ابوبکر البغدادی کے ’چوری شدہ انڈرویئر‘ سے ان کے ڈی این اے کی تصدیق ہوئی



کرد جنگجوؤں پر مشتمل سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) نے کہا ہے کہ ان کے ایجنٹوں نے ابوبکر البغدادی کا انڈرویئر چوری کر لیا تھا جس سے حاصل کردہ ڈی این اے سے ابوبکر البغدادی کی موت کی تصدیق کی گئی۔
ایس ڈی ایف کے کمانڈر پولات چن نے دعویٰ کیا کہ ان کے ذرائع نے شدت پسند تنظیم کے رہنما ابوبکر البغدادی کو ڈھونڈنے میں اہم کردار کیا تھا۔
امریکی سپیشل فورسز نے جب آپریشن کیا تو البغدادی نے اپنے آپ کو مار لیا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے البغدادی کی ہلاکت میں کردوں کے کردرا کو گھٹا کر پیش کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کا اعلان کرتے ہوئے امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ کردوں کی معلومات مدد گار تھیں لیکن ان کا آپریشن میں کوئی کردار نہیں تھا۔
اس سے قبل امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا تھا کہ شدت پسند گروہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے مفرور رہنما ابوبکر البغدادی کی گرفتاری کے لیے شام میں کیے گئے آپریشن کے دوران دو افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔
جوائنٹ چیف آف سٹاف چیئرمین جنرل مارک میلی کا کہنا ہے کہ زیر حراست افراد کو ایک 'محفوظ مقام' پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ ابوبکر البغدادی نے ایک امریکی آپریشن کے دوران اپنے آپ کو دھماکہ خیز مواد سے ہلاک کر لیا تھا۔
جنرل میلی نے میڈیا کو بتایا کہ 'ابوبکر البغدادی کی باقیات کو ایک محفوظ مقام پر لایا گیا تاکہ ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ان کی شناخت کو یقینی بنایا جا سکے۔ شناخت کے بعد ان کی باقیات کو ٹھکانے لگا دیا گیا ہے۔'
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فی الحال ان کی موت کی فوٹیج کو شیئر کرنے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے۔ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اس امریکی آپریشن کی چنندہ تصاویر جاری کی جائیں گی۔
آپریشن کے دوران پکڑے جانے والے دو افراد کے حوالے سے مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئیں ہیں۔


البغدادیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionسپیشل فورسز کے آپریشن کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ دیگر عہدیداران کے ہمراہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے

پینٹاگون کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کو مکمل کرنے والے اہلکاروں میں سے کوئی اہلکار ہلاک نہیں ہوا تاہم اس آپریشن میں حصہ لینے والے کتوں میں سے ایک کتا شدید زخمی ہوا ہے۔
جنرل میلی کا کہنا تھا کہ کتے کا نام صیغہ راز میں رکھا گیا ہے۔
جب جنرل میلی سے صدر ٹرمپ کے اس بیان کے متعلق پوچھا گیا جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ البغدادی ہلاک ہونے سے قبل روئے تھے تو ان کا کہنا تھا کہ انھیں اس کے متعلق نہیں پتا کہ یہ معلومات کہاں سے آئی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'یہ بات شاید یونٹ کے ممبران سے براہ راست بات چیت میں سامنے آئی ہو گی۔'
علاوہ ازیں صدر ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک کتے کی تصویر شیئر کرتے لکھا ہے کہ اس نے ابوبکر البغدادی کو پکڑنے اور ہلاک کرنے کے آپریشن میں حصہ لیا تھا۔

ابوبکر البغدادی کی ہلاکت

اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ شدت پسند گروہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے مفرور رہنما ابوبکر البغدادی ایک آپریشن میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سپیشل فورسز کے جانب سے سنیچر کو رات گئے ایک آپریشن کے دوران البغدادی نے اپنے آپ کو خودکش جیکٹ کے دھماکے سے ہلاک کر لیا۔
البغدادی سنہ 2014 میں اس وقت نمایاں ہوئے تھے جب انھوں نے شام اور عراق کے علاقوں میں ’خلافت‘ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
دولتِ اسلامیہ نے کئی حملے اور جنگجوانہ کارروائیاں کی تھیں جن میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔
اس گروہ نے اپنے زیرِ انتظام علاقوں میں رہائش پذیر تقریباً 80 لاکھ افراد پر ایک سخت گیر حکومت قائم کر رکھی تھی اور یہ دنیا کے کئی شہروں میں ہونے والے حملوں میں ملوث رہی۔


البغدادیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionآپریشن کے بعد اس کمپاؤنڈ کی فضائی تصویر جہاں ابوبکر البغدادی موجود تھے

اتوار کی صبح ایک غیر معمولی بیان میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکی سپیشل فورسز نے 'رات کے وقت ایک بہادرانہ حملے میں' اپنا مشن زبردست انداز میں مکمل کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی امریکی فوجی اس آپریشن کے دوران ہلاک نہیں ہوا مگر البغدادی کے کئی ساتھی ہلاک ہوئے ہیں۔
اس سے پہلے صدر ٹرمپ نے ایک پراسرار ٹویٹ کی تھی جس میں لکھا تھا کہ ’ابھی کچھ بڑا ہوا ہے۔‘
ٹرمپ نے یہ ٹویٹ امریکی وقت کے مطابق رات ساڑھے دس بجے کی تھی۔
سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) جس کی قیادت کردوں کی ہاتھ میں ہے، اس کے کمانڈر مظلوم عبدی نے اتوار کو کہا کہ امریکہ کے ساتھ 'انٹیلیجنس شراکت داری' کے نتیجے میں 'ایک تاریخی اور کامیاب آپریشن' کیا گیا۔
شام میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے برطانوی ادارے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا تھا کہ شام کے صوبہ ادلب میں ایک گاؤں کے قریب ہیلی کاپٹر گن فائر میں نو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
ادارے کے مطابق وہاں ’دولتِ اسلامیہ سے منسلک دیگر گروہ‘ بھی موجود تھے۔
امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ نے شام کے صوبہ ادلب میں نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے سربراہ ابو بکر البغدادی کو نشانہ بنانے کے لیے آپریشن کی اجازت دی تھی۔

تجزیہ

فرینک گارڈنر، بی بی سی کے سیکیورٹی نامہ نگار
بغدادی (یہ ان کا حقیقی نام نہیں) عراق اور شام میں 2010 سے اہم جہادی رہنما رہے۔ اس سے پہلے وہ جنوبی عراق میں امریکہ کے زیرِ انتظام ایک کیمپ میں قید تھے جہاں انھوں نے مستقبل میں دولتِ اسلامیہ کے دیگر افراد کے ساتھ اتحاد بنائے۔
جب شام خانہ جنگی میں گھر گیا اور عراق کی حکومت نے اپنی سنی اکثریت کے خلاف تفریق شروع کی تو بغدادی نے القاعدہ کے بچے کھچے دھڑوں کو ایک عسکری قوت میں تبدیل کر لیا جس نے 2013 میں شام کے شہر رقہ اور اس کے اگلے سال عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کر لیا۔
ان کی ظالمانہ اور تباہ کن خود ساختہ 'خلافت' پانچ سال قائم رہی جس میں دنیا بھر سے جنگجوؤں نے شمولیت اختیار کی۔ مگر مارچ 2019 میں ان کے زیرِ قبضہ آخری علاقہ شام کا قصبہ باغوز بھی ان کے قبضے سے نکل گیا۔
تب سے دولتِ اسلامیہ نے اپنے دشمنوں کے خلاف 'جنگ' کا اعلان کر رکھا ہے۔

ابوبکر البغدادی کون ہیں؟

ابوبکر البغدادی دولت اسلامیہ کے مبینہ سربراہ تھے اور گذشتہ پانچ سالوں سے زیرزمین تھے۔
اپریل میں دولت اسلامیہ کے میڈیا ونگ الفرقان نے ایک ویڈیو جاری کی تھی اور اس نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے کہا تھا کہ بغدادی زندہ ہیں۔
فروری 2018 میں متعدد امریکی عہدیداروں نے بتایا تھا کہ بغدادی مئی سنہ 2017 کے ہوائی حملے میں زخمی ہو گئے تھے۔
دولتِ اسلامیہ کے رہنما کو دنیا کا مطلوب ترین شخص تصور کیا جاتا تھا۔
اکتوبر 2011 میں امریکہ نے انھیں باضابطہ طور پر 'دہشتگرد' قرار دیا اور انھیں گرفتار یا ہلاک کرنے میں مدد دینے والی معلومات پر ایک کروڑ ڈالر (اس وقت 58 لاکھ پاؤنڈ) کے انعام کا اعلان کیا۔
2017 میں یہ رقم بڑھا کر ڈھائی کروڑ ڈالر کر دی گئی تھی۔
بغدادی ایک انتہائی منظم اور بے رحم جنگی حکمتِ عملی ساز تصور کیے جاتے تھے۔


ابوبکر البغدادی، دولتِ اسلامیہ، شام، عراق
Image captionابوبکر البغدادی عراق کے شہر سامرہ میں پیدا ہوئے اور امریکی میڈیا کے مطابق انھیں شام کے صوبہ ادلب میں نشانہ بنایا گیا ہے

وہ 1971 میں بغداد کے شمالی علاقے سامرہ میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا حقیقی نام ابراہیم العود البدری تھا۔
اطلاعات کے مطابق جب 2003 میں امریکہ کی زیرِ قیادت عراق پر حملہ کیا گیا تو وہ اسی شہر کی ایک مسجد میں امام تھے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ سابق عراقی رہنما صدام حسین کے دورِ حکومت میں ہی جنگجو تھے۔ کچھ دیگر افراد کے مطابق وہ بوکا میں گزارے گئے وقت کے دوران انتہاپسند خیالات پر مائل ہوئے۔
جنوبی عراق میں قائم اس امریکی کیمپ میں کئی القاعدہ کمانڈروں کو قید میں رکھا جاتا تھا۔
سنہ 2010 میں وہ دولتِ اسلامہ میں ضم ہوجانے والے گروہوں میں سے ایک القاعدہ کے عراق میں رہنما کے طور پر سامنے آئے اور شام میں النصرہ فرنٹ کے ساتھ ضم کی کوشش کے دوران انھوں نے شہرت حاصل کی۔
اس سال کے اوائل میں دولتِ اسلامیہ نے ایک ویڈیو جاری کی جو اس گروہ کے مطابق بغدادی کے تھی۔ یہ 2014 میں موصل میں ان کے اُس خطاب کے بعد سامنے آنے والی پہلی ویڈیو تھی جس میں انھوں نے شام اور عراق کے حصوں میں 'خلافت' کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔