بچوں کے رجحانات نظرانداز کر کے ان کی زندگی تباہ مت کریں

نوشی بٹ

آداب۔
امید کرتا ہوں آپ خیریت سے ہوں گی۔ میں آپ کی تحاریر کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا رہتاہے۔ آپ نہایت عمدگی سے مختلف موضوعات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ آج آپ کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرانا چاہتاہوں۔ آپ اس بات سے بخوبی واقف ہوں گی کہ پاکستان میں ایجوکیشن سسٹم کافی مسائل کا شکار ہے۔ جن پر وقتا فوقتا بحث مباحثہ ہوتا رہتا ہے۔ لیکن ایک پوائنٹ جس پر میں سمجھتا ہوں۔ بہت کم گفتگو کی جاتی ہے جس کو میں بہت ضروری بھی سمجھتا ہوں۔

وہ ہے طالب علم کا شوق۔ ایجوکشن سسٹم کے اس خاص نقطے پر لکھیے۔ جس میں ایک سٹوڈنٹ کو اپنی مرضی کے مضامین سیلیکٹ کرنے کی آزادی نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں تو اس بات کو بالکل ہی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ کام جو انسان شوق سے کرتا ہے، دلچسپی لے کر کرتا ہے۔ اس میں پروڈکٹیویٹی زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے بڑی بات اپنی پسند کا کام کر کے انسان کو سکون بھی ملتا ہے۔

آج بڑی تعداد میں لوگ اپنی جاب سے خوش نہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ اور پھر کیا ہم بچوں کو اتنا باشعور بناتے بھی ہیں جس سے وہ اس قابل ہو جائیں کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔
حاجی فیصل

آداب
میں بالکل خیریت سے ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ میری تحریریں کسی کی زندگی بہتر بنانے کے کام آ رہی ہیں۔ آپ نے جس نکتے کی نشاندہی کی ہے۔ یہ بہت اہم اور حساس موضوع ہے۔ اصل میں ہمارے معاشرے میں پہلے تو اولاد پیدا کرنا ہی ایک کام کی طرح نبٹا لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی تعلیم و تربیت ہم اپنے اور سماج کے بنائے گئے اصولوں پہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم بچوں کو جیتا جاگتا انسان نہیں سمجھتے۔ اپنی پراپرٹی سمجھتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ بچے کے کوئی جذبات و احساسات نہیں ہیں۔ جو ہم کہیں گے اسے ماننا اس کا فرض ہے۔ چاہے ہم غلط ہی کیوں نہ کہتے ہوں۔ ہمارے معاشرے میں بچے پہ بچپن ہی سے یا تو ڈاکٹر بننے کی خواہش مسلط کر دی جاتی ہے یا انجینئر بننے کی۔

آٹھویں کے بعد بچے کی شامت آ جاتی ہے۔ اس کا چاہے سائنس سبجیکٹ میں دل لگے یا نہ لگے۔ لیکن اسے پڑھنا پڑیں گے۔ بچے کا انٹرسٹ اگر آرٹ مضامین کی طرف ہے تو اسے ایسے ٹریٹ کیا جائے گا جیسے اس نے کوئی انہونی بات کہہ دی ہے۔ آرٹس مضامین پڑھنا اور آرٹ کی جانب رغبت رکھنے پہ والدین کی جانب سے سخت ری ایکشن آتا ہے۔ ان کے نزدیک بچہ ہر صورت سائنس پڑھے چاہے بعد میں خجل خراب ہوتا رہے۔ بچہ اپنی مرضی سے مضامین کا انتخاب نہیں کر سکتا تو پڑھنے میں اس کا دل کیسے لگے گا۔

آج کل تو عجیب ٹرینڈ چل نکلا ہے گریڈز اور نمبرز کی دوڑ کا۔ بچے اے پلس ہی لیں گے تو لائق فائق گنے جائیں گے۔ بورڈ کے ایگزامز میں ایک ہزار پچانوے نمبر لینے والا لائق ہے اور جس نے دس نمبر بھی کم لے لیے ہیں۔ تو سمجھو اس کی گھر میں شامت آ گئی۔ رزلٹ کے بعد بچوں میں خودکشی کا تناسب بھی بڑھتا ہے۔ اس کے پیچھے وجہ والدین کا جابرانہ رویہ ہوتا ہے۔ والدین اپنے بچے کے شوق کی راہ میں دیوار بن کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہوتے کہ بچہ جس چیز میں انٹرسٹ محسوس نہیں کر رہا تو اس میں اچھے نمبر کیسے لے گا۔

ہمارے ڈبل سٹینڈرڈز کا یہ حال ہے کہ ایک جانب ہم بچوں کو ڈاکٹر انجینئیر بنانے پہ فوکس کر کے بیٹھے ہوتے ہیں۔ دوسری جانب اگر کسی اور کا بچہ این سی اے جیسے ادارے میں آرٹس/آرٹ پڑھ رہا ہو تو اسے رشک کی نظروں سے بھی دیکھتے ہیں۔ بچوں کو باندھ کے اور اپنی مرضی کے مطابق چلانے سے آپ ان کو ایک فرماں بردار اور آپ کے حکم کے تابع تو بنا لیتے ہیں۔ لیکن اس کی خوشی اور شوق دونوں کو برباد کر دیتے ہیں۔

اس حوالے سے میرے فوٹوگرافی کے ٹیچر ایک عمدہ مثال ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب میں میٹرک کے بعد ایف ایس سی میں گیا تو میں نے گھر والوں سے کہا کہ میرا سائنس میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے۔ جب ان کے گھر والوں نے پوچھا کہ کیا پڑھنا ہے تو سر کے آرٹس سبجیکٹ بتانے پہ گھر میں کہرام آ گیا۔ سر نے کہا میں فوٹوگرافر بننا چاہتا ہے۔ اس کے لیے مجھے سائنس کے سبجیکٹ کی ضرورت نہیں۔ تو ان کے گھر والوں نے کہا کہ سائنس نہیں پڑھو گے تو کماؤ گے کیسے۔ سر کہتے ہیں میں فرسٹ ائیر اور پھر سیکنڈ ائیر میں سٹڈیز میں ڈاون ہوتا چلا گیا۔

ان کے استاد نے ان کو کہا کہ ”تم اس گھڑے کی مچھلی نہیں ہو لیکن بس کسی طرح یہ دو سال پورے کر لو“۔ انہی دنوں فلم تھری ایڈیٹ ریلیز ہوئی تھی۔ سر نے کہا کہ بھلا ہو عامر خان کا کہ جس نے تب وہ فلم بنائی۔ اور اس فلم سے یہ ہوا کہ کم از کم مجھے ایف ایس سی کے بعد اپنی مرضی کے سبجیکٹ پڑھنے کی اجازت مل گئی۔ آج وہ ایک جانے مانے فوٹوگرافر ہیں۔

تو بات یہ ہے کہ سر تو خوش قسمت تھے کہ ان کے گھر والوں فلم سے ہی سہی سیکھ لیا۔ لیکن زیادہ تر والدین ایسے ہی ہوتے ہیں کہ بچے کو اپنی مرضی سے بڑا کرنا ہے۔ اور اس کی پڑھائی سے لے کر شادی اور پھر بچے پیدا کرنے تک اپنی مرضی چلانی ہے۔ اب جس بچے کی خود تربیت ایسے ہوئی ہے تو سوچیے کیا وہ اپنے بچے کے لیے مددگار ثابت ہو گا؟ بہت کم والدین بعد میں مددگار ثابت ہوتے ہیں زیادہ تر روایتی والدین ہی بنتے ہیں۔

یہ المیہ ہے۔ پلیز اپنے بچوں کو کھل کے سانس لینے اور جینے کی آزادی دیں۔ انہیں گائیڈ ضرور کریں لیکن ان پہ اپنے فیصلے مسلط مت کریں۔ آج کل تو دور بھی انٹرنیٹ کا ہے۔ ہر چیز تک رسائی تیز تر ہے۔ بچے ہم سے زیادہ بہتر طریقے سے چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں، ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے۔ میرے گھر میں تو خود بچوں پہ کسی قسم کی پابندی یا ڈیمانڈ نہیں ہے۔ کوئی بھی ڈاکٹر نہیں بننا چاہتا۔ ایک بیٹا انجینئر بننا چاہتا ہے کیونکہ وہ بچپن سے ہی جڑ پٹ مستری ٹائپ بچہ ہے۔

اور یہ سراسر اس کی اپنی چوائس ہے۔ بچوں کو ان کے بالغ ہونے تک گائیڈ کریں۔ ان کو مشورے دیں۔ لیکن ان پہ اپنی مرضیاں مت تھوپیں۔ ان کو کہیں کہ یہ آسمان پورا تم لوگوں کا ہے۔ ساری دنیا تم لوگوں کے قدموں میں ہے۔ جاؤ اپنی مرضی سے جیو۔ دل والے دلہنیا لے جائیں گے فلم کا ایک ڈائیلاگ میرا فیورٹ ہے ”جا سمرن جا جی لے اپنی زندگی“۔ کوشش کریں کہ اپنے بچوں کو ایسے ہی اپنی زندگی جینے دینے کی آزادی دیں۔ بطور والدین یہ تھوڑا مشکل لگے گا کیونکہ بچوں کو لے کر والدین حساس ہوتے ہیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ سارے خاندان میں بیسٹ بچہ ہو۔ لیکن یقین مانیں آپ کا بچہ آپ کی اولاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انسان بھی ہے۔ وہ اپنا ایک الگ وجود بھی رکھتا ہے۔ اسے اپنی ذات کو کھوجنے دیں۔ یقینا وہ بھوکا نہیں مرے گا۔ اور آپ کی مرضی سے چلنے پہ اگر ناکام ہوتا ہے تو آپ کو مورد الزام بھی نہیں ٹھہرائے گا۔

اپنے بچوں کے دوست بنیں، باڈی گارڈ نہیں۔ امید ہے کہ دوست کچھ نہ کچھ سیکھیں گے
شکریہ