حریم شاہ، قندیل بلوچ کا دوسرا جنم؟


گزشتہ چند روز سے ہمارے یہاں سوشل میڈیا سلیبرٹی حریم شاہ کی وزارت خارجہ کے کانفرنس روم سے جاری ٹک ٹاک وِڈیو کا چرچا ہے۔ کوئی اس کا تعلق موجودہ حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں کی اخلاقی گراوٹ سے جوڑ رہا ہے، کوئی حریم شاہ کے کردار کے متعلق اپنی معلومات پہنچا رہا ہے، غرض یہ کہ جتنے منہ اُتنی باتیں۔ مجھے یوں لگتا ہے، کہ اس سیاسی گہما گہمی کے موسم میں، بہ ظاہر حصولِ شہرت کی چاہ میں کی گئی، ان بے ضرر حرکات پر، ہم میں سے اکثر، اوور ری ایکٹ کرتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے، کہ وزارت خارجہ کے کانفرنس روم میں ایک خاتون وِڈیو بنا لے، تو ہماری غیرت ایمانی کو دھچکا پہنچے۔ بہ جا کہ ہر مقام کا ایک پروٹوکول ہوتا ہے، کسی کی نشست پر بیٹھنا اخلاقی طور پر برا سہی، لیکن کیا یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے، کہ اس کا اشتہار بنا لیا جائے؟
شہرت کسے بری لگتی ہے۔ بقول شخصے، شہرت کی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے۔ کوئی مشہور ہو تو اُس کی شناخت اُس کے کام یا پیشے سے ہوتی ہے، اور ایسی شہرت جس میں شہرت یافتہ کا کام یا پیشہ واضح نہ ہو، صرف اس کی اچھل کود دکھائی دے رہی ہو تو اس کے لیے کیا کہیے گا؟ سستی شہرت؟ شہرت کا حصول، اپنی پہچان بنانے کی خواہش، یا خود کو منفرد دکھانے کا شوق، یہ انسانی فطرت ہے۔ شاید مشہور ہونے کی اسی جبلت کے زیرِ اثر ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، کہ کچھ من چلے کچھ کر گزرنے کی چاہ میں، اپنی زندگی تک کو داو پر لگاتے آئے ہیں۔
شہرت کی طلب میں کی گئی بہ ظاہر معمولی، بے ضرر یا بے منفعت اور اکثر مضحکہ خیز حرکتوں سے، کسی زرخیز دماغ کو پیسا بنانے کا خیال آیا تو ’’گینیز بک آف ورلڈ رِکارڈ‘‘ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ و گرنہ اس مصروف دنیا میں کسی کو کیا پروا، کہ کس نے ایک مکے کی ضرب سے ایک وقت میں کتنے ناریل پھوڑ ڈالے، یا کس شہزادی نے اب تک کا سب سے قیمتی لباس زیب تن کر کے ایک رِکارڈ بنا ڈالا؟
شوبز میں اپنے آپ کو مشہور کرنے کے لیے کیا کیا  پاپڑ بیلے جاتے ہیں، یہ اس دُنیا کے باسی خوب جانتے ہیں۔ کیسے کیسے حیلوں سے خود کو متنازِع بنایا جاتا ہے، کہ پاپا رازی کیمرے اُٹھائے ان کے پیچھے دوڑ پڑیں، محض اس لیے، کہ چٹ پٹی، مسالا بھری خبروں کی ایک مارکیٹ ہے۔ پھر یہ مقبول عام جملہ بھی پیچھا کرتا ہے، کہ جو دِکھتا ہے، وہ بکتا ہے، یا پھر یوں کہا جائے کہ بد نام جو ہوں گے، تو کیا نام نہ ہو گا!
مغربی ممالک میں شہرت حاصل کرنے کا ایک نسبتہََ سہل طریقہ، کسی عامی کا محدود رسائی والے علاقوں میں، بہ غیر اجازت داخلے ہو جانا ہے۔ اسے وقتی شہرت کہا جا سکتا ہے۔ ایسی عمارتیں جہاں دنیا کے چوٹی کے ماہرین کی نگرانی میں جدید ترین سیکورٹی آلات نصب ہوں، لیکن پھر بھی تیرے میرے جیسے، حفاظتی نظام کو دھوکا دے کے وہاں تک پہنچ کے سب کو حیران کر دیں۔ اگر چہ ایسی مثالوں میں قانون توڑنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائیاں بھی ہوئیں، لیکن وہاں یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ موجود رِکارڈ کے مطابق، اب تک ایسے اکیس واقعات کا سراغ ملتا ہے، جب عام شہری سیکیورٹی کے تمام نظام کو چکما دے کر، وائٹ ہاؤس اور بکنگھم پیلس میں جا گھسے۔
دس سال  پہلے چوبیس نومبر سن دو ہزار نو، وائٹ ہاوس میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے اعزار میں اسٹیٹ ڈنر کے موقِع پر ایک امریکی سوشل میڈیا سلیبریٹی مشال صلاحی، اپنے شوہر طارق صلاحی کے ساتھ بغیر اجازت نامہ لیے اندر جا گھسی۔ سیکیورٹی  پر مامور اہل کاروں کو پتا تب چلا، جب اس نے فیس بک پر صدر باراک اوباما کے ساتھ اپنی سیلفی اپ لوڈ کی۔
اسی طرح کا ایک اور دل چسپ کردار برطانوی شہری مائیکل فیگن بھی تھا، جس نے شاہی سکونت گاہ بکنگھم پیلس میں داخل ہونے کی متعدد کام یاب کوششیں کیں۔ اُس کے بلند حوصلے کی داد دیجیے، کہ نو جولائی سن انیس سو بیاسی کو صبح ساڑھے سات بجے، یہ موصوف ملکہ برطانیہ کی خواب گاہ تک جا پہنچے، جہاں ملکہ الزبتھ دوئم محو استراحت تھیں۔ ملکہ الزبتھ ایک اجنبی کو اپنے پلنگ کے کنارے پر بیٹھا دیکھ کر، خوف زدہ ہو کے اٹھ بیٹھیں۔ کوئین نے ایمرجینسی الارم بجایا، مگر الارم نے کام نہ کیا۔ مائیکل فیگن نے گرفتاری کے بعد اعتراف کیا، کہ اس سے پہلے بھی وہ کئی بار سیکورٹی اسٹاف سے نظر بچا کے، محل میں گھومتا پھرتا رہا ہے۔ اس کی جھجک اس حد تک دور ہو چکی تھی، کہ ایک دفعہ وہ شاہی باورچی خانے میں پنیر اور شراب کی ضیافت اڑا رہا تھا، کہ محل کی ایک ملازمہ آ دھمکی۔ فیگن نے اپنے حواس قابو میں میں رکھتے، ملازمہ کو سگریٹ لانے کا حکم دیا، جس کی تعمیل کر دی گئی۔ اسی طرح کے ایک پھیرے کے دوران میں، وہ شہزادی ڈیانا کے پوسٹ روم میں جا گھسا، جہاں نومولود شہزادہ ولیم کی پیدائش پر ملنے والے تحائف رکھے تھے۔
برطانیہ میں اس نوعیت کا آخری واقعہ سن دوہزار سولہ میں ہوا، جب ڈینس ہینسے نامی ایک شخص بِنا اجازت محل میں داخل ہوا، اور حفاظت پر مامور اہل کار سے استفسار کیا:
’’کیا محترمہ گھر پر ہیں‘‘؟
اس طرح کے تمام کی تمام مہمات کا مقصد، فقط سستی شہرت کا حصول  تھا۔ یہ افراد اپنی ان کوششوں میں، یوں کام یاب ٹھیرے، کہ ان واقعات کو میڈیا میں لا تحاشا کوریج ملی۔ راتوں رات ان شخصیات کا شمار، ’’مشاہیر‘‘ میں ہونے لگا۔
حفاظتی نقطہ نظر سے جہاں ان واقعات نے، ان انتہائی اہم عمارتوں اور شخصیات کی حفاظت پر سوال اٹھائے، وہیں ’’وائٹ ہیٹ انٹروڈرز‘‘ کے نام سے ایک پیشہ تخلیق پا گیا، جہاں ایسے ہائی سیکیورٹی مقامات پر کام یابی سے داخلے یا فرار کو یقینی بنا کر سیکیورٹی سسٹم میں موجود خامیوں کی نشان دہی کی جاتی ہے۔
روایتی پرنٹ میڈیا کا دور تقریباً لد چکا۔ یہ زمانہ سوشل میڈیا کا ہے۔ حصول شہرت کی خواہش میں لائک، کامینٹ، فالورز کی تعداد کی چاہ کے مارے، آج بھی ایسی حرکتیں کر گزرتے ہیں۔ آگے بھی امکان ہے، کہ یہ سلسلہ یونھی چلتا رہے گا۔
حریم شاہ کون ہے؟ اس کا ماضی کیا ہے؟ اس کا تعلق کس پیشے سے ہے؟ اس نے پارلیمنٹ لاجز سے لے کر وزارت خارجہ تک اپنی رسائی کو کیوں کر ممکن بنا لیا؟ اس کے متعلق مجھے کوئی علم نہیں اور نہ میں اس پر کوئی رائے دینا چاہتی ہوں۔ در اصل میں سستی شہرت کے حصول کے لیے کی گئی حریم شاہ کی اس حرکت پر عوامی رد عمل دیکھ کے حیران ہوئی ہوں اور کچھ کچھ خوف زدہ بھی۔ اس لیے کہ قندیل بلوچ کا نام ابھی میرے حافظے میں ہے۔ وہ بھی حریم شاہ کی طرح سوشل میڈیا سلیبرٹی تھی۔ شہرت کے حصول کی جستجو میں، اس کی بے ڈھب چال نے اُسے اجتماعی تضحیک کا نشانہ بنائے رکھا، بالآخر وہ جان سے گئی۔ اپنی الم ناک موت کے اگلے ہی روز، اُس کا ٹھٹھا اڑانے والا میڈیا، اُسے ہیروئن بنا کے دکھانے لگا۔ حتا کہ اسے صنفی عدم مساوات کا استعارہ بنا کر پیش کیا۔
آج الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر یہی کچھ حریم شاہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ کیا ہمیں اپنی حسرتوں کی نا کامیوں پر اور نمبر ون کی دوڑ میں شامل ٹی وی چینلوں کو اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے، کچھ اور قندیلوں کو بجھانا مطلوب ہے؟
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔