انٹرنیٹ کی نگرانی کیلئے متنازع کمپنی سے معاہدہ کرلیاگیا



)حکومت پاکستان نے ملک بھر میں ’انٹرنیٹ نگرانی کا نظام‘ (ویب مانیٹرنگ سسٹم) قائم کرنے کے لیے کینیڈا سے تعلق رکھنے والی متنازع کمپنی کی خدمات حاصل کرلیں۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق نیویارک سے تعلق رکھنے والی اشاعت ’کوڈا اسٹوری‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سینڈوین کمپنی نگرانی کے لیے آلات فراہم کرے گی اور پاکستان میں آنے اور یہاں سے جانے والے تمام انٹرنیٹ ٹریفک کا تجزیہ بھی کرے گی۔

خیال رہے کہ رواں برس مئی میں یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ٹیلی کام انڈسٹری کو گرے ٹریفک کی روک تھام اور اس کا جائزہ لینے کے لیے ’مناسب تکنیکی حل‘ نافذ کرنے کی تجویز دی تھی جس میں وائس اوور انٹرنیٹ پروٹوکول اور ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس بھی شامل ہیں۔

وزیرِ پارلیمانی امور اعظم سواتی نے سینیٹ میں بتایا تھا کہ پی ٹی اے نے ’ان باکس بزنس ٹیکنالوجی‘ اور سینڈوین انک نے درخواست کی ہے کہ گرے ٹریفک کی نگرانی کرنے کے لیے آلات فراہم کرے۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ٹی اے ان کمپنیوں سے رابطے میں نہیں ہے اور نہ ہی اس منصوبے میں سرکاری فنڈز کا استعمال کیا گیا۔

تاہم کوڈا اسٹوری کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی اے کی ویب سائٹ پر دستیاب مارچ 2018 کے ایک ٹینڈر میں قومی سطح پر ویب کی نگرانی کرنے والے نظام اور انٹرنیٹ پر موجود کسی بھی ا?ن لائن مواد بالخصوص وہ مواد کو برقی جرائم کی روک تھام کے قانون کے تحت غیر قانونی ہو، کی نشاندہی اور اسے بلاک کرنے کے لیے بولی دہندگان کو مدعو کیا گیا تھا۔

معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ویب مانیٹرنگ سسٹم (ڈبلیو ایم ایس) کا ٹھیکا ایک کروڑ 85 لاکھ ڈالر کا ہے اور اس کی تاریخ 12 دسمبر 2018 ہے۔

مذکورہ ویب مانیٹرنگ سسٹم پی ٹی اے کی جانب سے رابطوں کی نگرانی کرنے، ٹریفک کوجانچنے، اسے اور کال ڈیٹا کو ریکارڈ کرنے کے لیے ڈیپ پیکٹ انسپیکشن (ڈی پی آئی) کا استعمال کرے گا۔

مذکورہ ٹھیکے پر متعدد پارٹیز نے دستخط کیے ہیں جس میں پاکستان فرم ان باکس بزنس ٹیکنالوجیز لمیٹڈ، بھی شامل ہے جو ’ہارڈ ویئر، سافٹ ویئر کی خریداری اور ویب مانیٹرنگ نظام سے منسلک دیگر خدمات فراہم کرنے لیے پی ٹی اے اور سینڈوین کی مقامی شراکت دار کے طور پر کام کررہی ہے۔

خیال رہے کہ یہ نیا نظام 2010 کے اس متنازع قانون کا نتیجہ ہے جس میں پاکستان سے جانے اور پاکستان میں آنے والے کسی بھی ٹریفک کی نگرانی اور اسے بلاک کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

رپورٹ میں سینڈوین کے آلات نصب کرنے کا لائسنس رکھنے والی کمپنی انباکس بزنس ٹیکنالوجیز میں کام کرنے والے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ ویب مانیٹرنگ سسٹم ابھی فعال نہیں ہوا ہے۔

دوسری جانب رپورٹ کی تیاری میں جب پی ٹی اے سے سینڈوین یا ان باکس بزنس ٹیکنالوجیز سے کسی بھی قسم کے معاہدے کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا گیا کہ حکام کا انباکس یا سینڈوائن سے اس وقت یا ماضی میں کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔

تاہم پی ٹی اے حکام کا یہ ضرور کہنا تھا کہ یہ کمپنیاں ملک کی ٹیلی کام انڈسٹری کو ٹیکنالوجی فراہم کرسکتی ہیں۔

رپورٹ میں ویب کی نگرانی کے لیے سینڈوائن کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، سال 2012 میں جب حکومت نے پہلی مرتبہ انٹرنیٹ کے مواد کی چھان بین کا نظام قائم کرنے کے لیے تجاویز طلب کی تھیں تو سینڈائن ان کمپنیوں میں شامل تھی جس نے انسانی حقوق کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس منصوبے کے لیے بولی نہیں دے گی۔

تاہم پاکستان ٹیلی کمیونکیشن لمیٹڈ کی ویب سائٹ پر موجود ایک ٹینڈر نوٹس سے تصدیق ہوتی ہے کہ سینڈوائن 2016 میں پاکستان میں اپنی خدمات فراہم کررہی تھی۔
ڈیلی سنگر