یوں تو گالیاں دنیا کے ہر خطے میں بکی جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں یعنی برصغیر کی گالیوں کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ تقریباً ہر گالی کسی نہ کسی حوالے سے عورت سے منسوب ہوتی ہے۔ مردوں کی زندگی میں عورت کئی رشتوں سے وابستہ ہوتی ہے جن میں ماں۔ بہن، بیوی اور بیٹی بنیادی رشتے ہیں۔ ماں، بہن اور بیٹی کا رشتہ گالی میں ترجیحاً قابلِ توجہ ہوتا ہے۔
گالیوں کے ذریعے خاص طور پر جنسی تعلقات کے عریاں افعال کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ اکثر ان گالیوں میں اعضائے مخصوصہ کے حوالے دے کر جنسی تعلق کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ یہ گالیاں اشتعال انگیز ہوتی ہیں اور ان میں توہین آمیز طریقے سے عورت کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ ان گالیوں میں بھی عورت کے جنسی استحصال کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ بعض لوگوں کے نزدیک گالی دینے کے عمل میں لاچاری اور بے بسی پنہاں ہوتی ہے۔ جب کوئی شخص شدید خواہش کے باوجود کسی سے اپنی بات منوا نہ سکے، کسی پر اس کا زور نہ چلے، حالات و واقعات اس کے قابو میں نہ رہیں یا غم و غصے کی حالت میں ہو تو وہ گالی دیتا ہے۔
کچھ لوگوں کا تکیہ کلام بھی گالی پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ اس بات سے قطعی طور پر لا علم ہوتے ہیں کہ وہ اپنی گفتگو میں مسلسل گالی کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ میں ایک ایسے فرد کو جانتا ہوں جو اپنے بیٹے کو بھی گالی دے کر بلاتے ہیں۔ بیوی کا ذکر کریں تو پہلے اسے بھی گالی سے نوازتے ہیں۔ اکثر خود کو بھی گالیاں دیتے رہتے ہیں۔ خوشی کا اظہار ہو یا تاسف کا ان کے منہ سے گالی ہی نکلتی ہے۔
جہالت کا بھی گالی سے گہرا تعلق ہے۔ تعلیم یافتہ لوگوں کی محفل میں گالیاں کم ہوتی ہیں جبکہ ان پڑھ اور جاہل لوگوں کی محفل میں گالیوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ ایک بار میں ایک ایسے گاؤں میں گیا جہاں بہت کم لوگ پڑھے لکھے تھے اور ان کی تعلیم بھی واجبی سی تھی۔
وہاں ایک خاندان کے ساتھ کچھ وقت گذارنے کا موقع ملا۔ بھائی بہن کے سامنے گالیاں بک رہا تھا۔ بہن بھی موقع ملنے پر اس کا ساتھ دیتی تھی۔ ان کی ماں آئی تو حسب توفیق اس نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ حتیٰ کہ گھر کے بزرگ یعنی چچا تایا وغیرہ بھی وقتاً فوقتاً اپنی زبان سے گالیاں بھی ادا کرتے رہے۔ میں وضاحت کر دوں کہ یہ گالیاں سادہ گالیاں نہیں تھیں بلکہ جنسی تعلقات کی نشاندہی کرنے والی گالیاں تھیں۔ یہاں غم و غصے والی کیفیت بھی نہیں تھی۔ وہ لوگ گالیوں کو روزمرہ گفتگو کا ایک حصہ ہی سمجھتے تھے۔ جہاں اس قسم کی صورتِ حال ہو وہاں بچوں کی کیا تربیت ہوگی۔ جب بچے اپنے والدین اور بزرگوں کو اتنی بے تکلفی سے گالیاں دیتے ہوئے دیکھیں گے تو گالی ان کی بات چیت کا بھی لازمی حصہ بن جائے گی۔
اگر ایک بچہ ایسے ماحول میں پروان چڑھے جہاں گالیوں کا استعمال عام ہو تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ اس کے دل میں بڑوں کا احترام باقی نہیں رہے گا۔ عورتوں کی عزت اور احترام کا جذبہ تو بالکل ہی ختم ہو جائے گا کیونکہ زیادہ تر گالیاں تو عورت کی تذلیل کرنے کے لئے ہی بنائی گئی ہیں۔
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہم لوگ گالیاں کیوں دیتے ہیں۔ کیا اس لئے کہ دیگربہت سے لوگ بھی ایسا کر رہے ہیں تو ہم بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انہی کا انداز اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن یاد رکھئیے جو کچھ ہم کہتے ہیں اس سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ ہم کس قسم کی شخصیت کے مالک ہیں کیوں کہ جو کسی آدمی کے دل میں بھرا ہو وہی باہر آتا ہے۔
لوگ ہمارے لباس، شکل و صورت اور انداز سے ہمارے بارے میں اچھی رائے قائم کرتے ہیں۔ لیکن ہماری گفتگو سن کر وہ اپنی رائے بدل بھی سکتے ہیں۔ آپ بلا سوچے سمجھے اپنی بات چیت میں گالیوں کا استعمال کرتے رہیں تو آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا لیکن بہت سے لوگ آپ سے دوری اختیار کر لیں گے۔ شاید کئی لوگ آپ کی دوستی کے خواہش مند ہوں گے لیکن آپ کی گفتگو میں گالیوں کی بھرمار سن کر وہ پیچھے ہٹ جائیں گے۔ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ محض اپنی بد زبانی کی وجہ سے آپ نہ جانے کس کس کی نظروں سے گر جاتے ہیں۔
اگر آپ گالی گلوچ کرنے کی بری عادت میں پڑ چکے ہیں تو اس سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے تو آپ کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ یہ ایک عادتِ بد ہے اور آپ کو اپنی شخصیت کو بہتر بنانے کے لئے اس عادت کو بدلنا ہے۔
اپنے جذبات اور احساسات کے اظہار کے لئے مناسب الفاظ استعمال کرنا سیکھیں۔ صرف زبان پر گالی نہ لانا ہی کافی نہیں آپ کو گالیاں بکنے کی عادت پر غالب بھی آنا ہے۔ آپ ضبط کرنا اور دوسروں کا احترام کرنا سیکھیں گے تو دوسرے بھی آپ کا احترام کریں گے۔
اگر آپ محض اس لئے گالیاں دیتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی ایسا کرتے ہیں تو آُپ کو بجائے ان کے رنگ میں رنگنے کے اپنی انفرادیت قائم کرنی چاہیے۔ جب آپ میں منفرد بننے کی جرات پیدا ہوگی توآپ نہ صرف گالیاں بکنے کی عادتِ بد سے جان چھڑا لیں گے بلکہ شائستہ، نفیس اور پختہ شخصیت کے مالک بھی بن جائیں گے۔