تعلیمی ادارے کیسے بچوں کی صحت تباہ کر رہے ہیں

 
رات ملتان میں مادر علمی جامعہ ذکریا میں گزری، مجھے علی الصبح بہاولپور روانہ ہونا تھا۔ تقریباً سواسات بجے کا وقت تھا جب میں تیار ہو کر باہر نکلا۔ گاڑی سڑک پر آئی تو شدید دھند کی وجہ سے چند فٹ کے فاصلے پر بھی کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ طلوع آفتا ب کا وقت تھا لیکن دھند کی وجہ سے سورج کا نظر آنا ممکن نہ تھا۔ گاڑی چند میٹر آگے یونیورسٹی ہاسٹلز اور ڈیپارٹمنٹ کے درمیان مرکزی سڑک پر پہنچی تو طلبا و طالبات کو گھروں سے یونیورسٹی لانے والی روٹ کی بسیں مختلف ڈیپارٹمنٹس کے سامنے طلبا و طالبات کو ان کی منزل پر اتار رہی تھیں۔
شدید دھند کے عالم میں بچے بچیاں سردی سے ٹھٹھرتے، جمے ہوئے ہاتھوں کو آپس میں رگڑکر سردی کی شدت کو کم کرنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ گاڑی بسوں کے قریب سے گزری تو ڈرائیور نے احتیاطا رفتار انتہائی کم کر دی۔ طلبا و طالبات کے پاس سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ خشک سردی اور شدید دھند میں بسوں سے اترتے طلبا و طالبات کے چہروں کی رنگت زرد ہورہی تھی۔ سخت حیرت ہوئی کہ ایسے شدید موسم میں اتنی صبح سویرے کلاسز شروع کرنے کی مجبوری کیا ہے۔ تھوڑی سی معلومات کے بعد عقدہ کھلا کہ یونیورسٹی کے تمام شعبہ جات میں کلاسز صبح آٹھ بجے سے شروع ہوجاتی ہیں۔ پنجاب کی تمام جامعات، کالجز اور سکولوں میں بھی صورتحال کم و بیش یہی ہے۔
معاملے کی چھان بین کی تو دل چسپ اور چشم کشا حقائق سامنے آئے لیکن یہ حقائق خوشگوار ہر گز نہیں ہیں۔
پنجاب میں آج کل طلوع آفتاب کا وقت تقریبا سوا سات بجے ہے اور بچوں کو گھروں سے لانے والی بسیں یا دوسری گاڑیاں ان کو لینے کے لئے چھ، سوا چھ بجے سے پہلے پہنچ جاتی ہیں۔ بروقت تعلیمی اداروں میں پہنچنے والے طلبا و طالبات کے لئے لازم ہے کہ وہ پانچ بجے سے پہلے بستر چھوڑ دیں جب فجر کی اذانیں بھی شروع نہیں ہوتیں۔ سکول، کالج یا یونیورسٹی میں پہنچنے کی جلدی میں بچوں کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ناشتہ کر سکیں۔ ماہرین طبیعات اس بات پر متفق ہیں کہ صبح کے وقت اچھا کھانا نہ کھانے سے انسانی صحت پربدترین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
سکول، کالج یا یونیورسٹی میں زیر تعلیم بچے عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں جب انہیں جسمانی نشوونما اور چالیس، پینتالیس سال کی عمر کے بعد ڈھلتی عمر کے منفی اثرات سے بچنے کے لئے بروقت اچھی غذا لینا انتہائی ضروری ہے۔ لیکن پنجاب کے تعلیمی اداروں کے غیر فطری اوقات کی وجہ سے طلبا و طالبات صبح کے وقت ناشتہ نہیں کر پاتے جس وجہ سے ان کی صحت پر خوفنا ک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس سے بھی خوفناک بات یہ ہے کہ اس عمر میں بہترین قوت مدافعت کے باعث طلبا و طالبات ان اثرات کو محسوس نہیں کر پاتے لیکن دیکھا جائے تو آج سے دو عشرے پہلے کے پندرہ بیس سالہ طالب علم اور آج کے طالب علم کی صحت میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔ معلوم نہیں کسی این جی او یا تحقیقاتی ادارے نے اس موضوع پر سروے کی ضرورت کیوں نہیں محسوس کی۔
میں نے پہلی کلاس کے چھ سے سات سال کے بچوں کا سر سری سا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اس عمر میں بچے کا وزن تقریبا بائیس سے پچیس کلو تک ہوتا ہے جبکہ اس کے سکول بیگ کا وزن چھ کلو سے زائد ہے۔ نرسری کلاس کے چار یا پانچ سالہ بچے کا وزن اٹھارہ سے بیس کلو گرام اور ان کے سکول بیگ کا وزن تین کلو سے زائد ہے۔ اس وزن کے ساتھ بچوں کو اپنا لنچ باکس اور پانی کی بوتل بھی اٹھانا پڑتی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے کراچی کے ڈاکٹر ز نے پانچ سات یا دس برس کے بچوں میں کندھوں اور کمر درد کے ساتھ ساتھ ہڈیوں کے بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ بچوں کے سکول بیگ اس قدر بھاری ہیں کہ ان کے نازک کندھے ان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ ڈاکٹرز نے سماجی ذرائع ابلاغ پر ایک مہم بھی شروع کی لیکن کسی صاحب اختیار کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں امی ابو ہمیں فجر کی اذان کے کچھ دیر بعد جگا دیتے تھے اور ہم محلے کی بچے بچیوں کے ساتھ فجر کی نماز مسجد میں اد ا کرتے تھے۔ سرگودھا کے قاری بشیر احمد فیصل آباد کے طارق روڈ پر واقع حیدری مسجد میں نماز فجر کے بعد ہمیں قرآن پاک کی تعلیم دیا کرتے۔ مسجد سے واپسی پر ہم گھر آتے تو ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے جاگنے کے بعد بھوک چمک رہی ہوتی۔ واپس گھر پہنچتے تو ناشتہ تیار ہوتا۔ امی کے ہاتھوں کے بنے دیسی گھی یا مکھن کے پراٹھے، دہی اور لسی سے معدے کو شاد کام کرتے اور بیگ کندھے پر لٹکائے سکول روانہ ہوتے۔ صبح کے ناشتے کا اثر ہوتا کہ اگر ہم سکول میں وقفے کے دوران کچھ نہ بھی کھاتے تو گزارا ہوجاتا۔ ہمارا بچپن اس لحاظ سے اچھا تھا کہ اس وقت سردیوں میں سکول نو سے ساڑھے نو بجے شروع ہوتے تھے جبکہ آج کل یہ وقت آٹھ بجے ہے، یہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ ہماری قومی صحت پر بہت بھاری پڑ رہا ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ پانچ سے پندرہ بیس برس کی عمر میں جب بچوں کو بھرپور غذا کی ضرورت ہوتی ہے ان کے کھانے اور سونے جاگنے کے اوقات بری طرح بگڑ چکے ہیں۔ تعلیمی اداروں سے پانچ سات برس پہلے فارغ ہو کر عملی زندگی میں قدم رکھنے والے افراد کا جائزہ لیں توآپ کو معلوم ہو گا کہ ایسے افراد کی اکثریت موٹاپے، بلڈ پریشر یا یورک ایسڈ بڑھنے اور اس جیسی دوسری کئی بیماریوں کا شکار ہے۔ ایسی خواتین جو تعلیمی اداروں سے فراغت پاتے ہی شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہیں انہیں سال دو سال میں بچوں کی پیدائش کی ذمہ داری بھی سنبھالنا ہوتی ہے۔
جسمانی نشوونما کے لئے کمزور بنیادوں پر کھڑے جسمانی ڈھانچے کے لئے بچے کی پیدائش انتہائی خطرنا ک امر ہے۔ آپ اگر اپنے خاندان یا آس پاس کا جائزہ لیں تو ایسی لڑکیاں جوانی میں ہی موٹاپے اور دیگر بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں اور اپنی حقیقی عمر سے کہیں بڑی دکھائی دیتی ہیں، کچھ ایسی ہی صورت حال کا شکا ر مر د بھی ہیں۔ یہ صورت حال ان کے بچوں کی دیکھ بھال پر بھی اثر اندا ز ہوتی ہے، اس طرح یہ خوفنا ک اثرات ہماری اگلی نسلوں کو منتقل ہورہے ہیں اور ہماری قوم کی اجتماعی صحت روز بروز گرتی جارہی ہے۔ سکول کالج کے بچوں میں شوگر اور ہارٹ اٹیک جیسی خطر ناک بیماریاں عام ہور ہی ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں کی بات تو ایک طرف پاکستان میں اوسط انسانی عمر ہمارے ہمسائے بنگلہ دیش سے بھی کم ہے۔ جی ہاں بنگلہ دیش، جس کے بارے میں ہمارے حقیقی حکمرانوں کے خیالات یہ تھے کہ یہ چھوٹے قد کے منحنی سے بنگالی کسی کام کے نہیں ہیں۔ پاکستان میں اوسط طبعی عمر چھیاسٹھ برس سے کچھ زائد ہے جبکہ
بنگلہ دیش میں ایک انسان اوسطا بہتر سال سے زائد عرصے تک جیتا ہے۔ اوپر سے بغیر کسی منصوبہ بندی کے آبادی کا بڑھتا ہوا بم ہمیں ہر آنے والے منٹ میں غربت کی غلیظ دلد ل میں مزید دھکیل رہا ہے۔
پانی اور خوراک کے خوفناک بحران کی طرف بڑھتی اس قوم کو ان حالات کو سدھارنے کی کوئی فکر ہے یا نہیں؟ یہ سوچنے کا ہمارے رہنماؤں کے پاس وقت نہیں۔ اس لئے آیئے ہم بھی وزیراعظم عمران خان کی قمیص کے سوراخوں اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھنے کے سنجیدہ مسئلے پر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں کہ اس میں پیٹ نہ بھی بھرے تو زبان کا چسکہ تو ہے ہی۔