بلاگ قومی بے عزتی پر بے حسوں کے شادیانے

شازار جیلانی

شاہد خاقان عباسی صاحب بائیس کروڑ پاکستانیوں، چھ لاکھ فوج، سینکڑوں ایٹم بموں اور خطرناک میزائلوں کے ملک پاکستان کے وزیراعظم تھے۔ امریکہ کے دورے پر گئے تو امریکہ نے بیلٹ اتروا کر ان کی تلاشی لی۔ جو وہاں پر 9 / 11 کے بعد ہر کسی کی لی جاتی ہے۔ خاصکر پاکستان جیسے ضرورت مند اور مدد کے طلب گار ممالک کے باشندوں، افسران اور حکمرانوں کے۔ لیکن پی ٹی ائی کے بے سرے قوالوں نے پاکستان اور اس کے وزیراعظم کی اس بے عزتی کو بڑا انجوائے کیا اور اج تک مسلسل مذاق اڑایا۔ شاید یہ دنیا کی واحد مخلوق ہے جب کوئی ملک اس کے ملک کی بے عزتی کرے تو ان کو بڑا مزا اتا ہے۔

اج پاکستان کے ایک اور وزیراعظم عمران خان امریکہ کے دورے پر گئے ہیں۔ ان کے اور ان کے وفد کی کیا عزت افزائی ہوئی ہے سب کو نظر ارہا ہے۔ اج پی ٹی ائی کے مخالفین بغلیں بجا رہے ہیں۔ کہ دیکھو اپنی عزت؟ کوئی میراثی بھی خوش امدید کہنے کی خاطر چوہدری نے گاؤں سے باہر ”معزز“ مہمانوں کے لئے نہیں بھیجا۔

بات یہ ہے کہ مانگنے والوں کی عزت کہاں کس گاؤں اور چوک میں کی جاتی ہے؟ پھر یہ سب کچھ ہم نے خود کمایا ہے۔ کسی کو اجرت پر جب بھی ہماری ضرورت پڑی ہم بہت کم قیمت پر بہت گندے کام کرنے پر تیار ہوگئے ہیں۔ اقوام متحدہ کو ہماری ضرورت ہو یا امریکہ کو، ہم نے ہمیشہ لبیک ہی کہا ہے۔ ڈالر کی سطح بڑی ڈھلوان اور شدید پھسلن زدہ ہوتی ہے اور ہماری نیت ہر وقت خراب۔

ہمارے بارے میں امریکہ کی عدالتوں میں کہا گیا ہے۔ کہ یہ قوم ڈالر کی خاطر اپنی ماں تک بیچ دینے کو تیار رہتی ہے۔ پی ٹی وی کے ڈراموں، گانوں اور پاکستان سٹڈی کی کتابوں میں ہم بے شک زندہ اور تابندہ قوم ہے۔ لیکن ہمارے دلالوں نے ہمیں ہمیشہ بہت سستا بیچا ہے۔ اس لیے اب ہم اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ جب کوئی بین الاقوامی میدان میں ہماری ملکی اور قومی سطح پر بے عزتی کرے تو ہمیں برا بالکل محسوس نہیں ہوتا۔ عمران خان کی بے عزتی ہو یا شاہد خاقان عباسی کی، دونوں کی بے عزتی کو میں اپنی ذاتی بے عزتی محسوس کرتا ہوں کیونکہ یہ میرے وزیراعظم میرے ملک کے حقیقی سب سے بڑے سول نمائیندے کی بے عزتی ہے۔

اگر اپ اسے سیلیکٹڈ کہتے ہیں یا کچھ اور، وہ ہمارے درمیان ہے۔ میرا ایک یونیورسٹی کا دوست تھا۔ جو اساتذہ اور کلاس فیلوز کو ہر وقت تنگ کرتا رہتا۔ ہر وقت مذاق ہر وقت شرارتیں۔ لیکن خود کسی بے عزتی پر برا نہ منانے والا۔ ایک دن ایک پروفیسر صاحب نے کلاس میں مسلسل اس کی شرارتوں سے تنگ اکر اسے کہا تھا۔ ( پہ داسی شرم واوڑی چہ تاتہ شرم خکاری) ۔ اللہ تجھے اس کام میں مبتلا کردے جو تجھے شرم لگے۔ بس یہی ہماری پوزیشن ہے۔

ہمارے افسروں اور حمکرانوں کی ایک دفعہ امریکہ میں بیلٹیں نکالی گئی تھیں۔ تو ہم سب بڑے شرمندہ (ان دنوں ہم شرمندہ بھی ہوا کرتے تھے ) اور غصہ تھے۔ چند دنوں کے بعد امریکی صدر پاکستان تشریف لا رہے تھے۔ ہم نے سوچا جب وہ ہماری ائیرپورٹ پر اترے گا۔ ہم بھی اس کی ویسی ہی کھول کھول کر تلاشی لینگے۔ لیکن وہ جب راولپنڈی میں اترے۔ تو ائیر پورٹ کے ساتھ ساتھ پورا پنڈی اسلام آباد امریکی سیکورٹی کے حوالے تھا۔ امریکی صدر نے صرف ہمارے وردی پوش کمانڈو صدر کی بیٹی اور ہمارے بھاری عینکوں والے وزیر خارجہ کو اذن باریابی بخشا۔ بد قسمتی دیکھیں کہ جب ہمارے وزیر خارجہ اپنے ائیر پورٹ پہنچے تو وہاں بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو امریکی ائیر پورٹ پر اس کے ساتھ کیا گیا تھا۔ جس پر ہم شرمندہ اور غصہ تھے۔