چند ماہ قبل ایک خبر گردش میں رہی کہ ایک ٹیکسی ڈرائیور نے کسی خاتون کو اغوا کرنے کی کوشش کی۔ پھر وہ خاتون باحفاظت شاہراہِ فیصل پہ چلتی گاڑی سے کود گئیں۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ وہ موٹیوشنل اسپیکر بھی ہیں۔ موٹیوشنل اسپیکر چند سال قبل پاکستان میں تقریباً نہیں کے برابر تھے لیکن کچھ عرصہ سے جسے دیکھو وہ کہیں نا کہیں مائک تھامے اپنی زندگی کی ناکامیوں کی کہانی سناتا نظر آ جاتا ہے۔ عام طور پر اس پیشے میں وہ خواتین سب سے زیادہ پذیرائی سمیٹ لیتی ہیں جو روایتی گھرانے سے بغاوت کی کہانی سنا دیں، بس پھر ایک بار آپ کی کہانی ہٹ ہوئی تو آپ موٹیوشنل اسپیکر کی لائن میں لگ گئے۔ اس کام کے لیے آپ کو قصہ گو ہونا چاہیے۔ ہر دفعہ جب ایک ہی کہانی مزید دکھ سے سنائی جاتی ہے تو تالیوں کی گونج بڑھتی جاتی ہے۔
موٹیوشنل اسپیکر عام طور پر کوئی بھی گہری بات کرنے سے کتراتے نظر آئیں گے۔ اچھے اور بڑے ادیبوں کا ذکر کجا ان کے پاس ڈھنگ کے لوکل ادیبوں کی کسی تحریر کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔
پاکستان میں موجود زیادہ تر موٹیوشنل اسپیکر چوری پہ زندہ ہیں۔ اپنی تقاریر میں جو کہانیاں اپنے نام سے نشر کرتے ہیں عام طور پر وہ ڈاکٹر اسٹیفن آر کوئی کی مشہور ترین کتاب
Seven Habits of highly effective people
سے چھاپی ہوئی ہوتی ہیں یا پھر کسی فلم ڈرامے یا کسی ڈائجسٹ سے لی جاتی ہے اور کچھ تو اس قدر کام چور اسپیکر ہیں کہ وہ اپنے ہی کسی ”گرو“ یا ساتھی کی کہانی سنا کر اپنی دکان چلا لیا کرتے ہیں۔
پہلے یہ چوری صرف پی ایچ ڈی کے بھوکوں تک محدود ہوا کرتی تھی، وہ تو بھلا ہو HEC اور turn it in کے سافٹ ویئر کا کہ جس نے سرقہ سازی کی اس فیکٹری کو تباہ کیا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ اسپیکر کہ منہ میں لگانے کے لیے کوئی سافٹ ویئر نہیں جو منہ پر فٹ ہوتے ہی الارم چل جائے، زور کا بھونپو بجے اور اسپیکر کا منہ سرخ ہو جائے۔ جیسے ریسرچ تھیسیس ہو جاتا ہے۔
گزشتہ شب کسی نے محترم قاسم علی شاہ صاحب کی تقریر کا ایک تین منٹ کا ٹکڑا بھیجا۔ ایک تو اس تین منٹ میں موصوف نے چار بار یہ بتایا کہ ابھی تک وہ فقط چالیس بہاریں ہی دیکھ پائے ہیں، ننھی سی عمر میں ہی وہ رازِ حیات، خدا کی رضا حاصل کر کے اقبال کے شاہین بن چکے ہیں۔ پھر تمام لوکل موٹیوشنل اسپیکرز کی طرح اشفاق احمد مرحوم کا نام بھی لینا ضروری تھا کیونکہ یوٹیوب پر زاویہ کی ریکاڈنگ موجود ہے۔
منظر کچھ یوں ہے کہ موصوف بڑے مجمع میں ایک قصہ بیان کر رہے ہیں!
موضوع ہے کھوٹے سکوں کے چلنے کی وجہ والدین کی دعائیں ہیں۔ میں چالیس سال کا ہو گیا اور آج تک اپنے والد صاحب سے گلے نہیں ملا۔ پھر وہ اپنے پسماندہ پس منظر کا ذکر کرتے ہیں۔ مفہوم کچھ یوں تھا کہ پسماندہ ماحول میں والد سے خوف کا کچھ ایسا تعلق ہوتا ہے کہ جیسے چرسی کا تھانہ دار سے۔ چالیس سال کی عمر تک جب انہوں نے سوچا اور بہت سوچا تو ان کو یاد ہی نا آیا کہ والد صاحب کو کب گلے سے لگایا تھا، لیکن ان کا جوان بیٹا ہر دوسرے ان کے گلے میں جھولتا رہتا ہے۔ ایک روز موصوف نے اپنے والد صاحب جو کہ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں ان سے کہا آج آپ کے گلے لگنا چاہتا ہوں۔ تو وہ کہنے لگے عید پہ ہی تو ملے تھے؟ پھر کیوں؟
یہاں وہ تین بار پھر اپنی بالی سی عمر کا رونا روتے ہیں کہ چا لیس سال میں پہلی بار ابا سے گلے ملنے کی خواہش کی آخر ابا گلے ملنے پہ راضی ہو گئے اور پھر پانچ منٹ تک دونوں گلے سے لگے رہے فقط پانچ منٹ بعد والد صاحب رونے لگے اور روتے ہوئے کہنے لگے
” او پگلے اتنا ہی سکون ملتا ہے تو پہلے ہی گلے مل لیتے“
پھر کوئی آدھا منٹ وہ کہتے ہیں کہ اپنے ابو کو پیار کریں گلے لگائیں اس سے پہلے کہ وہ انتقال کر جائیں۔ پورا مجمع تالیاں بجاتا ہے یہاں تقریر اختتام پذیر ہوتی ہے۔
آئیں اسی طرح کا ایک اور منظر دیکھتے ہیں سن 2003 میں فلم کا نام ہے ”منا بھائی ایم بی بی ایس“۔
آخری سین میں جب منا اداس اور مایوس گھر کی طرف آ رہا ہے تو اس کا دوست سرکٹ بھی ساتھ ہے، منا کہتا ہے آج ماں بہت یاد آ رہی ہے۔ ایک دم ماں نظر بھی آنے لگتی ہے۔ ابھی اماں کے ساتھ جادو کی جپھی چل ہی رہی تھی کہ ابا بھی نظر آ جاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں ہمیشہ ماں کو ہی جپھی ڈالتے ہو کبھی باپ کو بھی جپھی ڈال دے یار۔ بس پھر باپ بیٹے کافی دیر تک گلے لگے رہتے ہیں، دونوں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، یہاں سین اختتام پذیر ہوتا ہے۔
اسی طرح سال 2018 میں سنجے دت پہ بننے والی فلم سنجو میں یہ منظر دوبارہ ہے، سنجے دت کہتا ہے وہ پہلی بار تھا جب میں اپنے والد سے گلے لگا اور ہم دونوں بہت دیر تک ایک دوسرے سے گلے لگے رہے اور روتے رہے۔
عزیز قارئین، میرے خیال سے راج کمار ہیرانی نے قاسم علی شاہ صاحب کی کہانی چوری کی ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے؟