ڈاکٹر خالد سہیل سے ازدواجی مسئلے کے بارے میں نفسیاتی مشورہ

ڈاکٹر خالد سہیل

حامدہ کا خط :
محترمی ڈاکٹر خالد سہیل! آپ سے اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں نفسیاتی مشورہ حاصل کرنے حاضر ہوئی ہوں۔

ہماری شادی کو پانچ سال ہوگئے ہیں۔ یہ ایک قسم کی محبت کی شادی تھی۔ یعنی ہم دونوں ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے تھے۔ ایک بیٹی ہے تین سال کی۔ میں ہاؤس وائف ہوں۔ اچھی روٹین ہے۔ لیکن میرے اور شوہر کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عمر چالیس سال ہے، مجھ سے دس سال بڑے ہیں اس لیے سوچ بھی الگ ہے۔ وہ اتنے زیادہ ڈومینیٹنگ ہیں کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔ شکی بھی ہیں شروع سے۔ پہلے بھی میں یہ بات جانتی تھی لیکن شادی سے پہلے کی اِنسیکیوریٹی سمجھ کر نظر انداز کرتی رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ سمجھے جیسے یہ ابھی برداشت کر رہی ہے ساری زندگی کرے گی۔

وہ چاہتے ہیں میں ان کی مرضی سے سانس لوں۔ ہر بات میں طنز اور نیچا دکھانا ان کو شاید اچھا لگتا ہے۔ مثال کے طور ہر چھٹی والے دن وہ پورے گھر کا جائزہ لیتے ہیں صرف اس لیے کہ میری غلطیاں نکال کر مجھے اس پر طعنے دے سکیں۔ گھریلو معاملات میں ان کی بے جا مداخلت لڑائی کا سبب بنتی ہے۔ ظاہر ہے کہ میں جادوگر نہیں ہوں اور پورا گھر بظاہر صاف دکھنے کے باوجود بھی کہیں نہ کہیں کوئی کونا گندا نکل آتا ہے جس پر مجھے ذلیل ہونا پڑتا ہے۔

غرض ہر وقت ہی کھنچاؤ رہتا ہے اس رشتے میں۔ کبھی کچھ دن پیار محبت میں بغیر لڑائی کے گزر جاتے ہیں لیکن اس کے بعد وہی دباؤ ہر وقت کا حاوی رہنا۔ پہلے میں چپ چاپ سنتی تھی لیکن اب برابر سے جواب دیتی ہوں اور چیختی چلاتی بھی ہوں جس سے بیٹی پر برا اثر پڑتا ہے۔ میں نے سب کچھ آزما کر دیکھ لیا۔ پیار سے سمجھانے کی کوشش کی۔ غصہ کر کے دیکھ لیا، گھر چھوڑ کر چلی گئی لیکن بے سود۔ وہ کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہیں۔ ان کا قدامت پرست دماغ آج کی دنیا کے تقاضوں سے اتنا نا بلد ہے کہ انھیں ساری دنیا پاگل لگتی ہے۔

وہ صاف کہتے ہیں کہ یہ سب لوگ پاگل ہیں جاہل ہیں۔ گالیاں بھی خوب بکتے ہیں جب کہ کہنے کو پڑھے لکھے مینیجر پوسٹ پر اچھی جاب ہے۔ یوں بھی نہیں کہ جاہل ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ میں نہیں جانتی مجھے اس سلسلے میں کس سے مدد لینی چاہیے۔ کیونکہ ان کے والدین نہیں ہیں اور کسی کی بات وہ سنتے نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ میرے والدین اس صورتحال کو ٹھیک طرح نہیں سمجھتے کہتے ہیں بس گزارا کرلو بچوں کی خاطر۔ میں کسی سے کہنا چاہ رہی ہوں کہ میں اندر ہی اندر گھل رہی ہوں۔ باقی ضروریاتِ زندگی اچھی طرح پوری کرتے ہیں۔ اچھا کھلانا اچھا پہنانا لیکن سکون نہیں ہے۔ (مخلص۔ حامدہ) فرضی نام)


ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب

محترمہ حامدہ صاحبہ!

آپ نے بہت اچھا خط لکھا ہے جو آپ کے ازدواجی اور خاندانی مسائل کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف آپ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہمارے معاشرے کے بہت سے خاندانوں کا مسئلہ ہے اسی لیے میں آپ کی اجازت سے آپ کے خط کو اپنے کالم کا حصہ بنا رہا ہوں تا کہ بہت سی اور عورتیں اور مرد بھی اس کالم سے استفادہ کر سکیں۔

ہمارے معاشرے میں بہت سے مرد یہ سوچتے اور سمجھتے ہیں کہ اگر وہ کما کر اپنے گھر کا معاشی نظام چلاتے ہیں تو وہ اپنی بیوی کے مالک ہیں۔ وہ اس پر تنقید کر سکتے ہیں۔ وہ اس کی تذلیل کر سکتے ہیں۔ ایسی سوچ ایک منفی سوچ ہے۔ غیر صحتمند سوچ ہیں۔ تکلیف دہ سوچ ہے۔

میری نگاہ میں میاں بیوی کا رشتہ دو دوستوں اور دو محبوبوں کا رشتہ ہونا چاہیے جس میں دونوں ایک دوسرے کی عزت کریں۔ ایک دوسرے کا احترام کریں اور ایک دوسرے سے پیار محبت کریں تا کہ دونوں مل کر زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں۔

آپ کی تو ایک بیٹی بھی ہے جو یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے اور شادی اورمحبت کے بارے میں بہت کچھ سیکھ رہی ہے۔

میرے مرحوم افسانہ نگار دوست سعید انجم اپنے پاکستانی دوستوں سے کہا کرتے تھے ’اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری بیٹی بڑی ہو کر شہزادی بنے تو تمہیں اس کی ماں سے ملکہ جیسا سلوک کرنا چاہیے۔ اگر تم اس سے کنیزوں جیسا سلوک کرو گے تو جان لو کہ کنیز کی بیٹی شہزادی نہیں بنتی۔ ‘

مجھے ڈر یہ ہے کہ اگر آپ اسی طرح دکھی رہیں اور آپ کے شوہر اسی طرح آپ کی تذلیل کرتے رہے اور آپ کی عزتِ نفس مجروح ہوتی رہی تو ایک دن آپ شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جائیں گی اور آپ کی بیٹی بھی بہت پریشان رہے گی۔ مجھے یہ پڑھ کر بہت دکھ ہوا کہ آپ کے والدین آپ کی مدد کرنے کی بجائے آپ سے صبر شکر کر کے قربانی دینے کا تقاضا کر رہے ہیں۔

آپ کی خواہش ہے کہ میں آپ کو نفسیاتی مشورے دوں۔

میرا پہلا مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنے ان دوستوں سے رجوع کریں جو آپ کے بارے میں ہمدرد ہوں۔

میرا دوسرا مشورہ یہ ہے کہ آپ چند دنوں یا ہفتوں کے لیے عارضی طور پر کہیں اور چلی جائیں اور اپنے مسئلے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کریں۔ غور کرنے کے بعد آپ اپنے شوہر کو خط لکھیں اور لکھیں کہ ان کی مدد کے بغیر آپ دونوں کی شادی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ آپ انہیں کہیں کہ آپ اسی شرط پر واپس آئیں گی کہ وہ آپ سے عزت و احترام سے پیش آئیں گے اور یا نفسیاتی مدد لیں گے۔

میرا تیسرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنی معاشی خود مختاری کا انتظام کریں کیونکہ معاشی خود مختاری نفسیاتی اور سماجی خود مختاری کے لیے بہت ضروری ہے۔

میرا چوتھا مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنے شہر میں ایک اچھا تھیریپسٹ تلاش کریں تا کہ وہ آپ کی مدد کر سکے اور آپ کی پرسکون زندگی گزارنے میں کونسلنگ کر سکے۔

میرا پانچوں مشورہ یہ کہ آپ اپنے شوہر کو یہ کالم پڑھوا سکتی ہیں اور انہیں دعوت دے سکتی ہیں کہ وہ بھی مجھے آپ کی طرح خط لکھیں تا کہ میں آپ دونوں کی مدد کر سکوں تا کہ آپ کی بیٹی کو جوان ہو کر کسی ماہرِ نفسیات کی خدمات کی ضرورت نہ پڑے۔ لیکن اگر آپ کے شوہر کئی اور پاکستانی شوہروں کی طرح کہیں کہ سارا مسئلہ تمہارا ہے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کے شادی کے مسائل کم نہیں ہوں گے اور آپ وقت کے ساتھ ساتھ مزید نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتی جائیں گی۔

میری نگاہ میں آپ ایک پڑھی لکھی ’ذہین اور خود دار خاتون ہیں جو اپنے گھر میں عزت ہی نہیں عزتِ نفس سے بھی زندہ رہنا چاہتی ہیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ آپ اپنے مسائل کا حل جلد یا بدیر تلاش کر لیں گی۔ آپ کا مجھے خط لکھنا آپ کے روشن مستقبل کی طرف پہلا قدم ہے۔ خوش رہنا آپ کا پیدائشی حق ہے یہ کسی اور کی خیرات نہیں ہے۔

حامدہ صاحبہ! جانے سے پہلے میں آپ کو ایک بھیڑیے اور کتے کی لوک کہانی سنانا چاہتا ہوں جو میں نے بچپن میں سنی تھی۔ اس کہانی نے میری زندگی میں ہر اس مرحلے پر مدد کی جب میں نے اپنے آپ کو ایک دوراہے پر کھڑا پایا۔ ہو سکتا ہے یہ آپ کی بھی مدد کرے۔

ایک جنگل میں ایک بھیڑیا رہتا تھا۔ جب وہ جوان تھا تو بہت طاقتور تھا اور آسانی سے اپنا شکار پکڑ لیتا تھا۔ لیکن جب وہ بوڑھا ہوا اور اس کے قویٰ مضمحل ہوئے تو اسے یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ وہ شکار نہ کر سکے گا اور بھوکوں مر جائے گا۔ اس فکر نے اسے اداس کر دیا۔

ایک دن وہ جنگل کے کنارے پر چہل قدمی کر رہا تھا کہ اس کی ملاقات ایک خوبصورت اور صحتمند کتے سے ہوئی۔ اس نے کتے سے صحت اور خوبصورتی کا راز پوچھا تو کتے نے کہا کہ وہ اپنے مالک کے ساتھ رہتا ہے جو اسے کھانا کھلاتا ہے اور رہنے کو گھر بھی دیتا ہے۔ بھیڑیے نے کہا کہ کیا وہ اسے اپنے مالک سے ملوا سکتا ہے۔ کتے نے کہا کل اسی وقت یہاں آ جانا میں اپنے مالک کو لے آؤں گا۔

کتے کا وعدہ سن کر بھیڑیا تھوڑی دیر کے لیے بہت خوش ہوا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کا بڑھاپا سکون سے گزرے گا۔ لیکن جب واپس جانے کے لیے کتا مڑا تو بھیڑیے کو کتے کی گردن پر ایک لکیر نظر آئی جہاں بال نہیں تھے۔ بھیڑیے کے استفسار پر کتے نے بتایا کہ جب اس کا مالک غصے میں آتا ہے تو وہ اس کے گلے میں زنجیر ڈال کر اپنی بیسمنٹ میں بند کر دیتا ہے۔ جب بھیڑیے نے یہ بات سنی تو اس نے کتے سے کہا کہ وہ کتے کے مالک سے نہیں ملنا چاہتا۔

حامدہ صاحبہ! ہم سب کو فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ ہم عزت سے رہیں یا زندگی کی ضروریات کے لیے ذلت برداشت کرتے رہیں۔

مجھے اپنی زندگی کے ہر موڑ پر اپنی عزتِ نفس اور اپنی آزادی زیادہ عزیز رہے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ اب آپ کو اپنی اور اپنی بیٹی کے مستقبل کے بارے میں چنداہم فیصلے کرنے پڑیں گے۔