عشق کا کوئی دین دھرم نہیں ہوتا!

زبیدہ بروانی

اسلام آباد کی سرد رات تھی نیند آنکھوں سے کوسو دور تھی کتاب پڑھتے پڑھتے میرا جی اُکتا گیا تھا میری سائیڈ ٹیبل پر پڑے ہوئے موبائل فون پر پڑی میں نے سوچا یہ سیل فون بھی کیا چیز ہے کبھی کبھی یہ بھی وحشت کا باعث بنتا ہے۔

میں نے اپنا فون آن کیا اور میری انگلیاں کی پیڈ پر تیز تیزچل رہی تھیں، اچانک میری انگلیاں رک گئی فیس بک پے ایک پوسٹ اچانک میری نظروں کے سامنے سے گزری جس میں دو جسم خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور ساتھ میں یہ لکھا ہوا تھا کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے پیار کرتے تھے پر شادی نہ ہونے پر لڑکے نے پہلے لڑکی کو مارا پھر خود کو بھی گولی مار دی۔ میری انگلیاں مجھے پتھر جیسی لگنے لگی میری روح لرزاُٹھی میرا جسم ساکت ہوگیا۔ پھر حسبِ معمول کیمینٹس کی بوچھار شروع ہوگی تھی ہر کوئی اپنے طریقے سے بات کررہا تھا کچھ ایسے افراد بھی تھے جن کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ جیسے یہ فیصلا ان کی مشورہ سے کیا گیا تھا یا وہ ان کے ساتھ تھے۔

لیکن میں دودن تک کچھ کہنے کے قابل نہیں تھی اورخاموش سے اپنے آپ میں خود کو تلاش کرتی رہی! مجھے نہیں معلوم اس واقعے کا صحیح پس منظر کیا ہے۔

پرایک سوال اؐس دیوانے سے کہ تم نے یہ کیا کر ڈالا؟ اپنی ہی محبت کے قاتل ہونے کا تمغہ اپنے ہی سینے پہ کیسے سجا لیا! اس ماتھے پہ گولی کیسے چلائی جس ماتھے پہ کبھی بندی تیرے نام کی سجائی ہوگی۔ ! تم ایک جنونی عاشق ضرور تھے لیکن عشق کی اؐس معراج تک تمہاری رسائی نہیں ہوسکتی تھی۔ تم عشق کی کتاب کے اؐس صفحہ اول پر تھے جہاں حاصلات کا سبق درج تھا، لیکن اؐس سے بھی آگے ایک اور صفحہ ہے جس پر لاحاصل عشق کا سبق درج ہے۔ اور وہان تم پہچ نہیں سکے، کبھی عشق حاصل ہوتا نہیں اور لاحاصل بھی ہو جاتا ہے، جہاں بولنا، ملنا اور دیکھنا سب کی حیثیت ثانوی ہوجاتی ہے! پھر بھی وہ لوگ عشق کرتے ہیں، عشق تو احساس ہی زندگی کا اور زندہ رہنے کا۔

پر تم نے یہ طریقہ چؐنا اپنے محبو ب کو پانے کا، تمارے طریقہ کار پر اعتراض موجود ہے پر تمہارے دیوانے پن پر کوئی شک نہیں اپنی جان بھی تو لے لی۔ تم نے اؐن آنکھوں کو کیسے بند کیا جس میں تم خود ہی دکھتے بھی تھے، محبوب کی آنکھ کا تو کوئی متبادل ہی نہیں ہوتا۔ تم تو واحد محافظ تھے ان انکھوں کے پھر کیوں اپنے ہی چراغ سے جلا ڈالا اپنا آشیانہ۔ یہ آخری ملاقات بھی کیا چیز ہوتی ہے، او محبوب لڑکی تم یقیناً اس کے جنون کو جانتی ہوگی پھر بھی ملنے گئی کیوں کہ تمہارے نزدیک یہ اہم تھا۔ تم بہت اونچے درجے پے تھی جس نے من کے مندر میں ایک محراب بھی بنا رکھا تھا۔ ورنہ یہاں تو یہ سب کسی نہ کسی کی جاگیریں بن گئی ہیں۔

میں نے اس رات کئی مذاہب پر لکھی ہوئی کتابیں کھول کر دیکھی ہر ایک میں عشق موجود تھا پرعشق میں کوئی کتاب نہیں تھی! لیکن یہاں پر ایک سوال ضرور اؐٹھتا ہے کہ ہم اس جدید دور میں آخر بستے کہاں ہیں، جدید دور کی ٹیکنالوجی ہو یا پہنانا اڑھنا ہو بہت جلدی اپناتے ہیں لیکن جس روشن خیالی کو اپنانے کی بات آتی ہے تو ہم دیر ہی نہیں لگاتے اپنے دقیانوسی خانوں میں پناہ لے لیتے ہیں۔

یہ واقعات ہمیں آئینہ دکھا رہے ہیں اور عکاسی کر رہے ہیں سماج میں موجود ان تمام مسائل کی جنہیں ہم نے خود پیدا کیا ہیں اور ہم ان کو بدلنے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔ مجھے تو یہاں ریاست کا بھی کردار نظر نہیں آتا جو اپنی عوام کو تحفظ فراہم کر سکے ایک کمزور ڈھانچے کا حصہ ہیں ہم۔

شادی ایک سماجی معاہدہ ہے اور یہ دو افراد کے بیچ کا معاہدہ ہے جسے وہ کبھی بھی اپنی باہمی مرضی سے اپناتے اور ختم کر سکتے ہیں۔ پھر ہم نے کیوں سماجی مذہبی بندشیں لگا رکھی ہیں۔ ہم قبریں کھودنے اور چتا جلانے کے لئے تو تیار ہیں پر زندہ لوگوں کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دینے کے لئے تیار نہیں۔ ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے وہ کچھ نہیں جانتا کہ وہ کون ہے سب کچھ ہم گھروں سے سکھاتے ہیں کہ تم کون ہو؟ تمہارا مذہب کیا ہے؟ پھر کان میں ایک سرگوشی کی جاتی ہے۔ عشق کبھی نہیں کرنا۔ اگرغلطی سے کر لو تو اس عشق کا مذہب ضرور پوچھ لینا۔

یہ سرگوشی میرے کان بھی ہوئی تھی پر میرے اندر اور کئی طوفان برپا تھے اور یہ سرگوشی ان طوفانوں میں کہیں ڈوب گئی۔ میں نے تو یہ بات ان سؐنی کردی۔ پر ہر کوئی نہیں کرتا۔ کسی کا کسی کو اچھا لگنا ایک فطری جذبہ ہے۔ جتنا روکو گے بغاوت کا طوفان اؐتنی تیزی سی ابھرے گا۔ یہ واقعہ فقط محبت کا واقعہ ہے خدارا اس کو کوئی اور رنگ مت دو۔ ہم پہلے ہی آگ کے جلے ہوے ہیں نفرت کی مزید آگ مت بھڑکاؤ۔

اس چتا کی راکھ پہ اور اؐس قبر پہ یہ ضرور لکھنا کہ کبھی عشق نہیں کرنا! کیوں کہ عشق کا کوئی دین دھرم نہیں ہوتا ہے۔ !