کیا آپ اپنے شوہر کو طلاق دینا چاہتی ہیں؟

ڈاکٹر خالد سہیل
کل شام ڈنر کے دوران میری سوشل ورکر دوست زہرا نقوی نے ”جو مہاجر عورتوں کے مسائل کے بارے میں فکرمند رہتی ہیں“ مجھے ایک ایسے DOMESTIC VIOLENCE کے سیمینار کے بارے میں بتایا جس میں انہوں نے بڑے شوق سے شرکت کی تھی۔ سیمینار کی گفتگو کے بعد مہاجروں کی شادیوں کے بارے میں تبادلہَ خیال کرتے ہوئے وہ مجھ سے پوچھنے لگیں
” ڈاکٹر صاحب آپ ایک تھیریپسٹ ہیں آپ کا طلاق کے بارے میں کیا خیال ہے؟ “ میں نے کہا ”یہ تو ایک وسیع موضوع ہے اس پر تو پوری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ مختصراٌ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ طلاق ایک تکلیف دہ عمل ہے بیوی کے لیے بھی، شوہر کے لیے بھی اور خاص طور پر بچوں کے لیے۔ طلاق دراصل محبت کی موت ہے۔ ہماری پوری کوشش ہونی چاہیے کہ وہ موت واقع نہ ہو اور محبت زندہ رہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ میاں بیوی خوشحال اور صحتمند زندگی گزار سکیں تا کہ بچوں کی تربیت ایک محبت بھرے خاندان میں ہو۔ ہم اپنے کلینک میں ایسے جوڑوں کی مدد کرتے ہیں تا کہ وہ اپنے مسائل کی گتھیاں سلجھا سکیں اور اپنی شادی اور محبت کو بچا سکیں“
زہرا کہنے لگیں ”آپ کے خیال میں مہاجر خاندانوں میں طلاقوں کی تعداد اور رفتار کیوں بڑھ رہی ہے؟ “
میرا خیال ہے کہ پاکستان میں بہت سے جوڑے ایسے ہیں جو محبت کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ وہاں بہت سی عورتیں طلاق لینا چاہتی ہیں لیکن لے نہیں سکتیں اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ بیویاں شوہروں پر معاشی طور پر انحصار کرتی ہیں۔ وہ سوچتی ہیں کہ شوہر کو چھوڑ کر جائیں تو کہاں جائیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کے والد اور بھائی نہیں چاہتے کہ وہ دوبارہ ان کی ذمہ داری بن جائیں۔ اسی لیے وہ دلہن کو کہتے ہیں ’اس گھر سے ڈولی گئی ہے اب یہاں جنازہ ہی آئے‘ ۔ پاکستان میں بہت کم عورتیں ہیں جو اکیلی رہتی ہیں کیونکہ وہ اکیلے رہنے سے سماجی طور پر غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ پاکستان میں جب بیویاں اپنے خاندان سے کہتی ہیں کہ وہ شوہر کے ساتھ خوش نہیں ہیں تو گھر والے انہیں صبر و شکر کرنے کی اور شوہر کا ظلم و جبر برداشت کرنے کی نصیحت کرتے ہیں تا کہ وہ ہر حال میں اس رشتے کو نبھائیں چاہے اس دوران وہ جسمانی یا ذہنی طور پر بیمار ہی کیوں نہ ہو جائیں۔
مشرقی خاندانوں کو یہ بھی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر ان کی بیٹی یا بہن کی طلاق ہو گئی تو اس کی دوسری شادی نہ ہو پائے گی خاص طور پر اگر اس کے بچے بھی ہوں۔ وہ سوچتے ہیں کہ آخر کوئی دوسرا مرد کسی اور کے بچوں کی اپنے بچوں کی طرح کیسے محبت اور شفقت سے نگہداشت کر سکتا ہے۔
جب مشرقی عورتیں مغرب میں آ بستی ہیں تو انہیں چند مہینوں یا چند سالوں میں اندازہ ہو جاتا ہے کہ خوشی کی زندگی گزارنا ان کا حق ہے کسی کی خیرات نہیں۔ وہ بہت کوشش کرتی ہیں کہ ایک خوشحال شادی شدہ زندگی گزاریں لیکن جب ان کی خوشی کے چاند کو گرہن لگ جاتا ہے اور وہ اپنے شوہر سے مایوس ہوتی ہیں تو طلاق کے بارے میں سوچنے لگتی ہیں۔ میں کئی مشرقی بیویوں کو جانتا ہوں جہنہوں نے اپنے شوہروں سے منت سماجت کی کہ تھیریپی کے لیے چلیں لیکن شوہروں کی انا آڑے آئی اور انہوں نے تھیریپی سے انکار کر دیا۔ بعض نے تو بیویوں پر بھی پابندی عاید کی کہ وہ ان کی مرضی کے بغیر تھیریپسٹ سے نہیں مل سکتیں۔
مشرقی عورتیں جلد جان جاتی ہیں کہ کینیڈین گورنمنٹ عورتوں کی مالی، قانونی اور معاشی طور پر حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ ایک دکھی شادی کو چھوڑ کر ایک سکھی زندگی گزاریں کیونکہ کینیڈا میں ہر کینیڈین کا حق سمجھتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی زندگی گزارے۔
میری کئی مشرقی بیویوں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے طلاق کے بعد کینیڈین تعلیم حاصل کی، ٹیچر بنیں، نرسیں بنیں، بزنس وومن بنیں، اچھی سی نوکری کی، زندگی میں پہلی بار گاڑی خریدی، گھر لیا، اپنی مرضی کی دوسری شادی کی اور ایک خوشحال، صحتمند اور پرسکون زندگی کا آغاز کیا۔ اس کے بعد وہ ترقی کی منازل طر کرتی چلی گئیں۔
ایک مشرقی بیوی سے اس کا شوہر بچے لے کر پاکستان چلا گیا تھا لیکن بچے جوان ہوئے تو وہ اپنی مرضی سے واپس اپنی والدہ کے پاس آ گئے۔
میں ایسے خاندانوں کو بھی جانتا ہوں جن میں کینیڈا میں پلنے بڑھنے والے ٹین ایجر بچوں نے اپنی ماں سے کہا ”ماما ہمارے ابو آپ کی نہ صرف عزت نہیں کرتے، احترام نہیں کرتے، بلکہ آپ کی توہین کرتے ہیں، تذلیل کرتے ہیں، تحقیر کرتے ہیں آپ ان کے ساتھ کیوں رہتی ہیں؟ “
ماما نے کہا ”آپ کی خاطر، اپنے بچوں کی خاطر“
بچوں نے کہا ”ماما! آپ ہماری خاطر ابو کے ساتھ نہ رہیں۔ آپ کو بھی خوش رہنے کا حق ہے“
ہم سب جانتے ہیں کہ جب ماں باپ ہر وقت عالمِ جنگ میں ہوں چاہے وہ سرد جنگ ہی کیوں نہ ہو تو اس کا بچوں کی ذہنی صحت پر کتنا مضر اثر پڑتا ہے۔
میں نے زہرا نقوی سے کہا لفظ شادی کا مطلب خوشی ہے۔ اگر شادی میں خوشی ہی نہیں تو وہ شادی کیسی۔ شادی کی بنیاد تو محبت ہونی چاہیے تا کہ ماں باپ بچوں کے لیے اچھے رول ماڈل ثابت ہوں اور وہ محبت کا عملی اظہار دیکھ سکیں۔ بچے ماں باپ سے پیار، خلوص اور اپنائیت کا سبق سیکھتے ہیں۔
کینیڈا میں بہت سے جوڑے تھیریپسٹ کے پاس جاتے ہیں تا کہ اپنے نفسیاتی اور ازدواجی مسائل کا حل تلاش کر سکیں۔ مشرقی جوڑے ابھی تک تھیریپسٹ کے پاس جاتے گھبراتے ہیں۔ انہیں شرم آتی ہے۔ جو جاتے ہیں وہ بھی چھپاتے ہیں۔
کینیڈا کا نظام عورتوں کی مدد کرتا ہے انہیں ایک باعزت زندگی گزارنے کے لیے سہولتیں مہیا کرتا ہے۔ اگر کچھ لوگ اس کا ناجائز استعمال کرتے ہیں تو وہ ان کا قصور ہے نظام کا قصور نہیں۔ کینیڈا میں ان بچوں کی سکولوں میں نفسیاتی مدد کی جاتی ہے جن کے والدین کی طلاق ہو جاتی ہے۔
میری نگاہ میں طلاق کو روکنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مشرقی خاندان شادی سے پہلے اپنے جوان بچوں سے مشورہ کریں، ان کی پسند و ناپسند کا خیال رکھیں اور ان کے فیصلوں کا احترام کریں۔
کینیڈا میں مشرقی عورتیں مغربی عورتوں کی ایک صدی کی آزادی کی جدوجہد سے سیکھ رہی ہیں کہ جب تک عورت کسی بھی مرد کی دست نگر ہے چاہے وہ باپ ہو یا بھائی، شوہر ہو یا بیٹا وہ پوری طرح نفسیاتی اور سماجی طور پر آزاد نہیں ہو سکتی کیونکہ معاشی اور نفسیاتی آزادی کا گہرا تعلق ہے۔ مغربی عورت نے ڈگری اور ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر کے اپنی آزادی اور خودمختاری کے سفر کا آغاز کیا ہے۔ مغرب میں نجانے کتنی عورتیں اکیلا رہتی ہیں اور خوش رہتی ہیں۔ مغرب میں وہ اکیلا رہ کر غیر محفوظ محسوس نہیں کرتیں۔
مغرب میں عورت اور مرد یہ سیکھ رہے ہیں کہ شادی وہی کامیاب اور دیرپا ہوتی ہے جس میں میاں بیوی محبوب بھی ہوتے ہیں اور دوست بھی۔ شادی محبت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اگر محبت مر جائے تو بہت سے جوڑے ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے علیحدگی اخیتیار کر لیتے ہیں اور جدائی کے بعد بھی عزت کا رشتہ قائم رکھتے ہیں۔ افتی نسیم کا شعر ہے
؎ ہزار تلخ ہو یادیں مگر وہ جب بھی ملے
زباں پہ اچھے دنوں کا ہی زائقہ رکھنا۔
جب شادی میں محبت مر جاتی ہے تو نفسیاتی طلاق واقع ہو جاتی ہے چاہے مذہبی اور قانونی طلاق ہو یا نہ ہو۔ اسی لیے ہم سب بہت سے ایسے جوڑوں کو جانتے ہیں جو شادی شدہ طلاق یافتہ جوڑے ہیں لیکن ان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اس طلاق کو قبول کر سکیں اور احترام سے جدا ہو سکیں۔ ایسے جوڑے محبت کی لاش کو لیے لیے برسوں زندہ رہتے ہیں اور دکھی رہتے ہیں لیکن اس لیے طلاق کا اعلان نہیں کرتے کہ ”لوگ کیا کہیں گے“۔ ایسے جوڑے اگر کسی تھیریپسٹ سے مشورہ کریں تو عین ممکن ہے کہ وہ اپنے ازدواجی مسائل کا کوئی حقیقت پسندانہ حل تلاش کر سکیں۔