گھریلو جبر پر خاموش رہنے والی خواتین کو فالج ہو سکتا ہے


ویسٹرن واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہرینِ نفسیات نے تفصیلی تحقیق کے بعد انکشاف کیا ہے کہ وہ خواتین جو گھریلو جبر پر صبر و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموش رہتی ہیں، ان میں فالج کا خطرہ ایسی خواتین کی نسبت زیادہ ہوتا ہے جو اپنے غصے کا اظہار کرکے دل کی بھڑاس نکال دیتی ہیں۔

یہ مطالعہ ایسی 304 شادی شدہ خواتین رضاکاروں پر کیا گیا جن کی عمریں 40 سے 60 سال تک تھیں۔ پہلے مرحلے پر گھریلو اور ذاتی زندگی سے متعلق ان سے تفصیلی سوال نامے بھروائے گئے جبکہ دوسرے مرحلے میں ان کا مفصل طبّی معائنہ کیا گیا۔

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص ناگوار اور ناپسندیدہ باتیں برداشت کرتا رہے اور اپنے ساتھ ہونے والے جبر پر بھی خاموش رہے تو اس کیفیت کو نفسیات کی اصطلاح میں ’’خود خاموشی‘‘ (سیلف سائلینسنگ) کہا جاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ خود خاموشی کسی حد تک مناسب تو ہے لیکن انسان کو وقتاً فوقتاً اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہنا چاہیے ورنہ اس کی ذہنی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خود خاموشی کا عمل مردوں کی نسبت خواتین میں زیادہ ہوتا ہے۔

اب ویسٹرن واشنگٹن یونیورسٹی میں نفسیات کی پروفیسر، ڈاکٹر ڈانا جیک اور ان کے ساتھیوں نے بطورِ خاص خواتین میں خود خاموشی کے جسمانی اثرات کا جائزہ لیا ہے۔

انہیں معلوم ہوا کہ خانگی امور میں اپنے غصے اور جذبات کا برملا اظہار کرنے والی خواتین میں دماغ تک جانے والی اہم ترین شریان (کیروٹڈ آرٹری) میں مضر صحت چکنائی نہ ہونے کے برابر تھی۔

اس کے برعکس، وہ خواتین جنہیں اپنے گھریلو اور ازدواجی معاملات میں جذبات و احساسات کا اظہار کرنے میں مشکلات یا رکاوٹوں کا سامنا تھا، ان کی شریانوں میں مضرِ صحت چکنائی جمع ہونے کا امکان 14 فیصد زیادہ دیکھا گیا۔

کیروٹڈ آرٹری میں مضر چکنائی جمع ہونے لگے تو پہلے ڈپریشن ظاہر ہوتا ہے؛ اور اگر یہ مقدار زیادہ ہوجائے تو دماغ تک پہنچنے والے خون میں شدید رکاوٹ ڈالتی ہے جس کے نتیجے میں فالج بھی ہوسکتا ہے۔ عین یہی بات اس مطالعے میں بھی کہی گئی ہے۔

البتہ، بہت سے ماہرین کو اس تحقیق پر اعتراض بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ مطالعہ ’’خود خاموشی‘‘ اور ’’فالج‘‘ کے درمیان تعلق تو ثابت کرتا ہے لیکن یہ ثابت نہیں کرتا کہ خود خاموشی ہی فالج کی وجہ بنتی ہے (یا بن سکتی ہے)۔

یہ مطالعہ گزشتہ دنوں شکاگو میں منعقدہ ’’نارتھ امریکن مینوپاز سوسائٹی‘‘ کے سالانہ اجلاس میں پیش کیا گیا۔ تاہم جب تک یہ کسی باقاعدہ تحقیقی جریدے میں شائع نہیں ہوجاتا، تب تک عالمی نفسیاتی ماہرین کے حلقوں میں اس پر بحث شروع نہیں ہو پائے گی۔