صنفِ نازک بھی تو محسن ہے مسیحائی کی

ارم نقوی
ڈاکٹر عطیہ ظفر سید

آج چودہ فروری ہے۔ اس تاریخ کی یہاں یاد آوری پر سب قارئین کے اذہان میں یہ یقینا یہ خیال لپکا ہو گا کہ شاید میں یہاں ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے کچھ لکھنا چاہ رہی ہوں۔ ۔ جی ہاں یہاں محبت ہی کو زیرِ بحث لایا جائے گا لیکن یہ محبت ویلنٹائن ڈے سے منسوب محبت سے بھی کئی درجہ بلند مقام رکھتی ہے کیونکہ یہ انسانیت سے محبت رکھنے والی ان عظیم خواتین کا تذکرہ ہے کہ جنہوں نے مختلف ادوار میں اپنے اپنے معاشرے میں موجود دکھی انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لئے اٹھیں اورعورت ہونے کے باوجود اپنی ذہانت، اپنی محنت اور اپنی ہمت سے آگے بڑھ کر طب کے میدان کی تاریخ میں بحیثیت خواتین فتح و ظفر کے باب رقم کیے۔

چودہ فروری کو ان خواتین کا ذکر کرنے کا خیال اس لئے آیا کہ آج ہی کے دن ایک ایسی ہی باہمت خاتون ڈاکٹر عطیہ ظفر سید کی برسی منائی جاتی ہے کہ جنہیں خراج پیش کیے بغیر ہم پاکستان کے شعبہِ طب کی ان محسن خواتین کا ذکر مکمل نہیں کر سکتے جنہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد کی پہلی دھائی میں اس پسماندہ معاشرے میں شعبہِ طب کو مستحکم و مربوط بنانے کے لئے اپنے قوتِ ارادی سے پیش قدمی کی۔ ڈاکٹر عطیہ ظفر سید کی سوانح سے آگاہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ فقط ایک باہمت خاتون نہیں بلکہ معجز نما خاتون تھیں۔

1930 ء میں صوبہ بہار کے ایک دور افتادہ گاؤں دیسنہ میں جنم لینے والی عطیہ خاتون۔ جو 13 سال کی عمر میں بیاہ دی گئی اور جو 1953 ء تک وہ بظاہرچار بچوں کو سنبھالے ہوئے فقط ایک سگھڑ خاتونِ خانہ تھیں جسے تعلیمی لحاظ سے فقط قرآن پڑھنا ہی آتا تھا اور واجبی سی اردو۔ توآخر کیا معجزہ رونما ہوا کہ اس نے اپنے شوہر کی بھرپور معاونت کے باعث پہلے میٹرک کیا اور پھر اگلے پانچ چھ سال میں میڈیکل کی تعلیم مکمل کر کے اپنی زندگی کو ایک بالکل نئی اور مستحکم نہج پر لا کھڑا کیا۔

اور پھر اسی نہج پر چلتے ہوئے ان کی اولاد کی صورت میں اس گھر سے مزید طب کے شعبے میں مزید آٹھ چراغ روشن ہوئے۔ اور یہ سلسلہ رکا نہیں اور اس گھرانے کا میرٹ ہی طب کی تعلیم ٹھہرا اور آج اس گھر کے ( بہویں، داماد، پوتے، پوتیاں ) پچاس کے قریب افرادطبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بلاشبہ ڈاکٹروں کایہ گھرانہ ہمیشہ اپنے نوعیت کا منفرد اور یکتا گھرانہ رہے گا۔

ہم اس تحریر میں ڈاکٹر عطیہ ظفر سید کی زندگی کی کہانی بھی بیان کرنی ہے لیکن ساتھ میں شعبۂ طب کی تاریخ میں مختلف ادوار سے نمایاں مقام کی حامل خواتین کا تذکرہ کرنا ہے کہ جن کی کوششوں کے طفیل روئے زمین کے کسی نہ کسی خطے پرقافلۂ انسانی میں شامل دکھی اور بیمار انسانوں کے دکھوں کو بانٹنے والی کروبی صفت مسیحا خواتین میسر آئیں۔

علمِ طب و جراحت کی تاریخ یقینا قافلہِ انسانی کے ارتقائی سفر کی تاریخ جتنی ہی قدیم ہو گی تاہم یہ فیصلہ کرنا بھی کچھ دشوار نہیں کہ عورتوں نے اس میدان میں کب سے قدم رکھا۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ مصر میں قبلِ مسیح کی تہذیبوں میں بھی عورتیں بحیثیت مڈ وائف (دائی) سماجی خدمت گار رہی ہیں۔ لہذا صنفِ نازک بھی بہر طور ہمیشہ سے کارِ مسیحائی میں جزوی طور پر شامل رہی ہے۔ تاہم جدید طب کی دنیا میں پہلا نام جس نے جدید طب و جراحت میں باقاعدہ لیڈی ڈاکٹر کی ڈگری پائی، یہ نام ہمیں انیسویں صدی کی تیسری دھائی کے بعد سے ملنا شروع ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہے۔

اگر ہم اوپر دیے گئے اعداد و شمار پر سرسری نگاہ ڈالیں تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ اگر چہ یورپ میں اٹھارویں صدی کے وسط میں جرمنی کی ڈاکٹر دوروتھیا ارکسلیبن نے جدید طب کی پہلی خاتون ڈاکٹر ہونے کی سند پائی تاہم اسلامی دنیا کی خواتین میں ترکی میں ڈاکٹر صفیہ علی نے جنگِ بلقان اور پہلی جنگِ عظیم میں بطور ڈاکٹر خدمات انجام دیں اور جدید دور کی پہلی مسلمان خاتون ڈاکٹر کہلائیں۔

لیکن ہم یہاں بات کریں گے خطۂ ہند کی کہ جہاں ہندو مت کی جڑیں ایک قدامت پسند معاشرے کوپروان چڑھا چکی تھیں۔ عورت کے کردار کی آزادی تواہمات و رسومات کے قلعوں میں مقید تھی۔ یہاں کی عورت خواہ ہندو گھر کی تھی یا مسلمان گھر کی اس کے لئے یہ ایک بہت مشکل امر تھا کہ پسماندہ معاشرے کی پھیلائی گئی گھٹن کے مقابل اٹھ کھڑی ہو اور عورت کے لئے جدید تعلیم خصوصا شعبۂ طب سے وابستگی کی اہمیت کو اپنے عمل سے اجاگر کرے۔ اگرچہ یہ بہت کٹھن مرحلہ تھا لیکن ناممکن نہیں تھا لہذا ہم نے دیکھا کہ اس گھٹن زدہ معاشرے میں بھی طب کے شعبے چند مثالی کردار انیسویں صدی کے ا ٓخر میں سامنے آگئے تھے۔

کادمبنی پہلی جنوب ایشیائی خاتون معالج تھیں جنہوں نے مغربی طب کی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ کادمبنی بوس کی شادی 1883 ء میں آزادی نسواں کے علم بردار اور برہمو مصلح دوارکاناتھ گانگولی ہوئی۔ دونوں میاں بیوی نے مل کر ہندوستانی عوام اور خصوصاً مشرقی ہندوستانی خواتین کی فلاح و بہبود اور ان کی ترقی کے لیے خوب کام کیے۔

ڈاکٹر آنندی گوپال جوشی ( 1865۔ 1887 ) کہ جن کی شادی نو سال کی عمر میں گوپال راؤسے ہوئی تھی۔ جب 14 سال کی عمر میں وہ ماں بنیں اور ان کی پہلی اولاد کی موت 10 دنوں میں ہو گئی تواس شدتِ غم کوکم کرنے کے لئے انہوں نے خود سے عہد کیا کہ وہ ایک دن ڈاکٹر بنیں گی اور اس طرح کی المناک اموات کو روکنے کی کوشش کریں گی۔ ان کے شوہرنے ان کی حوصلہ افزائی کی، ہر ممکن تعاون کیا۔ جبکہ اس گھٹن زدہ معاشرے میں ان پر خاصی تنقید بھی ہوئی تھی کہ ایک شادی شدہ ہندو عورت کسی بیرونی ملک (پنسلوانیا) جاکر ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرے۔

لیکن باہمت آنندی نے ان تنقیدوں کی ذرا بھی پروا نہیں کی اور 21 سال کی عمر میں وہ ڈاکٹر بن چکی تھیں۔ ڈگری مکمل کرنے کے بعد جب آنندی بھارت واپس لوٹیں۔ تو ان کی صحت گرنے لگی اور کچھ ہی دنوں میں وہ صرف بائیس برس کی عمر میں قضائے ناگہانی نے آن گھیرا۔ تاہم ان کا نام اپنے عہد کی مشاہیر خواتین میں سرِ فہرست رہے گا۔

ہم مزید اس خطے کی تاریخ کھنگالیں تو بنگال کے راج نندگاؤں میں ڈاکٹر زہرا بیگم قاضی ( 1912۔ 2007 ) کا بھی تذکرہ ملتا ہے جو کہ بنگال کی پہلی خاتون ڈاکٹر تھیں اور ان کے والد قاضی عبدالستار بھی ڈاکٹر اور سیاستدان تھے۔ 1935 ء میں ایم بی بی ایس کی ڈگری پانے والی وہ غا لباً خطہ ہند کی پہلی مسلمان لیڈی ڈاکٹر بھی تھیں۔ مزید اعلیٰ طبی تعلیم برطانیہ جا کر حاصل کی۔ وطن واپسی پر ڈھاکہ میڈیکل کالج اور ہسپتال سے وابستہ ہوئیں۔

بلاشبہ ایک صدی پہلے اس خطے کیتمام خواتین کے لئے ایسی باہمت اور ذہینخواتین ڈاکٹرز کا باقاعدہ اس شعبے کو اپنانا ایک فکری بیداری اور حریت کا پیام تھا۔ تاہم وقت کسی کا کبھی رک کر انتظار نہیں کرتا، وقت کی روانی اور تاریخ کی کہانی 1886 ء یا 1935 ء کی بہادر، باہمت، قابل اور ذہین خواتین تلک آ کر نہیں رکی بلکہ علم و آگہی کا سلسلہ جاری رہا۔ اس خطے کے روایتی اور قدامت پرست معاشرے کی عورت کے لئے سینہ بہ سینہ بیداری کے چراغوں کے جلنے کا عمل توانیسویں صدی کے آخرمیں آغاز پاچکاتھا لیکن ابھی تو اس میں مزید معجز نما چہرے نمودار ہونا باقی تھے۔

لہذا اس خطے کی خواتین میں علم دوستی اورآگہی و بیداری کی یہ کہانی چلتے چلتے اس باہمت خاتون تلک بھی آن پہنچی کہ جو اپنی ذہانت اور چٹان حوصلے کے باعث اس محبوس معاشرے کے لئے قدرت کا بہترین عطیہ ثابت ہوئیں۔ ۔ ڈاکٹر عطیہ ظفرسید، اپنے عہد کے افقِ طب پرابھرنے والا ایک جگماتا ستارہ اور ایک روایت پرست معاشرے میں شعور و آگہی کی لَو بکھیرنے والا ایک روشن ترین چراغ۔

بہت جی چاہ رہا ہے کہ آج ذرا مفصل ذکر ہو جائے اس دلیر، ذہین اور صاحبِ فکر خاتون کا جس کی 84 سالہ زندگی سے وابستہ تمام تر روشن پہلوؤں اگرچہ یہاں ان محدود سطور میں ناکافی ہو گا۔ تاہم ایک کوشش کی جائے گی کہ ڈاکٹر عطیہ ظفر کے ہدف ِ زندگی پانے کی کٹھن جدوجہدکچھ مختصر مگر بلیغ الفاظ میں پیش کرنے میں قلم بھی بلاغت سے رواں ہو سکے۔

ہم ڈاکٹر عطیہ ظفر کی زندگی کے اس پہلو کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ عطیہ خاتون کے ڈاکٹر عطیہ ظفر بننے کے خواب کو بر لانے میں بھی ان کے شوہر کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عطیہ خاتون کے سسرال میں ان کی سوتیلی ساس ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں، انہوں نے بھی عطیہ خاتون کے دل میں موجود پڑھنے لکھنے کی لگن کی حوصلہ افزائی کی۔ گویا معاشرے کی پسماندہ سوچ کا مقابلہ اسی صورت کیا جا سکتا ہے جب کم از کم خاندان کے افراد میں ہی روشن خیالی کی رمق موجود ہو۔

البتہ ان حالات کو بھی ذہن میں رکھیئے کہ تقسیم ہند سے چند ماہ بعد 1947 میں ہی جب ابو ظفر سید اپنی بیوی عطیہ ظفر اور دو بچوں ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آ ئے تو ان کی کل پونجی، دولت اور اثاثہ ان کے یہی اہلِ خانہ تھے۔ عطیہ ظفر سید اپنے شوہر کے ساتھ لیاری کے علاقے چاکیواڑہ میں ہزاروں مہاجرین کی طرح جھگی ڈال کر رہنے لگیں۔ اس وقت ان کے شوہر ایف اے پاس تھے (بعد ازاں ایم اے تک مزید اعلی تعلیم پائی ) ۔

پاکستان آنے کے بعد ابو ظفر سید صبح اسکول میں تدریس اور شام کے وقت لوگوں کی درخواستیں اور خط ٹائپ کر کے معاشی گزر بسر کرنے لگے۔ 1953 میں جب کہ عطیہ ظفر کے ہاں اب چار بچے موجود تھے ایسے میں شوہر کی اجازت پانے کے بعد میٹرک کرنے کی حامی بھرنا وہ پہلا قدم تھا جس کے طفیل ڈاکٹر عطیہ ظفر سید کی زندگی اپنے ارد گرد کی دکھی انسانیت کے لئے خیر، سلامتی اور ہمدردی کا معدن قرار پا گئی۔

ہمیں اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ اگرچہ شادی کے وقت عطیہ خاتون کو فقط قرآن پڑھنا ہی آتا تھا اور واجبی سی اردو۔ مگر لاریب کہ وہ حد درجہ قابل اور ذہین خاتون تھیں لہذا اپنے شوہر سے میٹرک کی اجازت ملنے کے محض دو سال میں انہوں نے ادیب عالم /ادیب فاضل کے امتحانات کے ساتھ انگلش کا امتحان دے کر 1955 میں میٹرک کر لینا ان کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

ان کے شوہر نے عطیہ خاتون کے اسی رجحان کو جب دیکھا تو انہیں محض میٹرک کی بعد تدریس کرنے کی بجائے مزید تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر بننے کا مشورہ دیا۔ اس سلسلے میں انہیں مشرقی پاکستان میں سلہٹ کے میڈیکل اسکول میں داخلہ مل گیا۔ ابوظفر سید انہیں تمام بچوں کے ساتھ سلہٹ میں ہی چھوڑ آئے اور خود کراچی میں اسکول کو سنبھالا۔ جبکہ عطیہ ظفر کی والدہ اور بہن نے ہندوستان سے آکر ان کے ساتھ وہاں قیام کیا تاکہ وہ بچوں کو سنبھالیں اور عطیہ ظفر اپنی تعلیم یکسوئی سے مکمل کر سکیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عطیہ کی والدہ اور بہن کا تعاون بھی بہر طور ہمیشہ قابلِ ستائش رہے گا۔

عطیہ ظفر نے 1959 ء میں (تقریباً ساڑھے چار سال) میں ایل ایس ایم ایف کا کورس مکمل کر لیا۔ اس کے بعد وہ کراچی آ گئیں اورایم بی بی ایس کی ڈگری کی ٖغرض سے ابتدائی طورپران کا فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں میڈیکل کے چوتھے سال میں داخلہ ہوا اور تین ماہ کے بعد ان کا ٹرانسفر کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج میں کر دیا گیا۔ وہاں جب وہ چوتھے سال کا امتحان پاس کرکے پانچویں سال میں پہنچیں تو ان کے بڑے بیٹے ٹیپو سلطان کاداخلہ بھی ڈاؤمیڈیکل کالج میں ہوا جہاں دونوں ماں بیٹا ایک سال تک ایک ہی کالج میں پڑھتے رہے۔ یقینا ان کی زندگی کا یہ پہلو بھی بہت منفرد اور یکتا رہے گا۔

عطیہ ظفر سید نے 1962 ء ایم بی بی ایس کے بعد کراچی کے سول ہسپتال میں ہاؤس جاب کیا اورلیاری میں ہی ایک کلینک کا آغاز کر دیا۔ 1965 ء کی جنگ کے بعد عطیہ ظفر سید کوڈسٹرکٹ کونسل میں بحیثیت ڈاکٹر نوکری مل گئی اور انہوں نے نوکری کے ساتھ ساتھ ملیر میں ہی ایک کلینک بھی شروع کردی۔ اس زمانے میں پورے ملیر اوراس کے نواح میں کوئی بھی لیڈی ڈاکٹر نہیں تھی۔ جلد ہی وہ پورے علاقے میں مقبول ہوگئیں اورانہوں نے اپنے شفاخانے کے ساتھ ایک چھوٹا سا میٹرنٹی ہوم کھول لیا جو آہستہ آہستہ بڑا ہوکر جنرل ہسپتال کی شکل اختیار کرگیا۔ آج وہ عطیہ ہسپتال کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ڈاکٹر عطیہ ظفر طب کے شعبے کا ایک بے مثل چراغ جو 14 فروری 2014 ء کوبظاہر چشمِ زمانہ سے اوجھل ہو گیا لیکن اس کی روشنی کا عکس ابھی تلک نہ صرف ان کے خانوادے میں دکھائی دیتا ہے بلکہ ان کا پیامِ مسیحائی آج بھی عطیہ جنرل ہسپتال، عطیہ اسکول آف پیرا میڈکس، عطیہ اسکول آف مڈوائفری اور عطیہ اسکول آف نرسنگ کی صورت میں گواہی دے رہا ہے کہ خیر کی بات سوچنا اور خیر کوپھیلانا خدا شناسی کی وہ معراج ہے کہ جس کا ثمر اس دنیا میں بھی ملتا ہے اور اور اگلے جہان میں بھی ملتا رہتا ہے۔ لاریب کہ عطیہ ہسپتال کو منظم کرنے لیے ڈاکٹر عطیہ ظفر سید نے جو ٹھوس عملی اقدامات کیے انہی کی بدولت آج عطیہ جنرل ہسپتال کی آمدنی کوہی گوٹھ ہسپتال کے مریضوں پر خرچ ہوتی ہے۔

کوہی گوٹھ ہسپتال ڈاکٹر عطیہ ظفر کے بیٹے اور نامور افسانہ نگار ڈاکٹر شیر شاہ سید کا قائم کردہ پاکستان کا واحد ہسپتال ہے جہاں فیسٹیولا کی مریض خواتین کا علاج بالکل مفت کیا جاتا ہے۔ گویا ڈاکٹر عطیہ ظفر کا آگہی اور خیر کا سفرا ن کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی جاری ہے۔ چراغ سے چراغ ہی جلتا ہے اور خیر سے خیر ہی جنم لیتا ہے اورخیر کی بات کہنا اگرچہ اپنی اولاد کے حق میں ہی کیوں نہ ہو وہ معاشرے کے لئے بھی خیر کا باعث بنتی ہے۔

ڈاکٹر عطیہ ظفر سید کے بیٹے ڈاکٹر شیر شاہ سید اپنی والدہ کے بارے میں بتلاتے ہیں کہ ان کی والدہ سات سال کی عمر میں یتیم ہوگئیں اور اس وقت ان کی والدہ کو اپنے مرحوم باپ کی یہ بات یاد رہ گئی۔ ۔ ”میں تمہیں پڑھاؤں گا اور تم گاؤں کی پہلی میٹرک پاس لڑکی ہو گی۔ “۔ یہی وہ خیر کے الفاظ تھے جو سچ ثابت ہوئے۔ اور اگرچہ عطیہ خاتون اس چھوٹی سی عمر میں گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے قرآنِ پاک کے علاوہ کچھ نہ پڑھ سکیں اور 13 سال کی عمر ( 1943 ء) ابو ظفر سید سے شادی ہوگئی۔

اور ڈیسنہ گاؤں سے پٹنہ جیسے بڑے شہر میں منتقل ہو گئیں۔ تاہم گاؤں کی زندگی سے نکلنا اور پھرپاکستان ہجرت کے باعث معاشی تنگی کو ایک نئے زاویئے سے جھیلنا ان کو اس فکری مقام پر لایا کہ وہ فیصلہ کر پائیں کہ سلسلۂ تعلیم کو پھر سے جاری کر کے اپنے حالات بدلے جا سکتے ہیں اور پھر انہوں نے ایسا کر دکھایا یقینا قسمت کا ستارہ ایسے ہی خیر طلب الفاظ اور خیر طلب سوچ سے بدلتا ہے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید اپنی ایک تحریر ”میری ماں، ڈاکٹر عطیہ ظفر“ میں لکھتے ہیں۔ ”اماں ساری زندگی محنت کرتی رہیں، ان کے ابا کا خواب ان کا شوق بن گیا۔ ۔ اماں کوپورا احساس تھا کہ تعلیم ہی عورت کا اصل زیورہے۔ ساری زندگی میں نے انہیں کوئی زیورپہنا ہوا نہیں دیکھا۔ کبھی کبھار وہ عید کے موقع پر کانچ کی چوڑیاں پہن لیتی تھیں، ہاتھوں اورپیروں میں مہندی لگالیتی تھیں وہ صاف ستھرے سوتی، گھر کے دھلے کپڑے اورکلف لگی ہوئے ساری میں پُروقار لیڈی ڈاکٹر لگتی تھیں۔

انہیں میں نے کبھی کبھار مریضوں اور مریضوں کے شوہروں پرغصہ کرتے ہوئے دیکھا لیکن زیادہ ترمریضوں سے ہمیشہ ہنس کرملتی تھیں۔ دور دراز کراچی کے دیہی علاقوں اورٹھٹہ، میرپورساکرو سے آنے والے مریض ان کے لیے سبزیاں اورپھل لے کرآتے تھے، کراچی کے مچھلی فروشوں اورملاحوں کی بستی ریڑھی سے آنے والے مریض مچھلی اور جھینگے لے کرآتے، یہی ان کی فیس ہوتی تھی۔ ان کے مریض ان پر جان دیتے تھے، وہ کمیونٹی کی ڈاکٹر نہیں تھیں بلکہ کمیونٹی ورکر تھیں۔

اماں کواندازہ ہو گیا تھا کہ تعلیم عورتوں کو خودمختار بنادیتی ہے وہ اورابا لڑکیوں کی تعلیم کے شدید حامی تھے، ان کا خیال تھا کہ لڑکیوں کو ہر قسم کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے، نوکری کرنی چاہیے اورپیسے کمانے چاہئیں۔ پڑھی لکھی لڑکی نہ صرف یہ کہ اپنا خیال رکھتی ہے بلکہ اپنے پورے خاندان کو کھینچ کر اوپر لے آتی ہے۔ ابا اوراماں نے مل کرہم آٹھ بھائی بہنوں کو ڈاکٹر بنایا بلکہ خاندان کے کئی بچوں کو اس راہ پر لگایا اورخاص طور پر خاندان، دوستوں اور رشتہ داروں کی لڑکیوں کو مواقع فراہم کیے کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ گھر میں اورہسپتال میں کام کرنے والوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے ان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے۔ ”

ہر نفس جو کہ اس دنیا میں آتا ہے اس نے ایک دن واپس بھی جانا ہے۔ آج ڈاکٹر عطیہ ظفر سید ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی کہانی جوکہ ایک سچی داستان ہے، عزم اور حوصلے کی داستان، ایسا عزم جس نے ثابت کیا کہ ایک کم تعلیم یافتہ مگر باشعور عورت بھی خودد کو تعلیمی لحاظ سے اس عروج پر لے جا سکتی کہ جو عروج اس دور میں اس خطۂ ہند اور خصوصا پاکستان کی بہت کم بلکہ گنی چُنی خواتین کو حاصل تھا۔ اسی عزم نے ڈاکٹر عطیہ ظفر سید کی ذات کو ایک معجزنما کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یقینا اپنے ارادوں کی عصا سے مایوسی اورقنوطیت کے سمندر کو چیر فتح و ظفر کے ساحلوں تلک پہنچنا کسی معجزہ سے کم نہیں ہوتا۔ بہت عقیدت کے ساتھ اپنے اس شعر کے ساتھ آج کی اس تحریر کا اختتام کروں گی

ابنِ مریم ؑ سے ہے وابستہ مسیحائی مگر
صنفِ نازک بھی تو محسن ہے مسیحائی کی