ درحقیقت یہ دونوں وہ مسائل ہیں جن پر علیحدہ علیحدہ سنجیدہ بحث ہونی چاہیئے اور ان دونوں مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیئے۔ اگر شرعی مسائل مانع نا ہوں تو حکومت اس معاملے میں مداخلت کر کے شادی بیاہ کے معاملات میں اصول و ضوابط طے کر سکتی ہے جن پر عمل کرنا سب پر لازم ہو تاکہ ہمارے بکھرتے ہوئے سماجی تانے بانے پر مضبوط ٹانکے لگائے جا سکیں۔