برطانیہ میں بچوں کو کھانے اور رات کو موبائل فون سے دور رہنے کی ہدایت


موبائل فون

Getty Images

برطانیہ میں طب کے شعبے سے وابستہ چار سینیئر افسران کا کہنا ہے کہ کھانے کی میز اور سونے کے اوقات میں موبائل فونز پر پابندی ہونی چاہیے اور اس کا شمار اس نوعیت کے آلات کے حوالے سے صحت مندانہ رجحان اپنانے کے زمرے میں کیا جائے۔

حکومت کے معاونین کا یہ کہنا تھا کہ بچوں کو چاہیے کہ وہ سکرین پر کام کرتے ہوئے ہر دو گھنٹے بعد وقفہ ضرور کریں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کمپنیاں بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مزید اقدامات کریں۔

حکومتی معاونین کے یہ رہنما اصول ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب انگلش ہیلتھ سیکریٹری ماٹ ہنکاک، انسٹا گرام کے منتظمین سے اپنے آپ کو نقصان دینے اور خود کشی سے متعلقہ مواد سے نمٹنے کے امور پر بات چیت کرنے جا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’والدین بچوں کے سکرین ٹائم کی وجہ سے زیادہ پریشان نہ ہوں‘

کیا آپ اپنے موبائل فون سے دوری برداشت کر سکتے ہیں؟

ٹیکنالوجی کی لت کیسے ہمارے دماغ کو آلودہ کر رہی ہے؟

نوعمر لڑکی مولی رسل کی خود کشی اور انسٹاگرام پر نقصان دہ مواد ،جو ان کی پہنچ میں تھا، کے درمیان تعلق کے حوالے سے کڑیاں جوڑی گئی ہیں۔ ان کے والد نے کہا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ فیس بک کے اس پلیٹ فارم (انسٹاگرام) نے ‘ان کی بیٹی کو مارنے میں مدد کی ہے’۔

مولی رسل

BBC
مولی رسل کی خودکشی کے بعد ان کے خاندان کو ان کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر پریشان کن مواد کی موجودگی کا پتہ چلا

برطانیہ کی چیف میڈیکل آفیسر پروفیسر ڈیم سیلی ڈیوس کا کہنا ہے کہ یہ ‘المناک’ واقع ہے اور اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ کچھ بچے نامناسب مواد دیکھ پاتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اداروں کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کریں اور یہ کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو استعمال کرنے کے حوالے سے عمر کی حد سے متعلقہ ضابطوں کو صحیح معنوں میں لاگو کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بچوں کو نقصان دہ مواد کی جانب جانے سے روکا جائے۔

لیکن ڈیم سیلی کہتی ہیں کہ شواہد کی جانچ پڑتال سے سکرین پر ہونے والی سرگرمیوں اور دماغی صحت کے مسائل میں تعلق ثابت نہیں ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اچھے کاموں جیسا کہ آن لائن تعلیم حاصل کرنے، سماجی رابطوں اور لوگوں کو درپیش ذہنی مسائل کوحل کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔

والدین کے لیے رہنما اصول

والدین کے لیے کافی تعداد میں واضح مشورے ہیں، جو کہ چیف میڈیکل آفیسرز کے مطابق بچوں کو محفوظ اور صحت مند رکھنے میں مدد کریں گے، مثلاً:

  • خاندان کے افراد سے بات چیت بچوں کی نشوو نما کے لیے بہت اہم ہے اس لیے کھانے کی میز پر فون اور اس قسم کے آلات کو استعمال نہ کیا جائے۔
  • ہر قسم کی سکرینوں کو سونے کے اوقات میں کمروں سے باہر رکھا جائے۔
  • خاندان کے افراد اس حوالے سے بات کریں کہ آن لائن محفوظ کیسے رہا جا سکتا ہے اور اگر بچے پریشان ہیں تو انھیں کیا کرنا چاہیے۔
  • سڑک عبور کرتے ہوئے یا کوئی بھی ایسا کام کرتے ہوئے جو آپ کی بھرپور توجہ چاہتا ہو فون استعمال نہ کریں۔
  • اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سکرین پر کام کرنے کے دوران بچے ہر دو گھنٹے کے بعد وقفہ لیں اور چہل قدمی کریں۔
  • اس حوالے سے اپنی عادات بھی درست رکھیں، والدین اپنے بچوں پھر بھرپور توجہ اور خاندان کو وقت دیں اور کبھی یہ خیال نہ کریں کہ صرف تصاویر شئیر کرنے سے وہ خوش ہو جائیں گے۔

کیا نئی قانون سازی کی ضرورت ہے؟

ڈیم سیلی کہتی ہیں کے ضابطہِ اخلاق کی یقیناً ضرورت ہے۔

وہ چاہتی ہیں کہ ٹیکنالوجی کمپنیاں اس سلسلے میں بھی سرمایہ کاری کریں تاکہ صارفین کی عمر کا بہتر تعین ہو سکے۔ انھوں نے کہا کہ بہت سے پلیٹ فارمز کو استعمال کرنے کے لیے صارف کی کم از کم عمر 13 سال ہے لیکن اس اصول کو صحیح معنوں میں لاگو نہیں کیا جاتا۔

رہنما اصولوں میں ‘ترغیب دلانے والی تجاویز’ کا بھی تنفیدی جائزہ لیا گیا ہے۔

اس کا تعلق اس تکنیکی مہارت سے ہے جو کسی چیز کا عادی کر دینے والے طرزِ عمل، مثال کے طور پر کسی مخصوص عمل کے ردِ عمل میں لائیکس اور انعامات جیتنے کے رجہان کو جنم دیتی ہے۔

ڈیم سیلی سماجی رابطوں کے اداروں سے یہ بھی چاہتی ہیں کہ وہ اس طرح کی ٹیکنالوجی بھی استعمال کریں جو مثبت مواد کو صارفین کی طرف بھیجے۔

ان صارفین کے لیے جو خاص قسم کا مواد تلاش کرتے ہیں اس قسم کے اقدامات بھی کیے جا چکے ہیں، خاص طور پر ایسا مواد جو ان کوانتہا پسندی کی طرف مائل کر سکتا ہے۔

جو مواد دہشت گردی کو پروان چڑھاتا ہے، اس کے بجائے صارفین کو وہ مواد مہیا کیا جا سکتا ہے جو انتہا پسندی کی نفی کرتا ہے۔

ڈیم سیلی کہتی ہیں کہ جب لوگ ‘اپنے آپ کو نقصان پہنچانے’ یا ‘خود کشی’ کی ترغیب دینے والا مواد سرچ کرتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔

وہ کہتی ہیں ‘ہم ایسا مواد دیکھنا چاہتے ہیں جو ہیلپ لائنز کو فروغ دے اور جہاں سے مدد مل سکے۔’

انھوں نے تنبیہ کی کہ انڈسٹری نے ایسا نہ کیا تو حکومتی وزیر قانون سازی کے ذریعے انڈسٹری کو مجبور کر سکتے ہیں۔

ڈیم سیلی نے کہا ‘ہمارے بچوں کو محفوظ کرنے کے لیے انھیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔’

‘خیال رکھنا ان کی ذمہ داری ہے، اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو میں حکومت سے توقع کرتی ہوں کہ وہ انھیں بتائے کہ اس کو کیسے ٹھیک کرنا ہے۔’

انٹرنیٹ کمپنیز کیا کہتی ہیں؟

فیس بک نے ان رہنما اصولوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ نو عمر لوگ آن لائن رہتے ہوئے محفوظ رہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک نیا ذریعہ متعارف کروایا ہے جس سے صارف یہ پتہ چلا سکتے ہیں کہ فیس بک اور انسٹاگرام پر انھوں نے کتنا وقت صرف کیا ہے۔

ٹوئٹرکے مطابق انھوں نے سنہ 2018 میں 70 تبدیلیاں متعارف کروائیں ہیں جو کہ ‘سروس کو صحت مند اور محفوظ بنانے کے لیے’ ہیں۔

کیا روزانہ استعمال ذہنی صحت کے مسائل پیدا کر سکتا ہے؟

چیف میڈیکل آفیسر نے ماہرین کی ایک ٹیم کے ذریعے اس حوالے سے ہونے والی تحقیق کی تصدیق کرنے کی کوشش کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیق کے ایک حصے نے سکرین پر ہونے والی سرگرمیوں اور منفی اثرات جیسا کہ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کے درمیان تعلق کی جانب اشارہ کیا ہے، تاہم یہ ابھی نامکمل ہے۔

بچے موبائل فونز استعمال کرتے ہوئے

Getty Images

ڈیم سیلی کہتی ہیں اس کا امکان زیادہ ہے کہ وہ افراد جو ذہنی صحت کے حوالے سے مسائل کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں وہ الیکڑانک آلات کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں بجائے ان کی وہ عادات جو مسائل کی جڑ ہوتی ہیں۔

ڈیم سیلی کہتی ہیں کہ اس کے باوجود جب تک مزید تحقیق نہیں ہو جاتی، حفاظتی تدابیر کی ضرورت ہے۔

ذہنی امراض کے ماہرین کی تنظیم رائل کالج آف سائیکاٹرسٹس کے ڈاکٹر برناڈکا ڈوبیکا کہتے ہیں کہ میڈیکل آفیسرز کے محتاط رہنے کی تجویز درست ہے۔

وہ کہتی ہیں ‘ہمارے پاس کافی شواہد موجود نہیں ہیں جو سکرین پر گزارے جانے والے وقت اور ذہنی صحت کے مسائل کے درمیان تعلق کو واضح کر سکیں، تاہم یہ واضح ہے کہ کچھ مواد جو نوجوان آن لائن دیکھ رہے ہیں، جیسا کہ خود کشی اور خود کو نقصان پہنچانے والا مواد، وہ کافی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔’

چیف میڈیکل آفیسرز کے رہنما اصول ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب گذشتہ ماہ بچوں کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ والدین سکرین پر گزارے جانے والے وقت کے حوالے سے کم پریشان ہوں کیونکہ ایک جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ اتنا نقصان دہ نہیں ہے۔