برف باری کی رات میں اکیلی لڑکی

وسیم جبران

مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ میں برف باری میں گِھر جاؤں گا۔ اگرچہ بارش کی پیش گوئی تھی لیکن یہ جنوری کا اواخر تھا اور میں اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھا تھا کہ مری میں سردی کے مہینوں میں اکثر بارش برف میں تبدیل ہو جایا کرتی ہے۔ رات کے نو بجے تھے ابھی میں تریٹ تک پہنچا تھا کہ گاڑی کی ونڈ سکرین کو برف کے اولین گالوں نے چوم لیا۔ آثار اچھے نہیں تھے لیکن سفر جاری رکھنے کے سوا چارہ نہ تھا۔

میں نے گاڑی کی سپیڈ کم کر دی۔ ساملی تک کوئی خاص دقت نہ ہوئی لیکن اس سے آگے سڑک سفید نظر آ رہی تھی۔ برف باری جاری تھی۔ گاڑیاں سلپ ہو رہی تھیں۔ میں نے گاڑی کو فرسٹ گئیر میں ڈالا اور سفر جاری رکھا۔ جیسے جیسے سڑک بلندی کی طرف بڑھ رہی تھی ڈرائیو کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ مجھے سفر جاری رکھنا تھا۔ کمپنی باغ تک پہنچنے میں کامیاب ہوا تو ٹریفک جام نظر آیا۔ برف باری کی شدت گاڑیوں کو آگے بڑھنے کی اجازت دینے سے انکاری تھی۔ کئی گاڑیاں برف میں پھنس کر رک گئی تھیں ان کی وجہ سے آگے بڑھنا ممکن نہیں تھا۔ کافی دیر لوگ ان گاڑیوں کو نکالنے کی کوشش کرتے رہے۔ چند گاڑیاں واپس اسلام آباد کی طرف لوٹ گئیں۔ کچھ نے سفر جاری رکھا اور کچھ وہیں کنارے پر رک گئیں۔

بہر حال راستا کھلا تو میں نے گاڑی آگے بڑھائی تب اچانک وہ سامنے آ گئی۔ برفباری میں مسلسل متحرک رہنا اچھا ہوتا ہے بریک لگ جائے تو گاڑی برف میں پھنس جاتی ہے۔ میں ایک لحظے کے لئے بے مزہ ہوا۔ پھر غور کیا کہ وہ ہاتھ کے اشارے سے مجھے رکنے کا اشارہ کر رہی تھی۔ بریک لگ چکی تھی۔ وہ کچھ کہہ رہی تھی لیکن میں سمجھ نہیں پایا۔ میوزک کا والیم کم کر کے میں سے شیشہ نیچے کیا تو یخ بستہ ہوا کے جھونکے کے ساتھ مجھے اس کی آواز سنائی دی۔

”پلیز مجھے بھی ساتھ لے چلیں، مجھے بھی آگے جانا ہے۔ “ میں نے زیادہ نہیں سوچا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کر کے فوراً شیشہ بند کیا۔ وہ دوسری طرف کا دروازہ کھول کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تو سردی سے اس کے دانت بج رہے تھے۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ باہر کتنی سردی ہے۔ کار کے ہیٹر کی وجہ سے اندر کا ماحول خوشگوار تھا۔ لڑکی کی ناک سردی کی شدت سے سرخ ہو رہی تھی۔ اس نے ٹشو پیپر سے ناک پونچھتے ہوئے میری طرف غور سے دیکھا اور بولی۔ ”تھینکس! اب چلئے ناں۔ “ میں جو کسی بت کی طرح ساکت تھا جیسے ہوش میں آ گیا۔ ایکسیلیٹر پر دباؤ بڑھایا تو گاڑی آگے بڑھ گئی۔

اب اندازہ ہوا کہ زیادہ تر گاڑیاں کیوں رک گئیں تھیں۔ آگے کا سفر بہت مشکل تھا۔ کسی نہ کسی طرح گھوڑا گلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوا لیکن گاڑی نے اس سے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ ٹائر برف پر گھومتے تھے لیکن گاڑی آگے نہیں بڑھ پاتی تھی۔ یہاں تیز ہوا تھی برف باری برف کے طوفان میں ڈھل چکی تھی۔ محض چند گاڑیاں سفر جاری رکھے ہوئے تھیں جن میں پراڈو یا لینڈ کروزر ٹائپ گاڑیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ایسے میں گاڑی سلپ ہوئی اور کھائی کی طرف بڑھی۔ میں نے بڑی مشکل سے کنٹرول کیا۔ لڑکی نے بمشکل حلق سے نکنے والی چیخ کو روکا۔

میں نے گاڑی روک دی۔ ”کیا ہم آگے نہیں جا سکیں گے؟ “ لڑکی نے پریشانی سے پوچھا۔ ”بظاہر تو یہی لگ رہا ہے، لیکن ہم جائیں گے۔ “ میں نے مضبوط لہجے میں کہا۔ ”ممکن ہے تھوڑی دیر تک یہ طوفان تھم جائے اور یہ امکان بھی ہے کہ برف ہٹانے والی گاڑیاں متحرک ہو جائیں تب یہ راستا کھل جائے گا۔ “ میری بات سن کر لڑکی سے سر ہلا دیا۔ ”سنو تمہارا نام کیا ہے؟ “ میں نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔

”آپ مجھے ٹیمی کہہ سکتے ہیں۔ “ وہ مسکرائی۔ میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ دلکش خدوخال کا حامل سرخ و سپید چہرہ اور ستواں ناک اس کی خوبصورتی میں مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔ خاص طور پر نوز پن نے اسے نہایت پر کشش بنا دیا تھا۔

”کیا دیکھ رہے ہیں؟ “ ٹیمی نے بھنویں اچکائیں۔ ”تم کون ہو؟ اکیلی کیوں سفر کر رہی ہو؟ “ میں نے فوراً کہا۔ لڑکی کے نتھنے تیزی سے پھولنے پچکنے لگے لیکن محض چند لمحوں بعد وہ ریلیکس ہو کر مسکرانے لگی۔ ”پہلے آپ تو اپنا تعارف کرائیے۔ “ اس نے نارمل انداز میں کہا۔

” میں نے اپنے بارے میں بتایا۔ اچھا میں باہر نکل کر صورتِ حال کا جائزہ لے لوں۔ “ میں گاڑی سے باہر نکلا۔ شدید ٹھنڈی ہوا نے ہوش ٹھکانے لگا دیے۔ میں نے کچھ آگے تک جا کر دیکھا۔ برف کافی بڑھ چکی تھی۔ گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں۔ مجھے ایک کافی کارنر دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ کافی کے دو کپ لے کر میں لوٹا اور گاڑی میں بیٹھ کر ایک کپ ٹیمی کو تھما دیا۔

”تھینک یو! اس وقت اسی کی ضرورت تھی۔ “ وہ بولی۔ ”ہم یہاں کتنی دیر رکنے والے ہیں۔ “ اس نے سپ لیتے ہوئے سوال کیا۔ ”موسم ہی یہ فیصلہ کرے گا“ میں نے کندھے اچکائے۔ اس نے سر ہلا دیا۔ تم نے اپنے بارے میں بتایا نہیں۔ میں نے پوچھا۔

” بتا دوں گی، اتنی جلدی کیا ہے؟ “ وہ مسکرائی۔ ”ایکسکیوز می۔ “ میں نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔ ”اٹس او کے“ اس نے برا مانے بغیر خوش دلی سے کہا۔ ”اکیلی لڑکی کا ساتھ ملنے پر آپ کے دل میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے ہوں گے۔ چھوڑیے صاحب میں آپ کو کیا لگتی ہوں؟ اس نے بے باک لہجے میں کہا۔ “ تم مجھے ’وہی‘ لگتی ہو۔ ”میں نے وہی پر زور دے کر کہا۔ وہ ہنسنے لگی۔ وہی ناں، ہاں میں ’وہی‘ ہوں۔ اب کیا کریں۔ آپ سے لفٹ لی ہے کوئی اور سودا نہیں کیا میں نے۔

ٹھیک ہے، جہاں تک لے جا سکا تمہیں لے جاؤں گا۔ ”مجھے ہر حال میں ناران گیسٹ ہاؤس تک پہنچنا ہے۔ “ اس نے کسی قدر پریشانی سے کہا پھر اپنے پرس کو ٹٹول کر سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور سگریٹ سلگا کر گہرے کش لگانے لگی۔ میں خاموش رہا۔ چند منٹ تک کار میں خاموشی رہی۔ اس خاموشی میں سگریٹ کا دھواں ہوا میں تحلیل ہوتا رہا۔

پھر اس خاموشی کو جس آواز نے توڑا اسے سن کر دل خوش ہو گیا۔ یہ برف ہٹانے والی گاڑی کی آواز تھی۔ اربابِ اختیار حرکت میں آ چکے تھے۔ گاڑی برف ہٹاتے ہوئے ہمارے قریب سے آگے نکل گئی۔ اگرچہ برف باری تو جاری تھی لیکن اب کار چلانے میں آسانی ہو گئی تھی۔ چناں چہ میں تھوڑی سے کوشش کے بعد کار آگے بڑھانے میں کامیاب ہو گیا لیکن ابھی بھی گاڑی پہلے گئیر میں تھی۔

تھوڑی دیر میں ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ آگے جانا اتنا آسان نہیں ہے کیوں کہ برف مسلسل پڑ رہی تھی۔ برف ہٹانے کا فائدہ کچھ خاص نہیں ہوا تھا۔ ”ہم مری پہنچ تو جائیں گے ناں۔ “ ٹیمی اب کچھ پریشان نظر آئی۔ ”

کوشش تو کر رہا ہوں لیکن یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں تو کہتا ہوں اس موسم کو بھی انجوائے کرنا چاہیے۔ اس نے میری طرف غور سے دیکھا۔ ”خیر انجوائے تو میں ہر قسم کی صورتِ حال کو کرتی ہوں۔ اس حوالے سے تو آپ ذرا بھی پریشان نہ ہوں۔ “

اس نے پرس سے ایک اور سگریٹ نکال کر سلگا لیا۔ ”کب سے ہو اس کام میں؟ “ میں نے سادگی سے سوال کیا۔ ”آپ کو کیا لگتا ہے؟ بالکل نئی ہوں۔ ابھی ابھی اس دنیا میں قدم رکھا ہے۔ “ اس نے پہلے سوال کیا پھر خود ہی جواب دے دیا۔


”مجھ سے کتنے پیسے لو گی؟ “ میں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ ”سوری میں آج رات پہلے سے بکڈ ہوں۔ “ اس نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔ یہ کیا بات ہوئی۔ میں تمہاری مدد کر رہا ہوں تمہیں نہیں لگتا کہ اس کے بدلے میں تمہارا بھی کوئی فرض بنتا ہے۔ میں نے شکایتی انداز میں کہا۔

” بالکل صحیح کہا، میں اس کے بدلے میں آپ کو کرایہ دوں گی۔ “ اس نے آنکھیں مٹکائیں۔ ”ذرا وضاحت کر دو یہ کرایہ کس شکل میں ہو گا۔ “ میں نے ذومعنی انداز میں کہا۔ ”جس شکل میں آپ چاہیں گے۔ “ اس نے جیسے جان بوجھ کر ذومعنی انداز اختیار کرتے ہوئے کہا۔

میں نے ہیڈ لائٹس کی روشنی میں بورڈ پڑھا ہم بانسرہ گلی تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ لیکن سڑک پر برف کی تہہ دوبارہ جم چکی تھی۔ رات کے بارہ بج چکے تھے۔ سڑک پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ کئی گاڑیاں برف میں پھنس کر رک چکی تھیں۔ ہماری گاڑی کچھوے کی رفتار سے رینگ رہی تھی۔

ابھی چٹا موڑ سے کچھ پیچھے ہی تھے کہ گاڑی نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ اس جگہہ برف کہ تہہ گہری تھی۔ کار کے ٹائر برف میں گھومتے تھے اور کار سلپ ہوتی تھی۔ تنگ آ کر میں نے کوشش ترک کر دی۔ ٹیمی نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

”ابھی رکنا پڑے گا۔ “ میں بولا۔

”کب تک؟ “ غیر معینہ مدت تک۔ میں نے اس کے سوال کا جواب دیا۔

ٹیمی کچھ دیر ہونٹ چباتی رہی پھر جیسے خود کلامی کی۔ ”اب کیا کریں۔ “

ایکسکیوزمی! کیا تم مجھ سے مخاطب ہو؟ ویسے کچھ کرنا ضروری ہے کیا؟ میں نے اس بار شوخی سے کہا۔ اس نے بڑی دلکش ادا سے مجھے دیکھا اور مسکرا اٹھی۔ ”آپ نے اب تک کتنی لڑکیوں کو بک کیا ہے؟ “

میں تو بہت نا تجربہ کار ہوں۔ آج تک یہ سہولت حاصل نہیں کی۔ اگر تم چاہو تو شاید یہ تجربہ بھی ہو جائے۔ میں نے جواب دیا۔ ”اور اگر میں نہ چاہوں تو؟ “ اس نے بالوں کو جھٹک کر پیچھے کرتے ہوئے کہا۔

”تو پھر میں اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جاؤں گا۔ “ میں نے بر جستگی سے جواب دیا۔ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ”آپ کافی دلچسپ آدمی ہیں۔ کوئی اچھا سا گانا سنائیے ناں۔ “ میں نے اس کی فرمائیش پر کار میں میوزک پھر سے آن کر دیا۔ برف گرتی رہی اور فضا میں سر بکھرتے رہے۔

”ٹیمی۔ “ میں نے اسے آواز دی لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے بائیں طرف گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ سو رہی تھی۔ سینے کے زیروبم سے لگتا تھا کہ نیند گہری ہے۔ میں چند لمحوں تک قدرت کے اس حسین شاہکار کا جائزہ لیتا رہا پھر سر جھٹک کر خود بھی آنکھیں بند کر لیں۔ ابھی چند منٹ ہی ریلیکس کر پایا تھا کہ ٹیمی نے آواز دی۔ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ برف باری رک گئی تھی لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں تھا۔ سڑک پر پھسلن بہت زیادہ تھی۔

”ٹیمی تمہارے پاس کوئی ہئیر پن وغیرہ ہے؟ “ میں نے اس سے پوچھا۔ ”ہاں لیکن۔ “ وہ حیرت سے بولی۔ مجھے دو۔ میں نے اس کی حیرت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ اس وقت تو اس کے بال کھلے تھے۔ اس نے پرس سے ایک پن نکال کر مجھے دی۔ میں گاڑی سے باہر نکلا اور اسی پن کی مدد سے چاروں ٹائروں سے ہوا کم کر دی۔ مجھے ابھی ابھی یہ خیال آیا تھا کہ اگرگاڑی کے ٹائروں میں ہوا کم رکھی جائے تو کم سلپ ہوتی ہے۔ اس کے بعد کار کو سٹارٹ کیا۔ ٹیمی اس ساری کارروائی کو خاموشی سے دیکھتی رہی۔

کار آگے تو بڑھ گئی لیکن یہ ترکیب کچھ زیادہ کامیاب نہیں تھی۔ چناں چہ کلڈنہ میں ایک بار پھر کار برف میں پھنس کر رہ گئی۔ برفباری پھر سے شروع ہو چکی تھی۔ ”اف ناٹ اگین۔ “ ٹیمی نے سر جھٹکا۔ ”یہاں سے توہم پیدل بھی جا سکتے ہیں۔ “ میں نے تسلی دی۔ ”واقعی؟ “ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

بالکل، بس تھوڑا سا مسئلہ ہو سکتا ہے، اس وقت میرے اندازے کے مطابق منفی پانچ تک درجہ حرارت ہوگا لہٰذا برف باری اور تیز ہوا کی موجودگی میں ہماری قلفی جم جانے کا خدشہ ہے۔ دوسرا یہ کہ اس علاقے میں چیتے پائے جاتے ہیں۔ برف کے موسم میں ان کو خوراک نہیں ملتی تو وہ ہم پر حملہ بھی کر سکتے ہیں۔ گزشتہ برس بھی دو نوجوانوں پر چیتے نے اسی جگہ حملہ کر دیا تھا۔

” تو کیا وہ بچ گئے تھے؟ “ ٹیمی باقاعدہ خوف زدہ تھی۔ ”شاید۔ میرے پاس ان کے ہسپتال پہنچنے تک کی خبر پہنچی تھی۔ “ کار کا انجن خاموش ہو گیا۔

”آپ نے گاڑی کیوں بند کر دی؟ “ ٹیمی نے چونک کر کہا۔ میں بھی چونک اٹھا گاڑی خود بہ خود بند ہوئی تھی۔ میں نے کئی بار کار سٹارٹ کرنے کی کوشش کی لیکن کارسٹارٹ نہیں ہو پا رہی تھی۔ شاید کوئی خرابی پیدا ہو گئی تھی۔ رات کے اڑھائی بجے کوئی مدد ملنے کا امکان نہیں تھا۔ اب موزوں حل یہی تھا کہ دھکا لگا کر کار کو سائیڈ پر پارک کیا جائے۔ چناں چہ ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد ہم پیدل کلڈنہ روڈ سے مال روڈ کی طرف روانہ ہوئے۔

ٹیمی کے لئے برف پر چلنا آسان نہیں تھا۔ دو تین باروہ سلپ ہوئی تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اب سہارے کی بدولت وہ قدرے آسانی سے چل رہی تھی۔ ایک تو سڑک پر اندھیرا کافی زیادہ تھا اور پھر برف کی پھسلن آسانی سے چلنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ ٹیمی سلپ ہوئی تو جیسے غیر اردای طور پر میں نے اسے بازوؤں میں بھر لیا۔ وہ بھی جیسے ڈر کر مجھ سے چمٹ گئی۔ چند لمحوں تک میں اس کے دل کی دھڑکن محسوس کرتا رہا پھر جب میری دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں تو جیسے وہ یک دم ہوش میں آ گئی اور فوراً مجھ سے الگ ہو گئی۔

”چلو اب تھوڑا فاصلہ رہ گیا ہے۔ “ میں نے کہا۔ ٹیمی نے سر ہلایا اور میرا بازو پکڑ کر چلنے لگی۔ آخر کار ہم ناران گیسٹ ہاؤس تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ سڑک پر روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔

منزل پر پہنچتے ہی ٹیمی کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ میں بھی خوش تھا کہ میرا فلیٹ یہاں سے قریب تھا۔ ”اب کیا ارادہ ہے؟ “ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔

”آپ بتائیے۔ کیا کروں میں۔ آپ نے مجھے یہاں تک پہنچایا ہے۔ “ وہ بولی۔

میں مسکرا اٹھا۔ ”ٹیمی تم وہ نہیں لگتی ہو جو تم نے بتایا ہے۔ تم مجھے سچ نہیں بتا سکتیں؟

ٹیمی ہنس پڑی۔ میرا اندازہ بھی آپ کے بارے میں تھوڑا غلط ہو گیا۔ میں سمجھ رہی تھی کہ آپ موقع سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے ہیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے یہاں آنا ہی تھا۔ میں شاید آپ کو کبھی نہ بتاتی لیکن نہ جانے کیوں میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کے سامنے دل کھول کر رکھ دوں۔ آپ تو افسانے لکھتے ہیں شاید میری کیفیت سجھ پائیں۔ میں یہاں اپنے محبوب سے ملنے آئی ہوں۔ میں اس سے اپنی جان سے زیادہ محبت کرتی ہوں لیکن شاید یہ زمانہ ہمیں کبھی ملنے نہیں دے گا۔ ایسے میں ایک موقع ملا تو میں نے اس سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں برف میں گھر جاؤں گی۔ میں ایک کوسٹر میں تھی وہ بھی برف میں پھنس گئی تھی۔

پھر آپ مل گئے۔ مجھے ایسا لگا کہ آپ نے مجھے ایک عام لڑکی نہیں کچھ اور سمجھا ہے تو میں نے خود کو ویسا ہی پیش کیا تا کہ آپ کو جان سکوں۔ کسی ایسی ویسی صورتِ حال سے نمٹنے کا سامان بھی میرے پرس میں موجود تھا لیکن شکر ہے اس کی نوبت نہیں آئی۔ سنئیے میں ایک نوجوان سے محبت کرتی ہوں، میں اکیلی اس سے ملنے آتی ہوں، میں سگریٹ پیتی ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں سب کے لئے دستیاب ہوں۔ یاد رکھئیے ہر اکیلی لڑکی جسم فروش نہیں ہوتی۔ ٹیمی خاموش ہو گئی اورمیں اسے دیکھتا رہ گیا اس کا آخری جملہ میری سماعت میں گونج رہا تھا۔ میرے پاس کچھ اور کہنے کے لئے لفظ نہیں تھے۔ شاید اس نے کچھ اور بھی کہا لیکن میں سن نہیں پایا۔ وہ گیسٹ ہاؤس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ میں نے اپنے فلیٹ کی طرف قدم بڑھا دیے۔