ماں، باپ اور بچے: ایک مثالی باپ کیسا ہوتا ہے

سوفی ہرڈچ - ناول نگار
وسطی افریقہ کے اکا نامی قبائلی مرد اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں جب ان کی عورتیں شکار کے لیے جنگلوں میں گئی ہوتی ہیں۔ قبائلی مرد ان بچوں کو پیار سے رکھتے ہیں، ان کو صاف رکھتے ہیں اور انھیں کھیل میں مشغول رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ کسی بھی دوسرے معاشرے کے مردوں کی نسبت زیادہ وقت بسر کرتے ہیں۔ ان کے اپنے بچوں سے اتنے لگاؤ کی وجہ سے انٹرنیٹ پر تبصرے کرنے والوں نے انھیں ’دنیا کے بہترین باپ‘ کا لقب دیا ہے۔
اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تاریخ کے اس سفر میں ایک اچھے باپ کے تصور میں کتنی تبدیلی آچکی ہے۔
آج کئی باپ حساس ہونے، خیال رکھنے اور اور بچے کے ہر معاملے میں دلچسپی لینے کی وجہ سے پسند کیے جاتے ہیں۔ اس موضوع پر تحقیق کی بڑھتی ہوئی ضخامت کی وجہ سے انسانی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے کہ وہ کس طرح اپنے بچے کی زندگی کو ایک جہت دے سکتے ہیں اور کس طرح روایتی سوچ، بود و پاش کے تصورات اور جنسی ذمہ داریوں کے خیالات میں تبدیلی لا رہے ہیں۔
یہ بہت ہی منفرد پیش رفت ہے کیونکہ ستر کی دہائی تک بچے کی نشو نما میں باپ کے کردار پر تحقیق نہیں ہوتی تھی۔ باپ کے کردار کو زیادہ تر گھر کا کمانے والا لیا جاتا تھا جو ماں کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہوتا تھا، اور جو بچوں کے لیے جذبات کا ایک مضبوط سہارا بنتا تھا۔
یونیورسٹی آف کیمبرج کے ایک ماہر نفسیات پروفیسر مائیکل لیمپ جو سنہ ستر کے دہائی سے بچے کی پرورش کے بارے میں باپ کے کردار کا مطالعہ کرتے آئے ہیں، کہتے ہیں کہ ’اس پر بہت زیادہ زور تھا کہ ماں سے تعلق بہت اہم ہے، جبکہ معاشرے میں دوسرے افراد سے تعلقات کے بارے میں زیادہ بات نہیں ہوتی تھی۔‘
’ان میں سب سے زیادہ نظر آنے والا باپ اور بچے کا تعلق تھا، ایک تعلق جو بچے کے بڑے ہونے کی صورت میں اہم بنتا تھا، لیکن اس تعلق کو ہمیشہ ماں کے تعلق سے کم اہم سمجھا جاتا تھا۔
تاہم جیسا کہ یونیورسٹی آف ایمسٹرڈم کی میرین بیکرمینز-کریننبرگ جو کہ نئے باپ بننے والوں اور ان کے خانگی تعلقات کا مطالعہ کرتی ہیں، کہتی ہیں نصف کے قریب والدین میں باپ ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی نناوے فیصد تحقیق ماں کے کردار پر مرکوز ہوتی ہے۔‘
اب نئی تحقیق یہ بتا رہی ہیں کہ ایک بچے کی معاشرتی دنیا پہلے کی سوچ کی نسبت زیادہ پھیلی ہوئی ہے، زیادہ پیچیدہ ہے۔
صرف باپ ہی توجہ کا مرکز نہیں رہا ہے۔ نانا، دادا، ہم جنس والدین، اکیلی ماں یا اکیلا باپ نے بھی محققین کو بچے کی نشو نما کو سمجھنے میں مدد دی ہے، اور یہ کہ صرف ایک شخص کے دیکھ بھال کرنے تک محدود نہیں ہے۔
پروفیسر مائیکل لیمب کہتے ہیں کہ ’گزشتہ 45 برسوں میرے استدلال کا ایک اہم جزو یہ رہا ہے کہ اصل میں ایک نہیں، بلکہ متعدد عوامل اہم رہے ہیں۔ ہم ان عوامل کی اہمیت کے فرق کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ ہمیں تو یہ بھی تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک بچے کی نشو نما میں پورے ایک گاؤں کا دخل ہوتا ہے جس میں کئی طرح کے رشتے اور ان کی نوعیت ہوتی ہے۔‘
حال ہی میں ہونے والی کئی مختلف رپورٹوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ والدین کی ذمہ داریوں میں کتنا تنوّع ہو سکتا ہے۔ اسرائیل کی بار-الان یونیورسٹی کی پروفیسر رُوتا فیلڈمین نے یہ دریافت کیا ہے کہ ماؤں کی طرح باپ کے جسم کے ہارمونز میں بھی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں جب وہ اپنے بچے کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کے رشتے اور تعلق کی گرمی بڑھ رہی ہوتی ہے۔ جب صرف تنہا باپ ہی بچے کی نگہداشت کرہا ہوتا ہے تو اس کا دماغ اپنے آپ کو اُس حالت کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔
اور جذباتی وابستگی بھی اہم ہوتی ہے۔ جو بچے باپ سے دور رہنے والے بچوں کی نسبت باپ سے جذباتی طور پر لگاؤ رکھتے ہیں ان کی کم سنی سے ہی ذہنی نشو نما تیز ہوتی ہے اور ان کے رویے میں بعد کے دور میں مسائل پیدا ہونے کے کم امکانات ہوتے ہیں۔ بڑی عمر کے بچوں کو بھی باپ کی قربت سے فائدہ پہنچتا ہے۔ وہ بچے جن کے باپ یا باپ کی جگہ پر باپ جیسے افراد جذباتی طور پر مدد دیتے ہیں وہ اپنی زندگی سے اتنے ہی زیادہ مطمئن ہوتے ہیں اور اپنے اساتذہ اور دوسرے بچوں سے بھی اچھے تعلقات استوار کر سکتے ہیں۔
پروفیسر لیمب کا کہنا ہے کہ باپ کے بچے کے ساتھ مضبوط جذباتی تعلق بننے کے عوامل وہی ہیں جو کہ ایک ماں کے لیے ہوتے ہیں۔
پرانی تحقیق میں یہ کہا جاتا تھا کہ ماں اور باپ مختلف انداز میں بچے پر اثر انداز ہوتے ہیں، ماں کا رشتہ نازک نگہداشت کی وجہ سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے جبکہ باپ کا رشتہ روایتی کھیل کود کی وجہ سے بنتا ہے۔ لیکن پروفیسر لیمب کہتے ہیں اس رشتے میں فرق کا جنس سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ کہ بچے کی نگہداشت میں کون کتنا وقت دیتا ہے۔
ایک ہی صنف سے تعلق رکھنے والے والدین اور گھر پر رہنے والے باپ کے بارے میں مطالعے ظاہر کرتے ہیں کہ کوئی بھی صنف ہو اصل میں جو بات اہم ہوتی ہے وہ یہ کہ ان میں کون ہے جو دن میں بچوں کے ساتھ وقت صرف کرتا ہے، کون بچوں کے ساتھ کھیلتا ہے جیسا کہ بچے کو گود میں اٹھانا اور ان کو ہوا میں لہرانا وغیرہ۔ والدین میں سے جو بھی بچے کے ساتھ زیادہ وقت گزارے گا وہ ان پر اتنا ہی اثر انداز ہوگا اور بچے اُس سے اتنا ہی خوش رہیں گے۔
مرد اور عورت کے جوڑوں میں جو بھی دن میں بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا ہے وہ مختلف سماجی اور اقتصادی عوامل کی وجہ سے اب بھی ماں ہے۔
ان میں سے کسی ایک کو چھٹی لینا پڑتی ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں سوائے امریکہ کے، سرکاری تنخواہ کے ساتھ زچہ کہ لیے چھٹی ہوتی ہے لیکن زچہ کے شوہر کے لیے یعنی نومولود بچے کے باپ کے لیے زچہ کی نسبت، نصف دنوں کی چھٹی ہوتی ہے جو صرف دو مہینوں کے لیے ہوتی ہے۔ اس دوران مرد اور عورت کی تنخواہوں میں جو فرق برقرار ہے، اس کی وجہ سے ظاہر ہے کہ عورت کے لیے بہتر ہوتا ہے کہ وہ گھر پر رہے اور مرد کام کرتا رہے۔
یہی اس بات کا جواب ہے کہ صرف باپ کی بچے کی پیدائش کے موقع پر چھٹیوں سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہے۔ برطانیہ میں جہاں والدین کی بچے کی پیدائش کے موقعے پر مشترکہ چھٹیوں کی سہولت موجود ہے، صرف دو فیصد جوڑے ایسے ہیں جو چھٹیاں لیتے ہیں۔
حقیت میں اکا قبیلے کی تمام تعریف و توصیف کے باوجود، عورتیں ہی بچے کی نگہداشت کا زیادہ کام کرتی ہیں۔ وہ شکار بھی کرتی ہیں، بچوں کو کھانا بھی کھلاتی ہیں، انھیں جھولے میں سُلاتی بھی ہیں، لیکن تاحال کسی نے بھی انھیں دنیا کی بہترین ماں کا لقب نہیں دیا ہے۔
لیکن تحقیقیات سے پتہ چلا ہے کہ اگر باپ کو بچے کی پیدائش سے ہی بچے کی نگہداشت میں مصروف کیا جائے تو زیادہ فائدے ہو سکتے ہیں اور وہ بچوں کے ساتھ کھیلیں، سکون سے یا خوب اُدھم کود مچائیں۔
یونیورسٹی آف کیبرج سے پروفیسر رام چندنی جو بچوں کی تعلیم اور نشو نما میں کھیلوں کی اہمیت کا مطالعہ کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’کھیل کود بچپنے کی زبان ہے: اسی کھیل کود سے بچے دنیا کو سمجھتے ہیں، اسی طرح وہ دوسرے بچوں کے ساتھ رشتے استوار کرتے ہیں۔‘ وہ اور ان کی ٹیم نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ جو باپ اپنے بچوں کے ساتھ ان کی زندگی کے پہلے چار مہینوں میں کھیلتے ہیں وہ بچوں کی زندگی کی نشو نما کی سمت طے کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں ان محققین کا کہنا ہے کہ کم سنی میں باپ کے ساتھ بچوں کا میل جول پچھلی تحقیق کی سوچ کی نسبت کہیں زیادہ اہم ہے۔
وہ بچے جن کے باپ ان کے ساتھ کھیلتے کودتے رہے ان بچوں کے رویوں میں ان بچوں کی نسبت مشکلات کم نظر آئیں جو اپنے باپ سے دور رہے۔ ایسے بچوں کی دو برس کی عمر میں ذہانت بھی بہتر نظر آئی، مثال کے طور پر مختلف اجسام کو پہچاننے میں وہ زیادہ ذہین نظر آئے۔
تحقیق کے ان نتائج کا ماں کے بچے سے اپنی نوعیت کے رشتے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
پروفیسر رام چندنی کہتے ہیں کہ یہ تحقیق آپ کو بتاتی ہیں کہ اس سے پہلے کہ آپ کا بچہ گھٹنوں چلنا شروع کردے آپ ان کے ساتھ کھیلنا شروع کردیں: ’کچھ باپ اپنے بچوں کے ساتھ کھیلتے نہیں جب وہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں، کیونکہ انھیں صحیح طرح معلوم نہیں ہوتا ہے کہ انھیں کیا کرنا چاہئیے، یا انھیں یہ یقینی نہیں ہوتا کہ جو کھیل رہے ہیں وہ صحیح ہے یا نہیں۔‘ لیکن ایک زچہ بھی اسی طری سوچ سکتی ہے کہ وہ نومولد بچے کے ساتھ کیا کرے۔
تاہم رام چندنی کہتے ہیں کہ بچے کے ساتھ کھیلنا بہت ہی اچھا کام ہے، گود میں بچے کو بٹھانا، اس کی آنکھ سے آنکھ ملانا اور صرف یہ دیکھنا کہ وہ کس بات سے خوش ہوتا ہے۔
سب سے سے زیادہ اہم بات اپنا رابطہ بنانا ہے، کیونکہ یہ ربط بہتر ہو گا اگر آپ بار بار دہرائیں گے۔ یہ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے: ’یہ جسم میں قدرتی طور پر پیدا ہوتا۔ کچھ لوگوں میں یہ صلاحیت بہتر ہوتی ہی، لیکن کچھ لوگوں میں یہ ربط بنانے میں وقت لگتا ہے۔‘
اس طرح کئی لحاظ سے پہلے کی نسبت اب باپ بچے کی نگہداشت کے عمل میں زیادہ شامل ہے۔ باپوں کی تنظیمیں ہیں، بچوں کو مساج کرنے کے طریقے ہیں، اور آن لائین بے انتہا مقبول ویڈیوز ہیں۔
شاید آپ کو ایسے باپ بھی مل جائیں جو ماؤں سے زیادہ اچھی نگہداشت کرتے ہوں۔ لیکن بچوں کی پرورش کا زیادہ کام پھر بھی ماں ہی کے حصے میں آتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ایک عورت بچے کی پرورش سمیت کئی اور بلا معاوضہ کام ایک مرد کی نسبت دس گنا زیادہ کرتی ہے۔
ایک علم البشریات کی ماہر اور والد کے جدید رول پر ایک کتاب کی مصنف این میچن کہتی ہیں کہ ’ہم اس وقت باپ کے کردار کو سمجھنے کے بارے میں تاریخ کے دوراہے پر ہیں۔
میچن خطرہ محسوس کرتی ہیں کہ خاندانوں پر مالی دباؤ کی وجہ سے والدین کا روایتی کردار شاید واپس آ جائے۔
ممکن ہے مستقبل میں کسی دفتر میں کسی مرد چیف ایگزیکیٹیو کا بچے کو اٹھانا اسی طرح عام بات ہو گی جیسے اکا قبیلے کے مردوں کا بچوں کو اٹھانا سمجھا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ایک مثالی باپ کا کوئی ایک ماڈل نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل بات جذباتی طور پر بچوں کے قریب ہونا اور ان کی ضروریات کو سمجھنا ہے۔ ’مختلف لوگ یہ کام مختلف طریقے سے کرتے ہیں۔‘ ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کے لیے کیا مناسب ہے اور وہ کیسے اپنے بچوں کے ساتھ اچھا رشتہ قائم کر سکتا ہے۔