بیروت سے ویلنٹائن ڈے بلکہ بزبانِ عربی ”عید الحب“ کی تہنیت

عثمان قاضی

دوستوں کی خدمت میں بیروت سے ویلنٹائن ڈے بلکہ بزبانِ عربی ”عید الحب“ کی تہنیت۔ کچھ پیشہ ورانہ مصروفیات اور کچھ دمشق میں بی بی حیا الخیام کی عید الحب کی کارکردگیوں سے عدم رغبتی کے سبب یہ خادم اس دن سرحد پار لبنان آگیا۔ جیسا کہ گزشتہ مراسلے میں عرض کیا، یہ خادم ویلنٹائن ڈے کے بدیسی ہونے اور اس کے ایک عالمی کاروباری مظہر بن جانے سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود اس معاملے میں بھی شخصی پسند کا قائل ہے۔ اس خادم کے نزدیک اس دن کے عید الحب ہونے کا سبب اس کا ہمارے محبوب شاعر فیض احمد فیض کی سالگرہ کے آس پاس ہونا ہے۔ بیروت نگارِ بزمِ جہاں کا فیض صاحب سے محبوبانہ تعلق ہر ”فیض یافتہ“ دوست کو معلوم ہے۔ خادم کا جن سے ویلنٹائن ڈے کا رشتہ ہے، ان میں سے کوئی قریب نہ تھا، سو سوچا کہ ”اگرچہ تنگ ہیں اوقات، سخت ہیں ایام۔ تمہارے نام سے شیریں ہے تلخی ایام“۔ گنگناتے ہوئے عید الحب کو یومِ فیض کے نام کیا جائے۔

ہمارے ایک یارِ طرح دار، ڈاکٹر عارف آزاد صاحب چند ماہ سے بیروت میں مقیم تھے۔ تنگیِ اوقات اور سختی ایام کا اندازہ اس سے کیجیے کہ اب تک ان کے نیاز حاصل نہ ہو پائے تھے۔ یہ خادم ایک آدھ بار بیروت آیا تو ڈاکٹر صاحب عمان گئے ہوئے تھے۔ اس مرتبہ اتفاق ہوا کہ ہم دونوں اسی شہر میں تھے، سو انہیں نیوتا دیا کہ فیض صاحب کے پسندیدہ قہوہ خانے، کیفے یونس پر ٹھیکی لگائی جائے۔ موسم چند خوش گوار رہنے کے بعد اچانک سرد ہوگیا، پہاڑوں پر برف باری اور شہر میں باد و باراں کا سلسلہ جاری ہوا، سو شہر میں ویلنٹائن ڈے کا خروش چنداں نظر نہ آیا۔ سہ پہر تک اکثر سجی سجائی دکانیں گاہکوں کی منتظر تھیں جو شام ڈھلتے کچھ رونق اپنی جانب متوجہ کر پائیں۔

کیفے یونس والوں کا دعوی ہے کہ یہ اس علاقے میں اپنی طرز کا پہلا قہوہ خانہ ہے جو سن انیس سو پینتیس سے مغربی طرز کی کافی اہلِ لبنان کو پیش کر رہا ہے۔ روایت کے مطابق یہ فن دکان کے بانی یونس صاحب نے قیام برازیل کے دوران سیکھا تھا جسے وہ اپنے ساتھ وطن لے آئے۔ فیض صاحب کی زیرِ ادارت نکلنے والے، افرو ایشیائی ادبی مجلے ”لوٹس“ کا دفتر الحمراء نامی محلے میں اس قہوہ خانے کے قریب ہی واقع تھا جسے سن بیاسی میں اسرائیلی قبضے کے فورا بعد ڈھا دیا گیا اور فیض صاحب اہلِ خانہ کے ہمراہ بمشکل جان بچا کر نکل پائے۔

محترم عارف آزاد کیفے یونس میں منتظر تھے۔ موسم سرد تھا اور مزاج بلغمی پایا ہے، سو اگرچہ مرزا غالب تو اسے کسی اور مشروب کا محل بتا گئے ہیں مگر ہم نے بوجہ بے توفیقی تلخ کافی کے فنجان منگوائے اور ان پر فیض صاحب کی شیریں یادوں سے تلخی کو شیریں کیا۔ ماکولات و مشروبات کی فہرست میں ایک باب چائے کا بھی تھا جس کے عنوان میں پاکستان کے ایک معروف قبیلے کا نام دیکھ کر حیرت ہوئی۔ محترم محمد اظہار الحق، برادرم شاہد اعوان اور عاصم اعوان کو یاد کیا اور چل نکلے۔ واپسی پر عید الحب کے جستہ جستہ نظارے بھی کیمرا کی آنکھ میں اتارے جو پیشِ خدمت ہیں۔