سیکس گرو کی ناکامی: ان کے شاگرد کی زبانی


ہیو مِل اپنے ابتدائی دنوں میں ہی ’سیکس گرو‘ کہے جانے والے بھگوان شری رجنیش کے پیرو کار بن گئے تھے لیکن بعد میں پیار اور رحمدلی پر مبنی سماج کا ان کا خواب تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا۔
آن لائن پلیٹ فارم نیٹ فلکس نے حال ہی میں اوشو کے متعلق ’وائلڈ وائلڈ کنٹری‘ نامی ایک دستاویزی سیریز جاری کی ہے۔ اس میں رجنیش کے آشرم کی انڈیا سے امریکہ منتقلی کو پیش کیا گیا ہے۔ امریکہ کی اوریگون ریاست میں 64000 ایکڑ کی وسیع و عریض زمین پر رجنیش کے ہزاروں پیرو کاروں نے آشرم بسایا تھا۔
پھر وہاں پانچ سالوں کے درمیان مقامی آبادی کے ساتھ آشرم کے لوگوں کی کشیدگی، قانونی تنازع، قتل کے واقعات، انتخابی دھوکہ دہی، ہتھیاروں کی سمگلنگ اور زہر دینے کے واقعات سامنے آئے۔ زہر دینے کا واقعہ امریکہ کی تاریخ میں سب سے بڑا ’بائیو ٹیرر‘ حملہ مانا جاتا ہے۔

باڈی گارڈ کی ذمہ داری

ایڈنبرا کے رہنے والے ہیو مل نے 90 رولز رائس کار رکھنے کے لیے مشہور رجنیش کے ساتھ کئی سال گزارے۔
اس عرصے میں رجنیش نے ہیو کو تحریک دی، ان کی گرل فرینڈ کے ساتھ ہم بستری کی اور انھیں سخت محنت کے کاموں میں ڈالا۔
سالوں تک ہیو مل نے بھگوان رجنیش کے ذاتی محافظ کے طور پر کام کیا۔ اس کردار میں ہیو کا کام یہ دیکھنا تھا کہ رجنیش کے شاگرد انھیں ہاتھ نہ لگا سکیں۔
ہیو جن دنوں رجنیش کے ساتھ تھے وہ ان کے آشرم کی توسیع کا زمانہ تھا۔ رجنیش کے حامیوں کی تعداد اس وقت دنیا بھر میں 20 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔
ہیو کہتے ہیں: ’وہ 20000 حامی صرف میگزین خریدنے والے افراد نہیں تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے رجنیش کے لیے اپنا گھر اور خاندان چھوڑ دیا تھا۔
’یہ لوگ ان کے لیے ہفتے میں بغیر کسی اجرت کے 60 سے 80 گھنٹے کام کرتے تھے اور ڈارمیٹری میں رہتے تھے۔ ان کے دلوں میں رجنیش کے لیے بڑی عقیدت تھی۔

راجنیش کے واعظ

ہیو اب 70 سال کے ہیں۔ وہ سکاٹ لینڈ کے لننارک علاقے میں پیدا ہوئے اور ایڈنبرا میں ان کی پرورش ہوئی۔
سنہ 1973 میں آسٹیوپیتھ (عضلات اور ہڈی سے منسلک طب) کی اپنی تربیت مکمل کرنے کے بعد ہیو انڈیا چلے گئے۔ اس وقت وہ 25 سال کے تھے۔
وہ آڈیو کیسٹ پر رجنیش کے واعظ سن کر ان سے متاثر ہوئے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب آپ اس طرح کے ایک با اثر شخص سے ملتے ہیں تو اس کا آپ کے وجود پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔‘
انڈیا میں ہیو کو سوامی شیومورتی کے نام سے جانا جاتا تھا۔
ہیو کہتے ہیں: ’میں نے سوچا کہ وہ کتنے حیرت انگيز، عقل مند، رحم دل، پیار کرنے والے اور حساس شخص ہیں۔۔۔ میں ان کے پاؤں کے پاس بیٹھ کر ان سے سیکھنا چاہتا تھا۔‘
ہیو نے بھگوان رجنیش کے بارے میں ’گاڈ دیٹ فیلڈ‘ یعنی ’خدا جو ناکام ہوا‘ کے عنوان کے تحت ایک کتاب شائع کی ہے۔ انھوں نے کہا سنہ 1990 میں اپنی موت سے قبل گرو نے اپنا نام اوشو رکھ لیا تھا۔ ’وہ ایک ایسے گرگٹ تھے جو لوگوں کی ضرورت کے مطابق رنگ بدل لیا کرتا تھا۔‘
ہیو کہتے ہیں ان سے خلوت میں ملاقات جسے درشن کہا جاتا تھا بہت ہی انقلابی ہوتی تھی تاہم انھیں انڈیا میں پہلے پہل زندگی گزارنے میں دقتوں کا سامنا رہا۔
پہلے 18 مہینوں میں رجنیش نے ہیو کی گرل فرینڈ کے ساتھ ہم بستری شروع کر دی۔ اور انھیں ان سے دور انڈیا کے گرم ترین علاقے میں محنت مشقت کرنے کے لیے بھیج دیا۔ ہیو بتاتے ہیں کہ اس وقت رجنیش کی عمر 40 رہی ہوگی اور وہ صبح چار بجے خواتین سے مخصوص درشن کے تحت ملتے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ’رجنیش کو سیکس گرو کے نام سے پکارا جانے لگا کیونکہ وہ اپنے واعظ میں سیکس اور جماع کی لذتوں کا ذکر کرتے تھے شاید ایسا اس لیے بھی کہ ان بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنی خاتون پیرو کاروں کے ساتھ ہم بستری کرتے ہیں۔‘
ہیو کہتے ہیں کہ وہ ان سے حسد کرنے لگے تھے اور آشرم چھوڑنا چاہتے تھے۔
ہیو کہتے ہیں: ’مجھے پتہ تھا کہ وہ ایک سیکس گرو تھے، ہم سب کو جنسی آزادی تھی۔ بہت کم لوگ ایک شادی والے تھے۔ سنہ 1973 میں یہ ایک مختلف مطمح نظر تھا۔’
انھوں نے کہا کہ رجنیش کے ساتھ مخصوص درشن کے بعد ان کی گرل فرینڈ کے ساتھ ان کے تعلقات میں ایک نئی خاصیت پیدا ہو جاتی تھی لیکن یہ بہت کم دنوں کے لیے رہا کیونکہ ’بھگوان‘ نے انھیں 400 میل دور اپنے ایک فارم پر بھیج دیا۔ جب وہ واپس آئے تو انھیں رجنیش کی پرسنل سیکریٹری ما یوگا لکشی کا محافظ مقرر کیا گیا۔
جب ایک سنیاسی کو رجنیش سے نہیں ملنے دیا گیا تو یوگا لکشمی پر اس سنیاسی نے شدید حملہ کر دیا۔ لکشی نے ہیو سے کہا کہ انھیں بھگوان کی بھی حفاظت کرنی ہے۔
یہ کہا گیا ہے کہ رجنیش اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ شاگردوں کو ان تک پہنچنے سے روکا جائے لیکن ہیو کہتے ہیں کہ جب لوگ انھیں چھوتے یا ان کے پاؤں چومتے تو یہ بات ان سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔
انھیں یہ اچھا نہیں لگتا تھا۔
لیکن اگلے سات سالوں تک ہیو ان اعلی سطح کے سنیاسیوں میں سے ایک رہے جو ان کے گرد تقدس کا ایک حصار بنا کر رکھتے تھے۔
اس گروہ میں ایک ما آنند شیلا بھی تھیں جنھیں اوریگون کے علاقے پر مبنی نیٹ فلکس کی دستاویزی فلم میں بہت دکھایا گيا ہے۔
شیلا ہندوستان کی رہنے والی تھی لیکن تعلیم نیو جرسی سے حاصل کی تھی۔ اوشو سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے سے قبل انھوں نے ایک امریکی سے شادی کی تھی۔
ہیو کہتے ہیں جب پونے میں آشرم کی کینٹین چلتی تھی تو وہ شیلا کے ساتھ کام کرتے تھے اور یہ آشرم ہر دن بڑا ہو رہا تھا اور بھگوان مزید لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہےتھے۔ ہیو کہتے ہیں کہ ان کے اور شیلا کے درمیان ایک ماہ تک رشتہ رہا پھر ان کے شوہر  نے رجنیش سے کہا کہ اسے روکا جائے۔
اس واقعے کے بعد ہیو کے لیے شیلا کا رویہ تبدیل ہو گیا اور جوں جوں وہ آشرم کے مرتبے میں ترقی کرتی گئیں ہیو کے لیے مشکلات پیدا ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ لکشمی کی جگہ رجنیش کی پرسنل سیکریٹری بن گئیں۔ ہیو کا خیال ہے کہ آشرم کو اوریگون منتقل کرنے میں شیلا کا اہم کردار تھا۔
انڈیا میں رنجیش متنازع ہوتے جا رہے تھے اور وہ ایک ایسی جگہ چاہتے تھے جہاں وہ اپنی ہزاروں لوگوں پر مبنی برادری کو رکھ سکیں۔ سنہ 1981 میں شیلا نے مقامی قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے اوریگون میں بگ مڈی رینچ کی زمین خرید لی اور سنیاسیوں کو رجنیش کے افکار و خیلات پر مبنی ایک شہرکی تعمیر کے کام پر لگا دیا۔ ہیو کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ اوریگون ایک غلطی تھی۔ یہ ایک تباہ کن فیصلہ تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ شروع سے ہی وہ مقامی قوانی کے منافی تھا اور شیلا اور ان کے چھوٹے سے گروپ نے اپنے منصوبے کی کامیابی کے لیے ہر کچھ کیا۔ جس میں مقامی لوگوں کو پریشان کرنے اور دھمکانے سے لے کر وسیع اہداف کے حصول کے لیے ریاست کے حکام کے قتل کی سازش تک شامل تھی۔
ایک انتخاب میں گھپلہ کرنے کے لیے سنیاسیوں نے مقامی ریستوراں کے سلاد بار کو زہر آلود کر دیا تھا جس کے نتیجے میں 750 افراد کو سالمونیلا یا انتڑیوں کی سوزش ہو گئی تھی۔رجنیش نے دعوی کیا کہ حکام اور قدامت پسند حکومت انھیں نشانہ بنا رہی ہے لیکن ہیو کا کہنا ہے کہ انھوں نے مقامی قوانین کو نظر انداز کرکے خود اپنے لیے مصیبت کھڑی کر لی تھی۔
ہیو کا کہنا ہے کہ اپریل سنہ 1982 کے آتے آتے انھیں کمیون کے بارے میں شک و شبہات ہونے لگے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب یہ محبت، رحمدلی اور دھیان کے لیے نہیں رہ گيا تھا۔
ہیو اس رینچ کے ہیلتھ سینٹر میں ایک معالج کے طور پر کام کر رہے تھے۔ جو سنیاسی آشرم کی تعمیر کے لیے ہفتے میں 80 سے 100 گھنٹے کام کر رہے تھے وہ ’ٹوٹنے لگے‘۔ ہیو کہتے ہیں بیمار ہونے پر علاج کے لیے ہیلتھ سینٹر آنے والوں کے لیے شیلا کی ہدایات انتہائی ‘غیر انسانی’ تھیں۔ ہیو نے بتایا: ’شیلا نے کہا کہ انھیں ایک انجکشن دو اور واپس کام پر بھیج دو۔‘
ایک اور موقع پر ہیو کو اپنے ایک دوست کی مدد کے لیے جانے سے روک دیا گیا جس کی کشتی حادثے کا شکار ہوئی تھی اور انھیں کام پر واپس جانے کا حکم دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں: ’میں نے سوچا کہ ہم عفریت بنتے جا رہے ہیں۔ ہم اب تک یہاں کیوں ہیں؟ ہیو نے نومبر سنہ 1982 میں آشرم چھوڑ دیا۔ انھوں نے کہا: ’ایک وقت تک مجھے لگا کہ میں ٹوکری بن گیا ہوں۔‘
میں بہت کنفیوژ تھا اور اندر سے اتنا ٹوٹ چکا تھا۔ میں صورتحال کو سنبھال نہیں پا رہا تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی از سر نو شروع کرنے سے قبل چھ ہفتہ ایک نفسیاتی ہسپتال میں گزارے۔
ہیو کہتے ہیں کہ کچھ عرصے تک ایڈنبرا میں انھوں نے اوسٹیوپیتھ کے طور پر کام کیا پھر انگلینڈ منتقل ہو گئے۔ وہاں سے زیورچ اور پھر کیلیفورنیا جہاں وہ سنہ 1985 کے بعد سے رہ رہے ہیں۔
ہیو کہتے ہیں کہ ’وائلڈ وائلڈ کنٹری‘ نامی دستاویزی سیریز میں جو دکھایا گیا ہے ان میں سے زیادہ تر چیزیں ان کے آشرم چھوڑنے کے بعد رونما ہوئی ہیں اور جو کچھ شیلا کر رہی تھیں یا جو ان کا منصوبہ تھا اس کے بارے میں وہ بہت کم جانتے ہیں۔
لیکن کیا رجنیش کو معلوم تھا کہ شیلا اور ان کے حامی کیا کر رہے ہیں؟ اس کے جواب میں ہیو نے کہا کہ ’مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ انھیں اس کا علم تھا۔‘