انسانی زندگی کی جد ید ترین سہولتوں میں سب سے نمایاں موبائل فونز، کمپوٹر اورانٹر نیٹ ہیں جنہوں نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیلی کر کے رکھ دیا ہے، فاصلے کم اور دوریاں ختم کر دی ہیں۔ 21 ویں صدی کے اس دور میں دیگر سائنسی ایجادات کی طرح موبائل فون بھی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے مطابق ملک اس وقت پندرہ کروڑ بیس لاکھ موبائل فون کنکشن موجود ہیں تاہم یہ ڈیٹا موجود نہیں کہ اس میں مرد اور عورتوں کی تعداد کتنی ہے تاہم ایک متاط اندازے کے مطابق خواتین کی تعداد مردوں سے 43 فیصد کم ہے۔ اس کے علاوہ کتنے صارفین امیر ہیں اور کتنے غریب، اور ان کی رسائی کا بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ سمارٹ فونزاستعمال کرنے والوں کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ جاری ہے۔
دوسری جانب صارفین کی ایک کثیر تعداد موبائل انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ سب سے زیادہ گندی سائٹ کھولنے میں پاکستانی اولین ہیں۔ ماہرین کے مطابق مختلف ٹیلی کام کمپنیوں کے سستے نیٹ پیکچ اس کے فروغ کا اہم سبب ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ جہاں ان ایجادات کی بنیاد پر مغربی اقوام نے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ وہیں ہماری قوم نے اس کا غلط استعمال کرکے معاشرتی بگاڑکا ایک باب رقم کر دیا۔ جوشرم ناک بھی ہے اور دردناک بھی۔
معاشرے کوفون کے ناجائز استعمال سے حد درجہ اور گھمبیر قسم کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے ہر اہم تہوار پر دہشت گردی کے خطرے کا سگنل بجا کر موبائل فونز سروسز بند کر دی جاتی ہیں۔ اگر خدا نا خواستہ کسی خاندان میں اگر کوئی ناگہانی آجائے تو وہ اپنے رشتہ داروں کو بر وقت اطلاع دینے اور کسی بھی قسم کی امداد لینے سے محروم رہ جا تا ہے اور اس نقصان کی ذمہ داری کوئی بھی ادارہ نہیں لے گا۔ تہواروں پرموبائل سروسز کی معطلی حکومت کی نا اہلی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سم کارڈ جاری کرنے والی کمپنیاں کسی بھی حکومتی آڈر پر مکمل دیانتداری سے عمل نہیں کر رہیں اور نمبرز جاری کرنے کا سلسلہ جوں کا توں جاری وساری ہے۔
دوسری جانب موبائل فون تہواروں پر ہی نہیں عام دنوں میں بھی جس طرح دوسروں کے لئے خطرہ اور زحمت بنایا جا رہا ہے وہ نا صرف ناقابل برداشت ہے بلکہ کسی حد تک دہشت گردی کے زمرے میں بھی آتا ہے۔ جس پر قابو پانے کے لئے حکومت کو سخت ترین ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ملکِ عزیز میں تحمل اور برداشت کی کمی کے باعث دوسروں کی غلطیوں کی سزا ہم اپنی بیٹیوں کے دے دیتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں صرف کال سننے پر بے گناہ لڑکیوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ رانگ کال کرنے والوں سے جب خاندان والے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو یا وہ خاموش ہی رہتے ہیں یا پھر ساری کی ساری ذمہ داری لڑکیوں پر ڈال دیتے ہیں جس وجہ سے ان لڑکیوں کو اپنی جان سے جانا پڑتا ہے۔ کیا یہ دہشتگردی نہیں؟ اس اندھے قتل کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے؟ جواب کوئی نہیں۔ ہمارا معاشرہ، فرسودہ راویات یا اپنا ذہنی فتور؟
نادیہ کا تعلق خیبر پختوا کے شہر کوہاٹ سے ہے اورو ہ ایک مقامی سکول میں ملازمت کر کے اپنے والدین کی مالی معاونت کرتی ہے۔ تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق رکھنے والی یہ لڑکی ایک کھلی دہشتگردی کا شکار ہوئی۔ اُسکی والدہ کا موبائل فون بازار جاتے ہوئے چھین لیا گیا جو اتفاق سے ایسے بد قماش کے ہاتھ لگا جس کا کام ہی لڑکیوں کو تنگ کرنا تھا۔ اس نے موبائل میں موجود تمام خواتین کے نمبرز پر کال کی اور ان کو دوستی کے لئے مجبور کیا۔ دوسری جانب اس نے سم کارڈ کی ساری معلومات حاصل کر کے نادیہ کی زندگی عذاب کرنا شروع کر دی۔
نادیہ جو بھی نمبر لے اُس بندے کو پتا لگ جاتا، وہ اپنے شہر کی دو قتل ہونے والی لڑکیوں سے واقف تھی اس لئے بہت زیادہ خوف کاشکار ہوگئی، تاہم ڈرتے ڈرتے اُ س نے اپنے خاندان والوں کو ساری صورت حا ل بتا دی۔ جس کے بعد فیملی کے مرد سکول تک اس کے ساتھ آنے جانے لگے۔ اس بد قماش آدمی سے سختی سے نپٹاگیا۔ نادیہ کے باپ بھائی، چچا اور کچھ کزنوں نے اس آدمی کے گھر والوں سے بات کی۔ مکمل جرات اور ہمت کا مظاہرہ کیا، اور پولیس کارروائی میں بھی اپنی بیٹی کو مکمل سپورٹ دینے کی بات کی تب کہیں جا کر اس بدمعاش کو سمجھ آئی کہ ہر خاندان اپنی بیٹی کو بوجھ نہیں سمجھتا بلکہ اپنی بیٹیوں پر اعتماد بھی کرتا ہے اور ایسے لوگوں کی باتوں میں نہیں آتا۔ انہیں پتہ تھا کہ پولیس نے صرف کاعذی کارروائی کرنی ہے اور بس۔ اس لیے انہوں نے خود جرات کی۔
دراصل پولیس ایسے معاملات میں صرف تحریری بیان پر ہی کارراوئی کرنے کی مجاز ہے۔ تاہم ایسی صورت حال کا کوئی اور بھی حل ہونا چایئے۔ موبائل فونز کے ذریعے خواتین کو ہراساں کرنے کا جو سلسلہ ہے یہ خالی قانون سازی سے ہی حل نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارہ معاشرہ اور معاشرتی روایات اس قدر بوگس ہیں کہ اکثر و بیشتر ایسے جرائم کی سزا صرف خواتین کو ہی دی جاتی ہے۔ لوگوں کو پتا نہ چل جائے ایسا نہ ہو جائے ویسا نہ ہو جا ئے وغیرہ وغیرہ۔ مصافات کے ان دکھوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ان چھوٹے شہروں کے اس المیے کی طرف کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا۔ وہاں کی بنتِ حوا ابن مریم کی منتظر ہے، دہائی دیتی ہے اپنی پاکبازی کی مگرابن آدم کے دامن سے لپٹا عزت کا ناگ صرف عورت کو ڈستا ہے۔ اس دکھ کی دوا ہونی چاہیے، اور وہ دوا قانون کے پاس ہے۔
حکومت کو اس حوالے سے مکمل اور ایسے جامع اقدامات کرنے چاہیں کہ تھانوں میں جا کر درخواست دینے کی بجائے ایک ایسا سیل تشکیل دیا جائے جہاں ایسی کالز پر اطلاع ملنے کی صورت میں متعلقہ خواتین کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے ایسے بد قماش اور بے غیرت لوگوں کے خلاف مناسب کارروائی کر کے انہیں عبرت کا نشانہ بنایا جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسا کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچے۔ آئیں ہم سب مل کرعورت کو مکمل تحفظ ملنے تک اپنے قلم سے اپنے حصے کی شمع روشن کریں، ورنہ موم بتی مافیا تو ہے ہی ان نوحوں پر سیاست کرنے کے لیے۔