صوفیہ کاشف
سو وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ عورت کا عالمی دن ایک کلنک کے ٹیکے کی طرح سب عورتوں کے منہ پر لگا دیا گیا۔ ایک ایسے گھٹیا اور بھونڈے طریقے سے منانے والوں نے منایا، دکھانے والوں نے دکھایا اور تبصرے کرنے والوں نے تبصرے کیے کہ اب سال بھر جو بھی عورت عورتوں کے حقوق کی بات کرے گی اس کے نام کے ساتھ لعنت اسی دن کی پڑے گی۔ سارا سال ان نعروں کے ساتھ عورتوں کے استحصال کو تقویت دی جاتی رہے گی۔ ”میرا جسم میری میری مرضی“ ، ”لو بیٹھ گئی“ ، ”ماں بہن“ جیسے فقرے سارا سال ہمارے چہروں پر تھپڑوں کی طرح پڑتے رہیں گے۔
نہ فیکٹری میں کام کرنے والی عورت کی تنخواہ میں اضافہ ہوا، نہ مزدور عورتوں کو روک کر کھانا پیش کیا گیا، نہ کسی دفتر کسی ادارے میں اس دن کے احترام میں ایک ڈے کئیر قائم کیا گیا، نہ کسی باپ بھائی نے بیٹیوں میں وراثت تقسیم کی ، نہ بیٹیوں کو چند سال اور تعلیم کی اجازت دی گئی، نہ کسی بہن بیٹی سے منگنی یا شادی کرتے اس کی رضا پوچھی گئی، نہ کسی کے سر سے تہمت اتاری گئی نہ کسی کا الزام جھوٹا قرار پایا، بس ایک عالمی دن منایا گیا اور پاکستان کی پسی ہوئی عورت کی عزت کو مزید روند ڈالا گیا۔
اتنے بڑے ملک کے ایک چوک پر کسی مہنگے ادارے میں پڑھنے والے لاکھوں کی فیسیں دے کر انگلش سیکھنے والی جینز پہننے والی خواتین نے ایک چھوٹی سی ریلی نکالی، چار پانچ بے ہودہ قسم کے سلوگنز لکھے اور عورت کے لئے اٹھائی گئی ہر آواز کا گلا گھونٹ دیا۔ وہ چند نعرے جو سارا دن ہر اخبار اور ہر صحافی کی وال پر جگمگاتے رہے اور ہر مرد اور عورت نے ان چار پوسٹرز کو سارا دن گالیاں دے کر باقی سب حقوق کی راہ دیکھتی عورتوں کے منہ پر کالک مل دی۔
اور بھی بہت سی ریلیاں نکلیں، بہت سی عورتوں نے عورتوں کے حقوق کی اسلام میں اور مذہب میں رہ کر وضاحت کی مگر اس کا کوئی بھی تذکرہ نہ ہوا محض چند آزاد خیال طبقے کے پوسٹرز پر سارا دن جھگڑا ہوا۔ ورنہ یہ جملے تو ہم نے بھی دیکھے کہ جہیز نہیں تعلیم دو! اور یہ صرف ایک جملے ہزار گھٹیا نعروں پر بھاری ہے مگر بدقسمتی سے اس کی ہیڈ لائن کسی نے نہیں لگائی۔ سب نے اسی کی ہجو کی جس میں سب سے زیادہ لطف کا پہلو دیکھا۔
یہ حیرت بھی ہے کہ یہ لڑکیاں عورتوں کے حقوق کے لئے نکلیں کہ ان کو مزید بے حرمت کرنے کو نکلیں، اور اگر ان کے پیچھے کچھ اساتذہ بھی تھے تو ان کی قابلیت پر بھی بہت بڑا سوال اٹھا۔ کتنے ہی دن گھروں کے اندر بھی اور باہر بھی ان عورتوں اور لڑکیوں کو جو ان اداروں میں پڑھنا تو دور کی بعد ان کے سامنے سے گزرنا تک افورڈ نہیں کر سکتیں، کئی دنوں تک ان الفاظ کی مار پر پہلے سے زیادہ جبر سہنا پڑے گا، کتنی عورتیں اور مزید اندھیروں میں دھکیلی جاتی رہیں گی، اور کتنی عورتیں اس ایک دن کی ذلالت کی قیمت ادا کریں گی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عورت کو اس کی شناخت اور اس کی چِھنی ہوئی حیثیت اور وقار لوٹانے کی کوشش کی جاتی، سکولوں کالجوں میں ان کو ان حقوق کے بارے میں آگاہ کیا جاتا جو اسلام نے جھولی بھر کر اس کے دامن میں بھرے ہیں، صاحب اختیار عورتوں کی تعلیم اور ملازمتوں کے لئے مزید مواقع پیدا کردیتے، اس دن ایک اور شہر میں عورتوں کی ایک آدھ یونیورسٹی یا کالج ہی بنا دیتے، دفاتر میں اس روز عورتوں کے لئے ایک ڈے کئیر ہی بنا دیا جاتا، عورتوں کی میٹرنٹی لیو پر کچھ سہولتیں مل جاتیں، اداروں میں کام کرنے والی ماؤں کو کچھ رعایتیں مل جاتیں، تعلیم کی خواہش رکھنے والیوں کے لئے کچھ وضائف ہی تخلیق کر دیے جاتے، نئی نوکریاں پیدا کر ہو جاتیں، اپنے آس پاس کے ماحول میں ان کے لئے کچھ احترام ہی پیدا کر دیا جاتا، یا کم سے کم گھروں میں شوہر بیویوں کے لئے ایک مددگار کا بندوبست کر دیتے، ایک دن گھر والوں کی عین موجودگی میں بیویوں کی مدد ہی کر دیتے، باپ بیٹیوں کے ہاتھ میں چار کتابیں مزید تھما دیتے، بھائی بہن کی مرضی کے ساتھ کھڑا ہی ہو جاتا یا کم سے کم سڑک پر ایک عورت کے لئے راستہ ہی چھوڑ دیا جاتا، ۔ مگر ہوا یہ کہ کچھ ہاتھوں میں پھول اور کچھ میسنجرز میں کارڈز چلے، دو چار مضحکہ خیز نعرے لگے اور ان کے جواب میں مرد و عورت دونوں طبقات نے حسب خواہش، حسب توفیق عورت کو چار مزید گالیاں نکال دئیں۔
کیا یہ ہمارے انتہا پسند، بے شعور معاشرے کی ایک زندہ مثال نہیں کہ یہاں کسی بھی مقصد کی روح کو چھوڑ کے بیکار مشاغل پر تمام تر توانائیاں صرف کر دی جاتی ہیں۔ پردے کا نام لے کر عورت کے پرواز و پر کاٹ دیے جاتے ہیں۔ جب یہ کہا جائے کہ پردے کے نام کو مبالغہ آرائی کے ساتھ آپ نے عورت پر جبر کے ساتھ تعبیر کر دیا تو لوگ شور مچانے لگتے ہیں کہ پردے کو برا کہا جا رہا ہے، خدانخواستہ یہ عورتیں کپڑوں سے نکلنے کی بات کرتی ہیں، جیسے واہیات فقرے اور جملے آپ کا پیچھا کرنے لگتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ پردے کا کہہ کر کیا خدا نے یہ بھی کہا کہ عورت کو تعلیم نہ دو، یا تھوڑی تعلیم دو! پیغمبر اسلام نے تو یہ کہا کہ تعلیم حاصل کرو چاہے اس کے لئے تمھیں چین بھی جانا پڑے۔ اس میں اس بات کا اضافہ کس نے کیا کہ یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہے؟ کتنی عورتیں چین تو دور کی بات گاؤں سے شہر اور چھوٹے شہر سے بڑے شہر بھیجی جاتی ہیں تعلیم کے لئے؟ یہ عورتوں کی آزادی کے نام پر ان کی تحقیر کرنے والی مہنگے اداروں میں پڑھنے والی ہر حد سے آزاد عورت کو خبر بھی ہے کہ سرکاری سکولوں کالجوں میں چودہ سالوں میں ہر سال لڑکیوں کی تعداد کم کیوں ہوتی جاتی ہے کیونکہ پانچویں، آٹھویں، دسویں کے بعد ان کے لئے متعین شدہ تعلیم پوری ہو جاتی ہے، ان کے دماغ مطلوبہ حد تک باشعور ہو جاتے ہیں اور وہ مرد کی غلامی کے لئے تیار ہو جاتی ہیں۔
کیا پیغمبر اسلام کے پردے کے حکم نے حضرت خدیجہ کا شادی کے بعد کاروبار رکوایا؟ یا آپ نبی آخر زماں نے وہ اپنے نام کروایا کہ آج سے اس کا والی وارث میں ہوں؟ کیا عورتوں کو کاروبار، یا ضرورت کے لئے سڑک پر نکلنے سے روکا گیا؟ کیا میدان جنگ میں ان کا داخلہ ممنوع کیا گیا؟ کیا ان کی تعلیم اور وراثت کاٹی گئی؟ کیا بیواؤں کو پھیکے رنگ پہنا کر قابل ترس بنا کر گھر بٹھایا گیا؟ جب عورت کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو ان حقوق کی بات کی جاتی ہے جن کے لئے پیغمبر آخر زماں نے خطبہ الوداع میں پہاڑی پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ ”عورت کے معاملے میں خدا سے ڈرو! “۔ اور یہ حکم مردوں کے لئے تھا۔ جب وہ اپنی کمزوریوں کا بوجھ، اپنی گمراہی کا الزام، اپنی مفلسی کا پھندا اور اپنی جہالت کا خنجر اپنی عورتوں کو گھونپتے ہیں تو کیا کسی کو یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو!
اگر اسلام میں عورت کے حقوق جاننے ہیں تو آئیے کچھ میں آپ کو بتاتی ہوں۔ ایک لڑکی جب پیدا ہوتی ہے تو اس کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ اسے اسی طرح سے خوش آمدید کیا جائے جیسے لڑکے کو کیا جاتا۔ اس کی ضرورتوں، چاہے وہ جسمانی ہوں کہ نفسیاتی اور جذباتی کا اسی طرح خیال رکھا جائے جیسے بیٹوں کا کیا جاتا۔ اس کی تعلیم و تربیت پر بے تحاشا محنت کی جائے۔ جی ہاں یہ جو ہمارے معاشرے میں جاہلیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے اس کے پیچھے وہی مائیں ہیں جن کو اس معاشرے نے اور اس کے مردوں نے تعلیم اور شعور نہیں حاصل کرنے دیا۔
اگر صرف ایک بیوی نام کی ماسی بنانی مقصود ہے تو چاہے ان پڑھ عورت کو بنا لیں اور عمر بھر مرد راج کرے مگر اگر اپنی اولاد کو شعور دینا مقصود ہے تو اس کی ماں کے لئے تعلیم اور شعور ایک بہت بنیادی ضرورت ہے۔ ایک ان پڑھ ماں نہ مذہب کو سمجھ سکتی نہ دنیا کو۔ اولاد کی تربیت اور وقت کے تقاضوں کے مطابق تربیت ایک گہری سائنس ہے جو ان پڑھ یا بے شعور ماؤں کے بس کی بات نہیں۔ عورت کا حق ہے کہ اس کی مرضی کو غیرت اور عزت کے حملوں سے محفوظ کیا جائے۔
غیرت کے نام پر قتل اور ہراسمنٹ کی اسلام میں کتنی گنجائش ہے؟ اگر ایک عورت کسی جگہ رشتہ نہیں کرنا چاہتی یا کرنا چاہتی ہے تو اس کو ان چاہے فیصلوں پر مجبور کرنے کا حق کون سا اسلام دیتا ہے؟ برے لوگوں کے ڈر سے عورتوں کو قید نہ کرو بلکہ انہیں برے لوگوں کا منہ توڑنا سکھائیں! ایک طرف سے ہم نے مدرسوں میں ان پڑھ مولوی پیدا کرنے شروع کر دیے اور دوسری طرف ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ مائیں۔ اور اب اس معاشرے کا یہ عالم ہے کہ جدھر منہ کرتا ہے ادھر ہی الجھ کر گر جاتا ہے۔
ہر وہ طبقہ جس نے نسلوں کو صحیح رہنمائی دینی تھی ہم نے انہیں کو سب سے زیادہ پسماندہ کرکے اپنی سمت ہی غلط کر لی۔ پہلے ہم جاہل علما اور کم علم مائیں جنم دیتے ہیں پھر ہم ان کی تقلید میں سارے معاشرے کو لگا دیتے ہیں اور نسل در نسل پھر وہ جہالت معاشرے میں بھر جاتی ہے جس نے ہماری زمین پر انسان کا عموماً اور عورت کا خصوصاً اب جینا حرام کر رکھا ہے۔ عورتوں کو تعلیم دو اور صرف تعلیم نہیں، اعلی ترین تعلیم دو پھر چاہے اسے برقعہ پہناؤ یا جینز مگر اس کی تعلیم اور شعور کا راستہ مت کاٹو۔
پھر اسے مواقع دو کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے خود اپنی زندگی کے بڑے فیصلے کر سکے۔ اور اگر آپ نے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو شعور اور تعلیم سے مالا مال کر دیا تو یقین کیجئے پھر اس کے بڑے فیصلوں میں یہ نہیں ہو گا کہ شلوار قمیض پہنی ہے کہ جینز! یہ گھٹیا قسم کے نعرے دراصل خود ایک بہت ہی محدود طبقے کی سوچ ہو سکتی ہے جن کو یہ ادراک ہی نہ ہو کہ دراصل وہ پستی ہوئی عورتیں کون سی ہیں جن کے حقوق کی آواز اٹھانی ہے۔
اس کا عورت کے حقوق کے ساتھ دور دور تک بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہی باشعور عورتیں پروان چڑھائیں جو مذہب اور دنیاوی علم کا موازنہ کر سکیں، جو ہزاروں طرح کے شور شرابے میں سے صحیح اور غلط میں فرق کر سکیں، جو دنیا سے پیچھے نہ رہے اور مذہب سے آگے نہ چلے، جو عزت اور وقار کو پاؤں تلے روندے اور نہ استحصال اور جبر کو فرائض کا نام دے۔ پھر یہی عورتیں جب میدان زندگی میں نکلیں تو ان کو مہذب اور محفوظ ماحول دئیجیے، ان کی عزت اور سلامتی کو یقینی بنائیں، ان کا معاشی اور سماجی استحصال بند کریں، ان کی مزدوری کا ان کو باوقار معاوضہ دیا جائے، صرف عورت ہونے کی بنیاد پر ان کا استحصال بند کیا جائے۔
عورت آپ کا گھر سنبھالے تو اسے غلام مت بنایا جائے۔ وہ آپ کی خدمت کرے اور اس میں عمر گزار دئیں تو اسے اس کا فرض نہیں سمجھیں احسان سمجھیں۔ اور احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ نہیں۔ یہ بات سمجھ لیں کہ جب تک آپ نے ماں کو احترام نہیں دیا آپ نسلوں کو شعور نہیں دے سکتے۔ اور وہ ماں صرف آپ کی نہیں آپ کے بچوں کی بھی ماں انہیں میں شامل ہے۔ یہ کچھ باتیں ہیں جو میں نے لکھی ہیں۔ اگر عورت کے حقوق پر مکمل بحث کی جائے تو صفحات ختم ہو جائیں گے اور یہ موضوع پھر بھی تشنہ رہے گا۔ یہ معاشرہ ایک ایسا بچہ ہے جو ہمیشہ زیرو لے کر فیل ہوتا ہے۔ تو پہلے اسے پہلا قاعدہ یاد کروانا پڑے گا پھر ہی اگلے اسباق پر بات ہو سکے گی۔