گوگل میپس استعمال کرنے والوں کے لیے خطرے کی گھنٹی


گوگل میپس استعمال کرنے والوں کے لیے خطرے کی گھنٹی

اسلام آباد: سائنس و ٹیکنالوجی اور طب میں ہونے والی ترقی نے جہاں انسانوں کو بیش بہا سہولیات بہم پہنچائی ہیں، انسانی زندگیوں کو آسان بنایا ہے اور بیماریوں سے نجات دلانے میں معاون و مددگار ثابت ہوئی ہے وہیں متعدد امور میں انسانوں کو مشکلات سے دوچار کرنے کا بھی سبب بنی ہے۔

ایسی ہی ایک مشکل و تکلیف کا ذکر سائنسدانوں نے یہ کہہ کر کیا ہے کہ  گوگل میپس اور اس سے ملتی جلتی دیگر ایپل کیشنز استعمال کرنے والوں میں ’الزائمرز‘ جیسی خطرناک بیماریوں کے پیدا ہونے کے خطرات دیگر کے مقابلے میں بڑھ جاتے ہیں۔

’میل آن لائن‘ نے سائنسدانوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ڈیوائسز پر زیادہ تر انحصار کرنے والوں کا انحصار حقیقی دنیا پر چونکہ نہیں رہتا ہے اس لیے ان کی ذہنی و جسمانی صحت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔سائنسدانوں کے مطابق انہی منفی اثرات میں سے ایک الزائمر بھی ہے۔

ڈیلی میل آن لائن کے مطابق اس ضمن میں تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ اور نیوی گیشن کے ماہر ’ڈیوڈ بیری‘ کا کہنا ہے کہ ہزاروں سالوں میں ارتقائی عمل سے گزر کر انسان نے اپنے اندر اردگرد کے ماحول سے تعلق کی ایک تیز حس پیدا کی ہے لیکن جب لوگ گوگل میپس یا اس جیسی دیگر ایپلی کیشنز استعمال کرتے ہیں تو وہ آس پاس کے ماحول سے قطعی لاتعلق ہو جاتے ہیں۔

ڈیوڈ بیری کے مطابق اسی لاتعلقی اور بے گانگی کے نتیجے میں وہ حس متاثر ہوتی ہے اور نتیجتاً انسان کے ’اعصابی نظام‘ کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ اسی پہنچنے والے نقصان کے سبب لوگ الزائمرجیسے مرض کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

تحقیقاتی ٹیم نے اسی ضمن میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں بتایا کہ گوگل میپس سمیت دیگر ایپلی کیشنز کے استعمال کی وجہ سے انسان اپنے دماغ کو اس عمل سے دور کررہا ہوتا ہے جو لوگوں، جگہوں اور اشیا کے ناموں کو یاد رکھتا ہے۔

ڈیوڈ کے مطابق اس عادت کے نتیجے میں انسانی دماغ کا ’ہیپوکیمپس‘ نامی حصہ زیادہ متاثر ہوتا ہے جس کا براہ راست تعلق یاد داشت سے ہے۔

ڈیلی میل کے مطابق ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے انسان ہیپوکیمپس کے استعمال کو کم کرتا ہے اوریا ترک کرتا  ہے تو وہ سکڑنا شروع ہو جاتا ہے جس کا منطقی نتیجہ الزائمر اور دیگر اعصابی بیماریوں کی صورت میں نکلتا ہے۔