سراب کا مستقبل – سگمنڈ فرائیڈ کی کتاب کا ترجمہ اور تلخیص

 ڈاکٹر خالد سہیل

ترجمہ۔ ڈاکٹر خالد سہیل

سگمنڈ فرائیڈ کی کتاب The Future of An Illusion کا ترجمہ اور تلخیص۔ یہ کتاب پہلی بار 1927 ء میں چھپی تھی۔
نوٹ: میں زبیر لودھی صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے نہ صرف یہ مشورہ دیا کہ میں اپنا ترجمہ ’ہم سب‘ پر چھپواؤں بلکہ ترجمہ ٹائپ کر کے پاکستان سے کینیڈا بھیجا۔

پہلا باب

جب کسی شخص کی زندگی کا بیشتر حصہ اس غوروخوض میں گزر گیا ہو کہ وہ جس تہذیب وثقافت میں پلا بڑھا ہے، ان کا ماضی کیسا تھا؟ ان کی جڑیں کہاں تک پھیلی ہوئی تھیں؟ اور ان کی نشوونما میں کن عوامل نے اہم کردار ادا کیا تھا؟ تو کبھی کبھار وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور ان میں کس قسم کی تبدیلیوں کی توقع کی جاسکتی ہے؟ اس موضوع پر غور کرنے سے ہمیں اس بات کا جلد ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ موضوع اتنا بڑا ہے کہ اس پر صرف چند لوگ ہی سیر حاصل بحث کر سکتے ہیں کیونکہ اکثر لو گ اس موضوع کے صرف ایک مخصوص پہلو پر تحقیق اور غوروخوض کرتے رہے ہیں۔

جولوگ اپنے ماضی اور حال سے ہی پوری طرح باخبر نہیں، ان کے لیے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائی کرنا اور بھی مشکل ہے اور اگر وہ اس کی کوشش بھی کریں تو ان کی رائے میں ان کی ذاتی پسند و ناپسند توقعات، امیدوں اور خوابوں کی حقائق کی نسبت زیادہ پرچھائیں نظر آئے گی اور ایسی رائے میں معروضی پہلو کم ہوگا۔ میرے خیال میں اکثر لوگ اپنے حال کو اپنے ماضی اور مستقبل سے جوڑ کر نہیں دیکھتے اور ان رشتوں پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے۔

اس لئے جو شخص بھی مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کرے گا، اسے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا ہوگا اسے نئے اور انجان علاقوں میں قدم رکھنا پڑے گا۔ مستقبل کے بار ے میں بھلا کون حتمی رائے دے سکتا ہے۔ کل کی بھلا کس کو خبر ہے۔

اس صورت حال میں چاہیے تو یہی کہ یا تو میں ذاتی طور پر اس کام سے دستبردار ہوجاؤں اور کہوں کہ یہ بھاری بوجھ مجھ سے نہ اٹھ پائے گا اور میں اپنی توجہ انسانی زندگی کے صرف ایک پہلو پر مرکوز کروں اور اس کے بارے میں اپنے خیالات اور نظریات کا اظہار کروں۔

میرے اس مضمون کا موضوع انسانی تہذیب و ثقافت ہے اور تہذیب و ثقافت سے میری مراد انسانی زندگی کے وہ تمام پہلو ہیں جو انسانوں کو حیوانوں سے متمیز کرتے ہیں۔ ان میں وہ علوم بھی شامل ہیں، جن کی وجہ سے ہم نے فطرت پر بالادستی اور اس سے اپنی ضروریات پورا کرنے کے لیے دولت حاصل کی ہے اور وہ تمام قوانین، رسوم اور روایات بھی شامل ہیں جن کی روشنی میں ہم ایک دوسر ے سے انسانی رشتے قائم کرتے ہیں اور دولت کی تقسیم کرتے ہیں۔

میری نگاہ میں تہذیب اور ثقافت کے یہ دونوں پہلو آپس میں مربوط ہیں۔ ایک طرف انسانوں کے آپس میں رشتے اور ان کی جمع کی ہوئی دولت اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ انسان اپنی خواہشات کی کس حد تک تسکین کر سکتے ہیں تو دوسر ی طرف زندگی کے اس کاروبار میں انسان دوسرے انسانوں کو اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے (چاہے وہ مزدوری ہو، دولت ہو یاجنسی آسودگی ) استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

اس مسئلے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ میرے خیال میں انسان بنیادی طور پر تہذیب کا دشمن ہے کیونکہ تہذیب اجتماعی مفادات کی نگہبانی کرنا چاہتی ہے جب کہ انسان اپنی انفرادی خواہشات کی تسکین کو اہمیت دیتے ہیں۔ ایک پرامن معاشرتی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ہر فرد کو قربانیاں دینی پڑتی ہیں، ان قربانیوں سے انسان مجموعی طور پر دولت اور فطرت سے ایسا رشتہ قائم کرتے ہیں جس میں سب کی بھلائی مضمر ہو تاکہ ایک خوشحال اور منصفانہ معاشرے کی تشکیل ہوسکے۔

اگر انسان اجتماعی طور پر ایسا معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوں تو انسانی جذبات بے قابو ہو جاتے ہیں اور وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو انسانی ارتقا کی بجائے انسانی تباہی کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بد قسمتی سے وہ چیزیں اور وہ نظام جنہیں تعمیر کرنے میں طویل عرصہ لگتا ہے، انہیں تباہ و برباد کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔

بعض دفعہ یوں محسوس ہوتاہے جیسے تہذیب و ثقافت کے ارتقا کے لیے ایک اقلیت اپنی آرا اور اپنی اقدار اکثریت پر مسلط کرتی رہی ہے۔ کیونکہ اسی اقلیت کا دعویٰ تھا کہ وہ انسانوں کی معاشرتی زندگی کے لیے ایسی بصیرتوں کی حامل تھی جن سے اکثریت محروم تھی۔ تہذیب کے ارتقا کا یہ سفر تضادات سے پر رہا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کا بھی احساس ہے کہ انسانوں کے لیے فطرت پر قابو پانے کا عمل انسانی رشتوں میں ایک توازن قائم کرنے کی نسبت آسان رہا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسانوں کی اکثریت اس قابل ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی تسکین کے دوران دوسروں کا استحصال نہ کرے یا ہمیں ان کے منفی جذبوں، رویوں، جذبات اور اعمال سے دوسروں کو بچانے کے لیے ہمیشہ قوانین اور روایات کا سہار ا لینا پڑے گا۔ جب ہم انسانی مسائل اور رشتوں پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ فطرت پر قابو پا کر دولت حاصل کرنا اور ایسی دولت کو انسانوں میں مساوی تقسیم کرنا، تاکہ سب ایک خوشحال اور صحت مند زندگی گزار سکیں، ایک پیچیدہ عمل ہے۔ اس عمل کا ایک پہلو مادی ہے تو دوسرا نفسیاتی ہے۔

انسانوں کے معاشی مسائل نفسیاتی مسائل سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر انسانوں کو بے لگام چھوڑ دیا جائے تو عین ممکن ہے کہ تہذیب اور ثقافت کی روایت بری طرح مجروح ہو جائے، کیونکہ عوام کی اکثریت کامل اور سادہ لوح ہوتی ہے۔ وہ اپنے جذبات کی فوری تسکین چاہتی ہے اور بڑے مقاصد کے لیے چھوٹے مقاصد قربان نہیں کرنا چاہتی اس لیے ان پر اقلیت کو قوانین اور پابندیاں نافذ کرنی پڑتی ہیں۔ عوام پر پابندیاں نافذ کرنا اتنا تکلیف دہ نہ ہو۔


اگر ا ن کے رہنما ایسے انسان ہوں جو باعمل اور اعلیٰ اقدار و کردار کے مالک ہوں، عوام ان کی عزت کرتے ہوں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیں۔ ایسی صورت میں عوام کے ایک صحتمندانہ اور منصفانہ زندگی کو اختیار کرنے کے زیادہ امکانات ہوسکتے ہیں۔ ایسے راہنماؤ ں اور لیڈروں سے ہمیں یہ امید ہوگی کہ انہیں عوام سے ہمدردی ہوگی اور وہ زندگی کی بصیرتیں رکھتے ہو ں گے۔ ایسے رہنماؤ ں کی موجودگی میں عوام کے لیے قوانین پر عمل کرنا آسان ہو جاتاہے۔ لیکن پھر بھی رہنماؤ ں کو تھوڑا بہت دباؤ تو ڈالنا ہی پڑتا ہے۔ کیونکہ عوام بنیادی طور پر نہ تو سخت کام کرنا اور نہ ہی اپنی خواہشات کی تسکین کو ملتوی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے جذبات پر فوری عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بعض لوگ میرے ان خیالات پر اعتراض کریں گے اور کہیں گے کہ عوام پر دباؤ اسی لیے ڈالنا پڑتا ہے کیونکہ ہماری تہذیب اور ہمارے نظام میں بہت سی خامیاں ہیں۔ ایک مثالی معاشرے میں اس کی ضرورت نہ ہوگی۔ ہر شخص ایک صحتمند زندگی گزارے گا اور دوسروں کا استحصال نہ کرے گا۔ چونکہ ایسا معاشرہ قائم نہ ہوسکا ہے اس لیے غیرمنصفانہ نظام نے لوگوں کو غصیلا اور باٖغی بنا دیا ہے۔ اگر ہم اگلی نسلوں کے بچوں کی محبت، شفقت اور ایک ذمہ دارانہ ماحول پرورش کریں تو وہ ایک بہتر نظام کو تشکیل دیں گے۔ وہ نہ صرف اپنا کام ذمہ داری سے کریں گے بلکہ ایک دوسرے کی خواہشات اور حقوق کا احترام بھی کریں گے۔ اور اگر معاشرتی فلاح و بہود کے لیے قربانی کی ضرورت ہوگی تو خوشی سے قربانی بھی دیں گے۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ انسانی ارتقا کے جس مرحلے پر ہم انسانی زندگی گزار رہے ہیں، اس معاشرے میں کیا قربانیاں دینے والے عوام کی اور ایسے رہنماؤں کی امید رکھنا جو خدمتِ خلق کو اپنا فر یضہ سمجھیں اور قوموں کی صحتمند خطوط پر پرورش اور رہنمائی کریں اور ایسے معاشرے کو تشکیل دیں جہاں دباؤ اور جبر کی کم از کم ضرورت پیش آئے۔ میراخیال ہے کہ ہر دور میں ایک گروہ ایسے لوگوں کا ہوگا جو خودغرضانہ اور مجرمانہ ذہنیت اور کردار کا مالک ہوگا اور عوام کے امن اور سکون میں روڑے اٹکائے گا۔ لیکن اکثریت کی تعلیم و تربیت ایسے خطوط پر ہو سکتی ہے کہ وہ ایک صحت مند اور منصفانہ نظام کے لیے قربانیاں دے سکیں۔ اگر ایسا ممکن ہو جائے تو وہ انسانی معاشرے کے لیے ایک اچھاشگون ہوگا۔

مجھے اس بات کا احساس ہے کہ اس گفتگو کے دوران میں اصل موضوع سے کافی دور نکل آیا ہوں۔ لیکن میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میرے اس مضمون کا مقصد انسانی تہذیب و ثقافت کے مستقبل کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا نہیں ہے۔ میرے پاس نہ تو ایسا علم ہے اور نہ ہی میں کسی ایسے طریقہ کار سے واقف ہوں جس سے ایسے معاشرے کے قیام کے تجربے کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔ میں تو بس اس موضوع پر اپنے ذاتی خیالات و نظریات کا اظہار کرنا چاہتاہوں۔

دوسرا باب

ہماری گفتگو آہستہ آہستہ معاشی دائروں سے نکل کر نفسیاتی دائروں میں داخل ہوتی جا رہی ہے۔ پہلے ہم تہذیب اور ثقافت کو معاشرے میں دولت کی فراہمی اور تقسیم کے حوالے سے سمجھنے کی کو شش کر رہے تھے۔ لیکن جب ہمیں اندازہ ہوا کہ کسی بھی تہذیب کو قائم رکھنے کے لیے ہمیں عوام پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ منصفانہ اور صحتمند معاشرے کے قیام کے لیے وہ اپنی خواہشات کی تسکین کی قربانیاں دے سکیں اور عین ممکن ہے کہ وہ ان پابندیوں کے خلاف احتجاج اور بغاوت کی آواز بلند کریں گے اور تہذیب کی عمارت پر حملہ آور ہوں گے تو ہمیں احساس ہوا کہ معاشرتی مسائل کے اس شعور سے ہم معاشی دائرے سے نکل کر انسانی تہذیب کے نفسیاتی دائرے میں داخل ہوگئے ہیں۔

جب ہم انسانی نفسیات کے حوالے سے بات آگے بڑھاتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتاہے کہ انسانوں کے انفرادی اور معاشرتی تعلقات کافی پیچیدہ ہیں۔ انسانی بچے اپنی جبلتوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور اپنی خواہشات کی فوری تسکین چاہتے ہیں۔ انسانی معاشرہ ان پر کچھ پابندیاں عائد کرتا ہے۔ تاکہ انسانی زندگی اور معاشرے میں ایک ہمدردی اور توازن قائم ہوسکے۔ بعض انسانوں کے لیے ان پابندیوں کو قبول کرنا آسان ہو تاہے اور بعض کے لیے بہت مشکل۔

اور بعض انسان تو ان پابندیوں اور قربانیوں کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ ان جبلتوں پر جو انہوں نے حیوانی آباؤ اجداد سے وراثت میں پائی ہیں، ان پر قابو نہیں پا سکتے اور تہذیب کو درہم برہم کرتے رہتے ہیں۔ وہ انسان اپنی زندگی حیوانی سطح پر گزارنا چاہتے ہیں۔ آج بھی ہم ان کی مثالیں ایسے معاشروں میں پاتے ہیں، جہاں دوسرے انسانوں کے گوشت کو کھانا، قریبی رشتہ داروں سے جنسی اختلاط کرنا، (Incest) اور انسانوں کا قتل کرنا ابھی ختم نہیں ہوا۔

ان لوگوں نے انسانی اقدار کو ابھی پوری طرح نہیں اپنایا اور اپنی جبلی خواہشوں پر قابو پانا نہیں سیکھا۔ ایسی اقدار اور ایسی پابندیاں ایک انسانی معاشرے کے قیام کے لیے ناگزیر ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ انسانی معاشرت اور تہذیب کے ارتقا کے ارتقا کے ساتھ ساتھ ایسے حیوانی اعمال سے معاشرہ پاک ہوتا جائے گا اور ایسے لوگوں کی تعداد میں بتدریج کمی آتی جائے گی۔

جب ہم انسانی دماغ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتاہے کہ انسانوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں تو بہت ترقی کی ہے۔ لیکن آج کے انسانی بچے کا دماغ آج سے ہزاروں سال پیشتر کے انسانی بچے کے دماغ سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ آج کا بچہ جس معاشرے میں پرورش پاتاہے، اس سے اس کے شعور ی اور لاشعوری ضمیر (super۔ ego) کی تشکیل ہوتی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ نیکی اور بدی، اچھائی اور برائی، صحیح اور غلط کی تمیز سیکھتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ ایک جسمانی اور نفسیاتی ہستی سے معاشرتی اور اخلاقی ہستی بن جاتاہے۔


انسانی ضمیر کی پرورش انسانی شخصیت کے ارتقا کا ایک اہم مرحلہ ہے۔ جن لوگوں میں ضمیر کی پرورش صحتمند خطوط پر ہوتی ہے وہ جوان ہو کر تہذیب کی مخالفت کرنے کی بجائے اس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور انسانی معاشرے کے ارتقا ء میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور کسی بھی معاشرے میں ایسے لوگوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوتی ہے، اتنا ہی وہ معاشرہ صحتمندخطوط پر استوار ہوتاہے اور لوگوں کی خارجی پابندیاں آہستہ آہستہ داخلی پابندیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور انسانوں کے ذہنوں میں حکومت کی خارجی عدالت کی بجائے ضمیر کی داخلی عدالت قائم ہو جاتی ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کے لیے ایک صحتمند زندگی گزارنے کی خاطر خارجی اورداخلی دونوں طرح کی عدالت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان کے لیے نفسیاتی دباؤ کے ساتھ ساتھ معاشرے کا اخلاقی دباؤ بھی ضروری ہوتاہے۔ صدیوں کے معاشرتی ارتقا کے بعد ہمیں بہت سے ایسے لوگ مل جائیں جو قتل سے تو دور رہیں گے لیکن اگر انہیں سزا کا ڈرنہ ہو تو وہ جھوٹ بولنے، دھوکا دینے، اپنے غصے اور جنسی جذبات کا غیر صحتمندانہ اظہار سے دریغ نہ کریں گے۔ ایسے لوگوں کو راہ راست پر رکھنے کے لیے خارجی قوانین اور پابندیاں ضروری ہیں۔

اگر کسی معاشرے میں ایسے طبقے اور اقلیتیں موجود ہوں جو بنیادی حقوق سے محروم ہوں تو وہ گروہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ ایسی صورتِ حال کو بدلیں تاکہ ایک منصفانہ نظام قائم ہوسکے اور امیر و غریب، مرداور عورتیں، اور کالے اور گور ے سب ایک ہی قطار میں کھڑے ہو سکیں۔ ایک غیر منصفانہ نظام میں اقلیتوں میں غصے، نفرت اور بغاوت کے جذبات بڑھتے ہیں اور وہ تہذیب اور قانونی پابندیوں کو تباہ کرنے کے منصوبے بناتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں ایسی صورت حال پیدا ہو جائے کہ منصفانہ نظام سے اکثریت متاثر ہونے لگے اور صرف ایک اقلیت آسودگی اور خوشحالی کی زندگی گزار رہی ہو تو وہ اکثریت احتجاج کرنے لگتی ہے اور بالآخر ایک انقلاب لے آتی ہے۔ میری نگاہ میں اسی اقلیت کو جو اکثریت پر ظلم اور جبر کرتی ہو اور ان کے مسائل سے ہمدردی نہ رکھتی ہو اسے حکومت کرنے کا ویسے بھی حق نہیں ہونا چاہیے۔

کسی معاشرے کی تہذیب کے ارتقا ء کے لیے صرف وہ پابندیاں ہی اہم نہیں ہیں جنہیں لوگوں نے اپنے ضمیر کی آواز کے طور پر اپنا لیا ہو بلکہ اس کے لیے تخلیقی کارروائیاں اور فن پارے بھی اہم ہیں جو اسی معاشرے کا سرمایہ ہیں اور جن سے لوگ ایک مخصوص قسم کا حظ اٹھاتے ہیں۔ کسی معاشرے میں تہذیبی سرمائے میں وہ آدرش بھی شامل ہوتے ہیں، جن کے حصول کے لیے عوام ہر ووقت کوشاں رہتے ہیں اور جو لوگ ان تک پہنچتے میں کامیاب ہوجائیں، انہیں انعام و اکرام سے نوازتے ہیں۔

ایسے آدرشوں تک رسائی کے لیے افراد کی کوشش، صلاحیتیں، معاشرے کی مدد اور حوصلہ افزائی سب اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بعض دفعہ تو کوئی معاشرہ اپنے آدرشوں کو اتنا عزیز رکھتا ہے کہ وہ ایک مقام پر پہنچ کر یہ ثابت کرنے لگتاہے کہ اس کے آدرش باقی معاشروں کے آدرشوں سے بہتر ہیں۔ اس طرح ان میں ایک طرح کا احساس برتری پیدا ہو جاتاہے اور یہ احساس مختلف معاشروں، قوموں اور ثقافتوں میں رشک، حسد اور دشمنی کے بیج بوتا رہتاہے۔

عوام کی اس احسا س برتری کا بعض دفعہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عوام جن رہنماؤں سے شاکی ہوتے ہیں وہ رہنما جب دوسری قوموں سے مقابلے پر اتر آتے ہیں، تو یہی عوام ان رہنماؤں کا ساتھ دینے لگتے ہیں اور انہیں اپنا ہیرو بنا لیتے ہیں۔ اس طرح وہ لیڈ ر جو عوام میں مقبول نہیں ہوتے، جب دشمن سے جنگ کا اعلان کرتے ہیں تو وہ اپنی عوام کی ہمدردیاں حاصل کرلیتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ کئی ظالم اور جابر حاکموں نے اس حربے سے خوب فائدہ اٹھایا اور مدتوں حکومت کرتے رہے۔

ہر معاشرے کے لوگ اپنے فنی اور تخلیقی کمالات کا خوشی سے ذکر کرتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ عوام کی اکثریت ان فنون لطیفہ کے شاہکاروں سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوسکتی کیونکہ ان کے ذوق کی ان خطوط پر تربیت نہیں کی جاتی لیکن وہ پھر بھی ان شاہکاروں پر فخر کرتے ہیں۔

جب ہم کسی معاشرے کی نفسیاتی زندگی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور عوام کے آدرشوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتاہے کہ اپنے رہنماؤں اور فنون لطیفہ کے شاہکاروں پر فخر کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اور حقیقت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے، جس پر اب تک ہم نے توجہ مرکوز نہیں کی اور وہ ہیں ان کے مذہبی نظریات اور اب میں اسی موضوع پر تفصیل سے بات کرتا چاہتاہوں۔ (باقی آئندہ)