لوگ پورن کیوں دیکھتے ہیں؟

عامر رضا
لوگ پورن کیوں دیکھتے ہیں؟


پورنو گرافی ایک ایسا موضوع ہے جس سے نجی محافل میں تو لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے لیکن عوامی سطح پر اس پہ بات کرنا کافی مشکل ہے۔پورنو فلم بنانے اور پورن ادب تخیلق کرنے، دیکھنے اور پڑھنے کو اخلاقی زوال کا نیتجہ قرار دیا جاتا ہے۔کوئی بھی اسے ایک صحت مند ایکٹویٹی کے طور پر پیش نہیں کرے گا اور شاید یہ ہے بھی نہیں۔

لیکن پورنو گرافی اپنے طور پر وجود میں نہیں آ جاتی۔ اخلاقی گرواٹ خود بہ خود پیدا نہیں ہوتی۔ نوجوانوں کو تو ہم ہارمونز میں ہونے والی تبدیلیوں کا مارجن دے سکتے ہیں لیکن وہ بھی کسی حد تک، اس سے زیادہ نہیں۔

چند سال پہلے پورنو گرافی کی تاریخ، منڈی، نفسیات اور سیاست پہ کام کرتے ہوئے ایک تبصرہ نظر سے گزرا جو کہ کافی دلچسپ تھا اور اس حوالے سے ایک نیا زوایہ پیش کرتا ہے۔

مجھے کچھ ایسا ہی لگا، ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے اس میں کچھ نیا نہ ہو۔

اس حوالے سے دوستوں سے بات چیت کی بھی لیکن ان میں سے بیشتر کا خیال یہی تھا کہ ایسا نہیں ہے۔

اس تبصرے کو ایک مفروضے کے طور پر پیش کرتا ہوں، جس کے مطابق فرد کی سیاسی، سماجی، معاشی اور نفسیاتی شکست خوردگی اسے پورنو گرافی میں رفیوج مہیا کرتی ہے۔

اگرچہ اس مفروضے کی صداقت اور پرکھ کے لیے بہت زیادہ تحقیق کی ضرورت ہے۔

ان چند سالوں میں جو لٹریچر میسر آ سکا اور جسے پڑھنے کے بعد لگا کہ اس مفروضے کو یکسر مسترد کرنا کافی مشکل ہے، اسے آپ کے سامنے بھی رکھتا ہوں۔

لینن کی کتاب ’بائیں بازو کا کمیونزم ایک طفلانہ بیماری‘ کے تیسرے باب میں لینن روس میں 1905ء میں آنے والے ناکام انقلاب کے حوالے سے بات کرتے  ہوئے لکھتا ہے کہ 1907ء اور 1910ء  کے تین سال رد عمل کے سال تھے۔

زار شاہی کی جیت ہوئی، تمام انقلابی اور اپوزیشن قوتوں کو کچل دیا گیا۔ یاس، بددلی، پھوٹ تفرقہ، غداری اور پورنوگرافی نے سیاست کی جگہ لی تھی۔‘

1905ء کے انقلاب کی ناکامی کے بعد سویت یونین میں یاسیت کا دور آیا

1905ء کے انقلاب کی ناکامی کے بعد سویت یونین میں یاسیت کا دور آیا

1905ء کے انقلاب کے بعد جو سیاسی بے چینی اور معاشی جمود پیدا ہوتا ہے جس سے  جہاں دیگر مسائل  پیدا ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ لینن پورنوگرافی کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔

انہی سالوں میں زار کی فیملی کے پورنو گرافک پوسٹ کارڈ بھی جاری کیے گئے جس کے پیچھے ’انقلابی‘ اور اپوزیشن کارفرما تھی۔ بعض مورخیں کا خیال ہے کہ ان پوسٹ کارڈز اور اس طرح کے  دیگر پورنو گرافک مواد نے شاہی خاندان کو لوگوں کی نظروں میں گرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

امریکی مورخ ولیم ہیری چیمبرلین اپنی کتاب ’روسی انقلاب‘ کے پہلے والیم میں اس بات کی تائید کرتا ہے۔وہ لکھتا ہے کہ ’انقلاب کی ناکامی کے بعد لیبر تحریکیں سست رووی کا شکار ہو گئیں۔1905ء میں سیاسی ہڑتالوں میں 14 لاکھ مزدوروں نے حصہ لیا اور اتنی ہی تعداد معاشی اور صعنتی ہڑتالوں میں شامل ہوئی تھی۔1910ء میں ایسی ہڑتالوں میں حصہ لینے والوں کی تعداد ساڑھے تین سے ساڑھے چار ہزار تک رہ گئی تھی۔

جو طبقات 1905ء کے انقلاب میں پیش پیش تھے ان کے لیے اب وقت بہت زیادہ ڈپریشن کا تھا۔

 صنعتی ترقی میں جمود اور نوکریوں کی کمیابی کی وجہ سے مزدور مزید ہڑتالیں کرنے سے کترانے لگے تھے صرف چند ایک سخت جان انقلابی ہی اپنی دھن میں لگے رہے۔

1905ء کے بہت سے انقلابیوں نے نظریات کو خیر باد کہا۔یہ سارا عرصہ خودکشیوں، پورنو گرافک اور سیمی پورنو گرافک ادب سے عبارت ہے۔‘

سیاسی، سماجی اور معاشی شکست خوردگی انسان کو کس طرح پورنو گرافی کی طرف دھکیلتی ہے اس کی ایک جھلک ترکی کے نوبل انعام یافتہ ناول نگار اورحان پاموک کے ناول ’سنو‘ میں بھی نظر آتی ہے۔

اورحان ناول کے مرکزی کردار ’کے‘  کی کہانی سناتا ہے جو شاعر اور 12 سال سے جرمنی کے شہر فرینکرٹ میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہا ہے۔وہ ترکی کے ایک دور افتادہ شہر قارص میں ایک صحافی کے طور پر واپس آتا ہے جہاں شدت پسندی روز پکڑ رہی ہے۔

یہاں اس کی ملاقات اپنی کلاس فیلو سے ہوتی ہے جو اس کی ناتمام محبت ہے۔شدت پسندوں کے ساتھ ہونے والی مُڈ بھیٹر کے بعد وہ پھر واپس جرمنی چلا جاتا ہے۔شدت پسند جرمنی تک اس کا پیچھا کرتے ہیں اور اسے قتل کر دیتے ہیں۔

جب اورحان (کہانی گو) اس کا جرمنی سے سامان اٹھانے جاتا ہے تو اس پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ’کے‘جرمنی میں تنہائی زدہ اور  مشکل زندگی گزار رہا تھا۔ اس کے فلیٹ میں اسے، اس کے سامان، میں سب سے زیادہ جو چیز ملتی ہے وہ پورنوگرافک فلمیں ہوتی ہیں۔ان فلموں میں ایک زیادہ تر فلمیں ایک خاص پورن سٹار کی ہوتی ہیں جس کی شکل ’کے‘ کی سابق محبوبہ سے بہت ملتی ہوتی ہے اور اس کے ذریعے ’کے‘ آسودگی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔

’کے‘ کے کردار کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اسے ایک مخصوص طرح کی سیاسی، سماجی اور معاشرتی شکست خوردگی کا سامنا تھا۔

وہ اپنے نظریات کی وجہ سے ترکی سے جلا وطنی اختیار کرتا ہے۔جرمنی میں وہ تنہائی کی زندگی گزارتا ہے۔جب بارہ سال بعد ترکی واپس آتا ہے تو اسے ایک بار پھر سیاسی اور سماجی شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہ واپس جرمنی لوٹتا ہے ایک تنہا اور یاسیت زدہ  زندگی گزارنے کے لیے جس میں  اس کا سب سے بڑا سہارا پورنو گرافک فلمیں ہیں۔

ابیٹ آباد آپریشن کے بعد اسامہ بن لادن کے کمپاونڈ میں سے امریکی میرینز نے جو دستاویزات قبضے میں لیں ان میں پورن فلمیں بھی شامل تھیں۔اکثر لوگ اسے مغرب اور امریکا کا پروپیگنڈہ قرار دیتے ہیں اور ’مجاہد اسلام‘ کے ساتھ ایسی باتوں کومنسوب کرنا معیوب سمجھتے ہیں۔

اسامہ بن لادن کے سامان سے مبینہ طور پر پورنو فلمیں بھی برآمد ہوئیں۔

اسامہ بن لادن کے سامان سے مبینہ طور پر پورنو فلمیں بھی برآمد ہوئیں۔

اگر ایک لمحے کے لیے اسے پروپیگنڈہ تسلییم نہ کریں اور اسامہ بن لادن کی سیاسی اور نفیساتی صورتحال کا تجزیہ کریں تو ایک ایسا کردار سامنے آتا ہے جس کی سیاسی، سماجی اور نفیساتی جہتوں پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے جو اس مفروضے کے درست ثابت ہونے کی طرف کوئی نہ کوئی اہم راستہ فراہم کر سکتی ہے۔

2004ء سے لے کر 2010ء تک پاکستانی سنیما انڈسٹری بڑے جمود کا شکار ہوئی۔نجی شعبے میں ٹی وی ڈراموں کی پروڈکشن کا بڑا حصہ لاہور سے کراچی شفٹ ہو گیا۔فلم انڈسٹری سے وابستہ وہ لوگ جو صرف فاضل اداکاروں، ڈانسرز اور تکنیکی ٹیموں کا حصہ تھے بے روزگار ہو گئے۔

فلم انڈسٹری کے اس بحران نے سیمی پورنو گرافک مجروں کی سی ڈیزکی لہر کو جنم دیا۔اس میں بہت سے فنکار اور ٹیکنیشن وہی تھے جو پہلے فلم انڈسٹری کا حصہ تھے۔

عریاں مجروں کی لہر کو سیاسی، سماجی اور معاشی محرومی کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

عریاں مجروں کی لہر کو سیاسی، سماجی اور معاشی محرومی کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

سیمی پورنو گرافک مجروں کی اس لہر کو بھی اس وقت کے سیاسی اور معاشی حالات میں دیکھنے کی اہم ضرورت ہے۔

’اے سربین فلم‘‘ دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں بین کر دی گئی۔فلم پر سب سے بڑا الزام پرتشدد پورنو گرافی کا تھا۔کیتھولک چرچ نے فلم پر پابندی کا مطالبہ کیا۔فلم بہت زیادہ پرتشدد اور ڈسٹربنگ ہے جس میں جابجا پیڈوفلیا اور نیکرو فلیا کے سین ہیں۔

سربیا میں اس فلم کے خلاف سرکاری طور پر ایک ٹربیونل بنا کر تحیقیقات کی گئیں۔

فلم کے ڈائریکٹر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’فلم ان جذبات کا ایماندارنہ اظہار ہے جو کہ ہم اپنے ملک اور خطے کے بارے میں رکھتے ہیں۔خطہ پچھلی کئی دہائیوں سے جنگ، سیاسی بے چینی اور اخلاق باختگی جیسے ڈراؤنے خواب کا سامنا کر رہا ہے۔انہوں نے فلم کو کرپٹ اتھارٹیز کے خلاف سربوں کے غصے کا اظہار قرار دیا۔

ایک اور انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ سربیا کی عوام کے ساتھ سیاسی طور پر جو کچھ کیا گیا تھا اس کی بہتر تمثیل وہ اسی طرح کی فلم کے ذریعے پیش کر سکتے تھے۔

تاریخ  ادب  اور فلم سے ہمیں جو حوالے ملتے ہیں وہ اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ پورنو گرافی کی تخیلق اور اس کی کنزمپشن کو سیاسی، سماجی اور معاشی حوالوں سے دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔

ہم اسے صرف اخلاق باختگی کے کھاتے میں ڈال کر اپنا دامن جھاڑ کر صاف نہیں ہو سکتے۔کیونکہ اخلاق باختہ ہونے میں بھی سیاسی سماجی اور معاشی عوامل کا پورا عمل دخل ہوتا ہے۔

اس مسئلے کو سیاست سماجی اور معشیت کے تناظر میں دیکھ کر ہی کسی نہ کسی سمت قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔