ڈال سے ٹوٹے ہوئے پتے

پی آئی ڈی سی کے ساتھ پان کی دوکان سے جمیل نے مجھے پان دلایا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں سگریٹ پیتا ہوا، خود ہی پرل کانٹی نینٹل چلا جاؤں گا مجھے کار میں وہاں تک چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے سگریٹ سلگایا اور سڑک پار کر کے تیس پینتیس سال سے کھڑی ہوئی نامکمل بے آباد حیات ریجنسی کی عظیم الشان عمارت کی طرف پہنچ گیا تاکہ وہاں سے پرل کانٹی نینٹل کے دوسرے بڑے گیٹ سے ہوٹل چلا جاؤں۔ حیات ریجنسی کی اس عمارت کی تعمیر تقریباً پینتیس سال پہلے اس وقت شروع ہوئی جب میں میکلوڈ روڈ پر میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں رہ رہا تھا اور آتے جاتے عمارت کی تعمیر پر نظر پڑ جاتی تھی۔

پاکستان ریلوے کی قبضہ شدہ زمین پر جتنی گہری زمین کھودی گئی تھی اس سے لگتا تھا کہ یہاں پر بہت شاندار عمارت بنائی جائے گی۔ ریلوے کی اس طرح کی زمینوں پر حکمرانوں نے قبضے کر کر کے سارے ملکوں میں ایسی ہی عمارتیں بنا کر کروڑوں روپے اِدھر سے اُدھر کر دیئے ہیں۔ ریلوے کی طرح کے اداروں کی زمینوں کو ہر طرح کے حکمرانوں نے لوٹ مار کا ایک ذریعہ بنایا ہوا ہے جس کو جہاں موقع ملا اس نے کرپشن کی گنگا جمنا میں خوب ہاتھ دھویا ہے۔ نہ جانے یہ عمارت کیوں مکمل نہیں ہو سکی۔ ایسی قیمتی جگہ اور یہ نامکمل عمارت ضرور لُوٹ کے مال کا حصہ بخرا کرنے میں جھگڑا ہوا ہو گا۔

میں ڈاکٹر بن گیا پھر ڈاکٹر بن کر امریکا چلا گیا۔ آٹھ سال کے بعد امریکا سے واپس آیا تو ریلوے کی زمین پر موجود کئی منزلہ پر نامکمل عمارت کھڑی دیکھی جس کے چاروں طرف سے اسے سیل کر کے بند کردیا گیا تھا۔ پتہ چلا کہ عمارت پر مقدمہ بازی ہو رہی ہے اور فی الحال حیات ریجنسی ہوٹل نہیں کھلنے والا ہے۔ اس وقت مجھے افسوس ہی ہُوا تھا کہ سالوں گزرنے کے بعد اتنی بیش قیمت اور اہم زمین پر اتنی بڑی عمارت تقریباً تیار ہو کر بے کار کھڑی تھی۔

اب تو ستائیس سال گزرچکے تھے۔ امی اور ابو دونوں ہی کا انتقال ہو گیا تھا۔ ایک چھوٹی بہن عائشہ کراچی میں رہ گئی تھی اس کی چھوٹی بیٹی کی شادی میں شرکت کرنے کے لیے میں اور ویرینکا آئے تھے۔ عائشہ کی خواہش تو یہی تھی کہ ہم اس کے ساتھ گھر پر ہی رہیں لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ پرل کانٹی نینٹل میں رہ کر تھوڑی آزادی کے ساتھ دن گزارے جائیں گے اور گنے چنے کراچی میں رہ جانے والے دوستوں اور ہم جماعتوں سے ملاقات اور ان کے ساتھ دلچسپ محفلیں سج سکیں گی۔

عائشہ کے گھر پر انہیں بلانے کا مطلب یہ تھا کہ دن رات عائشہ ان کی مہمانداری کرتی رہے۔ ہوٹل میں تو سب کچھ بغیر تکلیف کے ہوجائے گا۔ ویرینکا بھی دن بھر عائشہ کے ساتھ گزار کر جب چاہے گی ہوٹل پہنچ کر آرام کرلے گی۔ شادی وغیرہ سے فراغت ہوچکی تھی۔ ہم دونوں نے کراچی اور دوستوں، رشتہ داروں کی مہمان نوازی کا خوب لطف اٹھایا۔ پرل کانٹی نینٹل میں بھی دوستوں کی محفلیں روز سجتی رہی تھیں اور اب جانے کا وقت آن پہنچا تھا۔

کراچی میں رہ جانے والے دوست بھی اچھا ہی کر رہے تھے۔ کچھ آغا خان ہسپتال میں اور کچھ سرکاری ہسپتالوں میں کام کر رہے تھے اور مصروف تھے۔ کچھ دوست جنرل پریکٹشنر بن گئے تھے اور بے تحاشا مصروف تھے۔ یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ جتنوں سے بھی ملاقات رہی وہ سب کے سب خوشحال تھے۔ ان کے بچے اچھے اسکولوں سے نکل کر ملک اور ملک سے باہر اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے تھے۔

کوشش کے باوجود مجھے شاہد کا پتہ نہیں لگا۔ کالج میں ہم دونوں بہترین دوست تھے۔ وہ بلا کا ذہین تھا اور حد درجہ شرارتی اور کھلنڈرا۔ ہم دونوں نے ہاسٹل میں رہتے ہوئے اور کالج میں پڑھتے ہوئے نہ جانے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ وہ یادیں، وہ باتیں وہ سب کچھ پی سی کی نشستوں میں یاد کی گئیں اور ہنستے ہنستے ہم سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وقت کتنی تیزی سے گزرگیا تھا۔ بچپن جوانی اور اب بڑھاپا سامنے نظر آ رہا تھا۔

دوستوں نے بتایا کہ میرے امریکا جانے کے بعد شاہد برطانیہ چلا گیا تھا جہاں اسے نوکری بھی مل گئی مگر ڈھائی سال کے بعد پاکستان آیا تو واپس نہیں گیا۔ پہلی دفعہ جب میں امریکا سے واپس آیا تو اس کے گھر گیا تھا۔ دو تین دفعہ کوشش کی مگر اس سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا ہے یہ بھی پتہ چلا کہ علاج کے بعد وہ بالکل صحیح ہوگیا تھا۔ اس کی دوستوں سے ملاقات ہوتی رہی، پھر یکایک وہ منظر سے غائب ہوگیا تھا۔ میں نے اور دوسرے دوستوں نے شاہد کی شرارتیں یا بدمعاشیاں مزے لے لے کر دوبارہ سے بتائی تھیں اور سب ہی قہقہے میں شامل ہو گئے تھے۔

وقت حیات ریجنسی کی عمارت کے لیے تھم گیا تھا۔ میں نے فٹ پاتھ پر کھڑے ہوکر عمارت کی دونوں جانب نظر دوڑائی، اُلٹے ہاتھ پر ٹوٹی پھوٹی فٹ پاتھ کے بعد پل تھا، جس پر گاڑیاں روانی کے ساتھ آ جا رہی تھیں۔ سیدھے ہاتھ پر فٹ پاتھ کچھ بہتر تھی اور دُور تک بجلی کے کھمبوں کی روشنی میں نظر آرہی تھی۔ میں نے سوچا کہ آگے لڑکیوں کے اسکول کی عمارت ہوگی پھر جناح کورٹس کا ہاسٹل ہوگا اور اس کے آگے ڈان اخبار کا آفس پھر نالہ پھر ہم لوگوں کے ہاسٹل سے پہلے ایرانی ہوٹل جہاں ہم لوگوں نے نہ جانے کتنوں ہی گھنٹے بیٹھ بیٹھ کر گزارے تھے۔

میں نے سگریٹ کا ایک گہرا کش لیا۔ پرل کانٹی نینٹل کی عمارت پر ایک نظر ڈالی، سڑک کی دونوں جانب رواں دواں ٹریفک کو دیکھا اور سڑک کو پار کرنے سے پہلے حیات ریجسی کی اونچائی پر ایک نظر ڈالی ہی تھی کہ وہ میرے سامنے آگیا۔

مجھے کھانا کھلا دو۔ اس نے اپنی آواز اور حلیے سے مجھے ڈرا سا دیا۔ پرانی سی کئی جگہوں سے پھٹی ہوئی جین اور گندی سی قمیض میں ملبوس اپنی منتشر داڑھی کے ساتھ پُرالتجا نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ سامنے سے آتی ہوئی گاڑیوں کی روشی اس کے چہرے پر پڑتی پھر غائب ہونے لگتی تھی تو پچھلی گاڑی کی روشنی میں اس کا چہرہ جگمگا جاتا تھا۔ اندھیرے اُجالے میں اس کے چہرے کے خطوط شناسا سے لگے تھے۔

بہت بھوکا ہوں میں کچھ تو کھلادو۔ اس نے دوبارہ سے کہا تھا۔

یہ آواز تو سنی ہوئی تھی۔ بہت سنی ہوئی، میرے دماغ کے اندر بہت ساری گھٹیاں ایک ساتھ بجنی شروع ہوگئیں۔ شاہد! میں نے غور سے اس کی جانب دیکھا، وہی تھا۔ بدلی ہوئی صورت کے باوجود میں اسے پہچان گیا۔ کیسے بھول سکتا تھا میں اس آواز کو جس کا ساتھ کئی سالوں تک رہا تھا۔ جس آواز کے ساتھ آواز ملا کر میں نے گانے گائے، سیاسی نعرے لگائے، لڑکیوں کو چھیڑا، بحثیں کیں اور نہ جانے کیا کچھ کرتا رہا۔ ماضی تیزی کے ساتھ میری نظر کے سامے گھومتا چلا گیا تھا۔
شاہد مجھے پہچانا میں ہوں یار عارف! تیرا پنٹر، تیرا کلاس فیلو۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑلیا تھا۔

گاڑیوں کی تیز روشی میں مجھے اس کی آنکھوں میں شناسائی کی جھلک سی محسوس ہوئی۔ وہ غور سے میرے چہرے کو تکنے لگا۔ وہ بدل گیا تھا، پر میں اتنا نہیں بدلا تھا کہ مجھے پہچاننے میں کوئی مشکل ہوتی۔

عارف ارے یار یہ تو ہے۔ ہا ہا ہا ہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے زور سے قہقہہ لگایا تھا۔ ابے تو چل نا پھر کھانا تو کھلا۔ مجھے بہت بھوکا ہوں یار۔

نہ جانے کیوں میری آنکھوں میں آنسو سے آگئے تھے، اتنے سالوں کے بعد ملا اور ملا بھی تو اس طرح سے ملا تھا۔

میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور پی سی کے بڑے گیٹ کی طرف روانہ ہو گیا تھا۔ سڑک پار کر کے ہوٹل کی سیکیورٹی کے کیبن میں میں نے اسے غور سے دیکھا۔ دروازے پر موجود چوکیدار نے اسے روکنے کے لیے ہاتھ اُٹھایا تو میں نے کہا تھا کہ یہ میرے ساتھ ہیں۔ اس کے چہرے پر بے یقینی اور آنکھوں میں حیرت اُتر آئی تھی۔ اس کا حلیہ بہت خراب تھا۔ مجھے لگا جیسے اس نے کئی دنوں سے نہایا نہیں ہے۔ پیشانی کے پاس ایک زخم کا بھی نشان تھا مگر آنکھوں میں وہی ذہانت، وہی چمکتی بے چینی، وہی لفنگا پن اور انداز وہی تھا بے باک اور بیہودہ، وہ ویسا ہی تھا جیسے کالج میں تھا۔

ہوٹل میں داخل ہوکر میں اسے مارکوپولو ریسٹورانٹ میں بالکل آخری کونے پر لگی ہوئی ٹیبل پر لے گیا۔ مجھے یاد آگیا کہ پہلی دفعہ پرل کانٹی نینٹل جو پہلے انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل کہلاتا تھا میں شاہد ہی مجھے لے کر آیا تھا۔

شاہد کو میڈیکل کے کالج کے تیسرے سال میں پاس ہونے پر اس کے بابا نے موٹرسائیکل ہنڈا ایک سو پچھتر لے کر دیا تھا۔ جسے وہ کالج لے کر آیا تھا۔ کالج کینٹین میں سب کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کی پھر سب وارڈوں میں چلے گئے تھے۔ وارڈ سے واپسی پر کلاس کے فوراً بعد اس نے مجھے اپنی ہنڈا پر بٹھایا، پھر زناٹے سے دوڑاتا ہُوا انٹر کانٹی نینٹل لے آیا تھا۔

اس ہنڈے کی ٹریٹ کھاؤ۔ اسی کانٹی نینٹل کے اسی مارکوپولو میں، میں نے زندگی میں پہلی دفعہ پانچ ستاروں والے ہوٹل کے سینڈوچ اور پیٹیز کھائے اور کافی پی تھی جس کا مزا کئی دنوں تک میرے منہ میں رہا تھا۔

آج اسی کانٹی نینٹل ہوٹل میں کئی سالوں کے بعد وہ ایک فقیر کی طرح میرے ساتھ آیا تھا۔ مارکوپولو کے بیروں نے اسے حیرت سے دیکھا مگر اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیکھ کر وہ خاموش ہوگئے تھے۔ ٹیبل پر بیٹھ کر میں نے پوچھا کہ کیا کھائے گا یار، وہی بریانی منگواؤں جس کا تو دیوانہ تھا۔ مجھے یاد تھا کہ ہر تھوڑے دنوں کے بعد برنس روڈ میں بریانی کی دکانوں میں جا کر ہم لوگ بریانی کھاتے تھے۔ بریانی کا نام سن کر اس کے چہرے پر لکھی ہوئی بھوک اور زیادہ نمایاں ہوگئی۔

میں نے اس کے لیے بریانی کی ایک پلیٹ، چکن تکہ اور کباب منگائے تھے۔ وہ مجھے غور سے دیکھ رہا تھا اور بے چینی سے کھانے کا انتظار کررہا تھا۔ اس کے سوکھے ہوئے ہونٹ دیکھ کر میں نے پیپسی کولا منگوایا۔ وہ کوک کے مقابلے میں ہمیشہ پیپسی پیتا تھا۔

اس نے ایک ہی جھٹکے میں آدھا گلاس خالی کردیا۔ پھر میری طرف دیکھ کر مسکرایا تھا۔ وہی پرانی شریر مسکراہٹ جس کے بعد وہ کوئی ایسی بات بولتا تھا کہ دوست پریشان ہوجاتے تھے۔ یہ اس کے ریکارڈ لگانے کا طریقہ تھا۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے کہا۔ ابے ساجدہ سے شادی نہیں ہوئی تیری۔ پھر زور سے ہنسا تھا، ہا ہا ہا ہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میرے اس بہت پرانے تعلق کو جس کا چند ہی لوگوں کو پتہ تھا جس میں سے ایک وہ بھی تھا کے بارے میں وہ اس طرح سے بولنا شروع کردے گا۔

ابے وہ تیرے لیے تھی ہی نہیں، کہاں تو کہاں وہ، مجھے تو آج تک سمجھ نہیں آیا کہ تو اس کے پیچھے پڑا ہی کیوں تھا۔ ابے تھا کیا اس میں۔ پاگل تھی، ضدی تھی اور سب سے زیادہ یہ کہ سر پھری تھی بالکل۔ پھر ہ جانے وہ بڑبڑاہٹ میں کیا کچھ کہہ گیا تھا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا۔ یکایک وہ خاموش ہوگیا پھر زور سے بولا۔ اچھا ہُوا مرگئی۔ میں نے ہی سوچا تھا کہ اس کا مرجانا ہی اچھا ہے۔ ابے خدا سب کچھ کر سکتا ہے۔ ہے کہ نہیں۔ ابے تجھ کو خدا تکلیف میں کیسے دیکھتا۔ یہ کہہ کر وہ پھر ہنس دیا تھا۔

اسی وقت کھانا آگیا۔ جیسے ہی بیرے نے کھانا ٹیبل پر رکھا اس نے چکن تکے کی پلیٹ میں سے ایک تکہ اٹھا کر کھانا شروع کردیا تھا۔ بیرے نے میری طرف دیکھا اور میرے آنکھوں کے اشارے کو سمجھتے ہوئے جلدی جلدی کھانا لگانے لگا تھا۔

میرے دل میں اتنی شدید تکلیف ہوئی تھی کہ میں اسے لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا ہوں۔ میرا دوست، میرا ساتھی، میرا پرانا یار نارمل نہیں تھا۔ بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آگئے جنہیں میں نے بڑی مشکل سے روکا تھا۔

وہ پوری توجہ سے کھانا کھا رہا تھا اور اس طرح سے کھا رہا تھا جیسے جنم جنم کا بھوکا ہو۔ میں نے اشارے سے ویٹر کو بلایا اورکہا کہ وہ اسے دیکھتا رہے میں ایک فون کرکے آتا ہوں۔ شاہد سے بھی میں نے یہی کہا تھا کہ وہ تسلی سے کھانا کھائے میں پانچ منٹ میں واپس آتا ہوں۔ مجھے لگا کہ اس نے میری بات کو سمجھے بغیر ہی اپنی رضامندی ظاہر کردی تھی۔

میں ہوٹل کے استقبالیہ پر آیا جہاں سے میں نے ویرینکا کو کمرے میں فون کر کے بتایا کہ میں واپس آ گیا ہوں لیکن نیچے ہوں اور تھوڑی دیر میں آکر تفصیل بتاتا ہوں کہ کیا کررہا ہوں۔ پھر میں نے استقبالیہ سے پتہ کیا کہ اگر میرے کمرے کے ساتھ ہی یا اسی منزل پر کوئی کمرہ خالی ہے تو مجھے دے دیں۔ اتفاق سے میرے کمرے سے دو کمرے چھوڑ کر مجھے ایک کمرہ مل گیا تھا جو میں نے فوراً ہی لے لیا۔ پھر میں نے حبیب کو فون کیا جو میرا کلاس فیلو تھا، کراچی میں ہی پی ای سی ایچ ایس کے علاقے میں جنرل پریکٹشنر تھا۔

کالج میں ہم تینوں اکٹھے رہے تھے۔ اسے یقین ہی نہیں آیا کہ میں پرانے شاہد کے بارے میں بات کررہا ہوں۔ اسے میں نے بتایا کہ میں نے اس کے لیے فی الحال ایک کمرہ لے لیا ہے۔ کم از کم آج کی رات تو وہ اچھے سے سوئے گا۔ دوسرے دن شام کو میری واپسی کی فلائٹ تھی اور میں اس کے لیے اتنے کم وقت میں کچھ کرنا چاہتا تھا۔ حبیب نے بتایا کہ وہ بارہ بجے تک آ سکے گا۔ پھر سوچیں گے کہ کیا کرنا چاہیے۔

میں واپس ٹیبل پر آیا تو وہ کافی کچھ کھاچکا تھا۔ میں نے بیرے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے ونیلا آئسکریم لانے کو کہا تھا۔ مجھے یاد تھا کہ وہ ہمیشہ ونیلا آئسکریم کھاتا تھا، اس کی پسندیدہ ترین آئسکریم تھی۔ وہ آئسکریم دیکھ کر مسکرایا اور دوبارہ سے آئسکریم پر ٹوٹ پڑا تھا۔

میں اسے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ تیس پینتیس سال پہلے میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ شاہد اس طرح سے کھوجائے گا۔ اتنا ذہین آدمی اور اس کا یہ انجام۔ ذہنی بیماری بھی کیا بیماری ہوتی ہے، آدمی کو سرطان ہو جائے تو بہتر ہے، تکلیفیں اٹھانے کے بعد انسان مر جاتا ہے مگر مسلسل تکلیف کے عمل سے تو نہیں گزرتا ہے۔ ایک ایسی تکلیف جس کا مریض کو تو پتہ ہی نہیں ہوتا مگر اس کے دوست احباب رشتہ دار مسلسل تکلیف میں ہوتے ہیں۔

شاہد کا تعلق پڑھے لکھے خوشحال گھرانے سے تھا۔ اچھے اسکول کا پڑھا ہوا، ڈی جے سائنس کالج سے انٹر میں شاہد آٹھویں نویں نمبر پر تھا جس کی وجہ سے فوراً ہی اس کا داخلہ میڈیکل کالج میں ہو گیا تھا۔ میں نے اور حبیب نے نیشنل کالج سے انٹر کیا۔ میرٹ لسٹ میں ہمارا نام تقریباً آخر میں تھا لیکن نہ جانے کیوں کالج میں دوسرے تیسرے ہفتے ہی میں شاہد سے دوستی ہو گئی تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس کی بے ساختہ شرارتوں نے ہمیں اس کی طرف متوجہ کرلیا تھا۔

دوسری وجہ اس کی ذہانت تھی جس کا اندازہ اس وقت ہُوا جب ہم ایک ہی گروپ میں اور ہم نے پہلی دفعہ مردہ جسم کا چیرپھاڑ کرنا شروع کیا۔ شاہد کو جسم کے ایک ایک حصے کے مختلف اعضا کے نام ازبر تھے۔ اسے تو ہم سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا ہوگا مگر ہمیں اس کی دوستی کا بہت فائدہ ہُوا پھر ہماری دوستی بڑھتی ہی چلی گئی تھی۔

میں اسے تک رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس نے مجھے بڑی گندی سی گالی دے کر مخاطب کیا تھا۔ حرامی کے بچے، کتے کے پلے تیری وجہ سے میں برباد ہوگیا، تیری وجہ سے صرف تیری وجہ سے۔ تجھے اورتمہارے جیسوں کو پڑھایا میں نے اور تم سب حرامی امریکا چلے گئے اور میں یہاں اکیلا رہ گیا اور برباد ہوگیا، ختم ہوگیا۔ مجھے بُرا نہیں لگا تھا۔ ذہنی مریض تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ان کے ذہن تو ہوا میں اُڑتے رہتے ہیں۔ کبھی ایک بات تو کبھی دوسری بات۔

کہیں ایک جگہ تو کہیں دوسری جگہ پر۔ کبھی ایک لہر میں تو کبھی دوسری لہر میں، کبھی ایک موڈ میں تو کبھی دوسرے موڈ میں بولنے پر آئیں گے تو بولتے چلے جائیں گے، کبھی ذہانت سے بھری گفتگو تو کبھی انتہائی جاہلانہ انداز۔ ایک نارمل اور ایب نارمل کا یہی تو فرق ہوتا ہے، یہی بات تو ایک عام آدمی کو پاگل بنا دیتی ہے۔

تم صحیح کہہ رہے ہو، میں نے اس سے کہا تھا، چلو اوپر کمرے میں چلتے ہیں تم آرام کر لو، تھکے ہو گے۔ تمہیں سو جانا چاہیے۔

وہ فوراً ہی راضی ہوگیا تھا۔ ہم دونوں چوتھی منزل کے کمرہ نمبر چار سو اٹھارہ میں پہنچے تھے جس کی چابی میں نے استقبالیہ سے لے لی تھی۔ وہ کمرے میں آتے ہی بستر پر گرگیا تھا۔ میں اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ جوتے اُتاردے اور آرام سے سوجائے۔

تھوڑی دیر مجھے تکتے رہنے کے بعد اس نے جوتے اُتاردیے اور تکیوں کے سہارے لیٹ گیا تھا۔ اس نے موزے نہیں پہنے ہوئے تھے۔ اس کے پیروں پر جابجا نئے اور پرانے زخموں کے نشان تھے۔ یہ وہی پیر تھے جنہیں اس کی ماں نے محبتوں کے ساتھ بچپن سے موزے پہنائے ہوں گے۔ ان کی مالش کی ہوگی، کسی جگہ پر چوٹ لگ جانے پر تڑپ تڑپ اُٹھی ہوں گی۔ اب وہی پیر میرے سامنے تھے گندے، ناخن ٹوٹے ہوئے، زخموں کے نشان سے بھرے ہوئے۔ ایک نازو نعم میں پلے بڑھے ہوئے بچے کے پیر نہیں تھے بلکہ کسی ایسے آوارہ گرد کے ننگے ننگے پیر جو سڑکوں پر گھومتا پھرتا رہا ہوگا۔ مہینوں جس نے اپنے پیر نہیں دھوئے ہوں گے۔ کہیں ٹھوکر لگی ہوگی، کہیں کانٹا چبھا ہوگا۔ انہیں دیکھ کر میں نہ جانے کیوں پھر آبدیدہ سا ہوگیا تھا۔

میں نے اسے کمبل اُڑھا دیا اور آرام سے لیٹ جانے کے لیے کہا تھا۔ تکیے پر سر رکھتے ہی اس کی آنکھیں بند ہوگئی تھیں۔ نہ جانے کب کا تھکا ہارا، کتنے دنوں کے بعد پیٹ بھر کر کھانا کھایا تھا، ایسے تھکے تھکے انسانوں کو تو آرام دہ گرم بستر پر نیند فوراً ہی آجاتی ہے۔

تھوڑی دیر میں جب وہ گہری نیند سوگ یا تو میں اپنے کمرے میں گیا تھا۔ ویرینکا ٹیلی ویژن پر الفریڈ ہچکاک کی پرانی فلم ربیکا دیکھ رہی تھی جواپنے آخری لمحوں میں تھی۔ میں نے اسے کچھ کہے بغیر اپنے لیے کافی بنائی۔ ویری نیکا رات کو کافی بالکل نہیں پیتی۔ میں کرسی پر بیٹھ کر کافی پینے کے ساتھ ساتھ اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ کل شام کو مجھے واپس جانا تھا میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں اپنے اس پرانے دوست کے لیے کیا کروں جس کے در گھر، بھائی بہن، ماں باپ کسی کا بھی مجھے پتہ نہیں تھا۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ فلم ختم ہو گئی۔ ویری نیکا نے مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔

میں نے اسے شاہد کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ اس کے چہرے پر ہمدردی پڑھی جا سکتی تھی۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ وہ سو جائے میں حبیب سے مل کر شاہد کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے پتہ تھا کہ اسے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس دنیا کے بارے میں اس کے تصورات سے آگاہ تھا اور یہی ایک وجہ تھی کہ وہ مجھے پسند آئی اور میں نے اس سے شادی کی تھی، وہ ایک اچھی ڈاکٹر، اچھی انسان، بہترین بیوی، محبت کرنے والی ماں اور دوست تھی اور ساتھ ساتھ سماجی معاملات میں بہت ترقی پسندانہ خیالات رکھتی تھی۔

ضرور کچھ کرنا چاہیے جو کرسکتے ہو کرو۔ مجھے اندازہ ہے تم کیا محسوس کررہے ہوگے۔ ہم باتیں ہی کررہے تھے کہ نیچے استقبالیہ سے حبیب کا فون آگیا۔ میں نے اسے اچھی نیند سونے کا مشورہ دیا اور کمرہ کھول کر حبیب سے ملنے چلا گیا تھا۔

حبیب نے مجھے بتایا کہ شاہد سے اس کی ملاقات پانچ چھ سال پہلے ہوئی تھی۔ وہ بھی اسے روڈ پر ہی مل گیا تھا۔ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے گارڈن روڈ پر وہ الیکٹرونک مارکیٹ سے ایک فون خرید کر آ رہا تھا تو وہ ملا تھا۔ وہیں ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں دونوں نے سینڈوچ کھائے اور چائے پی تھی۔ اس وقت بھی اس کا بُرا حال تھا۔ کافی دیر تک وہ بالکل ایک عام نارمل آدمی کی طرح بات کرتا رہا تھا مگر پھر یکایک کھڑا ہوگیا تھا اور یہ کہتے ہوئے بھاگنے لگا تھا کہ وہ اسے پکڑ لیں گے، اس سے پہلے کہ کوئی اور بات ہوتی میں اس سے پوچھتا کہ وہ کون ہیں جن سے وہ خوفزدہ ہے جو اسے پکڑ لیں گے مگر وہ صدر کی بھیڑ میں کھو گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ شاہد کے والد فوت ہوچکے ہیں، شاید ماں زندہ ہوں، اس کا چھوٹا بھائی اس کا خیال رکھتا تھا۔ اب کچھ پتہ نہیں ہے کہ ان کے گھر میں کون ہے اور کیسے رہ رہے ہیں سب۔

مجھے ان کا گھر یاد آ گیا، گارڈن کے علاقے میں پرانے کراچی کے طرز پر بنا ہوا پرانا سا، بڑا سا مکان تھا۔ بڑا سا صحن جہاں کئی نیم اور پیپل کے درخت لگے ہوئے تھے جن کے سائے میں ہم لوگ کرسی ڈالے، گپ شپ لگاتے اور کبھی کرکٹ کھیلتے تھے۔ ان کا کھاتا پیتا گھرانہ تھا، نہ جانے کتنی دفعہ میں نے اور حبیب نے ان کے گھر پر کھانا کھایا تھا۔ راتوں کو رہے تھے۔ آنٹی نے ہماری خاطر کی تھی۔ وہ ایک مہربان خاتون تھیں۔ شاہد اور شاہد کے دوست ان کے لیے اہم تھے۔

یہ سوچ کر میں دوبارہ سے پریشان سا ہو گیا کہ شاہد کو اس طرح دیکھ کر ان کے دل پر کیا گزرتی ہو گی۔ ہم دونوں نے فیصلہ کیا تھا کہ رات میں اس کے ہی کمرے میں رہوں گا صبح حبیب دوبارہ آجائے گا پھر ہم سب ساتھ ناشتہ کریں گے، اس کے بعد اسے لے کر اس کے گھر جائیں گے اور دیکھیں گے کہ ہم لوگ شاہد کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ اس کے خاندان کے ساتھ مل کر کس طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔

ہم دونوں چوتھی منزل پر اس کمرے میں گئے جہاں وہ اُسی طرح سے بستر پر بے سدھ سورہا تھا۔ ہم دونوں اسے دیکھتے رہے، شاید ہم دونوں ہی اس کے بارے میں اپنے اپنے طرح سے سوچ رہے تھے۔ حبیب تھوڑی دیر کے بعد یہ کہہ کر گھر چلا گیا کہ وہ صبح صبح پہنچ جائے گا، میں اسی کمرے میں دوسرے بستر پر سو گیا تھا۔ صبح حبیب کے آنے کے بعد ہم تینوں نے ساتھ ہی ناشتہ کیا۔ گہری نیند کے باوجود اس کے چہرے پر تھکاوٹ تھی، وہ ہر بات کا صحیح صحیح جواب دے رہا تھا اگر اس کے کپڑے گندے سے نہیں ہوتے تو وہ بالکل ہی عام آدمیوں کی طرح عام آدمی ہی لگتا۔

میں نے اس سے پوچھا تھا کہ کیا وہ اپنے گھر جانا چاہے گا۔ ہاں چلتے ہیں گھر چلتے ہیں تم لوگوں کو کافی پلاؤں گا گھر پر۔ اس نے سرعت سے جواب دیا۔ ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ اسے کوئی دماغی بیماری ہے۔ میں اس کے لیے اپنے کمرے سے نئے اور صاف ستھرے کپڑے لے کر آیا، جس پر اس نے ممنونیت کا اظہار کیا تھا۔ اس کے چہرے پر وہی ذہانت تھی اور آنکھوں میں وہی چمک مگر کبھی کبھی شدت سے احساس ہوتا کہ وہ جو کچھ بھی کہہ رہا ہے بے سمجھے بوجھے کہہ رہا ہے۔ میں نے کپڑے غسل خانے میں رکھ دیے اور وہ نہانے چلا گیا تھا۔

آج ہی شام کو مجھے جانا تھا، میری خواہش تھی کہ اگر وہ اپنے گھر پر رہے تو میں اسے پابندی سے ہر ماہ کچھ پیسے بھیجتا رہوں گا تاکہ اس کا کام چلتا رہے۔ حبیب کا بھی یہی خیال تھا کہ ہم دو تین دوست اس کی مدد کر سکتے تھے اور کرنا بھی چاہیے تھا۔ آخر کار ہم نے ایک عرصہ کالج میں ساتھ گزارا تھا، اس دوستی کے کچھ تقاضے تھے۔ مجھے اور حبیب کو ان تقاضوں کا احساس تھا اور ہم دل سے چاہتے تھے کہ اس کے کام آئیں۔

نہانے دھونے کے بعد وہ نکھرا ہوا لگ رہا تھا۔ میں نے ویریکا کو بتایا کہ میں تھوڑی دیر میں واپس آجاؤں گا، پھر عائشہ کے گھر چل کر وہاں سے شام کو ائرپورٹ چلے جائیں گے۔

میں اور شاہد حبیب کی گاڑی میں بیٹھ کر پرل کانٹی نینٹل سے نکل کر میٹروپول کے سامنے سے ہوتے ہوئے زینب مارکیٹ کی طرف جا رہے تھے۔ شاہد مسلسل باتیں کررہا تھا۔ نہ جانے کہاں کہاں کی باتیں۔ اس نے کہا تھا کہ صبح کے وقت تو سب ہی گھر پر ہوں گے، ایک دفعہ پھر ناشتہ کرنا پڑ جائے گا۔ زینب مارکیٹ والی سڑک پر سرخ سگنل پر گاری رُکی تھی اور اس سے پہلے کہ گاڑی دوبارہ روانہ ہوتی شاہد دروازے کو کھول کر باہر نکلا اور انتہائی تیز دوڑتا ہوا صدر کی جانب چلا گیا۔

ہم دونوں کی ہی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کریں، وہ ایک بار پھر ہماری زندگی سے نکل گیا تھا۔ تھوڑی دیر ہم نے اسے صدر کی سڑکوں پر تلاش کرنے کی کوشش کی مگر اس کا کوئی پتہ نہیں تھا۔ ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ اگر نکل ہی کھڑے ہوئے ہیں تو اس کے گھر چلے چلتے ہیں شاید گھر والوں سے کچھ پتہ چل سکے۔ ان سے ہی بات کرتے ہیں شاید وہ لوگ اس سے ملتے ہوں گے، اس کی باتوں سے تو ایسا ہی لگا تھا کہ اس کی ملاقات ہوتی رہی ہے۔ شاید یہ ممکن ہو کہ ان کے ذریعے سے ہی ہم لوگ اس کی مدد کرسکیں۔

گارڈن کے علاقے میں پرانا سا وہ گھر بڑی بری حالت میں تھا۔ سارے دروازے اور کھڑکیاں تختوں کے ذریعے بند کردیے گئے تھے، چار دیواری کے پتھر ٹوٹ گئے تھے۔ بوڑھا نیم کا درخت خاموشی سے سر جھکائے ہمیں پہچان کر اُداس اُداس سا لگ رہا تھا۔ گھر میں کہیں بھی کوئی نہیں تھا۔