میاں بیوی کی عمروں میں تفاوت بالخصوص شوہر کی عمر کم اور بیوی کی زیادہ ہو تو بسا اوقات یہ معاملہ تنازع کی شکل بھی اختیار کر لیتا ہے۔ ماہرین نفسیات و سماجیات کے ساتھ ساتھ میاں بیوی کے مستقبل پر نظر رکھنے والے اداروں اورانسانی محبت کے جذبات کے ماہرین بھی میاں بیوی کی عمروں میں فرق کے مثبت اور منفی اثرات پر بحث کرتے ہیں۔ حال ہی میں ‘میل آن لائن‘ ویب سائیٹ نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں میاں بیوی کی عمروں میں غیرمعمولی فرق اور اس کے دونوں کی زندگیوں پر مرتب ہونے والے مثبت اور منفی اثرات پر سیرحاصل بحث کی گئی۔
اس بحث کا آغاز فرانسیسی صدارتی امیدوار ایمانویل ماکرون سے کیا گیا جن کی عمر 39 اوران کی اہلیہ بریگیٹ غٹرگنیوکس کی عمر 64 برس ہے۔ دونوں کی عمروں میں دو عشروں سے زیادہ کا فرق ہے۔ اخبار’ڈیلی میل‘ کے ایڈیٹر جیمز اینیس سمیتھ بڑی عمر کی خواتین کی طرف میلان کے حوالے سے اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بڑی عمر کی خاتون کےساتھ تعلق کے حوالے سے انہیں فرانسیسی صدارتی امیدوار کے ساتھ کافی مماثلت حاصل ہے۔ انہیں پندرہ سال کی عمر میں اپنی سے 20 سال بڑی 35 سال کی ایک خاتون کے ساتھ عشق ہوگیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بڑی عمر کی خواتین اور کم عمر مردوں کی شادیوں کے بارے میں کئی تحقیقات بھی سامنے آچکی ہیں۔
سنہ 1980ء کے بعد کم عمر مردوں کے بڑی عمر کی خواتین کی طرف میلان میں اضافہ دیکھا گیا۔ سمیتھ اور ماکرون کے بڑی عمر کی خواتین کی طرف میلان میں حیرت انگیز مماثلت بھی اس کی ایک مثال ہے۔ سمیتھ کو پندرہ سال کی عمر میں ایک پیتنس سالہ خاتون سے عشق ہوا مگر ایمانویل میکرون نے خود سے 25 سال بڑی خاتون کے ساتھ طویل عرصے کا ازدواجی تعلق نبھایا۔ دونوں اب بھی کامیاب ازدواجی زندگی گذار رہے ہیں۔ ’ڈیلی میل‘ کےایڈیٹرجیمز سمتھ کا کہنا ہے کہ بڑی عمر کی خواتین کی طرف اس کے میلان کی وجہ معلوم تو نہیں ہوسکی تاہم ایک امکان یہ ہے کہ وہ گھر میں دو بڑی بہنوں کے بعد پیدا ہوا۔ اسے گھر میں بھی اپنے سےبڑی عورتوں سے پالا پڑا ۔ پھرعلاقے میں اس کی پرورش بھی ’میچور‘خواتین کے سائے تلے ہوئی۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ اس کا رحجان فطری طور پراپنے سے بڑی عمر کی خواتین کی طرف ہونے لگا۔
جیمز سمتھ کا کہنا ہے کہ وہ کبھی کو ’جوڈتھ‘ [محبوبہ] کو ماں کے متبادل کا درجہ دیتا مگر ساتھ ہی وہ اپنے اندر جوڈتھ کے حوالے سے الگ کشش محسوس کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آدھی رات کو اس کے کمرے کے دروازے کے نیچے سے اس تک اپنے محبت کے پیغامات پہنچاتا۔ جیمز سمتھ کا کہنا ہے کہ اس کا بڑی عمر کی خواتین کی طرف میلان صرف اسکول دور تک محدود نہیں رہا بلکہ وہ اس کے بعد بھی بڑی عمر کی خواتین کی طرف زیادہ راغب رہے۔ وہ 26 سال کےتھے جب انہیں اپنی عمر سے 12 سال بڑی 38 سالہ ایک ٹی وی پروڈیوسر سے محبت ہوئی۔ یہ اس کی محبت کی دوڑ کا ایک نیا موڑ تھا۔
چونکہ جیمز سمتھ ایک پڑھے لکھے شخص ہیں۔ اس لیے انہوں نے کم عمرمردوں کے بڑی عمر کی خواتین کی طرف میلان پر تحقیق بھی کی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ بعض اوقات عمرمیں تفاوت باعث تشویش بھی ہوسکتا ہے اور آپ اس کی وضاحت بھی نہیں کرسکتے۔ جیمز سمتھ کا کہنا ہے کہ ’میچور‘ اور اپنے سے بڑی عمر کی خواتین کے ساتھ شادی کے کئی فواید ہیں۔ بڑی عمر کی خواتین زیادہ سمجھدار اور تجربہ کار ہونےکے باعث کم شوہر کے استحکام میں معاون بن سکتی ہیں۔ شریک حیات کے انتخاب میں اپنے سے بڑی عمر کی خاتون کا انتخاب ایک کم عمر لڑکی کو منتخب کرنے کی نسبت زیادہ فایدہ مند ہوسکتا ہے۔
سمتھ کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ یہ پریشان کردینے والا سوال پوچھتے ہیں کہ آپ کی اپنی محبوبہ کے ساتھ محبت کا انجام کیا ہوا؟ ایسے ہی کئی دوسرے سوالات بھی پوچھے جاتے ہیں۔ ایسے افراد خواتین کو سمجھنے اور متوقع تبدیلیوں میں توازن سے بے خبر ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بڑی عمر کی خواتین سے شادی کے بعد ملازمت یا بنک اکاؤنٹ کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا جب کہ کم عمر لڑکیوں سے ازدواجی تعلق کے مسائل الگ ہوتے ہیں۔
پچھلے ایک عشرے کےدوران اس تاثر نے زیادہ تقویت پکڑی کہ مردو خواتین کےدرمیان عمر میں فرق کا فائدہ زیادہ تر مرد کو ہوتا ہے۔ اس طرح یہ مروجہ معیار کے تحت ایک فریب سمجھا جاتا ہے۔ ویسے بھی مشہور یہ ہے کہ خواتین اپنے سے چھوٹی عمر اور مرد خود سے بڑی عمر کی خواتین کی طرف میلان رکھتے ہیں۔ مگر سنہ 1980ء کے عشرے میں الٹ ہونا شروع ہوا ہے۔ مردو خواتین اپنے شریک حیات کے انتخاب میں زیادہ حساس ہونے لگے ہیں اور ماضی کی روایات اور رحجانات کے برعکس متوازن رشتوں کی تلاش کواہمیت دیتے ہیں۔
گذشتہ بیس سال کے ذرائع ابلاغ پرنظر ڈالیں بڑی عمرکی خواتین کو اپنے سے کم عمرمردوں کے ساتھ زیادہ دیکھا گیا۔ عمر کی حد میں کسی حد تک اضافے نے مردو خواتین کو ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ عرصہ بتانے کا بھی موقع فراہم کیا۔ آنے والے وقتوں میں لوگ عمر کے مختلف مراحل میں متنوع تعلقات سے زیادہ کفایت کے ساتھ مستفید ہوں گے۔ عمر کے ہر اسٹیج پر خواتین اور مرد ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گذارنے کو مختلف انداز میں محسوس کرتے ہیں اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔
عمر میں عدم توازن کی بھی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔۔ جون کولینز کے پانچویں شوہر ان کی عمر سے 30 سال بڑے تھے۔ امریکی ماڈل سام ٹیلور ووڈ کی عمر 50 سال تھی جب انہوں نے ایک 26 سالہ نوجوان اداکار آرون جونسون کے ساتھ شادی کی۔ یہ اس بات کا بھی اظہار تھا کہ محبت کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔
بعض مرد اس لیے اپنے سے بڑی عمر کی خواتین کو ترجیح دیتے ہیں کہ ان کے خیال میں کم عمر خواتین ان کے لیے مسلسل تھکاوٹ اور پریشانی ہی کا موجب بنتی ہیں۔ ایسے لوگوں کا کہنا ہے کہ شادی کا مقصد مسلسل تھکاوٹ، ڈیپریشن اور تناؤنہیں بلکہ زندگی کا سکون اور خوشی حاصل کرنا ہے۔ وہ شادی کرکے پریشان نہیں بلکہ ہنسے مسکراتے رہنا چاہتے ہیں۔۔ کم عمر خواتین سے شادی کے بعد پہلا کام تو بچوں کی تعلیم وتربیت کرنا ہوتا ہے۔ یہ مسلسل تھکا دینے والا کام ہے۔ اس لیے بیشتر مرد ایسی خواتین کو ترجیح دیتے ہیں جو عمر میں میچور ہوں اور ان کی کوئی اولاد نہ ہو تاکہ وہ پرسکون طور پر زندگی گذار سکیں۔
جس طرح بہت سے مرد اپنے سے بڑی عمر کی خواتین کے ساتھ شادی میں خود کو زیادہ پرسکون محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بڑی عمر کی خواتین سے شادی طرز زندگی کو بدل دیتی ہے۔ جب کہ کم عمر خواتین سے شادی کے بعد زندگی میں اتنی تیزی کے ساتھ تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ اسی طرح اولاد کےخواہش مند فراد بڑی عمرکی خواتین سے شادی کرکے اولاد کی خواہش پوری نہیں کرپاتے۔ قصہ مختصر انسانی سماج کے صدیوں پرمحیط اس سفر نے یہ ثابت کیا ہے کہ زندگی جامد روایات سے جڑے رہنے کا نہیں بلکہ ہمہ وقت تبدیلی کا نام ہے۔ اس وقت اگر مردو خواتین کے درمیان شادی کے موقع پرعمر کا فرق زیربحث لایا جاتا ہے۔ عین ممکن ہے مستقبل میں یہ کوئی مسئلہ ہی نہ رہے اور لوگ اس کے عادی ہوجائیں۔