سعودی عرب میں پہلی بار خواتین کو مرد کی اجازت کے بغیر پاسپورٹ بنوانے کا اختیار

سعودی خواتینتصویر کے کاپی رائٹEPA
Image captionاعلان کے مطابق 21 برس سے زیادہ عمر کی کوئی بھی خاتون اپنے مرد نگراں کی اجازت کے بغیر پاسپورٹ کے لیے درخواست جمع کروا سکتی ہے

سعودی عرب کے ایک شاہی فرمان کے مطابق اب مملکت کی خواتین کو بیرونِ ملک سفر کے لیے کسی محرم یا مرد نگران کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ 

جمعے کو کیے گئے اس اعلان کے مطابق 21 برس سے زائد عمر کی کوئی بھی خاتون اپنے مرد نگراں کی اجازت کے بغیر پاسپورٹ کے لیے درخواست جمع کروا سکتی ہے۔ 

اب سعودی عرب کے تمام بالغ شہری پاسپورٹ اور سفر کے لیے درخواست جمع کروا سکتے ہیں اور یوں اس حکم کے بعد خواتین مردوں کے برابر آ گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’میں نے سعودی عرب میں اپنے خاندان کو کیوں چھوڑا؟‘ 

والد کی ’نافرمانی‘ پر سعودی خواتین کی گرفتاری کیوں؟

’سعودی خواتین کو عبایہ پہننے کی ضرورت نہیں‘

ایک سعودی خاتون ٹیکسی ڈرائیور کہتی ہیں ’گاڑی چلانا میرا بچپن کا خواب تھا‘

جاری کیے گئے دیگر شاہی حکمناموں کے مطابق اب خواتین بچوں کی پیدائش بھی درج کروا سکتی ہیں اور اپنی شادی یا طلاق کا بھی خود اندراج کروا سکتی ہیں۔ 

جاری کردہ حکمناموں کا اطلاق ملازمتی ضوابط پر بھی ہوگا اور اس سے خواتین کے لیے ملازمت کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ نئے ضابطے کے تحت اب ملک کے تمام شہریوں کو ان کی جنس، عمر یا کسی معذوری سے بالاتر ہو کر ملازمت کے لیے اہل سمجھا جائے گا۔ 

واضح رہے کہ اب تک سعودی عرب میں کسی بھی خاتون کو بیرون ملک سفر کرنے یا پاسپورٹ بنوانے کے لیے کسی نگراں مرد جیسے والد، شوہر یا کسی اور مرد رشتے دار کی اجازت لینے کی ضرورت ہوتی تھی۔ 

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ملک کے سخت گیر قوانین میں بتدریج نرمی لائے ہیں اور اس کے تحت اب ملک میں خواتین کو گاڑی چلانے کی بھی اجازت ہے۔ 

سنہ 2016 میں انھوں نے ملک کے معاشی مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے منصوبہ پیش کیا جس کے تحت سنہ 2030 تک ملک میں ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد 22 فیصد سے بڑھا کر 30 فیصد کرنے کا ہدف بھی شامل ہے۔ 

دوسری جانب ان تبدیلیوں کے باوجود ایسے کئی کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سعودی خواتین نے ملک سے بھاگ کر مغربی ممالک جیسے کینیڈا میں پناہ لینے کی درخواست کی ہے اور اس کی وجہ سعودی عرب میں صنفی بنیادوں پر تفریق اور دباؤ کو ٹھہرایا ہے۔ 

رہفتصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionسعودی خاتون رہف القنون پناہ ملنے کے بعد کینیڈا پہنچ گئیں

رواں برس جنوری میں کینیڈا نے 18 سالہ سعودی خاتون رہاف محمد کو پناہ دی جنھوں نے سعودی عرب سے بھاگ کر آسٹریلیا میں پناہ لینے کی کوشش کی تھی۔ 

تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک کے ایک ہوٹل میں ان کے اور سعودی حکام کے درمیان تنازع پیدا ہوگیا جو انھیں واپس ملک لے جانا چاہتے تھے۔

رہاف نے اس اثنا میں بین الاقوامی برادری سے مدد مانگی جس کے بعد وہ کینیڈا جانے میں کامیاب ہو گئیں۔ 

انسانی حقوق کے کئی ادارے اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ سعودی عرب میں خواتین کو دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔ 

ہر برس سینکڑوں سعودی خواتین اپنے ملک سے فرار ہو کر مغربی ممالک میں پناہ کی طلب گار ہوتی ہیں