محمود اور ماہین کی شادی ارینجڈ میرج تھی۔ شادی کے بعد چھے مہینوں میں شاذ و نادر ہی کوئی ایسا دن گزرا تھا جب ان کے درمیان تو تکار یا چھوٹی موٹی جھڑپ نہ ہوئی ہو۔ حالاں کہ ماہین کی کوئی نند تھی نہ ساس۔ محمود کے والدین کئی برس پہلے ہی داغِ مفارقت دے چکے تھے۔ محمود ایم بی اے کرنے کے بعد ایک فرم میں کام کرتا تھا۔ اچھی خاصی تنخواہ تھی۔ وراثت میں اسے ایک پرانا مکان ملا تھا جسے بیچ کر اس نے سکائی ٹاور میں ایک خوبصورت فلیٹ خرید لیا تھا۔ یہ فلیٹ تیسری منزل پر تھا۔ محمود کی خالہ حیات تھیں۔ انہوں نے ہی ماہین سے اس کا رشتہ کرایا تھا۔ ماہین کی ماں خالہ کی جاننے والی تھیں۔
ماہین گریجویٹ تھی۔ خوش شکل تھی اور خالہ کا خیال تھا کہ اس کے منہ میں زبان نہیں ہے۔ یہ تو محمود ہی جانتا تھا کہ اپنی مادری زبان کے ساتھ ساتھ ماہین زبانِ غیر میں بھی بلا تکان گھنٹوں بول سکتی تھی۔ ماہین کو سب سے زیادہ چڑ محمود کے دوستوں سے تھی۔ ان کے ساتھ اس کا رویہ کچھ ایسا تھا کہ اب وہ محمود سے ملنے اس کے گھر آنے سے کترانے لگے تھے۔ محمود بنیادی طور پر لڑنے جھگڑنے والا آدمی نہیں تھا۔ وہ دل ہی دل میں کڑھتا رہتا تھا۔ ہر جھگڑے کے بعد ماہین کو منانے میں بھی پہل کرتا تھا مگر کبھی کسی انتہائی قدم کے بارے میں نہیں سوچتا تھا۔
ماہین کے مزاج میں شک کا عنصر بھی کوٹ کوٹ کر بھرا تھا جس کی وجہ سے محمود کو کئی بار شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ کسی محفل میں محمود اگر کسی لڑکی سے بات کرتا تو فوراً ماہین کا موڈ خراب ہو جاتا تھا۔ پھر اسے ماہین کے بیسیوں سوالوں کے جوابات دینے پڑتے۔ آفس سے کسی فیمیل کولیگ کا فون آتا تو ماہین کا ذہن فوراً بے وفائی کی کوئی کہانی گھڑ لیتا۔ محمود وضاحتیں دے دے کر تھک چکا تھا۔ تازہ لڑائی کا سبب اسی بلڈنگ میں رہنے والی ایک لڑکی تھی۔
دراصل وہ دونوں لفٹ میں تھے جب بجلی کے بریک ڈاؤن کی وجہ سے لفٹ بند ہو گئی۔ لڑکی بہت گھبرا گئی تھی۔ اسے بند جگہوں سے ڈر لگتا تھا۔ اس کی سانس رک رہی تھی۔ لڑکی سے زیادہ محمود گھبرا رہا تھا۔ محض پانچ منٹ بعد ہی لفٹ بحال ہو گئی۔ جب لفٹ کا دروازہ کھلا تو سامنے ماہین کھڑی تھی۔ وہ لڑکی تو چلی گئی مگر محمود اور ماہین آدھے گھنٹے تک وہیں کھڑے لڑتے رہے۔ محمود اسے فلیٹ کے اندر تو لے آیا لیکن ماہین کا غصہ سرد نہیں ہوا تھا۔ لڑائی اتنی بڑھی کہ وہ ناراض ہو کر اپنی ماں کے گھر چلی گئی۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ گھر چھوڑ کر گئی تھی۔
تین چار دن تک محمود اسے فون کر کر کے منانے کی کوشش کرتا رہا لیکن ماہین اس بار بہت زیادہ ناراض تھی۔ محمود کو بھی غصہ آ گیا۔ یہ اچھی مصیبت ہے کہ بات کچھ بھی نہ ہو پھر بھی چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے۔ اس نے سوچا کہ اب میں بھی فون نہیں کروں گا۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد بھی اسے چین نہیں مل رہا تھا۔ پھر اچانک اسے ایک خیال آیا۔ اتنی بار بے وفائی کا الزام لگا ہے تو کیوں نہ تھوڑی سی بے وفائی ہی کر لی جائے۔
پھر اسے اپنے ایک رنگین مزاج دوست کا خیال آیا جس کے ساتھ اس کے رابطے منقطع ہو چکے تھے۔ اب تازہ صورتِ حال میں رابطہ بحال کرنا ضروری تھا۔ چناں چہ اس نے اپنی ڈائری سے اس کا نمبر ڈھونڈ کر اسے فون کیا۔ اسے اپنی بات سمجھانے کے لیے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑا تھا۔ اگلے دن شام کو وہ تیار ہو کر کسی کا انتظار کر رہا تھا۔ آخر ڈور بیل بجی۔ اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔ خوشبو کا ایک جھونکا آیا اور اس کے ساتھ ہی وہ بھی اندر آ گئی۔ اس نے سی گرین کلر کا سلیو لیس لباس پہنا ہوا تھا۔ سیاہ بالوں کی آوارہ لٹیں شانوں پر لہرا رہی تھیں۔ دُپٹا گلے میں ایک باریک پٹی کی صورت تھا۔
محمود کے دل میں گدگدی سی ہونے لگی۔ وہ سوچنے لگا کہ ماہین نے کبھی اس سے اتنے پیار سے بات نہیں کی تھی۔ وہ اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ رابی اس کی طرف جھکی۔ محمود کو یوں لگا جیسے اس کے ہونٹوں پر کسی نے برف کا ٹکڑا رکھ دیا ہو۔
”اؤ کے جو تم چاہو۔ “ رابی نے فوراً کہا۔ محمود اس کی فرمانبرداری پر متاثر ہونے ہی والا تھا کہ اچانک اسے خیال آیا کہ یہ محبت اور یہ تابع فرمانی ان پیسوں کے بل پر ہے جو اس نے ابھی ابھی اس کے حوالے کیے ہیں اور جب پیسے پورے ہو جائیں گے تو وہ ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر منہ پھیر کر چل دے گی۔
نہ جانے کیا بات تھی۔ محمود نے اسے بلا تو لیا تھا مگر اب پیش قدمی سے گریزاں تھا۔ غصہ اور فرسٹریشن اپنی جگہ لیکن اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کچھ غلط ہو رہا ہے۔ پھر اس نے ان خیالات کو جھٹک دیا۔
محمود نے بازو پھیلا دیے۔ وہ اس کے بازوؤں میں سما گئی۔ محمود نامانوس خوشبو کو اپنی سانسوں سے ہم آہنگ کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔ رابی کے وجود میں اسے حدت کی بجائے ٹھنڈک محسوس ہو رہی تھی۔
”یہ کون ہے؟ “ اچانک ماہین نے زور سے کہا۔ اس کی نظر رابی پر پڑ گئی تھی۔
”اسے میں نے کام سے نکال دیا ہے۔ بہت چھٹیاں کرتی تھی۔ “
”ہاں تو پھر کیا ہے؟ چلو رابی ہمارے لیے چائے بنا کر لاؤ۔ “ محمود نے تیز لہجے میں کہا۔ رابی کے تیور سے لگ رہا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے ہلے گی بھی نہیں لیکن ماہین نے نفرت سے منہ پھیرا تو محمود نے ہاتھ جوڑ دیے۔ یہ دیکھ کر رابی کچن میں چلی گئی۔
”اچھا مذاق ہے۔ بہت خوشی ہوئی یہ سن کر لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ پروین اچھا خاصا ٹھیک کام کر لیتی تھی اورتم نے اسے نکال دیا۔ ہاں، اب سمجھ میں آیا۔ وہ تھی ادھیڑ عمر عورت اور یہ نوخیز لڑکی۔ تم نے سوچا ہو گا کہ کام کے ساتھ ساتھ آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ “ ماہین نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”اچھا سنو! میرے پاس تمہارے لیے بہت اچھی آفر ہے۔ میں تم دونوں کا ویڈیو کلپ شوٹ کروں گی۔ وہ کلپ ایک سائٹ کو بیچ دیا جائے گا۔ تم محض ایک کلپ سے لاکھوں روپے کما سکتے ہو؟ “
ماہین کی آنکھیں پھیلتی چلی گئیں۔ شاید وہ پہلے ہی سب کچھ سمجھ رہی تھی مگر سمجھنا نہیں چاہتی تھی لیکن اب بات اس کی برداشت سے باہر ہو رہی تھی۔ محمود کا دل احساسِ ندامت سے چور چور ہو رہا تھا۔ ایک کمزور لمحے نے اسے کس موڑ پر لا کھڑا کیا تھا۔ اس نے فوراً آگے بڑھ کر بیرونی دروازہ کھولا اور رابی کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔ رابی نے چند سیکنڈ ان دونوں کو دیکھا پھر تیز تیز چلتی ہوئی باہر نکلتی چلی گئی۔