کتابوں والی الماری اور ذات کا قید خانہ

ابصار  فاطمہ
مجھے اپنا کمرہ بہت پسند ہے آپ جیسے علم دوست شاید اس کی صرف حسرت ہی کر سکتے ہیں۔ ایک ایسا کمرہ جس کی دیواریں چاروں اطراف سے کتابوں سے مزین ہیں۔ جہاں باہر کی دنیا کی کوئی آلودگی نہیں۔ صرف کتابیں، ہنستی مسکراتی، زندگی کے ہنر سکھاتی، میرا شاندار ماضی اور حال بتاتی، مجھے زندگی کے اصول پہ عمل کرواتی کتابیں۔
ایسے مت دیکھیں مجھے، یہ جوش خطابت نہیں ہے میری کتابیں واقعی انسانوں کی طرح مجھ سے باتیں کرتی ہیں۔ میرے ہر کام میں میری مدد کرتی ہیں۔ انہوں نے ہی مجھے بتایا کہ میں کیسی عظیم شخصیت ہوں کیوں کہ میرا ماضی بہت شاندار تھا۔ انہوں نے ہی بتایا کہ میرا تعلق دنیا کی بہترین نسل سے ہے۔ انہوں نے ہی میرا، میری ذات پہ یقین بڑھایا۔ ہر ہر کتاب صبح سے شام تک میری راہنما و ساتھی ہوتی ہے۔ میرا ہاتھ پکڑ کر بتاتی ہے کہ مجھے کیسے کھانا پینا ہے۔
میرے ہر قدم پہ میرا سہارا بنتی ہے تاکہ میرے قدم غلط نا اٹھنے لگیں۔ میری زبان میں چن کے الفاظ رکھتی ہیں۔ مگر کبھی کبھی بہت عجیب بات ہوتی ہے۔ کبھی کبھی کوئی کتاب میرے بارے میں کچھ بولتے بولتے ٹھٹھک کر رک جاتی ہے۔ تب سب کتابیں اسے گھور گھور کر دیکھنا شروع کردیتی ہیں۔ پھر اسے میرے سامنے سے لے جاتی ہیں۔ جب وہ دوبارہ سامنے آتی ہے تو بہت کمزور لگتی ہے۔ میں نے کئی بار کوشش کی کہ ایسی کسی کتاب کے سوتے میں اس کے ورق چھانوں کہ وہ مجھے کیا بتانے والی تھی۔

مگر جس ورق پہ آکر وہ رکی ہوتی ہے وہ ورق مجھے دوبارہ کبھی نہیں ملتا۔ پھر مجھے ان کتابوں سے بہت خوف آتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں وہ نہیں جو یہ مجھے بتاتی ہیں۔ بلکہ میری حقیقت ان اوراق میں پوشیدہ ہے جو گم ہوگئے۔ مجھے اپنا آپ کسی قفس میں مقید لگتا ہے۔ تب مجھے یہ کتابیں بہت پر اسرار لگتی ہیں۔ مگر میں انہیں چھوڑ کر جانا بھی نہیں چاہتی۔ مجھے گم ہوجانے والی حقیقت زیادہ خوف زدہ کردیتی ہے۔ اگر وہ ایسی شاندار نا ہوئی تو؟
اگر ان کتابوں کے چنے ہوئے الفاظ کے بنا مجھے بولنا پڑا تو؟ اگر ان کتابوں کے بتائے بغیر قدم اٹھانے پہ میں راستہ بھٹک گئی تو؟ بس تو اتنی خطرے مول لینے کا کیا فائدہ۔ اب کبھی کوئی کتاب کچھ بولتے بولتے ٹھٹھکتی ہے تو میں خود ہی اسے اٹھا کر کسی کونے کی الماری میں ٹھونس آتی ہوں۔ اور تاریخ کی باقی کتابیں کھسیانی ہنسی ہنس کر دوبارہ شاندار قصے سنانے لگتی ہیں۔