کیا آپ اپنے پرسکون گرین زون میں رہتے ہیں؟

 
میں اپنے مریضوں سے کہتا ہوں کہ وہ ایک مہینہ ایک گرین زون ڈائری رکھیں اور ہر رات سونے سے پہلے اپنے پچھلے چوبیس گھنٹوں پر غور کریں اور لکھیں کہ انہوں نے کتنے گھنٹے گرین زون میں کتنے ییلو زون میں اور کتنے ریڈ زون میں گزارے اور اس دوران وہ کیا کر رہے تھے۔ جب وہ ایک مہینہ گرین زون ڈائری لکھتے ہیں تو انہیں اپنی زندگی کا ایک pattern نطر آنے لگتا ہے۔اس عمل سے خود آگہی پیدا ہوتی ہے اور جب انسان اپنی زندگی کے لاشعوری پیٹرن سے واقف ہو جاتا ہے تو وہ اسے بدل بھی سکتا ہے۔جب انسان اپنے مزاج اور اعمال کا تجزیہ کرنے لگتا ہے تو وہ اس میں مثبت تبدیلیاں بھی لا سکتا ہے۔ سقراط فرماتے تھے
UNEXAMINED LIFE IS NOT WORTH LIVING
ایک بہتر زندگی گزارنے اور ایک بہتر انسان بننے میں خود آگہی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔
گزشتہ  کالم میں میں نے گرین زون فلسفے کے پہلے اصول اور تین زونز کا ذکر کیا تھا اور اس حقیقت کی طرف توجہ مبزول کروائی تھی کہ ذہنی طور پر صحتمند‘ خوشحال انسان اپنا زیادہ وقت اپنے پرسکون گرین زون میں گزارتا ہے۔
اس کالم میں میں آپ کا تین Rs سے تعارف کروائوں گا جو گرین زون فلسفے کا دوسرا اصول ہے۔ یہ تین آر ہمیں گرین زون میں زیادہ وقت گزارنے میں مدد کرتے ہیں۔
پہلا آر ہے RECOGNIZE ۔۔۔اس آر سے ہمیں مدد ملتی ہے کہ ہم گرین زون سے ییلو اور ریڈ زون میں کیسے اور کب جاتے ہیں۔اس عمل سے ہمیں ان محرکات کا پتہ چلتا ہے جو ہمیں پریشان کرتے ہیں جنہیں ہم triggers کہتے ہیں۔
دوسرا آر۔۔۔RECOVER ہے۔جب ہم ریڈ زون میں چلے جاتے ہیں تو پھر ہمارے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ وہ ایسے کون سے اقدامات ہیں جو ہمیں دوبارہ گرین زون میں لے جا سکتے ہیں۔
بعض لوگ واپس گرین زون میں جانے کے لیے
۔۔سیر کے لیے جاتے ہیں
۔۔۔ورزش کرتے ہیں
۔۔اپنی پسندیدہ کتاب پڑھتے ہیں
۔۔۔اپنی پسندیدہ موسیقی سنتے ہیں
۔۔بچوں سے کھیلتے ہیں
یا کسی دوست سے بات کرتے ہیں
تیسرا آر۔۔RESTRAIN ہے، جب ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ ہمیں کون سے لوگ اور کون سے حالات ٹرگر کر سکتے ہیں تو ہم ان سے محتاط ہو جاتے ہیں اور ایسے اقدامات کرتے ہیں کہ ان کے مضر اثرات سے کم متاثر ہوں۔
اپنی زندگی کے ٹرگرز سے تعارف ہونا گرین زون فلسفے کا اہم حصہ ہے۔ میں اپنے مریضوں کو بتاتا ہوں کہ گرین زون ایک ایسا فلسفہ ہے جس پر میں خود بھی عمل کرتا ہوں کیونکہ

۔۔جانے سے پہلے میزبان کو فون کرتا ہوں کہ میں کلینک سے نکل رہا ہوں۔ اگر مجھجے دیر ہوئی تو وہ ٹریفک کی وجہ سے پوگی جس پر مجھے کوئی اختیار نہیں۔
۔۔۔راستے میں موسیقی کی ٹیپ سنتا ہوں۔ ایک ٹیپ اردو کی ہے جس میں میں عابدہ پروین غلام علی نیرہ نور پٹھانے خان کی موسیقی اور دوسری ٹیپ میں انگریزی فنکاروں کی ٹیپ ہے جس میں کینی راجرز‘ کینی جی‘ اینیا اور نیل ڈائمنڈ کے گانے ہیں۔ یہ ٹیپ مجھے ریڈ زون میں جانے سے بچاتے ہیں۔
میں مریضوں کو گرین زون فلسفے ایک اور اصول بتاتا ہوں
GREEN ZONE PEOPLE ACT, RED ZONE PEOPLE REACT
گرین زون فلسفے کا انسان کی خود اعتمادی سے بھی گہرا تعلق ہے۔ وہ لوگ جو احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں وہ بہت جلد ریڈ زون میں چلے جاتے ہیں اور کافی دیر تک رہتے ہیں۔ وہ جلد دکھی اور غمگین ہو جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں وہ لوگ جو احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہوتے وہ نامساعد حالات سے زیادہ متاثر نہیں ہوتےاور خوش رہتے ہیں۔
میرے والد صاحب فرمایا کرتے تھے انسان کا دل کشتی کی طرح اور زندگی سمندر ہے۔ اگر کشتی مضبوط ہے تو لاکھوں ٹن پانی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس کے مقابلے میں اگر اس کشتی میں سوراخ ہو جائے اور دو گیلن پانی کشتی کے اندر ا ٓ جائے تو وہ ساری کشتی کو ڈبو سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی مسئلہ دل کے اندر گھس آئے تو پھر وہ انسان اس مسئلے کے بارے میں دن رات سوچتا رہتا اور ذہنی طور پر پریشان ہو جاتا ہے۔
جوں جوں آپ گرین زون ڈائری میں اپنا پیٹرن دیکھیں گے اور ٹرگرز سے دور رہیں گے توں توں آپ اپنا زیادہ وقت اپنے پر سکون گرین زون میں رہ سکیں گے۔ (باقی آئندہ)