ڈاکٹر خالد سہیل
چند سال پیشتر جب میں اپنی کتاب تشدد اور امن کے پیمبر کے لیے بیسویں صدی کے بارہ سیاسی رہنمائوں کی سوانح عمریوں کا مطالعہ کر رہا تھا جن میں موہن داس گاندھی اور نیلسن منڈیلا بھی شامل تھے اور مارٹن لوتھر کنگ اور ہو چی منہ بھیتو ان بارہ رہنمائوں میں مجھے سب سے زیادہ چے گویرا کی شخصیت نے مسحور کیا تھا۔ اس کی کہانی پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا تھا کہ وہ مجموعہِ اضداد تھا۔ وہ جس شدت سے محبت کرنے کے اسی شدت سے نفرت کرنے کے بھی قابل تھا۔ وہ جس بے رحمی سے قتل کرتا تھا اسی خلوص سے جانیں بھی بچاتا تھا۔ وہ بیک وقت قاتل بھی تھا اور مسیحا بھی۔
ان بارہ سیاسی رہنمائوں اور اور انقلابیوں میں چے گویرا وہ واحد رہنما تھا جو اپنے آبائی وطن کے علاوہ کسی اور ملک کی سیاسی جدوجہد میں شریک ہوا تھا۔ چے گویرا کا تعلق ارجنٹینیاARGENTINA سے تھا لیکن وہ کیوبا CUBAکی آزادی کی تحریک میں شامل ہوا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ صرف ارجنٹینیا یا کیوبا ہی نہیں بلکہ پورے لاطینی امریکہ کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانا اور خود مختاری کی راہ پر ڈالنا چاہتا تھا۔ چے گویرا سوشلسٹ انقلاب سے شدت سے محبت اور سرمایادارانہ استعماریت سے شدت سے نفرت کرتا تھا۔
جب میکسیکو میں پہلی دفعہ چے گویراCHE GUEVARA کی ملاقات فیڈ ل کاسٹروFIDEL CASTRO سے ہوئی تو کاسٹرو نے اسے ایک ڈاکٹر کے طور پر اپنی گوریلا فوج میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی لیکن آہستہ آہستہ وہ ڈاکٹر ایک گوریلا فوجی اور کاسٹرو کا دستِ راست بن گیا۔ چے گویرا کی مدد کے بغیر کیوبا کا انقلاب شاید کامیاب نہ ہوتا۔
کامیابی حاصل کرنے کے بعد جب کاسٹرو نے کیوبا کی قیادت سنبھالی تو اس نے چے گویرا کو اپنا وزیر چنا۔ چے گویرا نے چند برسوں تک اس ذمہ داری کو سنبھالا لیکن جب اس نے دیکھا کہ انقلاب اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا ہے تو اس نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ کیوبا کے انقلاب کو لاطینی امریکہ کے دیگر ملکوں میں لے جانا چاہتا تھا۔
جب چے گویرا کیوبا سے روپوش ہوا تو امریکہ کی سی آئی اے نے اس کا پیچھا شروع کر دیا کیونکہ اس وقت تک کاسٹرو اور چے گویرا امریکہ کے دو بڑے دشمن بن چکے تھے اور کاسٹرو پر کئی قاتلانہ حملے ہو چکے تھے۔ چند سالوں کی جاسوسی کے بعد امریکہ کی خفیہ پولیس نے 18 اکتوبر 1968 کو چے گویرا اور اس کے گوریلا ساتھیوں کو پکڑ لیا اور اگلے دن ان سب کو قتل کر دیا۔ امریکی حکومت چے گویرا کی مقبولیت سے اتنا خوفزدہ تھی کہ اس نے صرف اس کے دو ہاتھ ساری دنیا کو دکھائے لیکن اس کی لاش کو اس کے گوریلا ساتھیوں کی لاشوں کے ساتھ کسی انجان جگہ پر پراسرار طریقے سے دفن کر دیا۔ ایک طویل عرصے تک چے گویرا کے چاہنے والوں کو خبر نہ ہوئی کہ ان کا ہیرو کہاں دفن ہے۔
چے گویرا کے پراسرار قتل کے تیس سال بعد 1997ء میں ایک جرنلسٹ نے بولیویا کے ایک جرنیل کے ساتھ شراب پیتے ہوئے پوچھا کہ اسے چے گویرا کی قبر کی تلاش ہے۔ جرنیل نے کہا کہ وہ اس قبر کو جانتا ہے کیونکہ اسی نے چے گویرا کو اس کے ساتھیوں کے ساتھ اس قبر میں اتارا تھا۔ اس جرنلسٹ نے راز جاننے کے بعد اگلے دن وہ راز اخبار میں چھپوا دیا۔ خبر چھپنے کے بعد اس جرنیل کو حکومت کا راز فاش کرنے کی سزا ملی لیکن چے گویرا کے پرستاروں کو موقع ملا کہ وہ اپنے ہیرو کی لاش کو بولیویا سے کیوبا لا سکیں اور عزت سے دفنا سکیں۔
چے گویرا کی سوانح عمری پڑھنے کے بعد میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں اس جگہ جائوں جہاں بیسویں صدی کے اس انقلابی کو دفن کیا گیا ہے۔ چنانچہ میں نے ٹکٹ خریدا اور کیوبا پہنچ گیا۔ معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ چے گویرا سینٹا کلیرا SANTA CLARA کے شہر میں دفن ہے جو میرے ہوٹل سے سو میل دور تھا۔ بدقسمتی سے میرے ہوٹل سے کوئی بس وہاں نہ جاتی تھی، چنانچہ میں نے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے بات کی جو مجھے تین سو ڈالر لے کر سینٹا کلیرا SANTA CLARAلے جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ جس دن ہمین سینٹا کلیرا جانا تھا اسی دن کیونا میں ہریکین چارلی HURRICANE CHARLIE نے طوفان برپا کر دیا۔اس طوفان نے چے گویرا کی شوریدہ سر شخصیت کی یاد تازہ کر دی۔
اگلے دن میں نے چے گویرا کی قبر پر حاضری دی۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کاسٹرو اور کیوبا کی حکومت نے وہاں چے گویرا کا ایک بیس فٹ اونچا مجسمہ ایستادہ کر رکھا تھا۔ اس میں چے گریرا ایک بندوق لیے کھڑا ہے۔اس گوریلا فوجی کے مجسمے میں سٹیچو آف لبرٹی STATUE OF LIBERTY کا سا حسن اور وقار ہے۔ اس مجسمے کے ساتھ ایک پتھر کی سل بھی ایستادہ ہے جس پر ہسپانوی زبان میں وہ خط رقم ہے جو چے گویرا نے کیوبا سے جانے سے پہلے کاسٹرو کو لکھا تھا۔
جہاں چے گویرا اور اس کے ساتھیوں کی لاشیں دفن ہیں وہاں ایک ہلکی آنچ کا شعلہ جل رہا ہے۔ یہ شعلہ ان قربانیوں کی یاد تازہ کرتا ہے جو ان مجاہدوں نے آزادی کی راہ میں پیش کی تھیں۔
اس مجسمے سے چند میل دور ایک چے گویرا کا عجائب گھر بھی ہے جو ریل گاڑی کے ڈبوں میں بنایا گیا ہے۔ یہ اس گاڑی کے ڈبے ہیں جن پر انقلاب کے آخری دن چے گویرا نے حملہ کیا تھا اور بتستا BATISTA کی فوج کو شکستِ فاش دی تھی۔ اس حملے کے بعد بتستا اور امریکہ کا زور ٹوٹ گیا تھا اور اگلے دن چے گویرا اور کاسٹرو نے کیوبا کی حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔ بتستا کی فوج پر چے گویرا کے آخری حملے کی یاد میں وہ گاڑی کے ڈبے محفوظ کر لیے گئے ہیں اور ان میں چے گویرا کا بستر اس کے کپڑے اس کی بندوقیں اس کے بزوکازBAZUKAS اور ہیموک HAMMOCK نشانی کے طور پر رکھ دیے گئے ہیں تا کہ اس کے چاہنے والوں کو ایک گوریلا فوجی کی طرزِ زندگی کا اندازہ ہو سکے۔
جب میں چے گویرا کے مجسمے اور عجائب گھر کو دیکھ کر واپس لوٹ رہا تھا تو مجھے اس کی وہ تقریر یاد آرہی تھی۔ جو اس نے 1965ء میں ٹرائی کونٹیننٹل کانفرنس TRICONTINENTAL CONFERENCE کے لیے زیرِ زمینUNDERGROUND سے بھیجی تھی، اس تقریر میں اس نے ایشیا افریقہ اور لاطینی امریکہ کے عوام سے درخواست کی تھی کہ وہ جمہوریت اور سوشلزم سے ٹوٹ کر محبت اور سرمایہ دارانہ استعماریت سے شدت سے نفرت کریں تا کہ وہ اپنے اپنے ملک میں ایک انقلاب لا سکیں اور اپنے سماجی معاشی اور سیاسی مسائل کا حل تلاش کر سکیں۔
جہاں چے گویرا کے دل میں سرمایہ دارانہ نظام کے لیے شدید نفرت تھی وہیں اس کے دل میں اپنے دوستوںبچوں اور انقلاب کے پرستاروں کے لیے بے پناہ محبت تھی اور اس محبت کا اظہار ان دو خطوط سے ہوتا ہے جو اس نے کیوبا کو خیر باد کہنے سے پہلے اپنے کامریڈ دوست کاسٹرو اور اپنے بچوں کو لکھے تھے۔ ان خطوط کا اردو ترجمہ حاضرِ خدمت ہے۔
* *
چے گویرا کا کاسٹرو کے نام آخری خط۔۔۔ الوداع۔۔۔۔فیڈل۔۔۔۔ الوداع
فیڈل! اس وقت مجھے تمہارے ساتھ اپنی دوستی کے بارے میں بہت سی چیزیں یاد آ رہی ہیں۔ مجھے وہ دن یاد آ رہا ہے جب ماریا انٹونیا MARIA ANTONIA کے گھر میں ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھیجب تم نے مجھے انقلاب میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی اور انقلاب کی تیاری میں ہمیں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا مجھے وہ سب باتیں یاد آ رہی ہیں۔
ایک وہ دور تھا جب یہ سوال پوچھا جاتا تھا کہ موت آنے سے کس کو مطلع کیا جائے کیونکہ ان دنوں انقلاب کی راہ میں موت آنے کا ہم سب کو خطرہ تھا۔ بعد میں ہمیں احساس ہوا کہ انقلاب لانے والے یا تو کامیاب ہو کر فتح و کامرانی سے ہمکنار ہوتے ہیں یا موت کو گلے لگا لیتے ہیں (اگر وہ انقلاب ایک سچا انقلاب ہو) اور ہمارے کئی دوست موت سے بغلگیر ہو گئے۔
اب جبکہ ہم بلوغت کے کئی زینے طے کر چکے ہیں حالات اتنے ڈرامائی نہیں رہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ میں نے ان تمام فرائض کو حتی المقدور خوش اسلوبی سے نبھایا جو کیوبا اور اس کے انقلاب نے مجھ پر عاید کیے تھے۔ اب میں تمہیں اپنے کامریڈ ساتھیوں اور کیوبا کے عوام کو الوداع کہہ رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ میں اور کیوبا کے عوام انقلاب کی راہ میں ہمسفر تھے۔
آج میں پارٹی کی رہنمائی وزارت کے عہدے فوج میں میجر کے رتبے اور کیوبا کی شہریت سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔ اب قانونی طور پر کیوبا سے میرا کوئی بندھن نہیں رہا۔ اب صرف وہی بندھن رہیں گے جو کچھ اور نوعیت کے ہیں اور وہ اٹوٹ ہیں۔
جب میں ماضی کی طرف نگاہ دوڑاتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں نے انقلاب کی کامیابی اور کامرانی کے لیے بہت محنت اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا تھا۔ میری صرف یہ غلطی تھی کہ میں نے شروع میں تم پر پورا بھروسہ نہ کیا تھا۔ مجھے تمہاری انقلابی اور سپہ سالارانہ صلاحیتوں کو سمجھنے میں کچھ دیر لگی تھی۔ میں نے تمہارے اور کیوبا کے عوام کے ساتھ کچھ یادگار دن گزارے ہیں۔ مجھے انقلاب کی جدوجہد میں شامل ہونے پر فخر ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ کریبینCARIBBEAN بحران کے دوران ہمیں کچھ سوگوار دن بھی دیکھنے پڑے تھے۔ان مشکل حالات میں بھی تم نے عوام کی خوش اسلوبی سے رہنمائی کی اور میں نے بڑے خلوص سے تمہاری پیروی کی اور تمہارے پیغام اور تمہارے اصولوں کو دل سے لگایا۔
اب میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے دوسرے ممالک کو میری خدمات کی ضرورت ہے۔ تم اس سفر میں میرا ساتھ نہیں دے سکتے کیونکہ تمہارے کندھوں پر تمہاری قوم کے مستقبل کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔ میں اب ان سے آزاد ہوں اس لیے الوداع کہہ سکتا ہوں۔
میں اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں یہ قدم ملے جلے جذبات سے اٹھا رہا ہوں۔ میرے دل میں خوشی کے جذبات بھی ہیں اور دکھ کے بھی۔ میں اپنے پیچھے اپنے خواب اپنے آدرش اور اپنے عزیز چھوڑے جا رہا ہوں۔ میں اس دھرتی کے ان لوگوں سے جدا ہو رہا ہوں جنہوں نے مجھے اپنا بیٹا بنایا تھا۔ مجھے اس کا بہت دکھ ہے۔ تم نے مجھے جس جنگ کے آداب سکھائے ہیں میں اس جنگ کو نئے محازوں پر لے جا رہا ہوں۔ میں وہ انقلابی روح دوسری قوموں کی عوام میں پھونکنا چاہتا ہوں۔ میں استعماریت کے خلاف جنگ کو اپنا مقدس ترین فرض سمجتا ہوں۔ جب میں اس جدوجہد میں شریک ہوتا ہوں تو میرے زخموں پر مرہم لگ جاتا ہے۔ میں اس حقیقت کا ایک دفعہ پھر اقرار کرنا چاہتا ہوں کہ اب کیوبا میرے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہے۔ اگر اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت میں کسی اور آسمان کے نیچے ہوا تو میرے دل میں کیوبا کی دھرتی اور اس کے عوام کے ساتھ چاہت اور لگائو کے جذبات ہوں گے۔
میں تمہارا ممنون ہوں کیونکہ میں نے تم سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میں آخری دم تک تمہارا وفادار رہوں گا۔ میں کیوبا کی خارجہ پالیسی سے ہمیشہ متفق رہا ہوں۔ میں جہاں بھی جائوں گا اپنے آپ کو کیوبا کا انقلابی سمجھوں گا۔ مجھے اس بات کا افسوس نہیں کہ میں اپنی بیوی اور بچوں کے لیے کوئی مالی اور مادی چیز نہیں چھوڑ کر جا رہا۔ میں اسی حال میں خوش ہوں۔ میں ان کے لیے تم سے کچھ بھی نہیں مانگتا۔ مجھے پوری امید ہے کہ کیوبا کی حکومت ان کا خیال رکھے گی اور ان کے کھانے پینے رہائش اور تعلیم کا انتظام کرے گی۔
میں تم سے اور کیوبا کے لوگوں سے بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن وہ سب کچھ کہنا ضروری نہیں ہے۔ میرے الفاظ میرے جذبات کی مکمل ترجمانی نہیں کر سکتے اور میں الفاظ کی بازیگری کے بھی حق میں نہیں ہوں۔
ہم ہمیشہ انقلاب کی طرف قدم بڑھاتے رہیں گے۔ میں اپنے انقلابی جوش و خروش کے ساتھ تمہیں گلے لگا تا ہوں۔ چے
* *
چے گویرا کا اپنے بچوں کے نام خط
میرے عزیز بچو !
تمہارا باپ ساری عمر اپنے خوابوں اور آدرشوں کے ساتھ وفادار رہا ہے۔ میری دعا ہے کہ تم بھی انقلابی بننا۔ دنیا میں جہاں بھی ناانصافی نظر آئے اس کے خلاف احتجاج کرنا۔ ظلم کے خلاف احتجاج کرنا ہی ایک انقلابی کی بہترین خصوصیت ہے۔ تمہارا ابو۔۔۔چے
* *
چے گویرا کی سوانح کا مطالعہ کرنا اور کیوبا جا کر اس کے مجسمے کو دیکھنا میری زندگی کا ایک یادگار واقعہ ہے جسے میں ساری عمر فراموش نہ کرسکوں گا۔ چے گویرا نے انصاف آزادی اور انقلاب کا جو خواب دیکھا تھا اسے اب لاطینی امریکہ کے سیاسی رہنما شرمندہِ تعبیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ان پر امریکہ کی استعماریت کے خفیہ منصوبے واضح ہوتے جا رہے ہیں وہ منصوبے جن کی نشاندہی آج سے چالیس سال پیشتر چے گویرا نے کی تھی۔ امریکی حکومت نے چے گویرا کو پراسرار طریقے سے دفن کرنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ اس کی یاد اور آدرش کو نہ مٹا سکے جو ساری دنیا کے انقلابیوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ چے گویرا اور ہوچی منہ بیسویں صدی کے ان رہنمائوں میں سے ہیں جنہوں نے ظلم کے خلاف جنگ لڑنے میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ ان کی زندگیاں بہت سے انقلابیوں کے لیے آج بھی مشعلِ راہ ہیں۔ وہ لوگ انقلاب اور عشق کے اس راز سے واقف تھے جس کے بارے میں فیض احمد فیض فرماتے ہیں
گر بازی عشق کی بازی ہے سب کچھ ہی لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
دی بلوچستان پوسٹ